شکست

سالک جمیل براڑ

لیاقت علی خاں کورٹ کی عمارت سے باہرآکرٹہلنے لگے۔ وہ اپنی آج کی جیت پر بے حد خوش تھے۔ اب انھیں انتظار اپنے حریف اشرف علی خاں کا تھا۔ جیسے ہی اشرف خاں باہر آیاوہ اس سے مسکراتے ہوئے مخاطب ہوئے۔

’’اشرف………تم سے کہاتھا کہ تم مجھے نہیں ہراسکتے………او…… میں تو بھول ہی گیاتھا کہ تم بچپن سے ہی بے غیرت ہو……ہمیشہ مجھ سے ہارتے آئے ہو … …شایدتمہیں شکست کھانے کی عادت پڑگئی ہے۔ ………آج تو و اقعی تمہاری ڈوب مرنے والی ہارہوئی ہے۔ افسوس……قانون بھی تمہیں تمہاراوارث دلوانہ سکا……تم سے کتنی بارکہا ہے………کہ مجھ سے مت الجھاکرو……کہیں تم خود الجھن بن کر نہ رہ جانا…… دیکھو، کم ازکم اس جنم میں توتم مجھے ہرا نہیں سکتے………‘‘

’’تمہاری کامیابی کا یہ آخری مرحلہ ہے……انشا ء اللہ آج کے بعد تمہیں ہرمحازپر مونہہ کی کھانی پڑے گی۔ ……‘‘اشرف خاں نے لیاقت خاں کو وارننگ دی۔

’’ارے……ارے……میرے بھائی……غصّہ نہیں، اس میں میراکیا قصور؟ کہ خدانے تمہارے حصّے میں صرف ہارنالکھا ہے……میں تمہارااشارہ سمجھ گیا ہوں … … کس کو کیاپتہ؟………کون سات سال تک زندہ رہے گا………ہاں، اگر میں مر بھی گیا……جیت پھربھی میری ہوگی………یہ میراتم سے وعدہ رہا……‘‘لیاقت خاں نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’شاید……تم بھول رہے ہو……یہ میرا خون ہے……اورمجھے اپنے خون پرپورا بھروسہ ہے……‘‘اشرف خاں نے اپنی چھاتی پرہاتھ جماتے ہوئے کہا۔

پھردونوں اپنے اپنے راستے چل دئیے۔

دونوں بچپن کے گہرے دوست تھے۔ ساتھ ساتھ پڑھے اورکھیلے تھے۔ زندگی کے ہر شعبے میں لیاقت، اشرف سے آگے رہاتھا۔ چاہے وہ کھیل ہو، پڑھائی ہویا پھرکاروبارہی کیوں نہ ہو۔ کچھ ہی سال پہلے ان کی گہری دوستی رشتے داری میں بدل گئی تھی۔ انہوں نے اپنے اکلوتے وارثوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیاتھا۔ یعنی لیاقت خاں کی بیٹی کی شادی اشرف خاں کے بیٹے سے کر دی گئی تھی۔ مگر خداکوکچھ اور منظورتھا۔ یہ رشتہ زیادہ دیرتک قائم نہ رہ سکا۔ آخرچارسال بعد طلاق ہوگیا۔

اب تین سالہ ننھاعامر اس تناؤ کی وجہ بناہواتھا۔ دونوں فریقین عامرپراپنا حق جتا رہے تھے۔ بات اتنی بڑھ گئی تھی کہ عدالت تک پہنچ گئی۔ آج عدالت نے یہ فیصلہ کیاتھاکہ بچہ سات سال تک اور ماں کے پاس رہے گا۔ باپ دوہزارماہوارخرچ بچے کی ماں کودے گا۔ سات سال بعد جہاں بچے کا دل چاہے گا وہیں اسے رہنے دیاجائے گا۔ اس طرح آج بھی اشرف خاں کومونہہ کی کھانی پڑی تھی۔ اسی وجہ سے لیاقت خاں اس کا مذاق اڑارہاتھا۔

ایک سال بیت گیا۔ اشرف خاں کو اپنے لختِ جگرکاایک باربھی دیدارنہ ہوا۔ آخرتنگ آکر اس نے عدالت سے مددمانگی۔ عدالت نے حکم دیا کہ بچہ سال میں ایک ماہ اپنے والد کے پاس رہے گا۔ اب ایک طرف داداتودوسری طرف نانااپناپورازورلگارہاتھا۔ دونوں ننھے عامرسے زیادہ سے زیادہ گھل مل جاناچاہتے تھے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اپنی زندگی کی آخری لڑائی ہارنانہیں چاہتا تھا۔

اسی کشمکش میں سات سال پنکھ لگاکراُڑگئے۔ کل کو ننھے عامر نے اپنے نانااوردادا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرناہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپناقیمتی ووٹ دے کر کسے کامیاب بناتاہے۔

صبح کے تقریباً گیارہ بج رہے تھے۔ عدالت میں کاروائی شروع ہوچکی تھی۔ لیکن ننھاعامراورلیاقت خاں ابھی تک نہیں آئے تھے۔

’’یورآنر……کچھ وقت اورانتظارکیاجائے………میرے کلائنٹ آہی رہے ہیں۔ ‘‘ لیاقت خاں کے وکیل نے جج صاحب سے تیسری بار درخواست کی۔

اسی دوران انسپکٹر فرید عدالت میں داخل ہوا۔ ’’یورآنر………گستاخی کے لیے معافی چاہتاہوں ……لیکن یہ خبرآپ تک پہچانا ضروری تھی‘‘انسپکٹر جج سے مخاطب ہوا۔

’’کہئے انسپکٹر………… آپ کون سی خبر دیناچاہتے ہیں۔ ‘‘جج صاحب نے اجازت دی۔

’’سر……لیاقت صاحب جس کارمیں آرہے تھے اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیاتھا۔ ان کی لاشیں سرکاری اسپتال میں پڑی ہیں۔ ‘‘انسپکٹر فرید نے اپنی بات بتائی۔

پھردیکھتے ہی دیکھتے عدالت میں جمع سبھی لوگ اسپتال پہنچ گئے۔

’’ڈاکٹر صاحب، یہ کیاہوگیا؟‘‘اشرف خاں نے روتے ہوئے پوچھا۔

’’شاید……خدا کویہی منظور تھا۔ ‘‘ڈاکٹر ان کی پیٹھ سہلاتاہواآگے بڑھ گیا۔

اشرف خاں کے آگے تین لاشیں پڑی تھیں جن میں سے ایک لیاقت خاں کی، دوسری ننھے عامرکی، تیسری کارڈرائیور کی۔

اشرف خاں کویوں لگ رہاتھا۔ جیسے ہمیشہ کی طرح آج بھی لیاقت اس کا مذاق اُڑارہا ہو۔ اسے نمبر ٹو کہہ رہاہو۔ جیسے وہ کہہ رہاہو۔

ارے یاراشرف……دیکھو رومت……اب اس میں میں کیاکرسکتاہوں کہ تمہاری قسمت میں صرف ہارہی ہارہے……اپنے پوتے کوپانے کی تمہاری تمنا دھری کی دھری رہ گئی۔ دیکھا میں ہمیشہ کی طرح اس باربھی بازی مارگیا۔ میں تمہارے گھرکے چراغ کی روشنی کو ساتھ لئے جارہاہوں ……اچھّا تو……نمبرٹوصاحب……خداحافظ!!!

تبصرے بند ہیں۔