شیطانی جال میں پھنسی انسانیت

شہباز رشید بہورو

پوری دنیا ایک عظیم سانحہ سے دوچار ہے۔ وہ سانحہ انسانیت جیسی صفتِ عالیہ سے انسان کا دستبردار ہونے کی صورت میں پیش آرہا ہے۔ پوری دنیا میں شیاطین الانس و الجن نے خباثتوں کا وہ جال بچھایا  ہے کہ جس میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے منسلک افراد پھنس چکے ہیں۔ دانشور، سیاستدان، مذہبی رہنماء، سائنسدان ، تاجر وغیرہ سب شیطان کی فریبی مکاریوں کے میزبانِ خاص ہی نہیں بلکہ مہربانِ خاص بھی بن چکے ہیں۔ دنیا کے تمام لوگوں کی مشترکہ وصفِ انسانیت ، جس کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات کہلانے کا حقدار ہے انسانوں کے ہاتھوں ہی پامال ہوتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ دورِ جدید میں ابلیسی نظام کے سفیروں نے پہلے پہل پوری دنیا میں فکری خباثتوں کے خطوط بڑی جانفشانی کے ساتھ پھیلائے۔ دنیا کے لگ بگ ہر خطہ میں خصوصاََ مشرقی و افریقی دنیا میں وہاں کے باشندوں کے روایتی فکری و عملی نظام میں ہر ممکن دخل اندازی کرکےانتہا کن حد تک اس میں تغیر برپا  کیا۔ بقولِ علامہ اقبال

طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی

اس فکری وعملی دخل اندازی کے نتیجے میں وہاں کی عوام کا اجتماعی مزاج ہی بدل گیا وہ فکری او عملی غلام بننے کے ساتھ ساتھ برائی کے علمبردار بھی بنے۔ انسانیت کی صفت سے انسان کو عاری کرنے کے لیے سب سے پہلے کارکنانِ ابلیس نے انسانوں کی حساسیت کو ختم کر دیا۔ حساسیت سے عاری انسان کے لیے برائی اس کی خلافِ فطرت وضمیر کی شئے کا وجود نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت فطرت وعدل کے مخالف اعمال کی عامل بن چکی ہے۔ آج کے انسان کے لیے جھوٹ ، دھوکہ دہی، بےشرمی ، عریانیت ، بدکاری، وعدہ برخلافی بدکاری وغیرہ جیسے بد افعال  جرم و گناہ کی حیثیت نہیں رکھتےبلکہ ہنر و فن کا درجہ رکھتےہیں۔ انفرادی اخلاقی جرائم میں ملوث انسانیت  کسی بھی  اجتماعی جرم کا سدِ باب نہیں کر سکتی۔ گرچہ یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی دنیا کی اکثریت انسانیت پر ڈھایے جانے والے مظالم کے خلاف اپنی ضمیرانہ ردعمل کا ابھار اپنے وجود کے اندر پاتی ہے۔

اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہی اکثریت بنیادی انسانی اخلاق سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ یہی اکثریت شیطانی وسوسوں کی بنیاد پر ابھرنے والی ہر ایک خواہش کو پورا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے حکام سے سیکس فری معاشرے کا مطالبہ کرتےہیں ، یہی لوگ ہیں جو نا جائز منافہ خوری میں  بھڑ چھڑ کر حصہ لیتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو انفرادی بداخلاقی میں ایک انتہا کو پہنچ چکے ہوتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جو والدین کے نافرمان ہیں، یہی لوگ ہیں جو حرص و طمع کے پیروکار ہیں ، یہی لوگ ہیں جو تکبر و استکبار کے لباس میں  ملبوس اپنے سے کم تر پر زیادتیاں کرنےلگتےہیں ، یہی لوگ ہیں جو شہوت پرستی اور  دیگر متعدد بے شمار صفاتِ رزیلہ کےلگ بھگ  حامل ہو چکے ہیں۔ ایسی عوام کا کسی بھی اجتماعی ظلم و زیادتی کے خلاف سراپا احتجاج ہونا حقیقی معنوں میں کوئی خاص اثر نہیں رکھتا۔ انفرادی سطح پر یہ ظالم عوام انسانیت کا درد رکھنے کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن اپنی روح پر خود اس کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم کا اسے کوئی احساس نہیں۔

