آپ بھی شرمسارہو، مجھ کوبھی شرمسارکر!

نایاب حسن

 ذہن کی کھڑکیاں جب بندکرلی جائیں ، تواس کادائرۂ عمل خودبہ خودمحدوداور پھرمحدودتر ہوجاتاہے، بی جے پی اوراس کی حلیف سیاسی وغیرسیاسی جماعتیں اوران جماعتوں سے وابستہ افرادکامعاملہ ایساہی ہے، حکومت کے حصول کوانھوں نے کامیابی کی معراج سمجھ لیاہے اوراس کانتیجہ یہ ہے کہ ان کے ذہن میں ایک ہی قسم کی سوچ، ایک ہی طرح کاخیال اورایک ہی قسم کی فکر جولاں ہے، یہ لوگ ایساسمجھ رہے ہیں کہ سواسوکروڑہندوستانیوں کوان کی طرح سوچناچاہیے، ان کے جیسابولناچاہیے، ان کے جیساکھاناچاہیے اورانہی کے جیساپہنناچاہیے، جوکوئی اسکے خلاف کرتایاکرناچاہتاہے، یہ لوگ اس کے خلاف کسی بھی غیرانسانی وغیراخلاقی حدتک جانے میں ادنی جھجک محسوس نہیں کرتے ـ نظریاتی اختلاف یافکری عدمِ ہم آہنگی کووہ اس شدت سے جیناچاہتے ہیں کہ اس ملک میں ان لوگوں کامجسمہ تک برداشت نہیں کرسکتے، جوان کے طرزِ فکرسے متصادم گروہ کی علامت تصورکیے جاتے ہیں ، گزشتہ دنوں تری پورہ میں لینن اورساؤتھ میں پیریارکےمجسموں کوزمیں بوس کرنے کے واقعات رونماہوئے، باباصاحب کے مجسموں کوتوڑنے اور چھیڑنے کے توکئی واقعات سامنے آچکے ہیں اوراب مغربی بنگال میں عظیم مجاہدآزادی اورآزادہندوستان کے معماروں میں سے ایک مولاناابوالکلام آزاد کے مجسمے کوتوڑے جانے کاحادثہ پیش آیاہے، اول الذکر "کارنامے” بھی رائٹ ونگ والوں نے انجام دیے اوراب بھی انہی لوگوں نے یہ "بہادری "دکھائی ہے ـ ویسے اس قسم کے موقعے پر ہمیں سوچناچاہیے کہ خدانخواستہ یہ ملک  سیاست آمیزمذہبی منافرت کی دلدل میں اس حدتک تونہیں دھنس گیا کہ زندے تودرکنار مرحوموں کی ناموس بھی محفوظ نہیں رہ گئی؟ ایک طرف بی جے پی ہی ہے، جوایک دوسرے مجاہدآزادی سردارولبھ بھائی پٹیل کے کئی سوفٹ کے مجسمے کامنصوبہ اپنی "زنبیل "میں لیے پھررہی ہے، جبکہ دوسری طرف اسی کے خیرخواہان ورضاکاران ہیں ، جودوسرے عظیم افراداورمجاہدینِ آزادی کے گریبانوں پرہاتھ ڈالنے میں ذراشرم محسوس نہیں کررہے ـ یہ صورتِ حال حددرجہ اندوہناک ہے اوراس طرح ہندوستان میں عدمِ برداشت کی ایک بالکل نئی وباعام ہوتی جارہی ہےـ

ابھی رام نومی کے جلوس کے بہانے بھی بی جے پی، آرایس ایس، بجرنگ دل وغیرہ اپنی بدتمیزیوں کانیاسلسلہ شروع کرناچاہ رہے ہیں، سیاسی محاذپرجن ریاستوں میں بی جے پی کواب تک خاطرخواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے، ان میں مغربی بنگال اور بہار خصوصیت سے قابلِ ذکرہیں ؛ لہذاایسالگتاہے کہ کسی منظم پلاننگ کے تحت ان ریاستوں کوٹارگیٹ کیاجارہاہے، گزشتہ دنوں ہندونئے سال کے جشن کے بہانے بھاگلپور میں فسادانگیزی کی کوشش کی گئی اوراب نوادہ، سمستی پور اورمونگیروغیرہ میں حالات قابوسے باہر ہورہے ہیں، مغربی بنگال سے بھی ایسی خبریں مسلسل آنے لگی ہیں ؛ حالاں کہ ممتابنرجی بڑی اولوالعزم وزیراعلی سمجھی جاتی ہیں اورانھوں نے حالات کوکنٹرول کرنے کی تدبیربھی یقیناکی ہوگی، مگراس کے باوجود شرانگیزعناصرسرابھاررہے ہیں ، جبکہ بہار، جومجموعی طورپرمامون تھا، اب جے ڈی یو ـ بی جے پی اتحادکے بعدکسی نئی سمت میں چلناچاہتاہے، ایساکہاجارہاہے کہ اس طرح کے واقعات رونماہونہیں رہے؛ بلکہ رونماکروائے جارہے ہیں اوراس کے پسِ پردہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے لیے مخصوص ماحول پیداکرناہےـ

یہ اس ملک کی بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں عوام کے پاس اپناسیاسی نمایندہ یاحکومت منتخب کرنے کے لیے دیگربے شمارضروری اوراہم اسباب ووجوہ ہونے کے باوجودفرقہ وارانہ موضوعات ترجیحی حیثیت کے حامل ہیں، سیاست دانوں کاظاہرکچھ ہوتاہے اورباطن کچھ اور، وہ وعدے توکچھ اورکرتے ہیں، مگرانتخابی سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے زمینی سطح پرحربے کچھ اوراختیارکرتے ہیں اورعوام بے چارے آسانی سے ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

اگرواقعی نئے سرے سے مذہبی منافرت کی یہ فضا2019کے الیکشنزکے لیے تیارکی جارہی ہے، توپھر ہمیں یہ سمجھناچاہیے کہ اس ملک میں بے روزگاری کوئی مسئلہ نہیں ہے، تعلیم کے شعبے میں پائی جانے والی خامیاں کوئی ایشونہیں ہیں، عام شہریوں کودرپیش دیگربنیادی مسائل کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں، کمرتوڑمہنگائی ناقابلِ توجہ ہے، بڑے بڑے صنعت کاروں اورسیاست دانوں کے ذریعے ہونے والے گھوٹالوں سے ہمیں کوئی غرض نہیں، ہم توبس نعروں کے بل پرجیناچاہتے، سفاک سیاست دانوں کے اشاروں پرناچناچاہتے اور شور ہنگاموں ، فتنہ وفساد میں سانس لیناچاہتے ہیں ـ شمبھولال ریگر جیسے خوں خواردرندے کی جھانکی نکال کر ملک کاایک طبقہ دنیاکے سامنے ہندوستان کی جوشبیہ پیش کرناچاہتاہے، وہ نہایت قبیح، مکروہ اورشرمناک ہی توہوگی، ہندوستان کایہ منظرنامہ ہمارے مستقبل کے لیے "شبھ سنکیت "نہیں ہےـ ملک کا مستقبل حال سے زیادہ تاریک نظرآرہاہے، خداخیرکرے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