شہادتِ بابری مسجد: چند غور طلب پہلو

محمد اسعد فلاحی
6؍ دسمبر کادن باشندگان ملک کے لیے غم کا دن بھی ہے اور حساب کا دن بھی۔ہر سال یہ دن اپنے ساتھ تاریخ کے سیاہ اوراق کی یاد دہانی کراتاہے ۔ اس دن کی یاد تازہ ہوتے ہی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں ،جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے ،روح کانپ اٹھتی ہے۔آخر ایسا کیوں نہ ہو ؟یہ دن اپنے ساتھ ایک عظیم حادثہ کی یاد دہانی کراتا ہے کہ دن کے اجالوں میں سب کی آنکھوں کے سامنے اللہ کے گھر کو شہید کر دیا گیا، ساتھ ہی ان خوف ناک فسادات کی تصویر بھی سامنے آجاتی ہے جن میں ہزاروں معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔بابری مسجد کی شہادت کا دن ملت اسلامیہ کی تاریخ میں ایک سیاہ باب ہے ، جوعرصے تک ملت کو کچوکے لگاتا رہے گا ۔
ِ بابری مسجد کی شہادت کو 24؍ سال ہو چکے ہیں ۔ 6؍ دسمبر1992ء کی تاریخ،، ہندوستان کی متعصب اور سیکولر حکومت کے دامن پر ایک بدنما داغ ہے ،جسے تاریخ میں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ مسجد اترپردیش کے فیض آباد کے مقام ایودھیا میں واقع ہے ۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد 1527ء ؁ میں مشہور مغل شہنشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے حکم سے ، اس کے گورنر میر باقرنے تعمیر کرائی تھی ۔ یہ صوبۂ اترپردیش کی ایک عظیم مسجد اور مسلم فن تعمیر کا ایک شاہ کار تھی ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے اسلاف کی یہ روشن نشانی متعصب شرپسندوں کے ذریعہ شہید کر دی گئی اور اس کی جگہ پر ایک مندر کی بنیاد ڈال دی گئی ۔ شرپسندوں کا دعوی ہے کہ پہلے بابری مسجد کی جگہ پر ایک رام مندر تھا ،جسے گراکر وہاں مسجدتعمیر کی گئی تھی۔ یہ الزام سراسر جھوٹ پر مبنی تھا ۔ اس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں ۔
مسجد کی شہادت کا واقعہ اچانک رونما نہیں ہوا تھا ،بلکہ شر پسندوں(شیو سینا،بجرنگ دل ،وشو ہندو پریشد) کے ذریعہ اس کی پوری منصوبہ بندی کی گئی تھی اور6؍دسمبر 1992ء کو ہزاروں مجرمین پر مشتمل لوگوں نے نیم فوجی دستوں کی موجودگی میں اس تاریخی مسجد کو شہید کر دیا۔اس کے بعد ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا بدترین سلسلہ شروع ہوا، جس میں کم و بیش تین ہزار سے زائد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اس الم ناک واقعہ سے پورے عالم اسلام میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی ۔
شیطانوں نے اپنے گھناؤنے کاموں کی انتہا پر پہنچنے پر بھی بس نہیں کیابلکہ وہ اس بات کو علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ مسلمان بابری مسجد کو بھول جائیں اور دوسری ان مسجدوں سے بھی دست بردار ہو جائیں جو ان کے بقول ’مندر‘ ہیں ۔ بہت سی مسجدوں پر بے بنیاد دعویٰ کیا جا رہا ہے ، جو بقول سنگھ پریوار کبھی مندر تھے یہ شر انگیز مہم سیاسی اقتدار کے لیے جاری رکھی گئی۔ اب مرکز میں نریندر مودی کی سرکار بننے کے بعد نہم مزید شدید ہو گئی ہے ۔ بابری مسجد کے مسئلے کا استعمال ایک عرصہ سے سیاسی دکانیں چمکانے کے لیے ہوتا رہا ۔بی ۔جے ۔ پی اس معاملہ میں آگے تھی ،لیکن سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیاں بھی اس موضوع پر سیاسی روٹیاں سینکتی ہوئی نظر آئیں ۔
