شکیل بن حنیف: حقیقت کے آئینے میں

ابوالحسنات قاسمی

فتنہ مطلقاً (خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو) ایسی چیز ہے جس سے بچنا چاہیے، اگر فتنہ کا تعلق عقائد سے ہو تو اس سے اجتناب واجب ہوجاتا ہے۔ بہر کیف فتنوں سے بچنے کے متعلق فرمان خداوندی ہے:

(وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَّاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ)

اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (سورۃ الانفال)

      فتنہ ہائے عقائد و نظریات ہر دور میں رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حینِ حیات (ابتدائے خیر القرون میں ) ہی فتنوں کی برسات (کثرت سے وقوع) کی خبر دے دی تھی۔

عن اسامہ بن زید، قال: أشرف النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی أطم من آطام المدینۃ، فقال: ہل ترون ما أری؟ قالوا: لا، قال: انی لأری الفتن تقع خلال بیوتکم کوقع المطر۔ (البخاری والمسلم)

        حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے بلند مکانات میں سے ایک بلند مکان کی چھت پر چڑھے اور فرمایا کیا تم اس چیز کو دیکھ رہے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حقیقت یہ ہے کہ میں ان فتنوں کو دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں میں بارش کی طرح برس رہے ہیں۔

     منجملہ ان فتنوں کے ایک فتنہ ” فتنۂ شکیلیت ” بھی ہے۔ جس کی ابتداء دعوائے مہدویت ہے اور انتہاء دعوائے مسیحیت۔

     دعوائے مہدویت اور حقیقی مہدویت میں تفاوت آثار وسنت کے تناظر میں۔

     مجموعی طور پرتو علامات قیامت  مختلف اور بے شمار ہیں، مگر ان علامات کو دو قسموں پر تقسیم کیا گیا ہے۔

۱)علاماتِ صغریٰ

۲) علاماتِ کبریٰ

   علاماتِ صغریٰ میں سے سب سے پہلی علامت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور آپ کی وفات ہے ‘پچھلی آسمانی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب ’’نبی الساعۃ‘‘ لکھا ہے۔ جس کا معنی ہے: ’’قیامت کا نبی‘‘یعنی آپ وہ آخری نبی ہوں گے کہ جن کی امت پر قیامت قائم ہو گی۔

    علاماتِ کبریٰ بھی بے شمار ہیں جن میں سے ایک حضرت مہدی کی آمد (پیدا ہونا) اور ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا ہے۔

     بالعموم پوری دنیا میں اور بالخصوص اسلامی دنیا میں مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے والی کئی شخصیات سامنے آچکی ہیں۔ خصوصاً سعودی عرب، افریقا، جنوبی ایشیا وغیرہ میں متعدد (نام نہاد) مسلمانوں نے اس کا دعویٰ کیا اور یہ دعویٰ بہت پہلے سے وقفہ بوقفہ لوگ کرتے آ رہے ہیں۔

     مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مہدی وسیع تر دنیاوی اختیارات، روحانی طاقتوں اور ولایت کے حامل ہوں گے۔

     کچھ مدعیان مہدویت نے دنیاوی طاقت کے اظہار کے لیے ریاستوں کی بنیاد رکھی (جیسے مہدی سوڈانی نے انیسویں صدی عیسوی میں، سوڈان میں ) اسی طرح بعض نے روحانی طاقت سے مطابقت کے لیے مذاہب اور فرقوں کی بنیاد رکھی (جیسے مرزا غلام احمد نے ‘احمدیہ جماعت ‘ اور’ بابی تحریک ‘ وغیرہ)۔

