شیر میسور ٹیپو سلطان (قسط اول)

آصف علی

آں شہیدان محبت را امام
آبروئے ہند و چین و روم شام
نامشں از خورشید و مہ تابندہ تر
خاک قبرش از من و تو زندہ تر
از نگاہ خواجہ بدر و حنین
فقر سلطا ن وارث جذب حسین ؓ

ترجمہ: ٹیپو سلطا ن شہیدوں کے امام ہیں، وہ ہند وستان چین روم اور شام کی عزت ہیں، اُن کا نام چاند اور ستاروں سے زیادہ روشن ہے اور ان کی قبر کی خاک مجھ سے اور تجھ سے زیادہ زندہ ہے،حضور کریم کی نگاہوں میں سلطان ٹیپو کا فقر جذبہ حسینؓ کا وراث ہے.

علامہ اقبال جنہیں مردِ کامل کہتے ہیں، وہ اُن میں سے ایک تھا۔ شاید وہی ایک!

اقبال سال 1929ء میں ایک روز شہید کی قبر پر حاضر ہوئے اور تین گھنٹے وہیں رہے، جب باہر آئے تو شدتِ جذبات سے اُن کی آنکھیں سرخ تھیں۔ فرمایا:

’’ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔‘‘

تاریخ میں دائم وہ ایک لہکتے استعارے کی طرح زندہ رہے گا۔ جس نے زندگی جینے کا ہنر مرتے ہوئے بھی سکھایا۔ یہی عروجِ آدمِ خاکی تھا جس سے انجم سہمے جاتے ہیں۔ جب ٹوٹا ہوا تارہ مہ ِ کامل بنتا ہے۔ ٹیپو برصغیر کے ٹوٹے ہوئے تاروں میں سے ایک تھا جو مہ کامل بن کر اُبھرا۔ انسانیت کے لئے چودہویں کا چاند بن کر چمکا۔اُس کی زندگی میں کہاں ممکن تھا کہ انگریز اپنا حقِ اقتدار برصغیر پر جتلاتے۔ تاریخ میں انگریز استعمار کے مقابل سب سے پہلی توانا آواز ٹیپو سلطان کی تھی کہ:

’’ہندوستان ، ہندوستانیوں کے لئے ہے۔ ‘‘

انگریز جانتے تھے کہ ٹیپو کے اِ ن الفاظ کا مطلب کیا ہے؟ چنانچہ اُن کی زندگی میں وہ ہندوستان پر قبضے کا خواب لئے پھرتے رہے۔یہ شہید کی لاش تھی جس پر فرطِ مسرت سے جنرل ہارس اِٹھلایا تھا:

’’آج ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘

شہید کی زندگی میں یہ ممکن نہ تھا، ممکن ہی نہ تھا۔تب ہی تو کلکتہ میں ہی انگریزوں نے جشن مسرت کا اہتمام نہ کیا تھا، بلکہ انگلستان بھر میں اس کی خوشیاں منائی گئیں۔ کلکتہ کے انگریز منصفِ اعلیٰ سر جان اینس ٹروتھر کے الفاظ تاریخ نے محفوظ کر لئے:

’’ٹیپو کی طاقت ہی ہماری فوجوں کو شکست دینے کے لئے کافی تھی۔اس کے مرتے ہی ہندوستان میں ہمارا
قبضہ ہمیشہ کے لئے ہوگیا ‘‘

کیا ایک شخص کی زندگی تاریخ پر اتنا فرق ڈالتی ہے کہ پوری تاریخ اُس کے رحم وکرم پر ہو۔ زمانے کی پوری روح اس میں بولتی ہو، وقت کا پورا بہاؤ وہ تھامے رکھتا ہو؟افسوس اس شخص کا کبھی پورا مطالعہ نہیں کیا گیا جسے رہتی دنیا تک تاریخ کے رومان میں زندہ رہنا ہے۔ سلطان نے صرف اڑتالیس برس کی عمر پائی۔ اور سلطنت ِ میسور پر سترہ بر س حکمرانی کی۔اُنہیں سلطنت کی ذمہ داری 7 دسمبر 1782ء کو حیدر علی کی موت کے بعد اُٹھانا پڑیں۔ اور وہ 4؍ مئی 1799ء کو شہید کئے گئے۔ ان سترہ برسوں میں انگریز اُن سے مسلسل نبرد آزما رہے۔وہ ان جنگوں میں دادِ شجاعت دیتے دیتے سلطنت میسور کو ایک ریاستی آہنگ دینے میں مصروف رہے۔ چنانچہ وہ جنگ کی جاں لیوا مصروفیات میں بھی ملکی صنعت وحرفت پر توجہ دیتے رہے۔ سلطان سمجھتے تھے کہ اگر ہندوستان محتاج بنا تو پھر وہ غیر ملکیوں کی تحویل میں چلا جائے گا۔ سلطان نے بین المذاہب ہی نہیں بین الاقوام ہم آہنگی کی بھی کوششیں کیں۔ مگر انگریز سلطان کو گوارا کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ ہندوستان پر اپنے مکمل قبضے کے لئے سلطان کو رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اگر تاریخ اس کردار کی حفاظت کرتی اور اُنہیں غداروں کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو آج برصغیر کا دھار ا مختلف رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ سلطان کی زندگی کو دیکھ کر یہ بات جتنے اعتماد سے ان کے لئے کہی جاسکتی ہے اور کسی کے لئے نہیں کہی جا سکتی۔