انسا نی دنیا کےاس اخلاقی تناظر میں عوامی احتجاج صرف ایک کوئل کی آواز اور مکھیوں کی بھنبھنانے  کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی آوازوں سے گرچہ حرکتِ التفات دیکھی جاسکتی ہے لیکن کوئی قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو کر رکتا نہیں۔ انسانیت کے دشمن شیاطین الانس و الجن کا مطمحِ نظر یہی ہے کہ وہ بحرو بر میں فساد برپا کریں۔ ان کے اس  فساد کی بھیانک صورت  جو قتل و غارت گری کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ، فساد کی جزئیات سے چمٹی ہوئ عوام کبھی بھی روک نہیں سکتی۔ مجرمِ اعظم مغرب اور اس کے حواریوں نے  جو قتل وغارت کا طوفان کمزور، منتشر، منقسم اور مضمحل مسلمان عوام پر افغانستان، عراق، شام ، سوڈان، لیبیا پر ڈھائے وہ پوری انسانی تاریخ میں سیاہ باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ منافق مغرب نے نئے طرز پر دورِجدید میں انسانیت کو مجروح کرنے والے سارے اسباب مع ہتھیار کے تیار کیے پھر بڑی عیاریکے ساتھ ان سے جی بھر کام لیا۔ نائن الیون کا حادثہ خود کراکر مسلم دنیا پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا۔ اس سے پہلے مسلم دنیا کے سینے۔ میں اسرائیل کا خنجر گھونپ کر مسلم دنیا کا گویا ایک قوی بازو ہی کاٹ دیا۔ ان تمام شطرنجی چالوں کے ذریعے مغرب نے اپنی تاریخی تعصب کی آگ میں جل کر اپنے آپ کو سیاہ کردیا۔ اس کے سامنے انسانیت کی کوئ قدروقیمت نہیں، اخلاقی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہی لوگ آج عالمی امن کے ٹھکیدار بنے ہوئے ہیں دنیاکو  عالمی امن کے قیام کے لیے صرف زبانی مشورے دیا کرتے ہیں اور عالمی بد امنی کے لیے عالمی گنڈا ریاستوں کو ہر قسم کی لوجیسٹک تعاون کے ساتھ ساتھ ہتھیار واسلحہ بھی مہیا کرتے ہیں۔

پس چہ باید کرد کے مطابق امت مسلمہ کو اس بحران سے نکلنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول سے چمٹنا چاہیے۔ دلوں میں لگی وہن کی بیماری سے نجات پا نے کا واحد حل یہی ہے۔ اپنے بچوں کو صبح جاگتے اور رات کو سونے سے پہلے خالص دنیا کا درس دینے والی امت ایک ایسی پود کو دنیا کے حوالے کر رہی ہے جن کے رگ و پے میں دینار و درہم کی محبت سرایت کر گئی ہے، غیرت مندی کے بدلے بے غیرتی کا مادہ لیے ہوئے اقوامِ عالم کے سامنے اپنی مسکنت اور ذلت کو پیش کر رہی ہے۔ امتِ مسلمہ پر ڈھایے جانے والے مظالم پر مسلم حکمرانوں کی پر اسرار خاموشی ان کے اندر ایک لا علاج بیماری کی عکاسی کرتی ہے۔ جو حدیث نبویؐ کے مطابق وہن کی بیماری ہے یعنی دنیا کی محبت اور موت سے کراہت۔ اس وہن کی بیماری سے جب تک امت چھٹکارا نہیں پاتی ہے تب تک اسلام دشمن دنیا آگ اور خون کا کھیل اپنی مرضی سے کبھی عالم اسلام کے ایک حصے میں کبھی دوسرے میں رچاتے رہیں گے اور ہم سوائے خاموش تماشائیوں کی سستی وکاہلی کا مجسمہ بے جان بن کرکچھ نہیں کر سکتے۔

برما میں مظلوم انسانوں کی آہیں نہ صرف امتِ مسلمہ کی غیرتِ ایمانی کو پکار رہی ہیں بلکہ پوری دنیا کی عوام سے سراپا درخواست گزار ہیں کہ آؤ اپنی نوع کی حفاظت کرو، اپنے انسان ہونے کے داعوں کو پورا کرو ، آؤ شرف انسانیت کے اعزاز کو بحال کرو، اپنی ماؤں بہنوں کو عصمتوں کی حفاظت کرو۔ لیکن یہ صدائیں پوری دنیا کے لوگوں کی عصبیت، تنگ نظری، قوم پرستی اور ہٹ دھرمی کی دیوارں کے ساتھ ٹکرا کر واپس جاتی ہے۔ ابلیس خوش ہے کہ آدمیت حیوانیت میں تبدیل ہورہی ہے، رحمدلی سخت دلی میں تبدیل ہو رہی ہے ، عظمتِ انسانیت پامال ہو رہی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی خوشی اس پر ہے کہ یہ دنیا آمن گاہ کے بدلے فسادگاہ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اگر کوئ سنجیدہ اقدام دنیا کے حکمران مشرقی وسطی اور برما میں جاری ظلم و تشدد کو روکنے کے لیے نہیں اٹھاتی ہے تو بعید نہیں کہ آسمان سے پتھر اور زمیں کی تھر تھراہٹ دنیا کی اچھی خبر لے۔ قرآنِ مجید میں آیا ہے:

کیا تم نڈر ہوگئے اس سے جو آسمان میں ہے اس سے کہ دھنسا دے تم کو زمین میں پھر تبھی وہ لرزنے لگے۔ یا نڈر ہوگئے ہو اس سے دو آسمان میں ہے اس بات سے کہ برسا دے تم کو مینہ پتھروں کا سو جان لو گے کیسا ہے میرا ڈرانا۔ سورۃ الملک
دنیا کے حکام نے کیا سمجھ کے رکھا ہے کہ مظلوموں کی آہ و بکا کو سننے والا کوئی نہیں۔ نہیں نہیں ان مظلوموں کا مالک وخالق ضرور ان دشمنانِ انسانیت کو عذابْ الیم کی لپیٹ میں لے گا۔ اللہ کے نبی صلی الله عليه وسلم کا فرمانِ مبارک ہے "مظلوم کی بد دعا سے بچو”۔

تبصرے بند ہیں۔