شمبھو لال کی جھانکی یا آئین کا جنازہ؟

محمد اسعد فلاحی

اس وقت ملک عزیز ہندوستان  بہ یک وقت کئی بہرانوں سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف جہاں ملک، عدلیہ، اور آئین  کی عزت و احترام کا مسئلہ ہے تو وہیں اقلیتوں کے بقا کا مسئلہ بھی پیچیدہ تر ہو تا چلا جا رہا ہے۔ اقلیتوں بالخصوص دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہے مظالم مستقل قریب میں کسی بڑے طوفان کی آمد کا سائرن بجا رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک ظلم کی  نئی کہانی انکوکھے پلاٹ کی ساتھ رچی جارہی ہے۔ پرانا  زخم ابھی مندمل نہیں ہوپاتا کہ جسم  کسی دوسرے گہرے گھاؤ سے کراہنے لگتا ہے۔  یقین نہیں ہوتا کہ یہ وہی ہندوستان ہے جس کے لیے لاکھوں کروڑوں ’بھارتیوں‘ نے مل کر آزادی کی جنگ لڑی تھی صرف اس لیے کہ ملک میں رہنے والے تمام لوگ چین اور سکون کے ساتھ رہیں گے اور ملک میں رہنے والا ہر شہری آزادی کی زندگی جیے گا۔

آزادی کی لڑائی لڑتے ہوئے ان بھارتیوں (ہندو، مسلم سکھ، عیسائی) نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب ہندوستان میں قاتلوں کے لیے جلوس نکالے جائیں گے۔ راجستھان کے جودھ پور میں جب رام نومی کے موقع پر ریلی نکالی جا رہی تھی، جس میں  سنیکڑوں دیوی دیوتاوں کی جھانکیاں نکالی گئیں، وہیں قاتل شمبھوناتھ کی جھانکی بھی موجود تھی۔  اس میں شمبھو ناتھ کو ہندو دھرم کے ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ جھانکی میں ایک فرد شمبھولال ریگر کی طرح ہاتھ میں کلہاڑی لیے بیٹھا تھا اور اس کے پاس ایک بینر لگایا گیا جس میں لکھا تھا: ”ہندو بھائیوں جاگو، اپنی بہن بیٹیوں کو بچاؤ اور لو جہاد سے ملک کو آزاد کراؤ”۔

تھوڑی دیر ٹھہر کر ذرا سوچیے کہ ایک شخص جس نے ایک غریب اور لاچار انسان کو بے رحمی سے قتل کیا، پھر اسے نذر آتش کیا اور انسانیت سے اس حد تک گر گیا کہ اس پوری واردات کو کیمرے میں قید کرایا اور اسے سوشل میڈیا میں عام کر دیا۔

یہ واقعہ کوئی اکلوتہ نہیں ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے راجستھان کے ادئے پور کی عدالت کے گیٹ کی چھت پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لہرا کر آئین کی عزت کو تار تار کر دیا تھا اور اس وقت بھی  سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہی تھی حکومت بالکل خاموش تھی۔ یہی کام اگر کوئی مسلمان یا کسی کسی قلیت سے وابستہ شخص کر گزرتا تو اب تک اسے سات بار سولی پر لٹکا دیا ہوتا۔ اقلیتوں کی حالت زار پر یہ شعر بالکل صادق آتا ہے:

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچہ نہیں ہوتا

یہ بات کون نہیں جانتا کہ یہ زعفرانی فکر ہی کا کمال تھا جس نے گاندی جی کو قتل کروایا۔  اس فکر کے زریعہ سے سے وہ  کیا چاہتے ہیں؟ وہ اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کو بلا خوف و خطر یہ یہ تنبیہ کراتے رہتے ہیں کہ بھارت کو مسلمان مکت کرانا ہی ان کا مقصد اصلی ہے اور اس کے لیے انھوں نے بہت کچھ کر بھی دیا اور ابھی کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم خاموش ہیں۔ گزشتہ ستر سالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم ’بھارتی‘ ہیں، جو کہ اب تک پروف نہیں ہو پایا ہے۔ اور پتا نہیں اس زندگی میں یہ ہو بھی پائے گا یا نہیں۔

صحیح بات تو یہ ہے کہ شمبھو لال ریگر اور اس جیسی فکر رکھنے والے سانپوں نے نہ صرف یہ کہ جمہوریت کا گلہ گھونٹنے کا کام کیا ہے بلکہ  ہندوستانی آئین کا قتل کیا ہے اور اس قتل کے ذمہ دار وہ تمام بھارتی ہیں جو ان کی ان نازیبا حرکتوں پر خاموش رہتے ہیں اور وقت رہتے ان کو سبق نہیں سکھاتے اور ان کی شر پسندی  کے خلاف اپنی آوازوں کو بلند نہیں کرتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