سلطان کا یوم وفات برصغیر کی مسلم تاریخ کا حقیقی روزِ ماتم ہے۔ 4؍ مئی کو جب سلطان کو اطلاع ملی کہ شاہی توپ خانے کا سردار سید غفار شہید ہوگئے تو اُنہوں نے کہا :

’’مجاہد موت سے نہیں ڈرتے، سید غفار بھی کبھی موت سے نہیں ڈرا۔‘‘

پھر سچے مجاہد نے نوالہ وہیں چھوڑا اور کھڑے ہوگئے۔ تب سلطان نے غدار امرا ء ووزراء پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا کہ:

’’اس غداری کا نتیجہ تمہیں اس وقت معلوم ہوگا جب تم اور تمہاری آئندہ نسلیں اس ملک میں محتاج اور ذلیل ہو کر ایک ایک دانہ چاول اور پیاز کی ایک ایک گھٹی کو ترسے گی۔‘‘

پھرمجاہد سلطان نے تلوار سنبھالی اور آگے بڑھ گئے۔ننگ ملت ، ننگِ دیں ، ننگ وطن میر صادق نے تب قلعے کا دروازہ بند کردیا کہ مبادا مجاہد سلطان واپس محفوظ قلعے کی طرف پلٹ نہ آئیں۔وہ ایک ہاتھ سے مجاہد سلطان کے آگے آداب بجا لاتا رہا اور دوسرے ہاتھ سے انگریزوں کو اشارے کرکے ایک ایک جگہہ اُن کے حوالے کرتا رہا۔سلطان کی شہادت کے بعد اُن کی تدفین کا منظر بھی تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔ بجلیوں کی کڑک اور بارش میں جب اُنہیں قبر میں اُتارا جارہا تھا تو مسلمان زاروقطار روتے رہے۔ اُن کے آنسو بارش کے صاف پانی میں ملتے رہے ،انگریز ابوالفتح ٹیپوسلطان کی شہادت پر اپنا سرفخر سے بلند کئے ہوئے تھے مگر تب وہ آنسو ایک تاریخی حقیقت کو ظاہر کرتے تھے کہ’’ اِس شیر کو ہم نے مارا ہے ، اِسے تم کہاں مارسکتے تھے۔ ‘‘مگر یہ آواز بجلی کی کڑک میں کہیں گم رہی۔ آنسوؤ ں میں بھیگی بھیگی رہی۔

’’اس غداری کا نتیجہ تمہیں اس وقت معلوم ہوگا جب تم اور تمہاری آئندہ نسلیں اس ملک میں محتاج اور ذلیل ہو کر ایک ایک دانہ چاول اور پیاز کی ایک ایک گھٹی کو ترسے گی۔‘‘(ٹیپو سلطان)

میر صادق کے اہداف کچھ اور رہے ہوں گے، مگر تب ہندو انگریزوں کا ساتھ اس لئے دے رہے تھے کہ وہ سلطنت کا خاتمہ کر کے یہاں ایک بار پھر ہندو راج کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ہندوؤ ں نے سلطان سے قبل حیدر علی کی موت سے بھی پہلے 28؍ اکتوبر 1782ء کو میسور میں ہندوراج قائم کرنے کے لئے انگریزوں سے ایک تحریری معاہد ہ کیا تھا۔ ہندوراج کی دیرینہ خواہش میں تب وہ ہندو جو سلطنت میں حسنِ سلوک کے ساتھ اعلیٰ مناصب پر فائز کئے گئے، غداری کے مرتکب ہوئے۔ ایک طرف میر صادق ، معین الدین اور میر قاسم علی جیسے کردار تھے تو دوسری طرف پورنیا نامی مخلوق بھی تھی۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے عین جنگ کے موقع پر سپاہیوں کو پیغام بھیجا کہ وہ آکر اپنی تنخواہیں لے لیں۔ اس طرح سپاہیوں سے چوکیاں خالی کراکے انگریزوں کو تھما دی گئیں۔ ہندوراج کی دیرینہ خواہش نے ان انتہا پسند ہندوؤں کو ہندوستان کے مفادات کے خلاف انگریزوں کا طفیلی بنا کررکھ دیا۔ مگر یہ انتہا پسند صرف مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت پالتے رہے.