     اسی سلسلہ کی مطابقت کی وجہ سے ۱۹۷۹؁ء میں مکہ، سعودی عرب میں جہیمان عتیبی نے ۲۰۰؍ مسلح افراد کے ساتھ مل کر مسجد الحرام پر قبضہ کر لیا اور دعوی کیا کہ اس کا بہنوئی اور ساتھی محمد قحطانی مہدی ہے۔ (کیونکہ، مہدی کے متعلق اسلامی روایات میں ہے کہ وہ پہلی بار حج کے موقع پر مکہ میں خانہ کعبہ کے پاس مہدی تسلیم کیے جائیں گے)اس کی تفصیل آگے ذکر ہوگی۔

    فی زمانہ ہند و پاک میں مدعیان مہدویت کی ہوڑ لگی ہوئی ہے، فی الحال راقم السطور ہندوستان میں مدعء مہدویت ”شکیل بن حنیف” کے تعلق سے امت کے نوجوانوں کو آگہی فراہم کرنا چاہ رہا ہے (جس نے اپنے چیلوں کی وساطت سے پورے ملک میں ارتداد کا طوفان برپا کر رکھا ہے) تاکہ اس تحریر کے تناظر میں ” مدعء مہدویت اور حقیقی مہدویت” میں امتیاز پیدا کرتے ہوئے اپنے عقائد کو محفوظ رکھ سکیں۔

   ارتداد کی تعریف:

   ارتداد کے لفظی معنی ہیں لوٹنا یا پھر جانا۔ اورمرتد وہ شخص ہے جو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لوٹ جائے۔ عام طور پر یہ لفظ دینی ارتداد کے لیے بولا جاتا ہے۔

     مسئلہ:  فقہ کے مطابق، مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص جو باقاعدہ طور پر مسلم سماج کا ایک ممبر ہو اگر اس نے خفیہ یا اعلانیہ اسلام کو اپنے مذہب کی حیثیت سے چھوڑ دیا ہو۔ اس روش کو شریعت میں ارتداد یعنی اسلام سے پھر جانا کہا جاتا ہے، اور جو شخص اس روش کا ارتکاب کرے اس کے بارے میں اکثر فقہائے اسلام یہ کہتے ہیں کہ اس کو حد شرعی کے طور پر قتل کیا جائے گا۔ (یقتل حدا)

     باز آمدم برسرِ موضوع:

     آخری زمانہ میں قربِ قیامت حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کی آمد ہوگی، ان کی آمد کے ۷؍ سال بعد دجال نکلے گا، اس کے بعد اس کو قتل کرنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ وإنہ سینزل قبل یومِ القیامۃ کما دلت علیہ الأحادیث المتواترۃ (تفسیر ابن کثیر مع البغوی)۔

      یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ جس جس نے مہدویت کا دعویٰ کیا ہے ان میں سے ہر ایک نے کچھ عرصہ بعد مسیحیت (عیسیٰ مسیح ہونے) کا بھی دعویٰ کیا ہے۔جب کہ دونوں دو علیٰحدہ شخصیات ہیں۔

    جیسا کہ مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوگیا کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں۔

اور بہتر ہوگا کہ لگے ہاتھوں آمدِ مہدی اور ظہورِ مہدی میں بھی فرق کو واضح کردیا جائے:

     تفصیل اس طرح ہے کہ:

    امام مہدی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ مدینہ منورہ میں ان کی پیدائش وتربیت ہوگی، ایسا نہیں کہ پہلے سے موجود ہوں گے اور یکایک ظاہر ہوجائیں گے۔

 ان کا نام نامی ’’محمد‘‘ اور والد صاحب کا نام ’’عبداللہ‘‘ ہوگا، وہ شکل وشباہت اور اخلاق وشمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، نہ ان کی نبوت پر کوئی ایمان لائے گا، مکہ مکرمہ میں ان کی بیعت خلافت ہوگی اور بیت المقدس ان کی ہجرت گاہ ہوگا، بیعتِ خلافت کے وقت ان کی عمر چالیس برس کی ہوگی، ان کی خلافت کے ساتویں سال دجال نکلے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک ہوگا، حضرت مہدی کے دوسال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معیت میں گزریں گے اور ۴۹؍ برس میں ان کا وصال ہوگا۔ (مشکوٰۃ: ۴۷۱، باب أشراط الساعۃ) آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۱؍۲۶۷۔

