شریک جرم ہم خود بھی تو ہیں!

         تکثیریت پسند ملک ہندوستان میں دہشت گردی اور مسلمان ایک سکہ کے دوپہلو کیوں سمجھے جانے لگے ہیں؟کیوں آنکھ موند کردآڑھی ٹوپی والے پرجانچ ایجینسیاں، پولیس اور دیگر لوگ آتنک واد کالیبل لگادیتے ہیں؟ کیاہم دہوں سے گلاپھاڑ پھاڑ کر یہ اعلان کرتے ہوئے نہیں آئے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا؟ کیا کروڑوں روپئے اس نظریہ کی تشہیر کےلئےسیمیناروں اور کانفرنسوں پرخرچ نہیں کئے؟پرحالات بجائے بننے کےاور بگڑتے کیوں جارہے ہیں؟ملک کی سلامتی کوآگ کیوں لگائی جارہی ہے؟آئین و دستور،قانون وانصاف کوطاق میں رکھ کر انصاف کےعلمبردار و پاسدار ہر دہشت گرد  کومسلمان بنانے پرکیوں تل جاتے ہیں؟؟ کل تک لشکرطیبہ،جیش محمد، القاعدہ،طالبان، داعش، حزب المجاھدین،سیمی اور ناجانے کن کن ناموں سےمنسوب کرکے ایک سیدھے سادھے صلاحیت مند،ٹیلینٹیڈ مسلمان کو آتنک واد،دیش دروہی،ملک غدار،ملک مخالف، قرار دیکر غیر انسانی سلوک کیاجاتا تھا، تشدد اور ظلم کےپہاڑ توڑے جاتے تھے،شعائر اسلام کےساتھ سنگھ نواز افسران بھونڈا مذاق کرتے تھے،اور برسوں کےلئے جیلوں کاباشندہ بناکر بلاکسی تحقیق و تفتیش میڈیا کی زبانی خطرناک دہشت گرد کالیبل لگواناایک عام بات تھی،لیکن اب جب اس سے بھی تسکین ناملی،اور اسلام و مسلمان کادامن اس لعنت سے پاک رہا،تمام کمیشنوں، عدالتوں اور سماجی حقوق کےکارندوں نے یہ بات تسلیم کی دہشت گردی کے معاملہ میں ہندوستانی پولیس و تفتیشی ایجینسیاں  دوہرا رویہ برتتی ہیں،اور بلاکسی جرم کے حقوق انسانی کوبھی پامال کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کےساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتی ہیں،تو اب ہندوستان کی آزادی کی شراکت دار،ملی و سماجی نمائندہ جماعت، انصاف کی بالادستی کےلئےعدالتوں سے لیکر ایوانوں تک سرگرم اکلوتی تنظیم،مظلوموں کی مسیحا”جمعیۃ علماء ھند”کےکارندوں و کارکنوں کوپولیس صرف اس لئے زدو کوب کررہی ہے کہ وہ ایک ایسے آرگنائزیشن کے ممبر یاذمہ دار ہیں جو انصاف و قانون کی جنگ لڑتے ہیں،اور ان کےظلم و جور کا کچا چٹھا کھول کر ملک کی سیکولرزم کی حفاظت کرتے ہیں،ابھی دو دن پہلے جس طرح سے دہلی پولیس نے جمعیۃ علماء ھند کے سرگرم رکن قاری عارف کے ساتھ ناروا و بہیمانہ سلوک کیا اور زد وکوب کرتے وقت جن خیالات کااظہاکیا وہ یہ بتلانے کے لئے کافی ہے کہ اب پولیس وقانون کے سپاہی مسلمانوں کوصرف اس لئے ہراساں کرینگے کہ وہ سیکولر کیوں ہیں؟ وہ ملک کی حفاظت کی بات کیوں کرتے ہیں،وہ جمہوریت وآئین پر یقین کیوں رکھتے ہیں؟ وہ ایسی تنظیم سے تعلق کیوں رکھتے ہیں جو مظلوموں کو ان کاحق دینے کی بات کرتی ہے،جو جیلوں میں بند بےقصوروں کی رہائی کےلئے قانونی جنگ لڑتی ہے،جو پولیس کو،قانون کےمحافظوں کو ان کے فرائض یاد دلانے کی کوشش کرتی ہے،الغرض اب ہندوستان کامسلمان اس لئے مارا جائے گا کہ وہ ایک سیکولر و وفادار ہندوستانی کیوں ہے؟لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ھیکہ یہ مزاج خاکی سے لےکر عوام تک کاکیوں بنتاجارہا ہے؟کیا وجہ ھیکہ بیسیوں سال سے ہم اپنا دامن صاف بچانے کےلئےخوب چلارہے ہیں اور ہمارا دامن توکیا بچتا ہم خود ہی داغدار ہوتے جارہے ہیں؟اس کی بنیادی وجوہات کیاہیں؟
اور اس نظریہ کاخاتمہ کیسے کیاجائے؟ تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کامحرک اول ہمارا کمزور دفاعی لائحہ عمل ہے، ہم پتوں کے