سلطان ٹیپو کی پیدائش

حیدر علی کی شادی کو کئی سال گذر جانے کے بعد بھی ان کے یہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ دونوں میاں بیوی بڑے فکر مند رہنے لگے۔ اُن دنوں دکن میں ایک بزرگ حضرت ٹیپو مستان ولی رحمۃ اللہ علیہ بہت مشہور تھے۔ لوگ دور دور سے اُن کے پاس حاضر ہوتے اور اپنے لیے دعا کراتے تھے۔ حیدر علی نے جب یہ خبر سنی تو وہ بھی ایک روز حضرت ٹیپو مستان ولی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی۔ حضرت ٹیپو مستان رحمۃ اللہ علیہ نے دعا کے ساتھ یہ خوش خبری بھی سنائی کہ:

’’ اللہ تعالیٰ جلد ہی تمہارے گھر ایک بیٹا پیدا کرے گا جس کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘

حضرت ٹیپو مستان رحمۃ اللہ علیہ کی دعا قبول ہوئی اور20؍ ذی الحجہ 1142ھ مطابق 20؍ نومبر 1750ء کو جمعہ کے دن حیدر علی کے گھر ایک چاند سا خوب صورت بیٹا پیدا ہوا۔ حیدر علی نے بارگاہِ الٰہی میں سجدہ شکر ادا کیا اور خزانے کا منہ کھول دیا۔ خوب خیرات کی۔ صدقے دیے اور چالیس روز تک جشن منایا۔ چوں کہ یہ بچہ حضرت ٹیپو مستان رحمۃ اللہ علیہ کی دعا سے پیدا ہوا تھا اس لیے حیدر علی نے عقیدت و محبت میں اپنے اس بیٹے کا نام  ’’فتح علی ٹیپو‘‘  رکھا۔

سلطان ٹیپو کی پیدائش حیدر علی کے لیے نیک فال ثابت ہوئی۔ اُن کے دن پھر گئے۔ ٹیپو جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے۔ حیدر علی کو ترقی ملتی گئی۔ وہ جس مہم پر بھی گئے وہاں سے فتح و کامرانی حاصل کر کے لوٹے۔ وزیر اعظم نند راج نے انہیں بغاوت کچلنے کے لیے ڈنڈیکل روانہ کیا۔ حیدر علی نے اپنی خدا داد ذہانت اور بہادری سے باغیوں کا سر کچل کر بغاوت پر قابو پا لیا۔ راجا حیدر علی کے اس کارنامے سے بے حد خوش ہوا اور حیدر علی کو ڈنڈیکل کا گورنر مقر ر کر دیا۔

فتح علی ٹیپو اپنے باپ حیدر علی کے ساتھ ڈنڈیکل میں بڑے لاڈ پیار سے پرورش پاتے رہے۔ حیدر علی نے ڈنڈیکل کا بگڑا ہوا نظم و نسق درست کیا اور بغاوت پر مکمل طور پر قابو پا لیا۔ راجا نے حیدر علی کی مزید ترقی کر دی۔ وہ میسور کی راجدھانی سری رنگا پٹّم واپس آ گئے۔1754ء میں مرہٹوں نے میسور پر حملہ کر دیا۔چوں کہ میسور کا راجا کمزور تھا اِس لیے اُس نے مرہٹوں کو تاوانِ جنگ دینے کا وعدہ کر کے صلح کر لی اور اپنے کچھ علاقے مرہٹوں کو سونپ دیے۔ اس طرح میسور سے ایک بڑی جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ راجا کے اِس فیصلے سے میسور کی فوج کے بہت سارے ذمہ دار ناراض ہو گئے۔ جب مرہٹہ سردار گوپال راؤ نے 1755ء میں دوبارہ میسور کے راجا سے ایک کروڑ روپے ہرجانے کا مطالبہ کیا تو راجا کے درباریوں نے اس پر مقابلے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ آخر کار مراٹھوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے کے لیے حیدر علی کو فوج کا سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا۔ حیدر علی نے اس جنگ میں مرہٹوں کو عبرت ناک شکست دی۔اِس فتح کی خوشی میں راجا اور وزیر اعظم نے حیدر علی کو میسور کی تمام فوج کا سپہ سالار مقر ر کر دیا۔

