شہید اعظم ٹیپو سلطان سے انگریز خائف رہتے تھے!

عبدالعزیز

تاریخ ہند شاہد ہے کہ سنگھ پریوار آزادی سے پہلے نہ محب وطن تھا اور نہ مجاہد آزادی تھا بلکہ انگریزوں کا وفادار اور خوشامدی تھا۔ اس کے برعکس شہید اعظم حیدر علی ٹیپو سلطان اپنے وقت کے سب بڑے مرد میدان تھے جس کے نام سے انگریز ڈرتے تھے۔ گورنر جنرل کار نوالس نے مدراس کے گورنر میڈوز کو اپنے خط میں لکھا ہے کہ:

’’اس ملک میں اپنی شہرت، عزت اور وجود قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ٹیپو سلطان سے نبرد آزما ہوں۔ ہمیں اس طاقت کو ہمیشہ کیلئے مٹا دینا چاہئے۔ اس کیلئے یہ سب سے اچھا موقع ہے کیونکہ ہندستان کی دوسری طاقتیں ہماری امداد کر رہی ہیں۔ اگر ٹیپو سلطان کو اس طرح چھوڑ دیا جائے تو ہمیں ہندستان کو خیر باد کہنا پڑے گا‘‘۔

سرٹی مینرو نے کمپنی کے ذمہ داروں کو اپنے ایک خط میں تحریر کیا ہے کہ:

’’ہماری فوجی قوت ایسی ہے کہ موقع دیکھ کر ہم بہ آسانی پورے ہندستان پر قابض ہوسکتے ہیں لیکن ٹیپو کی طاقت اس میں سنگ گراں کے طور پر حائل ہوئی ہے۔ اگر سرنگا پٹنم پر قبضہ ہوجائے تو تمام معاملات آسان ہوجائیں گے۔ اس کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ باضابطہ منصوبہ بندی کی جائے‘‘۔

کارنوالس نے صلح نامہ سرنگا پٹنم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

ہم نے اپنے دشمن کو بری طرح مفلوج کردیا لیکن ہمارے حلیفوں کی طاقت میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا‘‘۔

26 جنوری 1799ء کو قاہرہ سے بھیجے گئے اپنے ایک دستخطی خط میں نپولین نے لکھا تھا کہ:

’’بنام جلیل القدر سلطان! ہمارے عزیز ترین دوست ٹیپو! ایک لاتعداد اور ناقابل شکست فوج کے ساتھ آپ کو انگلستان کے آہنی پنجہ سے نجات دلانے کی خواہش کے ساتھ بحر احمر کے کنارے پر میں آیا ہوں۔ میں یہ معلوم کرنے کا دلی آرزو مند ہوں کہ آپ کا سیاسی موقف کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے کسی قابل اعتماد آدمی کو سوئیز جلد روانہ کردیں جس سے گفتگو کی جاسکے۔ خدا آپ کی طاقتوں میں اضافہ کرے اور آپ کے دشمنوں کو تباہ کر دے‘‘۔

بونا پاٹ کا یہ خط انگریزوں کے ہاتھ لگا تو انھیں ہندستان میں اپنا سیاسی مفاد خطرہ میں نظر آنے لگا۔ اپریل 1897ء میں جب ویلزلی گورنر جنرل بن کر ہندستان آیا تو اس واضح ہدایت کے ساتھ آیا تھا کہ فوراً ہی سلطان کی طاقت توڑ دی جائے۔ اس لئے ایک واضح حکمت عملی کے طور پر اسے ماتحت اتحاد Subsidiary alliance کی پیشکش کی گئی جس کے تحت فرانس کی دوستی ترک کرکے ایک پینشن یافتہ نواب کی طرح زندگی گزارنے کیلئے کہا گیا۔ ٹیپو سلطان نے ان دونوں شرائط کو ٹھکرا دیا۔ جب اس کے بعض امراء نے اسے منظور کرلینے کا مشورہ دیا تو اس کا برجستہ سوال تھا: ’’کیا تم ایک شیر کو یہ نصیحت کرنا پسند کرو گے کہ وہ گیدر کی سی زندگی اختیار کرے‘‘۔

ٹیپو کا یہ انکار گورنر جنرل کے ذریعہ اعلان جنگ سمجھا گیا اور پوری تیاری اور قوت کے ساتھ انگریزوں نے ریاست میسور کے خلاف فروری 1799ء میں میسور کی چوتھی فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا۔ مراٹھا اور نظام حیدر آباد کی فوج کے ساتھ انگریزی فوج پوری جنگی تیاری کے ساتھ دو جانب سے بڑھی۔ انگریزوں کو اس کے باوجود اپنی کامیابی کا یقین نہیں تھا تو اس نے سلطان کے بعض امراء اور افسران مثلاً میر صادق، میر قمر الدین، میر قاسم، میر معین الدین، میر غلام علی، وزیر اعظم پورنیا اور بدرالزماں خاں وغیرہ کو دولت اور عہدہ کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ ان لوگوں نے آخر تک اتحادِ ثلاثہ(Tripple alliance) کی نقل و حرکت سے ٹیپو سلطان کو لاعلم اور دھوکہ میں رکھ کر حالات سے بے خبر رکھا۔ دشمن کو دارالسلطنت میں گھسنے کے تمام مواقع فراہم کئے گئے۔ میر صادق نے اس منصوبہ کے تحت تمام محافظ دستہ کو قلعہ سے تنخواہ کے بہانے بلالیا اور ٹیپو سلطان کے محل سے باہر آنے کے راستہ کو بھی بند کرا دیا۔ اس طرح بآسانی دشمنوں کی فوج قلعہ میں داخل ہوگئی ؎