سہارے طوفان کاسامنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم واقعہ یاحادثہ ہو جانے کےبعد تک بندی کرتے ہیں، آواز اٹھاتے ہیں،رونا روتے ہیں،دلاسا اور تسلی کاسلسلہ چلتاہے لیکن ہم پیش بندی اور پیش قدمی کرنے سے کتراتے ہیں،بلکہ عاجز و قاصر رہتے ہیں،ہم قبل از وقت پروپیگنڈوں سے ہوشیار نہیں ہوتے، میڈیا ہمارا جذباتی استحصال کرتا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں،اور پھر ہمیں تن مردہ سمجھ کر تختہ مشق بنایا جاتا ہے،یہی وہ بنیادی کمزوری ہے جس سے صرف دہلی پولیس ہی نہیں،بلکہ پورے ہندوستان کی پولس بخوبی  واقف ہو چکی ہے اور اسی کمزوری کاناجائز فائدہ منووادی آقا پس پردہ بیٹھ کر اٹھاتے ہیں اور پولیس و ایجینسیوں میں ہم خیال افراد کو داخل کرواکر قانونی طور پرمسلم دہشت گرد کے نظریہ کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں،اسی لئے یہ کہنے پرحق بجانب ہوں کہ جب تک ہم اپنی اس کمزوری کا علاج نہیں کریں گے،اس طرح کے واقعات ہم میں سے کسی ناکسی کے ساتھ پیش آتے رہیں گے، اس کے لیے ذہنی طور پرتیار رہنا چاہیے؛ہماری پولیس اشارہ غیب سےپس پردہ بیٹھے ہوئے آقا کی قیادت میں  اپنے فرائض انجام دے رہی ہے، وہ تو مجبور محض ہے اور اسے اپنی نوکری کی پڑی ہے،پرکس کےاشارے پر” ڈرامۂ خوں نوش“کر رہی ہے وہ بھی اب کسی سے مخفی نہیں، ویسے موجودہ مودی  حکومت سے امید ہی کیا کی جاسکتی ہے، وہ تو اصل مجرم کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے ” پروانۂ آزادی “ کا تمغہ نوازنے کا پورا من بنا چکی ہے، شاید کچھ ہی دنوں کے بعد یہ خبر بھی سننے کو مل جائے گی کہ پرگیہ رہا ہو گئی ہے اور ہیمنت کرکرے پربعد ازوفات ملک غداری کاالزام لگادیاجائے،مودی حکومت بے قصور مسلمانوں کو مفروضہ ہتھکنڈہ” دہشت گردی “کے الزام میں گرفتار کر کے ہراساں و پریشاں کرنے پر برسرِ پیکار ہے، ابھرتے ہوئے وہ مسلم رہ نما ونوجوان جن کی عوام میں مقبولیت و شہرت اور اچھی پکڑ ہوتی ہے،ان کو تباہ کرنے کےلئے مرکزی حکومت سے لےکر ناگپور تک کےفرقہ پرست ایک ہوجاتے ہیں،اور مختلف ہتھکنڈوں سے منصوبہ بند طریقہ سے ہندوستانی مسلمانوں کےساتھ آتنک کامونو گرام چسپاں کردیتے ہیں،حکومت کی بسکوتِ لبی حمایت سے پولیس اپنا شہرت یافتہ ہتھکنڈہ کا بخوبی استعمال اس لئے کرتی ہے تاکہ بین الاقوامی دہشت گردوں کی صفوں میں ہندی مسلمانوں کو بھی زبردستی کھڑا کیا جا سکے اور اپنے مغربی آقاؤں کو یہ باورکرایاجاسکے کہ آپ کے ملک کی طرح میرا ملک بھی دہشت گرد کی زد میں ہے، ہندوستانی دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے آپ کی حمایت و اجازت درکار ہے،اور پھر بین الاقوامی سطح پر اسلام مخالف ہوا کے جھونکوں کو ہندوستان کی جانب بھی موڑ دیاجائے، اسی مفروضہ جواز کے حصول کے خاطر  قاری محمد عارف کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے علاوہ دہلی پولیس نےانکاؤنٹر تک کی دھمکی دے ڈالی یہ کہنے کے باوجود بھی کہ وہ جمعیۃ علماء ہند کاکارکن و خادم ہے، پولس عملے کے اس رویے سے کیا سمجھ میں آتا ہے؛؟کیاپولیس نے اپنی خاکی وردی کا ناجائز استعمال کیا ہے؟
ایسا ہرگز نہیں بلکہ  پولیس نے پس پردہ کسی کی واضح حمایت میں اپنا کام انجام دیا ہے ،ورنہ کسی پولیس کی کیا مجال کہ ڈھائی کروڑ ممبر والی تنظیم کے ایک فرد کے ساتھ اس طرح کی بدتمیزی پراتر جائے،اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اب تک کسی بڑی مسلم تنظیم کی طرف سے نہ کوئی رد عمل آیا ہے اور نہ ہی کسی بھی طرح کا کوئی واضح بیان، شاید اس انتظار میں کہ کسی غیر مسلم سیکولر رہنماکا ہمیشہ کی طرح یہ بیان آجائے کہ پولیس نے غلط کیا ہے، اس پر کارروائی