سلطان ٹیپو کی تعلیم و تربیت

اب حیدر علی کا زیادہ تر وقت سری رنگا پٹّم میں گذرتا تھا۔ ٹیپو کی عمر جب پانچ سال کی ہوئی تو اس کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ٹیپو کو پڑھانے کے لیے حیدر علی نے اس وقت کے ماہر اور بہترین اساتذہ کو مقر ر کیا۔ جنہوں نے ٹیپو کی اُس خوش اسلوبی سے تربیت کی کہ وہ جلد ہی مختلف علوم و فنون کے ماہر بن گئے۔ ٹیپو کو اِن اساتذہ نے دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی زبان بھی سکھائی۔ اگرچہ حیدر علی کو انگریزی اور فرانسیسی زبانیں نہیں آتی تھیں لیکن اُس نے ٹیپو کو یہ غیر ملکی زبانیں اس لیے سکھائیں کہ وہ انگریزوں اور فرانسیسیوں سے آسانی کے ساتھ انہیں کی زبان میں بات چیت کرسکے۔

ٹیپو کو مطالعہ کا اتنا شوق تھا کہ دن بھر کتاب ہاتھ سے چھوٹنے نہ پاتی تھی۔ ایک روز کتاب پڑھنے میں مشغول تھے کہ وہاں حیدر علی آئے۔ سلطان ٹیپو کو ان کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی تو حیدر علی نے ٹیپو سے یوں کہا :’’ جانِ پدر! سلطنت کے لیے قلم سے زیادہ تلوار کی ضرورت ہے۔‘‘ ٹیپو پر اِس جملے کا بڑا اثر ہوا اور اُس کی زندگی کا رُخ ہی بدل گیا۔ جنگجو دادا اور بہادر باپ کے اِس شیر دل بیٹے نے فنونِ جنگ میں بڑی مہارت حاصل کر لی۔ گھڑ سواری اور نیزہ بازی میں اس کا مقابل پورے ملک میں کوئی نہ تھا۔ تیر اندازی اور تلوار بازی میں بھی ٹیپو ماہر اور یکتا بن گیا۔ حیدر علی نے اس کی جنگی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اسے جنگ کے داؤ پیچ بڑی باریکی سے سکھائے۔

صرف سولہ سترہ سال کی عمر ہی سے ٹیپو کی جنگی فہم و فراست کے جوہر کھلنے لگے۔ وہ کم عمری ہی میں ایک لائق جنرل کے روپ میں سامنے آئے۔ مرہٹوں سے جنگ میں اپنے باپ حیدر علی کے ساتھ ٹیپو نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ حیدر علی نے جب ٹیپو کی بہادری اور جواں مردی دیکھی تو آزادانہ طور پر ایک مختصر فوج کی کمان سونپ دی۔

ٹیپو کی تربیت میں ان کے باپ حیدر علی نے ایک اور اہم بات کا خاص جو خیال رکھا وہ اپنے وطن بھارت سے سچی محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن ہی سے ٹیپو کے دل میں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے صرف آزادی کی لگن تھی۔ وہ کہتے تھے کہ :’’ ہندوستان ہندوستانیوں کاہے۔‘‘ اُن کی بہادری اور بلند ہمتی کا اندازہ ان کے ایک مشہور قول سے لگایا جاسکتا ہے جو کہ ہر آنے والی نسل کے لیے ایک سبق ہے  : ’’ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔‘‘

انگریزوں سے ان کے دل میں بچپن ہی سے نفرت کے جذبات بھرے ہوئے تھے، چناں چہ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں جب پہلی مرتبہ ان کا مقابلہ انگریزوں کی اَعلا تربیت یافتہ فوج سے ہوا تو ٹیپو نے اسے شکست دی اور کوڑیال کا قلعہ جیت لیا۔ اس جنگ میں برطانوی سپہ سالار بہ مشکل اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کام یاب ہوا۔ وہاں سے ٹیپو مدراس کی طرف مڑے اورمیسورکے دشمنوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ انگریزی فوج کے اَعلا عہدے دار اور تجربے کار فوجی افسربھی ٹیپو جیسے نوجوان فاتح کی طاقت و قوت سے کانپ اُٹھے۔