بابری مسجد میں 1949ء بعض مجرموں نے رام کی مورتیاں نصب کیں تو دونوں فریقین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔حکومت نے اس جگہ کو متنازعہ قرار دے کر مسجد کے دروازہ پر تالا لگا دیا ۔ مگر پھر 1980ء کی دہائی میں ایک بار پھر جان بوجھ کر اس مسئلہ کو متنازعہ بنادیا گیا ، 1986ء میں ویشو ہندو پریشد کے پرچم تلے خیالی ’رام جنم بھومی‘ کو آزاد کرانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ بعد میں بی۔ جے۔ پی کے سربراہ لال کرشن ایڈوانی نے اس مہم کی قیادت سنبھالی تھی۔مسجد کی شہادت کے بعد انکوائری کمیشن مقرر کیا گیا، جس کو تین ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ،لیکن کمیشن کی درخواست پر 48 مرتبہ اس کی مدت میں توسیع کی گئی جب رپورٹ تیار ہوئی تو اس میں بتایا گیا کہ بابری مسجد کی شہادت کے لیے بہت تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ آر۔ ایس۔ ایس اور کے رہنماؤں نے جس طرح عوام کے جذبات بھڑکائے اس کی حالیہ دنوں میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔
لمبے عرصے تک مقدمہ چلنے کے بعد آخر کار ستمبر 2010ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے فیصلہ سنایا اور متنازعہ جگہ کو بٹوارہ کر کے تین حصوں مین منقسم کر دیا ، جس میں دو حصے ہندؤں کو دیے اور ایک حصہ مسلمانوں کو دیا۔اس طرح بہ الفاظ دیگر مسجد کی جگہ پر رام جنم بھومی کے دعوے کو تسلیم کر لیا گیا ۔ فیصلہ بہ ظاہر بڑے مبہم انداز میں سامنے لایا گیا ،مگر دراصل یہ فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہے ۔مشہور ہندو عقیدے کے مطابق رام چندر جی کو ساتواں اوتار کہا جاتا ہے ،جو رائج روایات کے مطابق آج سے تقریباًدس لاکھ سال قبل پیدا ہوئے تھے ۔ عدالت نے دیو مالائی کہانیوں کو اہمیت دی ،وگر نہ تاریخ میں اس طرح کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ جس مقام پر مسجد تعمیر کی گئی ہے وہاں کسی مندر کا نام و نشاں تھا۔
مسجد کا انہدام ایسا واقعہ نہیں جس پر خاموشی اختیار کی جائے ، اس طرح کے واقعات کا ایک سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ شرپسند اورمتعصب عناصر کی سر گرمیاں انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں، انھوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ مساجد کو جارحیت کا نشانہ بنایاجاتا ہے اور مدرسوں سے آتنک جیسی گھناؤنی چیز کو جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بربریت کی تازہ مثال دادری کا واقعہ ہے ،جہاں ایک انسان کو محض افواہ پر چند شر پسندوں نے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ حکومت ان معاملات میں خاموش تماشائی بنی رہی ۔
ہمارے غور کرنے کا اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ کا گھر ہماری شامتِ اعمال سے شہید کردیا گیا ،اس کے علاوہ نہ جانے کتنی مساجدہیں جو ہماری غفلت اور بے راہ روی کی وجہ سے غیر آباد ہیں ، یہ ہمارے لیے محاسبہ کا موقع ہے۔ہمارا فرض ہے کہ ہم مسا جد کو اپنی نمازوں اور تلاوت سے آباد کریں، تاکہ ہندوستان میں پھر کوئی مسجد منہدم نہ ہو سکے ۔
اس وقت حالات نازک ہیں ۔مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے ۔ہمیں ان سیاسی جماعتوں کے بجائے اللہ پراور پھر خود پر بھروسہ کرنا ہوگا ، مسجدیں آباد کرنی ہوں گی،اختلافات کے بھنور سے نکل کر اتحاد کی راہ اختیار کرنی ہوگی، تبھی ہم عزت کی زندگی گزار سکیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