یک روزہ قومی ریسر چ اسکالرز سیمینار بعنوان ’اردو ادب میں ہندو دیو مالائی عناصر‘

رپورٹ: ڈاکٹر غلام نبی کمار

27؍ مارچ 2019 کو شعبۂ اردو دہلی یونی ورسٹی ،دہلی کے زیر اہتمام یک روزہ قومی ریسر چ اسکالرز سیمنار بعنوان ’’ اردو ادب میں ہندو دیو مالائی عناصر‘‘ کے موضوع پر منعقد کیا گیا۔ جس میں دہلی یونی ورسٹی ، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ ،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، الٰہ آباد یونی ورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی اور میرٹھ یونی ورسٹی کے ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔ یہ سیمنار دو سیشن پر مشتمل رہا۔ پہلے اجلاس میں چھ مقالہ نگاروں نے اپنے مقالات پڑھے۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر ابن کنول ، ڈاکٹر نجمہ رحمانی اور ڈاکٹر ابوبکر عباد، ڈاکٹر محمد کاظم نے کی۔

اسقبالیہ خطبہ میں صدر شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اساطیر ،دیومالائی عناصر پر سیر حاصل گفتگو کی اور اردو شاعری اور فکشن میں اساطیری عناصر کے استعمال پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر کلکتہ سے تشریف لائے پروفیسر دبیر احمد مہمان خصوصی رہے۔ انہوں نے افتتاحی اجلاس میں موضوع سے متعلق اہم گفتگو کی اور کہا کہ اس طرح کے سیمنار کے انعقاد کی بہت ضرورت ہے تاکہ ہم طلبا کو تربیت دے سکیں۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنے استقبالیہ میں دہلی اور بیرون ریاستوں سے تشریف لائے ریسرچ اسکالرز ،اساتذہ اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔

دیومالائی عناصر‘ ادب کو آفاقی اور فن کو دائمی بناتے ہیں: پروفیسرارتضیٰ کریم

انہوں نے کہا کہ ہندودیومالائی کی جڑیں مذہب سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر دیومالا کا ذکر کیا جائے تو اسلامی دیو مالائی عناصر، نصرانی دیو مالائی عناصر، بدھ اور جینی دیومالائی عناصر کی طرف بھی ہماری توجہ جاتی ہے۔ ارتضیٰ کریم نے کہاکہ دیومالائی عناصر سے جو مملو ادب ہے وہ پوری طرح قاری سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے ایک خاص بات یہ بھی کہی کہ دیو مالائی عناصر ادب کو آفاقی اور فن کو دائمی بناتے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر ارشاد نیازی نے سیمنار کے موضوع کے حوالے سے تعارفی کلمات پیش کیے۔ انہوں نے دیومالائی عناصر اور ادب کے ساتھ اس کے رشتے پرروشنی ڈالی۔ اس سیشن میں جن مقالہ نگاروں نے مقالات پڑھے ان میں ذبیح اﷲ ، محمد اسد(ڈی۔ یو)، راحت علی صدیقی( میرٹھ)، خوشتر زریں (جے۔ این۔ یو) شاہین فاطمہ(جامعہ ملیہ اسلامیہ) ، توصیف بریلوی( علی گڑھ)قابل ذکر ہیں۔

اساطیری ادب کی تفہیم کے لیے تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے: پروفیسر دبیر احمد

پروفیسر ابن کنول نے اپنی صدارتی تقریر میں مقالہ نگاروں کی محنت ، جستجو، حوصلے اور ہمت کی داد دیتے ہوئے کہا کہ اس موضوع پر خامہ فرسائی بہت محنت کی متقاضی ہے۔ اور طلبا نے اس موضوع پر لکھ کر اس کا واجب حق ادا کردیا ہے۔ ڈاکٹر ابوبکر نے ہر مقالہ نگار کے مقالے پر تبصرہ کیا۔ انہوں نے طلبا کو تلفظ کی طرف توجہ دینے کی تلقین کی۔ موصوف نے کہا شعر کو شعر کے انداز میں پڑھنا چاہیے،تقریر کا انداز تقریری ہونا چاہیے اور گفتگو کے لیے گفتگو کا لہجہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹرنجمہ رحمانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ اسٹیج پر آنا اور کسی موضوع پر بولنا ہمت کا کام ہے۔ انہوں نے مقالہ نویسی اور مقالہ خوانی کے فرق کو بتایا اور اسکالرز کو تاکید کی کہ وہ مقررہ وقت میں اپنے مقالے کو مکمل کرے۔ پروفیسر دبیر احمد نے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ ادب کی تفہیم کے لیے تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ انہوں نے کامیاب سیمنار کے انعقاد پر شعبۂ اردو کو مبارک باد پیش کی۔

دوسرے سیشن میں علیم اﷲ ،محمد رضوان خان، مہر فاطمہ، عرفان خان، حدیثہ افضل( ڈی،یو) ، تفسیر حسین( جے۔ این۔ یو) ، سلامہ ، اثنا سحر( الٰہ آباد)، صبا انجم، ( جامعہ ملیہ اسلامیہ)معراج احمد، تاجور بانونے اپنے مقالات پیش کیے۔ اس سیشن کی صدارت ڈاکٹر ارشاد نیازی ، ڈاکٹر متھن کمار، ڈاکٹر سرفراز جاوید اور ڈاکٹر دانش خان نے کی۔ اس سیمنار میں نظامت کے فرائض شاہد اقبال اور محمد رضا نے انجام دیئے۔ رسم تشکر اکرم حسین نے ادا کی۔

اس سیمنار میں ڈاکٹر احمد امتیاز، ڈاکٹر شاذیہ عمیر، ڈاکٹر ساجد حسین، ڈاکٹر شبیر عالم، ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر شاہ نواز، ڈاکٹر نیبو لال اور بڑی تعداد میں طلبا و طالبات کی شرکت کی۔

تبصرے بند ہیں۔