کی جانی چاہئے یا عنقریب پولیس پر کارروائی کی جائے گی اور ہم مسلمان ! اسی بیان کو اپنی فتح سمجھ کر تخلیہ میں جانے کی ضرورت محسوس کریں گے، اور امن وآشتی کے پیغام کی تھپکیاں دے کر مزید دوسرے مسلمان کو دہشت گرد بنانے موقع دیتے رہیں گے،کچھ دنوں میں ایک دو اور مسلمان دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونگے، اور ہمارے قائد،ملی رہنما اسلام  امن وآشتی کا مذہب ہے کا راگ الاپتے ہی رہیں گے،  بیس سالوں سے ہم سب یہ کہتے آرہے ہیں کہ  اسلام  امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے، دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا، دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے، مگر اب تک کسی نے نہیں مانا،نہ یقین کیا، دجالی ہاتھوں کا شکنجہ ہمارے سروں پر آپہونچا پھر بھی ہمیں اب تک ذرہ برابر احساس نہیں، آخر کب تک پہلو تہی کریں گے؟ہم خود سوئے ہوئے ہیں اور اپنے ساتھ کچھ بیدار بھائی کو بھی سلانے کی کوشش کررہے ہیں،کیوں نہیں ہم خاطی پولیس افسران و ایجینسی کے خلاف ملک گیر مہم چلاتے؟ہرتھانہ و عدلیہ میں ان کے ظلم کے خلاف قانونی قدم نہیں اٹھاتے؟
بات بات پر روڈ جام، جنتر منتر پر دھرنا، اسمبلی گھیراؤ کرنے والے اس موقعہ پر کیوں گوشہ نشیں ہوجاتے ہیں؟ کیوں نہیں پارلمینٹ گھیر کر حکومت پردباؤ بناکر اس مزاج کے خاتمہ کی مانگ نہیں کرتے؟ جس میڈیا کے ذریعہ بےگناہ مسلمانوں و صاف شفاف اسلام کو دہشتگرد و آتنک واد بنایا جاتا ہےاسے توڑنے کےلئے اپنا میڈیا سینٹر کیوں نہیں بنایاجاتا،لاکھوں کروڑوں روپئے سنگھ نوازوں کے اخبارات کو دیکر صفحہ اول پر آنے والے قائدین خود اپنا ایک مضبوط اخبار کیوں نہیں نکالتے؟ انٹرویو،ڈیبیٹس،اور پروگراموں کی بروڈ کاسٹنگ کےلئے پانی کی طرح پیسہ بہاکر اس مجرم میڈیا کوطاقت بخشنے والے ہمارے رہنما اگر ایک عدد چینل صرف اس مقصد کے لئے کھول دیتے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائےگی، شاید آج منظر اور ہی کچھ ہوتا، اونچ، نیچ، ذات پات،مسلک مشرب کے خانوں میں قوم واحد کوبانٹ کر اپنی سیاسی روٹی سینکنے والے رہنماخود تو محلات میں بیٹھ کر اپنے آقاؤوں کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی پستی و تنزلی کاجشن مناتے ہیں اور قوم کوسنگھی بھیڑیوں کاشکار بننے کےلئے چھوڑ دیتے ہیں،یہ وہ پس منظر ہے جس نے ہماری پولیس کو آج اتنی جرات بخش دی ھیکہ وہ “جمعیۃ علماء ھند”جیسی نمائندہ و مرکزی جماعت کےفرد کا انکاؤنٹر تک کرنے کی دھمکی دینے لگی ہے،اور اس سب کے مجرم ہم خود ہیں،ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے،طریقہ کار میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، خود ساختہ مصلحت،کمزور دفاعی حکمت عملی کو ترک کرکے منظم اور مؤثر طریقہ پر اقدام کرناہی حالات کاتقاضا ہے، سیاسی قیادت کو مضبوط کرناپڑےگا، میڈیا میں اپنےپاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرنی ہوگی،سول سروسیزمیں مسلم نوجوانوں کی حصہ داری کے لئےعملی اقدام کرناہوگا، مدارس مساجد، اوقاف و مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے طریقہ کار کو بھی بدلنا ہوگا،ورنہ آج ہمارے ممبر و کارکن اور عام مسلمان ہندو راشٹر کاخواب دیکھنے والوں کے ہتھے چڑھ رہے ہیں کل کہیں ایسا ناہووہ خونی پنجہ ہمارے اپنے گریبان تک پہونچ جائے اور ہم پھر کیاکریں گے سوچئے اور بدلئے بس!!! اس لئے کہ شاید اقبال مرحوم نےاسی وقت کے پس منظر میں یہ شعر کہا ہوگا :
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