علم دوست حکمران

ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں آپ کو عربی ، فارسی ، اردو ، فرانسیسی ، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ یہ اپنےدورکی ہندوستان کی سب سےبڑی لائبریری تھی .کتب کوذخیرہ کرنےکاکام سلطان ٹیپوکی ہدایت پر1770 میں عمل میں آیاتھا.ایک لائبریرین بھی بھرتی کیاگیاتھا،اس کےعلاوہ ایک مترجم بھی تھاجس کی ذمہ داریوں میں یورپ کےنمایاں تخلیقی کاموں کاترجمہ کرنابھی شامل تھا.اس لائبریری کاایک حصہ مسلمانوں کی مذہبی کتب کےلیےمخصوص تھا،اس کےعلاوہ شاعری کی بھی کتب بھی تھیں.اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے،فلسفہ،سائنس،فزکس،کمسٹری،علم نجوم،علم طب کے علاوہ کچھ ناول بھی اس لائبریری میں موجودتھے. آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔

سلطان ٹیپوکوبچپن سےہی علم سےشغف رہاہے,تاریخ سلطنت خدادمیں اس کاذکران الفاظ میں کیاگیاہے:

٫٫ٹیپوسلطان میں بےحدعلمی ذوق پایاجاتاتھا،جس نےاس کےاندرمطالعہ کاشوق پیداکردیاتھا،کتابیں اس کی رفیق تھیں،اس کےخطوط اس کی قابلیت وصلاحیت اورباریک بینی کی آئینہ دارہیں،نوعمری ہی سےٹیپومیں تحقیق اورعلمی جستجوکاجذبہ پیداہوگیاتھا، سلطنت کے امورسےدل چسپی اورجنگوں میں مشغولیت وانہماک کےباوجودسلطان کےعلمی مشاغل میں کوئی فرق نہیں آتاتھااس کا اعتراف خود انگریزمؤرخین اورفوجی کمانڈروں نےکیاہےجنہوں نےسلطان کی زندگی کامشاہدہ کیاہے.

کرنل کرک پیٹرک نےجس کےذمہ میسورکی سلطنت کےزوال کےبعدسلطان ٹیپوکاذاتی کتب خانہ تھا،اپنی کتاب کےدیباچہ میں رقم طرازہے:

٫٫سلطان کی تحریردوسروں کی تحریرسےبالکل علیحدہ تھی اس کی تحریریں اس قدرمختصراورپرمعنی ہیں کہ ایک ایک لفظ سےکئی کئی معنی نکلتےہیں،،.

سلطان ٹیپواعلی نثرنگاراورباکمال شاعربھی تھا،علم سےذاتی دل چسپی کی دلیل وہ اہم کتابیں ہیں جوان کی نگرانی میں لکھی گئیں،ان میں متعددمضامین اوراشعارخودسلطان کےہیں.

ٹیپوکےکتب خانہ کےنظم کےبارےمیں میجراسٹوارٹ اورپروفیسرآرایس گھوش لکھتےہیں:

کتب خانہ کی ترتیب وتہذیب کےلیےایک مہتممم مقررتھا،سلطان کوتصنیف وتالیف کابڑاشوق تھا،سلطان کےقلم اورفرمائش سےمتعددکتابیں لکھی گئیں،یہ کتابیں زیادہ ترفوجی اوردیوانی معاملات سےمتعلق تھیں،سلطان کےفرامین یورپ کےکتب خانوں میں محفوظ ہیں،سلطان جس کتاب کامطالعہ کرلیتےاس پروہ مہرلگادیتے،اس طرح اکثرکتابوں پران کی مہریں لگی ہوئی ہیں..
تاریخ سلطنت خدادادکےمطابق کلکتہ کی ایشیاٹک سوسائٹی بنگال میں سلطان کی چودہ کتابیں موجودہیں،اس کےعلاوہ اردوکی تمام کتابیں انڈیاآفس لائبریری لندن میں موجودہیں،جن کاذکرمیجراسٹوارٹ نےاپنی مرتبہ فہرست میں کیاہے.سلطان کےکتب خانہ اورعلمی اشتغال کاذکربہت سےمؤرخین نےکیاہے.

