شیعہ سنی ہم آہنگی: میانہ روی واحد راستہ

مسعود جاوید

خیرالامور اوسطہا۔ یعنی ہر کام میں اعتدال سب سے بہتر ہے۔ یہ حدیث ہے اس بارے میں کلام ہے اکثریت کی رائے ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے  یا تو یہ ضعیف حدیث ہے یا کسی دانشور کا قول ہے۔ بہر صورت تشدد کے خلاف یہ بہت مفید مقولہ ہے۔

اعتدال پسندی ، متوازن سوچ اور جذباتیت سے خالی  غیر جانبدارانہ روش اتحاد امت کے عناصر رئیسیہ ہیں اور ملی ہم آہنگی کی ضمانت ہیں۔ بیشتر اوقات اور بالخصوص محرم کے مہینے میں ہماری تقریر وتحرير کا اسلوب معاندانہ ہوتا ہے اور ہمارا انداز موازنہ کرنے والا ہوتا ہے جو بذات خود معیوب نہیں ہے مگر جس پس منظر میں ہم اپنی بات رکهتے ہیں اس سے یہی جهلکتا ہے کہ ہم جانبداری سے کام لے رہے ہیں اور کسی کی دل آزاری مقصود ہے۔ خلیفہ دوم عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا جو عالی مقام ہے اس کے قائل نہ صرف مسلمان بلکہ اقوام عالم کے دانشوران،  مؤرخین اور سیاستداں بهی ہیں۔ ان کی شہادت یکم محرم کو ہوئی تو اگر یوم شہادت منانا ثابت ہے تو منائیں اہل تشیع کے یوم شہادت اور عزاداری کے ساتھ مقابلہ آرائی نہ کریں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بغض معاویہ اور حب علی کے حصار سے اپنے آپ کو باہر نکالیں۔ تاریخی واقعات کو معروضی انداز میں خود بهی سمجھیں اور دوسروں کے سامنے بهی اسی انداز میں ہیش کریں۔ ہمارا روش قطعاً ایسا نہ ہو کہ ایک کی افضلیت ثابت کرنے کی کوشش میں دوسرے کی توہین ہو۔ ۔ حضرت عمر الفاروق رض اور حضرت علی المرتضی رض دونوں بالترتيب خلیفة المسلمين ہیں اور دونوں عشرہ مبشرہ میں سے ہیں حضرت معاویه رض اور حضرت حسین رض  برگزیدہ صحابی ہیں ایک کاتب وحی ہیں تو دوسرے نواسہء رسول صلعم ہیں۔ ان لوگوں کے حق میں غلو کرکے ایک کے احترام میں ضرورت سے زیادہ اہتمام اور دوسرے کے حق میں تنقیص کر کے کہیں ہم اللہ کے نزدیک پکڑ میں نہ آجائیں اس کا خیال ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ ان کے شایان شان القاب کے ساتھ ان کے نام لئے جائیں۔۔ جب اللہ سبحانه وتعالى نے ان کے لئے قرآن مجید میں بشارت دے دی ” رضی اللہ عنہم و رضوا عنه” تو  ہم اس سے رو گردانی نہیں کر سکتے ہیں۔ معصوم تو نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی ذات تهی ان کے علاوہ ان کی امتی میں سے کوئی معصوم نہیں ہے اس لئے ان  تمام لوگوں سے خطاء و نسیان بعید از امکان نہیں ہے تاریخی شہادت ہے کہ  غلطیاں ہوئی ہیں اس کا اعتراف بحیثیت امر واقع ہوناچاہئے نہ کہ بغرض اہانت۔

اسی لئے ہر جمعہ کو خطبہ کے ذریعے مسلمانوں کو  میانہ روی کا درس دیا جاتا ہے۔ ہر ایک کے لئے احترام کا جذبہ سکهایا جاتا ہے۔ اس خطبے میں جس بات پر سب سے زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے ترتیب یعنی حسب مراتب ان کا نام بالترتيب لینا :
قال اللہ تعالیٰ في القرآن الكريم :  ان الله و ملائكته يصلون على النبي يأيها الذين أمنوا صلوا عليه و سلموا تسليما۔

1-اللهم صل على محمد وعلى ال محمد كما صليت على إبراهيم وعلى إبراهيم انك حميد مجيد۔

2- ارحم امتي بامتي أبوبكر   3- و اشدهم في امرالله عمر  4- و اصدقهم حياء عثمان  5- و اقضاهم علي  6 – و فاطمة سيدة نساء اهل الجنة

7-  و الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة۔

ہر جمعہ کو اس  خطبہ کا مقصد مسلمانوں کے ذہن میں برگزیدہ اصحاب رسول صلعم کی عظمت اور  اہل بیت کی محبت  پیوست کرنا ہوتا ہے۔ اس خطبہ سے اس اعتراض کی بهی نفی ہوتی  ہے کہ اہل سنت فرقہ کے لوگ (نعوذ باللہ) اہل بیت سے محبت نہیں کرتے ہیں۔ ترتیب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ پروٹوکول کے اعتبار سے  صدر جمہوریہ کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے گرچہ ایگزیکٹو ہیڈ وزیر اعظم ہے۔

