شریعت میں پھر مداخلت

حفیظ نعمانی

سپریم کورٹ نے ایک وقت میں تین طلاق کے بعد تعدد ازدواج اور حلالہ کے شرعی مسئلہ میں پھر مداخلت کرنے کا مرکزی حکومت کو حکم دیا ہے۔ ثمینہ اور نفیسہ خاں جیسی دو چار عورتوں کی وجہ سے شریعت میں مداخلت اور تبدیلی سے کہیں زیادہ آسان یہ ہے کہ ایسی عورتوں کو یہ مشورہ دیا جائے کہ وہ شریعت کو کاٹ چھانٹ کر اپنے سائز کا بنوانے کے بجائے خود اپنے کو بدل لیں اور جیسے کیرالہ کی ڈاکٹر کملا داس نے 65 سال کی عمر میں اسلام میں خواتین کے حقوق سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور ثریا نام رکھ لیا تھا اسی طرح ثمینہ اور نفیسہ ہندو دھرم اپنالیں اور اپنا نام کملا اور وِملا رکھ لیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 20 کروڑ کے قریب ہے اس میں وہ بھی ہیں جن کے پاس اتنا روپیہ ہے کہ وہ پرانے بادشاہوں کی طرح یا مہاراجاؤں کی طرح خرچ کرسکتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو رات کو بھوکے سوتے ہیں اور صبح کو بھوکے ہی اٹھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایسے چند لوگ ہوں جن کے گھر میں چار بیویاں ہوں لیکن ایسے لاکھوں ہیں جن کے گھر میں ایک بیوی بھی اس لئے نہیں ہے کہ نہ ان کے رہنے کا ٹھکانہ ہے اور نہ کسی کو رکھنے کا۔ پروردگار نے مسلمان کو چار شادیاں کرنے کا حکم یا مشورہ نہیں دیا ہے بلکہ اگر ضرورت ہو تو اجازت دی ہے اور وہ بھی شرطوں کے ساتھ۔ اس کی تفصیل ہر دینی کتاب میں مل جائے گی۔

رہا حلالہ کا مسئلہ تو جہاں تک ہم نے پڑھا ہے وہ صرف اس بات کا جواب ہے کہ کیا جس عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دی ہے اس سے اسی شوہر کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے؟ عام خیال یہ تھا کہ اب قیامت تک اس سے رشتہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اسلام کے فقہائے کرام نے بتایا ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے تو اسے آزادی ہے کہ عدت کے بعد وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے۔ اور جس سے نکاح کیا ہے اگر اس کا انتقال ہوجائے یا وہ بھی طلاق دے دے تو پھر اس کا نکاح اس کے پہلے شوہر سے ہوسکتا ہے ۔ مقصد صرف یہ ہے کہ جس نے طلاق دی ہے اس سے اس عورت کا نکاح اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس نے دوسرا نکاح نہ کیا ہو۔ اسے عیاش مردوں نے اگر کھیل بنا لیا یا کسی نے پیشہ بنا لیا تو شریعت میں تبدیلی کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے ؟

جیسے کسی کی جان لینا اتنا بڑا جرم ہے کہ قاتل کو پھانسی یا عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ یہ اس قتل کی سزا ہے جو گولی سے یا دھاردار ہتھیار سے یا پیٹ پیٹ کر جان سے مارنے کی سزا ہے لیکن اگر آپ ٹرک سے کچل کر یا کار سے ٹکر مارکر کسی کی جان لے لیں تو اسے غیرارادی قتل کہا جاتا ہے اور اس کی سزا بہت معمولی ہے۔ جس وقت قتل کی سزا کا قانون بنا تھا تو ملک میں نہ اتنے ٹرک تھے اور نہ اتنی کاریں۔ اب چالاک لوگ یا ٹرک سے مروا دیتے ہیں یا اپنی کار سے ہی ٹکر مارکر ختم کردیتے ہیں اور غیرارادی قتل دفعہ 304 کے تحت دو چار سال کی سزا کاٹ کر آجاتے ہیں۔ تو پھر غیرارادی قتل کی سزا کو بھی اسی سزا کے برابر کردیا جائے۔

ہماری عمر اب اتنی ہوگئی ہے کہ ہمارے ساتھی دوچار ہی رہ گئے ہیں۔ اس پوری عمر میں یہ تو یاد ہے کہ بچپن میں بڑے زمینداروں کے دیوان خانوں میں ایک طوائف بھی ہوتی تھی لیکن زمینداری کے خاتمہ اور اولادوں کی اولادیں آجانے کے بعد وہ تمام دیوان خانے جو صرف مردوں کے تصرف میں رہتے تھے اس میں بھی دیواریں کھنچ گئیں اور وہ بھی باپردہ ہوگئے۔ اس کے بعد یاد نہیں کہ کسی کے بارے میں سنا ہو کہ اس کی تین بیویاں یا چار بیویاں ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کم از کم ہمارے علم میں نہیں۔ اور حلالہ کا ایک واقعہ بھی جاننے والوں میں نہیں اخباروں میں ضرور پڑھا ہے لیکن شرعی مسئلہ وہی ہے جو ہم نے لکھا ہے۔

جہاں تک متعہ اور نکاح مسیار کا تعلق ہے تو وہ عام مسلمانوں میں نہیں ہے۔ ایک مسلک میں اس کی اجازت ہے لیکن ہم قسم کھاکر کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم ہم نے نہیں سنا کہ فلاں کے گھر میں متاعی ہے؟ اور ہم اپنی جہالت کا اعتراف کرکے کہتے ہیں کہ نکاح مسیار ہم نے کہیں نہ پڑھا اور نہ سنا۔ ہم پھر اپنی بات کو دہراتے ہیں کہ حکومت یا عدالت ثمینہ اور نفیسہ کے سائز کا شریعت کو بنانے کے بجائے ان کو دوسرے مذہب پہناکر دیکھ لیں اور جو فٹ آئے وہاں انہیں بھیج دیں جو عورت قرآن میں دی گئی اجازت کو یہ کہے کہ ایک آدمی کئی کئی عورتوں کو رکھے یہ کہاں کی انسانیت ہے اس کے اسلام کے بارے میں مفتیانِ کرام سے معلوم کرنا پڑے گا کہ کیا اب بھی وہ مسلمان ہے؟

چار بیویوں تک کی اجازت اور حلالہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا بنایا ہوا مسئلہ نہیں ہے اس کے بارے میں عدالت اور حکومت کو فیصلہ کرتے وقت دستور کو بھی دیکھ لینا چاہئے۔ اور عدالت اور حکومت کو یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ تین طلاق بل کے خلاف جو مسلمان خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں کیا اس کے مقابلہ میں بل کی حمایت اور ثمینہ نفیسہ کے لئے مطالبہ کی کیا کوئی حیثیت رہ جاتی ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