     اب ذرا دجال کے تعلق سے ان جھوٹے مدعیان مہدویت کے فریب و فراڈ تو دیکھئے کہ کس باریکی سے سازش رچی ہے؟ اس لئے کہ جب ان فریب کاروں نے دعوائے مہدویت کے ساتھ ساتھ خلافت کا سوانگ بھی رچ لیا ہے تو اب دجال کا وجود بھی لازم ہے، سو دجال کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے انتہائی لطافت کے ساتھ کچھ قلم کاروں کو خریدا اور ان کو ایک لفظ کے املاء کو بار بار غلط لکھنے پر آمادہ کیا (تاآنکہ اس غلطی کو ہی سچ تسلیم کر لیا جائے) اور وہ لفظ ہے ”امریکہ ” اس لفظ کو کسی بھی لغت (ڈکشنری) میں تلاش کریں گے تو ’’ھائے ہوز‘‘ کے ساتھ ہی لکھا ہوا ملے گا، مگر اس کو زرخرید قلم برداروں نے ”الف ” کے ساتھ (امریکا)لکھنا شروع کردیا۔ اب اس کو  اچھی طرح سمجھنے کے لئے دجال کے شخصی خاکہ پر نظر ڈالنا ہوگا۔

     اس کی تفصیل یہ ہے کہ: امام مہدی کی آمد کے ۷؍ سال بعد اور نزولِ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام سے کچھ عرصہ قبل دجال کا ظہور ہوگا۔ اس کاشخصی خاکہ یوں ہوگاجیسا کہ:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال ایک آنکھ سے کانا ہوگا، وہ ایک جگہ نہیں رکے گا، اس کی رنگت سرخی مائل سفید ہوگی۔ اس کی پیشانی نمایاں اور گردن بہت زیادہ چوڑی ہوگی۔ اس کا قد چھوٹا ہوگا اور کمر میں کُب (کوبڑ پن) ہوگا۔ اس کے باوجود وہ بہت طاقتور ہوگا۔ وہ عام انسانوں کی طرح نہیں چل سکے گا۔دجال کے گھنگریالے بال ہوں گے جو سر سے سانپوں کی مانند لٹک رہے ہوں گے۔ دجال ایک مرد ہوگا اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگا۔ اس کی پیشانی پر دونوں آنکھوں کے بیچ کافر یا ک،ف،ر لکھا ہوگا۔درج بالا نشانیوں کی وضاحت  حدیثِ مذکورۃ الذیل میں کی گئی ہے۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: (الدَّجَّالُ اَعْوَرُ العَیْنِ الیُسْرَیٰ، جُفَالُ الشَّعَرِ، مَعَہُ جَنَۃٌ وَنَاٌر، فَنَارُہُ جَنَّۃٌ وَجَنَّتُہُ نَارٌ) ترجمہ: حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: دجال بائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اس کے بال گھنے ہوں گے، اس کے ساتھ جنت اور جہنم بھی ہو گی، اس کی جہنم حقیقت میں جنت ہو گی، اور اس ی جنت حقیقت میں جہنم ہو گی۔

اب جیسا کہ دجال کے اس شخصی خاکہ (جسمانی ساخت) میں منجملہ دیگر علامات کے ایک یہ ہوگا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” ک ف ر ” یا ” کافر ” لکھا ہوگا، جس کو خواندہ و ناخواندہ سب پڑھ لیں گے۔ تو اس کفر کو ثابت کرنے کے لئے دجالی قلمکاروں نے لفظ ” امریکہ ” کے غلط املاء کی بنیاد ڈالی۔