جعفر اَز بنگال و صادق اَز دکن 

 ننگ آدم ننگ دیں ننگ وطن

ان تمام مایوس کن لمحات میں بھی اس نے ہمت و استقلال کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ملک و قوم کی عزت اور حریت و حمیت کے تحفظ کیلئے جنگ رکھتے ہوئے اس محب وطن نے 4مئی 1799ء کو اپنی جان عزیز قربان کر دی۔ اس حالت میں بھی اس کی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔

بقول کرمانی: ’’چہرہ پر شدید زخم آنے کے باوجود ایک تنگ جگہ پر زخمی شیر کی مانند لڑ رہا تھا، حتیٰ کہ جب وہ گر پڑا تو ایک انگریز نے اس کی مرصع شمشیر بند پر ہاتھ ڈالا۔ اس نے اپنی تلوار سے اسے زخمی کر دیا۔ دوسرے انگریز نے کوشش کی تو وہ بھی زخمی ہوکر گر پڑا۔ ایسی حالت میں اسے دور سے گولی مار دی گئی‘‘۔

انگریزوں پر ایسی ہیبت طاری تھی کہ اس کے باوجود جنرل پارس کو اس کی شہادت کا یقین نہیں ہوا اور ڈھونڈتے ہوئے بمشکل اس کی لاش انبار سے نکالی گئی تو وہ خوش ہوکر چیخ پڑاکہ : ’’آج سے ہندستان ہمارا ہے‘‘۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ سلطان کی شہادت کے بعد ہندستان انگریزوں کیلئے خالی میدان بن گیا جہاں وہ بلا روک ٹوک بڑھتے چلے گئے۔ علامہ اقبالؒ جاوید نامہ میں ٹیپو سلطان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آں شہیدان محبت را امام

 آبروئے ہندو چین وروم و شام

فاش از خورشید و مہ تابندہ تر

خاک قبرش از من و تو زندہ تر

 (جو شہیدوں کا امام تھا۔ جو ہند، چین روم و شام کی آبرو تھا۔ جس کانام مہ و خورشید سے بھی زیادہ تابندہ ہے۔ جس کی قبر کی مٹی ہم زندہ انسانوں سے بھی زیادہ زندہ ہے)۔

اس دن تقریباً بارہ ہزار جان نثاروں نے سلطان کے ساتھ وطن کیلئے جام شہادت نوش کیا۔

شہید اعظم ٹیپو سلطان اپنے وقت کا سب سے بڑا مردِ میدان تھا جس سے انگریز خائف تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک زبردست عالم، مجاہد، وطن پرور، وطن دوست، شیدائے ملک و ملت، انسان دوست، روشن خیال، بیدار مغز اور اوالوالعزم حکمراں تھا جو ہمیشہ وقت سے آگے دیکھتا۔ اس نے بہ یک وقت جنگی و سیاسی تدبیر و تدبر، تعلیمی ترقی، معاشی فلاح اور اخلاقی نظم و ضبط کا اہتمام کیا۔ اس نے ایسے وقت میں فلاحی ریاست کا نمونہ پیش کیا جبکہ پورے ہندستان کے نواب اور راجہ مہاراجہ اپنی رعایا کی ہڈیوں پر عشرت کدے تعمیر کر رہے تھے۔ اس نے سب سے پہلے ’’ہندستان ہندستانیوں کیلئے ہے‘‘ کا نعرہ دیا۔

گاندھی جی کے الفاظ میں:

’’ٹیپو جس قدر بہادر تھا اسی قدر خدا ترس اور بے تعصب بھی۔ اس کی نگاہ میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی برابر تھے اور کسی کے مذہب سے وہ کوئی تعرض نہیں کرتا۔ وطن اور قوم کے شہیدوں میں اس حد تک بلند مرتبہ اور کوئی دکھائی نہیں دیتا‘‘۔

آج جس تحریک کو ہم سو دیسی تحریک کے نام سے جانتے ہیں اس کی بنیاد بھی سلطان ٹیپو نے ہی ڈالی تھی اور اس کا مقصد اپنے ملک کو غیروں کی محتاجی سے بچانا تھا۔ 22فروری 1787ء کو اس نے کالی کٹ کے فوجدار شد بیگ کو لکھا کہ:

تمام تاجروں اور باشندوں کو ہدایت دی جائے کہ انگریز تاجر سے نہ تو کوئی چیز خریدی جائے اور نہ ہی اس کو بیچی جائے‘‘۔