سلطان ٹیپومطالعہ کرنےکاشوقین تھا.اس کےبارےمیں کہاجاتاہےکہ وہ سونےسےقبل مطالعہ کرنےکاعادی تھا،باالخصوص ان دنوں میں جب کہ وہ سرنگاپٹم میں اپنےگھرمیں مقیم ہو.کچھ ذرائع کےمطابق کھانےکےاوقات کارکےدوران محل میں بآوازبلندمطالعہ سرانجام دیاجاتاتھا.

اس کےبارےمیں وثوق سےنہیں کہاجاسکتاکہ اس لائبریری کی کتنی کتب کامطالعہ سلطان ٹیپونےکیاتھااورکس قدرعلم کواپنےاندرجذب کیاتھالیکن اس کےکچھ افکارانہی کتب کےمرہون منت تھے.

بہترین حکمراں ومنتظم

سلطان ٹیپودرحقیقت ایک قابل حکمراں کےساتھ ساتھ ایک بہترین منتظم بھی تھے،ان کی  انتظامی صلاحیتوں کااعتراف خودان کےدشمنوں کوبھی تھا.انگریزمؤرخ کیپٹن لٹل کاکہناہےتھاکہ:

جب ہم سلطنت خدادادمیں داخل ہوئےتومحسوس ہواکہ ٹیپواپنی فوج اوراس کی  تنظیم میں یورپ کےکسی بھی مہذب ملک سےپیچھےنہیں ہےاس زمانہ میں تمام شرقی حکمرانوں میں وہ سب سےبہترین منتظم تھا،اس نےبیک وقت مغلوں کےقدیم تجربات اورانگریزوں کےجدیدنظریات سےاپنےانتظامی امورمیں بھرپورفائدہ اٹھایا،تمام سرکاری کاموں کی وہ خودنگرانی کرتاتھااورشام وصبح اسی کام میں مشغول رہتاتھا،چوری ڈاکہ،بدامنی کی صورت میں متعلقہ علاقوں کےافسران کوذمہ دارٹھہراتا.ایک دفعہ اپنےتعلقدارکوکچھ اس طر ح خط لکھا:

بنام میراحمدعلی تعلقدار نرسی پور

25/جنوری 1786عیسوی

تم نےاطلاع دی ہےکہ معزول امیر پہرہ سےفرارہوگیاہے،تم کوفوراًاس کی گرفتاری کاانتظام کرناچاہیے،یہ شخص سرکارکےتیس ہزارروپئےغبن کرگیاہے،ورنہ اس کی ذمہ داری تم پرہوگی.

فقط
ٹیپوسلطان

سلطان نےپوری سلطنت کےنظم نسق کےلیےمختلف شعبےقائم کئےتھے.

مرکزی حکومت:

مجموعی طورپرسلطنت کےنظم ونسق پرپارلیمان کی نظررہتی تھی،اس کومرکزی حیثیت حاصل تھی،اس پارلیمنٹ کانام٫٫زمرہ غم نباشد،،تھاحکومت کےتمام وزراوافسران اس پارلیمنٹ کےرکن تھےاس کےتحت,دفاع،خارجہ،مالیات،تجارت،خارجہ وغیرہ سات بڑےمزمحکمےقائم تھے.

٫٫زمرہ غم نباشد،،سےسلطان کی مرادیہ تھی کہ شخصی اقتدارکاخاتمہ کرتےہوئےملک کی زمام حکومت رعایاکومنتقل کردی جائےاوربادشاہ ایک آئینی حکمراں رہےاس مصلحت سےملک کواندرونی خطرات سےبچاناتھا،اس بات سےپتہ چلتاہےکہ سلطان کےدل میں جمہوریت اورمساوات کاکس قدراحساس تھا.اس سلسلہ میں کرنل ولکس اپنی تاریخ میسورمیں لکھتاہےکہ:

جمہوریت جس کی اس وقت فرانس میں  دھوم تھی وہ یہاں ٹیپوسلطان کےپاس کوئی نئی یاتعجب خیز بات نہیں تھی،اس نےہرشخص کومساوات دےرکھاتھا.