مجهے یاد ہے کہ ضلع کے نومنتخب ڈی سی (ڈی ایم بعض صوبوں میں) کو  ریڈکراس سوسائٹی نے استقبالیہ دیا اس  پروگرام میں میں نے ویکم ایڈریس میں ڈی سی کے بعد ڈی ڈی سی اس کے بعد سپرانڈیپنڈنٹ آف پولیس اور دیگر معزز ہستیوں کو مخاطب کیا۔ پروگرام کے بعد ڈی سی کے پی اے نے چائے کے دوران چپکے سے میری اصلاح کی کہ پروٹوکول کے تحت جس ترتیب سے مجهے مخاطب کرنا چاہیے تها اس میں اس جگہ مجھ سے غلطی ہوئی۔

عربی کا ایک مقولہ ہے : "لکل حدث حدیث ”  یعنی جب جیسا تب ایسا۔ اگر بات شهداء کربلا کی نکلی ہو تو ان کی ضد میں اس وقت آپ کا سید الشهداء حضرت حمزہ کا ذکر کرنا اس بات کی دلالت ہے کہ دوسرے فرقہ کے شہیدوں کی اہمیت کی کاٹ پیش کر رہے ہیں۔ جب اللہ کے رسول صلعم نے کہ دیا : ” حمزة اسد اللہ و اسد رسوله ”  تو کس صاحب ایمان کی جرأت کہ ان کے مقام کو کمتر سمجهے۔ ہمیں اپنے جلیل القدر صحابہ کرام کی خدمات اور شہادتوں کو خوب یاد رکهنا چایئے اور  اپنے بچوں کو بهی  ان واقعات سے روشناس کراتے رہنا چاہیے مگر ایک شخصیت کو دوسری شخصیت کے مد مقابل لاکر برتری اور کمتری ثابت کرنے سے بچنا چاہیے۔
ایک اور بات یہ بهی ہے کہ بر صغیر ہند میں اردو زبان و ادب میں اہل تشیع کو دسترس حاصل رہا ہے اور اس کی ایک وجہ اردو زبان کا بڑا حصہ فارسی مفردات سے پر ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرثیے اردو ادب کا اہم حصہ ہیں اور شیعہ سنی سبهی پڑهتے ہیں۔ دعاء تعویذ کی متعدد کتابیں شیعہ حضرات کی کتابوں سے مستخرج ہیں۔ میں نے اہل سنت والجماعة کے ایک بزرگ ہستی کے یہاں پایا کہ ان کے پاس جو لوگ دعا کی درخواست یا تعویذ کے لیے آتے ہیں ان کو گهر کے دروازے پر آویزاں کرنے کے لئے ایک طغری دیا جاتا ہے۔ میں نے اس طغری کو بغور دیکها تو مختلف خانوں میں اعداد کے علاوہ آیة الكرسي اور اس کے بعد :

لی خمسة اطفی بہا حر الوباء الحاطمة
  المصطفی و الرتضی وابناهما والفاطمة

لکها تها ان بڑے بزرگ رحمه الله کا انتقال ہوگیا تو میں نے ان کے خلیفہ صاحب کی توجہ اس طرف دلائی تو انہوں نے ترمیم کا وعدہ کیا۔ اسی لئے جهاڑ پهونک رقیہ ان کلمات سے کرنا جائز ہے جو قرآنی آیات یا دعاء ماثورہ یعنی حدیث میں جن دعاؤں کا ذکر ہے۔
فن خطاطی بهی ایران کی دین ہے اس لئے کیلنڈر طغرے اور پوسٹر میں سو سال سے جو پیٹرن شیعہ خطاط کے لکهے چلے آرہے ہیں سنی خطاط بهی  اسی کا چربہ لے کر کام چلا رہے ہیں مثلاً براق النبی یعنی اس گهوڑے کی شبیہ جس پر اللہ کے رسول صلعم سوار ہوکر معراج کے لئے سدرة المنتہی تک گئے تهے۔ یا پنج تن :  محمد۔ ۔۔۔ علی۔ ۔۔ فاطمة۔ ۔۔حسن۔ ۔۔۔ حسین۔ کے جلی حروف میں خوبصورت نقش و نگار کے ساتھ کیلنڈر کو مزین کرنا۔

کربلا ایک دردناک تاریخی اور سبق آموز  واقعہ ہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن مکمل دین کو اس میں سمو دینا اور ان کے شریک لوگوں کو ہی حق کا مظہر اور باقی ابتداء اسلام سے لے کر بعد کے زمانے تک کے شہداء کو ثانوی درجہ دینا ہی وجہ اختلاف اور سبب تصادم ہے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں محرم کے اول عشرہ میں لکھنؤ سفر سے  ہمیں روکا جاتا تها جس طرح رام نومی اور دسہرہ میں احتیاط کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شیعہ سنی فساد لازمی تها جس میں دونوں فریقین کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے تلوار و خنجر  سے یا پولیس کی گولیوں سے مرتے تهے۔

ضرورت ہے کہ مسلمانانِ بر صغیر اپنی ترجیحات خود طے کریں کہ شیعہ سنی،  دیوبندی بریلوی ، غیر مقلد اہل حدیث یا مقلد،  حنفی شافعی مالکی حنبلی کے مسائل میں الجهنا ان کے لیے مفید ہے یا اسی توانائی کو تعلیم صحت تجارت اور ملازمت پر صرف کرنا۔؟ اب بس بهی کرو مسلمانو ! بہت ہو چکا۔ enough is enough۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