  اب دجال کی امریکہ سے کیا نسبت ہے، اس کو سمجھنے کے لئے مزید ایک تفصیل درکار ہے، وہ یہ کہ امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بعد دجال کا ظہور ہوگا، تو جب جھوٹے مدعیان مہدویت نے دعوائے مہدویت کردیا ہے تو اب دجال کا ظہور ثابت کرنا ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے ” امریکہ و فرانس ” (کے لفظی مجموعہ) کو دجال سے تشبیہ دینے کی کوشش کی ہے، اوراسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے ”امریکہ” کے غلط املاء کی طرح ڈالی۔وہ یوں ہے کہ ” امریکا ” سے ابتدائی چار حروف اور”فرانس”سے انتہائی تین حروف نفی کردیئے }امری – کافر -انس { تو اب اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ”کافر ”لکھا ہوا نظر آرہا ہے۔

     اس کے علاوہ دجال ایک آنکھ سے کانا ہوگا، ایک آنکھ جسمانی ساخت کے برابر ہوگی، تو اس کو امریکہ و فرانس کے ”  سٹیلائٹ ” سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ، سٹیلائٹ کا حکم الیکٹرانک آنکھوں کی ہے، اور امریکہ کے سٹیلائٹ کے بالمقابل فرانس کا سٹیلائٹ چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس ” کانا ”کے درجہ میں باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

     ان سب کے سوا جھوٹے مدعیان مہدویت (خواہ شکیل بن حنیف ہو یا دیگر) اور ان کے پیروکاروں اور کارندوں کو سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ دجال ایک انسان ہوگا، وہ کسی ملک یا شہر کانام نہیں ہوگا۔اس لئے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں فرمایا:’’دجال کانا، انتہائی سفید اور چمکدار ہوگا، اس کا سر افعی سانپ کے مانند ہوگا، وہ لوگوں میں سے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ ہوگا‘‘۔ (التعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان ۶۷۵۸، مسند احمد ۱؍ ۲۹۹، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ ۱۱۹۳)

     اب جھوٹے مدعئی مہدویت اور مہدئ حقیقی کا فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر میں مرحلہ وار جائزہ لیتے ہیں، تاکہ حقیقت آشکارا ہو جائے:

ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بکجا

     ۱- امام مہدی کی حیثیت ایک خلیفۂ راشد کی ہوگی، ان کا سب سے اہم کارنامہ اللّٰہ کے راستے میں جہاد اور عدل و انصاف کا قیام ہوگا۔

جبکہ فی زمانہ مدعء مہدویت شکیل بن حیف (یا اس کے سوا بھی دیگر مدعیان مہدویت) ان دونوں کارناموں سے عاری ہیں۔

     ۲- آپ اس امت کے آخری مجدد اور خلیفۂ راشد ہوں گے، نہ وہ مہدویت کا دعویٰ کریں گے اور نہ لوگوں کو اپنے آپ پر ایمان لانے کے لئے کہیں گے۔

جبکہ شکیل بن حنیف تو خود ہی مہدویت کا دعویٰ کر رہا ہے، وہ خود اور اس کے کارندے (عوام میں گمراہی و ارتدادانہ نظریات پھیلاتے ہوئے) اس پر ایمان لانے، اس سے ہاتھوں پر بیعت کی مہم چلا رہے ہیں۔

     ۳- وہ صلحائے امت میں سے ایک عظیم شخصیت ہوں گے، لوگ ان کے ہاتھوں پر اطاعت اور جہاد کی بیعت کریں گے، جیسا کہ خلفائے راشدین کے ہاتھوں پر صحابہ کرام نے بیعت کی تھی۔

اس کے برعکس شکیل بن حنیف کا صالحیت سے دور دور تک واسطہ نہیں ہے، نونہالانِ امت کو جبراً (بہلا پھسلا کر) اطاعت و بیعت پر آمادہ کر رہا اور کروارہا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب تفصیل سے امام مہدی کے بارے میں بتایا کہ:

     ۴- ان کا نام محمد ہوگا، والد کا نام عبداللہ ہوگا، وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بڑے صاحبزادے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہوں گے، مدینہ منورہ میں ولادت ہوگی، مکہ مکرمہ میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان دورانِ طواف لوگ آپ کو پہچانیں گے اور آپ کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے۔

جبکہ فی زمانہ مدعء مہدویت کا نام تو شکیل ہے، اس کے والد کا نام حنیف ہے، باعتبار نسب و نسل کے حسنی بھی نہیں ہے،اور حسب کا تو پتہ ہی نہیں ہی (نجیب الطرفین ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے)، اس کی پیدائش مدینہ کی بجائے (شمالی ہند کی ایک ریاست) بہار کے مضافات دربھنگہ کے ایک گاؤں عثمان پور میں ہوئی ہے، مکہ مکرمہ میں پہچانے جانے کی بجائے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اپنے کارندوں کی وساطت سے اپنی پہچان خود کروا کر اطاعت و بیعت کے لئے آمادہ کر اور کروا رہا ہے۔

     ۵- امام مہدی عیسائیوں کو شکست دیں گے، ان کا قیام دمشق کی جامع مسجد میں ہوگا، آپ کی شناخت کے چھ سال بعد دجال کا خروج ہوگا، آپ کی مدد کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتارے جائیں گے، امام مہدی اپنے ہاتھوں پر بیعت کے بعد سات سے نو سال تک زندہ رہیں گے۔

جبکہ شکیل بن حنیف مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کو اپنی مرکزی قیام گاہ بناکر مسلمانوں کو (گمراہی کے راستے پر ڈالنے)شکست دینے میں مصروف و مشغول ہے، بالخصوص جنوبی ہند کے علاقوں میں لوگوں کی دین سے ناواقفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فتنے پھیلانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔

     اب رہا نزولِ حضرتِ عیسیٰ کا بیان تو اس سے قبل تسہیل تفہیم کے لئے تمہیداً یہ جاننا ضروری ہے کہ:

      یاجوج و ماجوج اور دجال دونوں کا زمانہ الگ الگ ہوگا، دجال کا ظہور حضرت مہدی کے زمانے میں ہوگا، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کو ’’باب لُد‘‘ پر قتل کریں گے، اور یاجوج ماجوج کا خروج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی، حضرت مہدی کے وصال، اور دجال کے ہلاک ہونے کے بعد ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بددعاء سے ہلاک کردیئے جائیں گے۔

   نزولِ عیسیٰ:

   حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق میں ہوگا، عین اس وقت جب کہ نماز فجر کی اقامت ہوچکی ہوگی، جامع دمشق کے شرقی منارہ کے پاس نزول فرمائیں گے۔ آپ علیہ السلام اپنی دونوں ہتھیلیاں فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے، ان کی تشریف آوری پر امام مہدی (جو مصلے پر جاچکے ہوں گے) پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان سے امامت کی درخواست کریں گے، مگر آپ علیہ السلام امام مہدی کو حکم فرمائیں گے کہ نماز پڑھائیں کیونکہ اس نماز کی اقامت آپ کے لیے ہوئی ہے: کذلک إذ بعث اللّہ المسیح بن مریم فینزل عند المنارۃ البیضاء شرقي دمشق بین مہزودتین واضعًا کفیہ علی أجنحۃ ملکین۔ (مشکوٰۃ شریف: ۴۷۳) مستفاد آپ کے مسائل او ران کا حل: ۱؍۱۸۷۔

      حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پوری وضاحت سے بیان فرمادیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر صلیب کو توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور تمام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے، پس اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کردیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے۔ روئے زمین پر امن وامان کا دور دورہ ہوگا، شیر اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس برس ٹھہریں گے، پھر ان کی وفات ہوجائے گی، مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور ان کو دفن کردیں گے۔ (مسند احمد: ۲؍ ۴۰۶، فتح الباری: ۶؍ ۲۵۷)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