وزارت دفاع:

سلطان نےاس کانام کچھری میرمیراں رکھاتھا،عمومی انتظام کےعلاوہ اس کےذمہ پوری فوج کی دیکھ بھال بھی تھی،ایک سربراہ کےعلاوہ اس کےپندرہ فوجی افسران ممبربھی تھے،پوری فوج کو11/سپہ سالاروں میں تقسیم کیاگیاتھا،اس شعبےکاسربراہ ہندوبرہمن٫٫پورنیا،،تھا،ریاست میسورکی کل افواج تین لاکھ بیس ہزارجوانوں پرمشتمل تھی..ماڈرن میسورکامصنف اپنی کتاب میں لکھتاہےکہ٫٫ملک کی مدافعت کےلیےایک لاکھ اسی ہزارکی بہترین،منظم اورباقاعدہ فوج تھی،اس کےعلاوہ ایک لاکھ باسٹھ ہزارپانچ سوکی امدادی فوج بھی تھی جومختلف فوجی کاموں پرمامورتھی…

بحری فوج:

سلطان نےتخت نشین ہوتےہی بحری بیڑےکی طرف توجہ مبذول کی،اس کاارادہ تھاکہ ایسازبردست بحری بیڑاتشکیل دیاجائےجوساحل ہند کی حفاظت کےعلاوہ ان تمام بحری راستوں کی بھی نگرانی کرےجن سےہوکرمغربی اقوام ہندوستان کوآرہی تھیں.اس مقصد کے لیے اس نے بندرگاہ بصرہ،بوشہر،عمان،اورعدن کاانتخاب کیا.

سلطان کی دوربیں نگاہیں اس زمانےمیں پہچان چکی تھیں کہ جب تک ان  مقامات پرہندوستان کاقبضہ نہ ہو،ہندوستان کی سلامت نہیں رہ سکتااس لیےان بندرگاہوں کےحصول کی کوششوں کےساتھ ساتھ اپنی بحری طاقت کوبھی ترقی دینےکےلیےاحکامات صادرکیے.سلطان نےسومزیدجنگی بحری جہازتعمیرکرنےکےاحکامات جاری کیے,سلطان کی بحری فوج میں دس ہزارپانچ سوملاح تھے،72/توپ کاایک بڑاجہازتھاجس کےماتحت 72/چھوٹےجنگی جہازتھے،46/توپ کاایک اوربڑاجہازجس کےماتحت 66/جنگی جہازتھے..

بورنگ اپنی کتاب٫٫حیدرعلی وٹیپوسلطان،، میں لکھتاہےکہ:

ٹیپوکی آنکھیں جوہمیشہ بیداررہتی تھیں،ان سےایک زبردست بحری بیڑےکی ضرورت بھی چھپی نہیں رہی اس کےمتعلق اس نےایک فرمان جاری کیاجسمیں جہازبنانےکےطریقے،لکڑی کاانتخاب،اورتمام بحری قواعدوضوابط درج تھےاس نےاس فرمان شاہی میں جزئیات تک پربحث کی تھی،یہاں تک کہ جہازوں کےپیندوں کےلیےکس قسم کی دھات اورکیلیں لگائی جائیں،اس میں لکھاہواتھا.اس فرمان کی روسےاس نےایک محکمہ بحری(بورڈآف اڈمیرلٹی)قائم کیاتھاجس میں گیارہ میریم اور30/میربحرتھے..

وزارت تجارت:

اس وزارت کانام کچھری ملک التجارتھا،ملک میں صنعت وحرفت اورتجارت کی دیکھ بھال اس محکمہ کےسپردتھی،رعایاکی فارغ البالی اورملک کی عام  خوش حالی حکومت وقت کی طرزحکمرانی پرمنحصرہے،اس لحاظ سےسلطان ٹیپوکی حکومت یقیناپورےہندوستان میں یگانہ روزگارتھی،بچانن اپنےسفرنامہ میں لکھتاہےکہ:

سلطان ٹیپوایک تجارتی دماغ لےکرپیداہواہواتھا.

میجرآلن لکھتاہےکہ:

ٹیپوبادشاہ ہونےکےعلاوہ ایک بہت بڑاتاجربھی تھا.

سلطان ٹیپونےزمام اقتدارسنبھالنےکےبعدصنعت وحرفت اورتجارت پرخصوصی توجہ دی،اس موضوع پرسلطان نےایک کتب٫٫احکام،، کےنام سے تصنیف کی تھی.یہ کتاب آٹھ ابواب پرمشتمل تھی،اس میں تجارت کےتمام اصول وقواعدمندرج تھے.تجارت کی ترقی اورنگرانی کےلیےایک بورڈآف ٹریڈبھی قائم تھا،غیرممالک سےتجارت کےلیےسترہ کوٹھیاں کھولی گئیں,اندرون ملک صنعت وحرفت کوترقی دینےکےلیےتیس کارخانےقائم کیےگئے,تاجروں کودرآمدوبرآمدکےلیےمحکمہ تجارت یعنی بورڈآف ٹریڈسےمنظوری لازمی تھی.چندمخصوص اشیاکےلیےجیسےصندل،تمباکو،کالی مرچ،اورمعدنیات کےلیےاجارے(مانوپلی)دیےجاتےتھے.
کرنل ولکس تاریخ میسورمیں لکھتاہےکہ:

٫٫تجارت میں سلطان کی یہ تمام جدوجہدایسٹ انڈیاکمپنی کی تجارت اوران کےاحکام ضوابط کی نقل تھی،،.

