انسان اور زمین کی حکومت (قسط 106)

رستم علی خان

جیسا کہ پیچھے ہم نے حضرت عیسی علیہ السلام کا قصہ بیان کیا اور آپ نے اپنے بعد حاتم المرسلین سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبعوثت کی بشارت سنائی اور اپنی قوم کو آپ پر ایمان لانے کی اور اپنی شریعت ترک کر کے حضور اقدس صلعم کی شریعت پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی-

چونکہ حضور اقدس صلعم کی ولادت با سعادت اور مبعوثت حطہء عرب مکہ معظمہ میں ہوئی اس لیے بہتر سمجھا جائے گا کہ آگے بڑھنے سے پہلے عرب کے حدود و قیود، قوم و قبائل اور ان کے حالات و واقعات کے بارے میں محتصر جان لیا جائے-

عرب، عرب کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف آرائیں ہیں- اہل لغت کہتے ہیں کہ عرب اور اعراب کے معنی فصاحت اور زبان آوری کے ہیں- اور چونکہ اہل عرب اپنی زبان آوری کے سامنے تمام دنیا کو ہیچ سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے آپ کو "عرب” اور دنیا کی اور تمام قوموں کو "عجم” (ژولیدہ زبان) کہہ کر پکارا- بعض کی رائے ہے کہ عرب اصل میں عربہ تھا- اور قدیم اشعار میں بھی عربہ آیا ہے- عربہ کے معنی سامی زبانوں میں دشت اور صحرا کے ہیں- اور چونکہ عرب کا زیادہ تر حصہ دشت اور صحرا ہے اس لیے سارے ملک کو عرب کہنے لگے-

عرب کے حدود و اربعہ یہ ہیں- مغرب بحیرہ قلزم، مشرق، خلیج فارس اور بحر عمان، جنوب بحر ہند، اور شمال کی حدود مختلف فیہ ہیں، بعض مملکت حلب اور فرات تک اس کی حدود کو وسعت دیتے ہیں- سینا کا جزیرہ جس کا نام فتیہ ہے اکثر مصنفین عرب اور یورپ اس کو مصر میں شمار کرتے ہیں جبکہ جیالوجی کی رو سے وہ عرب سے متعلق ہے-

عرب کی پیمائش باقاعدہ اب تک نہیں ہوئی مگر اس قدر یقینی ہے کہ وہ جرمن اور فرانس سے چوگنا بڑا ہے- طول تقریبا پندرہ سو، عرض چھ سو میل اور مجموعی رقبہ تقریبا بارہ لاکھ مربع میل ہے- ملک کا بڑا حصہ زیادہ تر ریگستان ہے- پہاڑوں کا جال تمام ملک میں پھیلا ہوا ہے- سب سے بڑا طویل السلسلہ پہاڑ جبل السرات ہے- جو جنوب میں یمن سے شروع ہو کر شمال میں شام تک چلا گیا ہے- اس کی سب سے اونچی چوٹی آٹھ ہزار فٹ بلند ہے- بعض حصے زرخیز اور شاداب ہیں- چاندی اور سونے کی کانیں کثرت سے ہیں- علامہ ہمدانی نے "صفتہ الجزیرہ عرب” میں ایک ایک کان کا نشان دیا ہے- عرب جو تجارت کیا کرتے تھے مورخین نے لکھا ہے زیادہ تر ان کا مال تجارت چاندی ہوتی تھی-

عرب کے اقوام و قبائل؛ مورخین عرب نے اقوام و قبائل عرب کو تین حصوں میں منقسم کیا ہے- "عرب بائدہ”؛ یعنی عرب کے وہ قدیم ترین قبائل جو اسلام سے بہت پہلے فنا ہو چکے تھے- "عرب عاربہ”؛ بنو قحطان جو عرب بائدہ کے بعد عرب کے اصلی باشندے تھے اور جن کا اصل مسکن ملک یمن تھا- "عرب مستعربہ”؛ بنو اسماعیل یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد جو حجاز میں آباد تھی- ظہور اسلام کے وقر بنو قحطان اور بنو اسماعیل جن کو عدنانی قبائل بھی کہتے ہیں ملک کے اصل باشندے تھے- اور ان کے علاوہ خال خال یہودیوں کی آبادی تھی- اس بنا پر درحقیقت ملک عرب اس وقت تین عناصر سے مرکب تھا- ہر عنصر کا قوام بےشمار قبائل و فروغ سے تھا- جو یمن سے شام تک ہر قطعہ زمین میں پھیلے ہوئے تھے- ان کی آگے مختلف چھوٹی چھوٹی شاخیں تھیں- چونکہ اس سلسلہ میں اکثر ان کے نام آئیں گے اس بنا پر ان کا ایک مختصر خاکہ بیان کرنا ضروری سمجھیں گے۔

بنو قحطان؛ اس قبیلہ کی تین بڑی شاخیں ہیں- "قضاعہ” "کہلان” "ازد”، حمیر بھی اسی کی شاخ ہے جو یمن کے فرمانروا تھے لیکن واقعات کو ان سے کوئی تعلق نہیں- قبائل قضاعہ؛ عام علمائے انساب قضاعہ کو بنو قحطان میں شامل کرتے ہیں اور ہم بھی انہی کی پیروی کرتے ہیں ورنہ ازروئے تحقیق وہ بنو اسماعیل ہیں- بہرحال ان کی حسب ذیل شاخیں ہیں- بنو قضاعہ میں؛ "بنو کلب، بنو تنوخ، بنو جرم، بنو جہینہ، بنو نہد، بنو عذرہ، بنو اسلم، بلی، سلیح، صجعم، تغلب، نمر، اسد، تیم اللات اور کلب” شامل ہیں- بنو قحطان کی دوسری شاخ کہلان کی درج زیل شاخیں ہیں؛ "بجیلہ، خشعم، ہمدان، کندہ، مذحج، طے، لخم، جذام، عاطہ”- جبکہ ازد میں انصار شامل ہیں- اور ان کے علاوہ اس قبیلے کی مزید شاخیں یہ ہیں؛ "اوس، خزرج، خزاعہ، غسان، دوس-"