حتیٰ کہ یورپین دواؤں کے استعمال کا بھی روادار نہیں تھا اور نہ ہی مدراس کے بنے ہوئے نمک کا استعمال کرتا۔ صرف اپنے ملک کے بنے ہوئے کپڑے استعمال کرتا اور اپنے ملک کے ہتھیار کو ہی ترجیح دیتا۔ اس کے اسلحہ خانہ سے جنگ کے بعد بے شمار اسلحے ملے لیکن وہ سب ہندستانی ساخت کے تھے۔ ان میں ایک ہزار توپیں تھیں جس میں صرف اکاون (51) یورپین ساخت کی تھیں۔ (باقی)

2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ہندوستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کا کہنا ہے کہ ٹیپو سلطان ایک ہیرو تھے, جس نے انگریز ی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان دےدی تھی۔
    اب سپریم کمانڈر نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا ان کی بات کو چیلنج کرنے کا خطرہ کون مول لے؟
    رام ناتھ کووند صدر جمہوریہ ہندبھی ہیں اور صدر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ان کا تعلق بی جے پی سے تھا۔ (دستور ہند کے تحت صدر جمہوریہ مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتا ہے) صدر کے بہت سے پرانے ساتھیوں کا خیال ہے کہ اٹھارویں صدی میں میسور پر حکمرانی کرنے والا ٹیپو سلطان ایک ہندو دشمن حکمراں تھا، اور اس لیے اس کی ہر یاد کو وہ بھلا دینا چاہتے ہیں۔گذشتہ ہفتے ہی بی جے پی کے وفاقی وزیر اننت کمار ہیگڑے نے ٹیپو سلطان کی سالگرہ کے کسی بھی جشن میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں ’ٹیپو ایک قاتل اور اجتماعی ریپسٹ‘ تھا۔
    ٹیپو سلطان پر یہ بحث تو پرانی ہے لیکن صدر کے بیان سے اس میں دوبارہ شدت پیدا ہوگئی ہے۔ صدر کووند نے یہ بھی کہا کہ میسور راکٹ بنانے اور استعمال کرنے میں ٹیپو سلطان نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور یہ ٹیکنالوجی بعد میں یورپی ممالک نے استعمال کی تھی!
    تو ٹیپو سلطان کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟ یہ بات تو طے ہے کہ وہ میسور کا راجہ تھا، میسور کرناٹک میں ہے جہاں آج کل کانگریس کی حکومت ہے، اور وہ ٹیپو کے یوم پیدائش کے موقع پر تقریبات منعقد کرتی ہے۔
    یہ بھی طے ہے کہ ٹیپو کی نہ کانگریس سے دوستی تھی اور نہ بی جے پی سے دشمنی۔ نہ اس نے کبھی کوئی الیکشن لڑا نہ کانگریس کی کسی حکومت میں وزارت مانگی۔ لگتا ہے کہ ٹیپو کو جنگوں کا شوق تھا، اور اس نے انگریز فوج کا مقابلہ کیا، کبھی جیتا کبھی ہارا۔
    باقی تقریباً ہر بات پر اختلاف ہے۔ ٹیپو کے انتقال کو اب دو سو سال گزر چکے ہیں اور آج کل جنگیں ٹوئٹر پر لڑی جاتی ہیں جہاں پھر تلواریں کھنچی ہوئی ہیں۔
    سومی بوس نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’ٹیپو سلطان انڈیا سے پوچھ رہا ہے: میرے بارے میں جو فیصلہ کرنا ہے اب بس کر ڈالو!‘
    ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اننت کمار ہیگڑے کے نظریے کو درست ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، دوسری طرف وہ جن کے لیے ٹیپو سلطان ایک انصاف پسند رہنما تھا جس نے بغاوت کرنے والوں کی سرکوبی کی، مندر توڑے بھی لیکن ان کا تحفظ بھی کیا۔
    ان میں عام آدمی پارٹی کے رہنما آشوتوش بھی شامل ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ: تاریخ: سری نگیری مٹھ (ہندوؤں کا مذہبی مرکز) کے شنگرآچاریہ نے حملہ آوروں سے حفاظت کے لیے ٹیپو سے مدد کی درخواست کی تھی۔ ذرا بتائیے کہ حملہ آوروں کا مذہب کیا تھا؟
    ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ٹیپو کو قوم پرست کہنے پر کیا بی جے پی صدر حمہوریہ کو قوم مخالف قرار دے کر پاکستان چلے جانے کے لیے کہے گی!

  2. سید فاروق احمد کہتے ہیں

    السلام علیکم
    مضمون بہت اچھا ہے۔
    مگر حضرت ٹیپو کی تصویر داڑھی والی شیئر کریں تو بہت بہتر ہوگا۔
    کیونکہ مخالفین اور دشمنوں نے حضرت ٹیپو شہید کی بغیرداڑھی والی تصاویر کو بہت زیادہ پھیلایا اور مقبول کیا ہے۔
    لہذا
    ادباًگذارش ہے کہ تصویرکو فوراً بدل دیا جائے۔
    جزاک اللہ خیر
    سید فاروق احمد سید علی

تبصرے بند ہیں۔