سلطان کی معاشی پالیسیوں سےسلطنت کی آمدنی میں اضافہ ہوا،ہزاروں آدمیوں کوروزگارملااورسلطنت میسورکافی خوش حال ہوگئی،اورکوئی بےروزگارنہ رہا.ایک انگریزلکھتاہےکہ:

ٹیپوکی زیرحکمرانی میسورتمام ہندوستان میں سب سےزیادہ سرسبزوشاداب اوراس کےباشندےسب سےزیادہ خوش حال تھے.تمام سلطنت میں رعایا،تاجراورکاشت کاروں کی سہولت کےلیےبینک قائم تھے.ان بنکوں کی مخصوص بات یہ تھی کہ غریب طبقہ اورچھوٹےسرمایہ کاروں کوزیادہ فائدہ پہنچایاجاتاتھا.

وزارت خارجہ

سلطان بحیثیت ایک سیاست داں وحکمراں کےاپنی خارجہ پالیسی سےبڑی دل چسپی رکھتاتھاوہ  خوداپناوزیرخارجہ تھااوراسی سلسلہ میں تمام اہم خط وکتابت وہ خودکرتاتھا.ہندوستان  کےاندرقائم مختلف حٰکومتوں مثلاًکشمیر,جےپور,اورجودھ پوروغیرہ کےحکمرانوں سےاس کےاچھےمراسم تھے.

خوداپنےآس پاس قائم ریاستوں مرہٹوں ونظام سےبھی اس نےآخرتک صلح وامن کی بھرپورکوشش کی،ملک کےباہربھی ایران،افغانستان،عمان،ترکی،فرانس وغیرہ کی حکومتوں سےبھی اس کےمراسم تھے.عمان کےساتھ اس کےتعلقات اس قدرخوش گوارتھےکہ مسقط میں دیگرہندوستانی تاجروں کےلیےآٹھ فیصداورایرانیوں کےلیےساڑھےچھ فیصدچنگی تھی جبکہ میسوری تاجروں کےلیےیہ چنگی صرف چارفیصدی تھی.

فرانسیسیوں سےگہرےتعلقات کااندازہ نیپولین کےایک خط سےلگایاجاسکتاہےکہ جب سلطان نےانگریزوں کےخلاف متحدہ محاذ بنانے کے لیے ترکی،فرانس،ایران وافغانستان میں خصوصی سفارتی وفودبھیجےتونیپولین نےجواس وقت مصرفتح کرنے کے بعد بحراحمرکےساحل پرخیمہ زن تھا،سلطان کوایک خط بھیجاجس کاترجمہ ملاحظہ کریں:

میرےعزیزترین دوست جناب ٹیپو!

میں آپ کوانگریزوں کےآہنی شکنجےسےنکالنےکےلیےایک عظیم اورناقابل شکست فوج کےساتھ بحراحمرکےکنارےموجودہوں.آپ کاسیاسی موقف معلوم کرنےکادلی آرزومندہوں،آپ اپنےکسی معتمدخاص کوجلدازجلدمذاکرات کےلیےسویزروانہ کردیں.خداآپ کی طاقت میں اضافہ اورآپ کےدشمنوں کوبربادکرے.

نپولین بوناپارٹ

واضح رہےکہ اس خط کےسواتین ماہ بعدہی سلطان ٹیپونےشہادت پائی. افغانستان کابادشاہ اس کی مددپرنہ صرف آمادہ ہوابلکہ اس کےلیےاپنی ایک بڑی فوج لےکرہندوستان کی سرحدتک پہنچ بھی گیاتھالیکن ایران کےحملہ کی وجہ سےاس کوواپس جاناپڑا.
غرض یہ کہ وہ انگریزسامراج کےخلاف بیرون ہندکےسربراہان مملکت سےرابطہ کرنےوالاپہلاہندوستانی حکمراں تھایہ الگ بات ہےکہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا.

تبصرے بند ہیں۔