دوسری جانب مشہور عدنانی قبائل یا بنو اسماعیل جن کا آخری مقسم مضر ہے درج ذیل ہیں؛ قبائل مضمر اولا "بنو حندف” اور "بنو قیس” دو خاندانوں پر مشتمل ہے- آگے بنو خندف کی مزید شاخوں میں؛ "ہذیل، کنانہ، اسد ضبہ، مزینہ، رباب، تمیم اور ہون ہیں-” ان میں آگے ہر ایک کے متعدد فروع ہیں جن میں؛ کنانہ کے "قریش اور دول ہیں-” ہون کا "قارو” ہے- رباب کے "عدی، تیم، عسکل اور ثور” ہیں- جبکہ تمیم کے، "مقاعس، قربع، بہدلہ، یربوع، ریاح، ثعلبہ اور کلیب” ہیں- جبکہ اس قبیلے کے دوسرے خاندان بنو قیس کی درج زیل شاخیں؛ "عدوان، غطفان، اعصر، سلیم اور ہوازن” ہیں- ان میں بعض کے فروع یہ ہیں؛ غطفان کے؛ عبس، زیبان، فزارہ، مرہ” ہیں- اعصر کے؛ "غنی اور باہلہ” ہیں- جبکہ ہوازن کے؛ "سع، نصر، مہجسم، ثقیف، سلول اور بنو عامر” ہیں- (بنو عامر کی شاخیں؛ "بنو بلال”، "بنو نمیر” اور”بنو کعب” ہیں-)

جبکہ یہودی قبائل میں؛ "بنو قنیقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ” شامل ہیں-

بنو قحطان اور آل اسماعیل نے اسلام سے پہلے متعدد حکومتیں قائم کی تھیں جن کے جستہ جستہ واقعات کہیں ملتے ہیں- کتبوں اور دیگر مورخین کی کتابوں سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں پانچ متمدن سلطنتیں گزریں- (1) معینی؛ معین یمن میں ایک مقام کا نام ہے جو کسی زمانہ میں سلطنت کا پایہ تخت تھا- (2) سبائی؛ یعنی قوم سبا جن کا زکر حضرت سلیمان کے قصہ میں گذرا ہے- (3) حضر موتی؛ حضر موت یمن کا ایک مشہور مقام ہے- (4) قتبانی؛ قتبان، عدن میں ایک مقام ہے جو آجکل گمنام ہے- (5) نابتی؛ حضرت اسماعیل کے ایک بیٹے کا نام نابت تھا یہ سلسلہ انہی کی طرف منسوب ہے-

معینی سلطنت جنوبی عربستان میں تھی، اس کے صدر مقامات قرن اور یمن تھے- کتبوں سے تقریبا پچیس حکمرانوں کا پتا چلتا ہے- یورپی محققین میں اختلاف ہے کہ معینی اور سبائی حکومتیں ہم زبان تھیں یا متقدم و موخر- گلازر کا خیال ہے کہ معینی حکومت بہت متقدم ہے اور حضرت عیسی سے پندرہ سو برس قبل موجود تھی- لیکن مولر کا بیان ہے کہ کوئی معینی کتبہ آٹھ سو برس قبل مسیح کا نہیں ملتا- اس بنا پر سبائی اور معینی دونوں ہم عصر ہیں-

سبائی دور، جیسا کہ کتبوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی سے سات سو برس قبل ہے- اس سلطنت کا پایہ تخت مآرب تھا- اس زمانہ کے سنگی کتبے باکثرت موجود ہیں- حضرت عیسی سے ایک سو پندرہ برس قبل تک اس حکومت کا پتا چلتا ہے- اس دور کے بعد حمیر کا زمانہ ہے، حمیر نے مآرب پر قبضہ کر کے اس کا پایئہ تخت بنا لیا-

قریبا ایک سو پندرہ برس قبل مسیح میں حمیر نے سبائی حکومت پر قبضہ کر لیا- کتبوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حمیر میں چھبیس فرمانروا گزرے- حمیر کے بعض کتبوں میں سنہ و سال بھی کندہ ہے- ان کے عہد حکومت میں روی سلطنت نے عرب میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ کوشش پہلی بھی اور آخری بھی- اے لیس گالس جس نے حضرت عیسی سے اٹھارہ برس قبل عرب پر چڑھائی کی تھی بلکل ناکامیاب رہا، اس کے رہبر دغابازی سے اس کو صحرا میں لے گئے اور ریگستان میں پنہچ کر اس کا سارا لشکر تباہ ہو گیا-

حمیر نے یہودی مذہب قبول کر لیا تھا، اسی زمانہ کے قریب حبشیوں نے عرب کے جنوب میں حکومت قائم کرنی شروع کی، اور ایک زمانہ میں حمیریوں کو شکست دیکر اپنی مستقل حکومت قائم کر لی- اس عہد کا ایک کتبہ جو ہاتھ آیا ہے اس پر یہ الفاظ ہیں؛ "رحمان، مسیح اور روح القدس کی قدرت و فضل و رحمت سے اس یادگاری پتھر پر ابرہہ نے کتبہ لکھا جو کہ بادشاہ حبش اراحمیس زبی ان کا نائب الحکومت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