صاحب! کا تانا شاہی فرمان

احمد ریحان فلاحی

لیجئے! صاحب کے ایک فرمان نے ہر طرف افراتفری کا ماحول پیدا کر دیا ۔ ہوتا بھی کیوں نہیں صاحب نے جو نوٹ کے ذریعہ عام لوگوں کو چوٹ پہونچانے کا کام کیا ہے۔ بغیر نوٹ کے زندگی کا تصورہی کرنا مشکل ہے صاحب نے اسی پر حملہ بول دیا ہے کہنے کو تو انہوں نے کالے دھن پر قد غن لگانے کی کوشش کی ہے مگر دیکھنے میں کالے دھن پر نہیں بلکہ عام لوگ اس فرمان سے زیادہ پریشان ہیں۔ 8 نومبر کی شام میں ٹی وی چینل والے یہ بتانے لگے کہ8 بجے وزیر اعظم قوم کے نام خطاب کر یں گے۔ لوگوں کے دل میں خیال آیا کہ وزیر اعظم قوم کو سوغات دیں گے۔ سوغات دینے کے بجائے نئی آفات میں مبتلا کر دیا ہمیشہ کچھ نیا کرنے کے چکر میں صاحب نے ایسا نیا کر دیا کہ عوام کی مشکلوں میں اضافہ ہو گیا ۔ صاحب نے اس فیصلے کے لئے جو حوالہ دیا وہ سمجھ سے پرے تھا ۔ ان کا ایک حوالہ تھا اس سے کالے دھن پر روک لگے گی ۔ جب کہ ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف 6 فیصدکیش کی شکل میں کالا دھن ہے ۔ بقیہ دوسری شکل میں اگرارادہ کالے دھن پر ہی روک لگانے کا معاملہ تھا تو پہلے جن شعبہ میں زیادہ کالادھن ہے اس پر قدغن لگانا چاہئے تھا نہ کہ غریب عوام کی محنت سے کمائے گئے روپیوں کو چلن سے باہر کر کے ۔دوسرے پانچ سو اورایک ہزارکے نوٹ بند کرنے سے کالا دھن ختم ہونے کی بات اسلئے اور ہضم نہیں ہو رہی ہے کہ دوہزار کے نئے نوٹ سے اس میں زیادتی ہوگی جہاں پرانے نوٹوں سے کم جگہ میں اس کو رکھا جا سکتا ہے ۔ دوسرا حوالہ تھا فرضی نوٹوں کا چلن ختم ہوگا مگر ایسا بھی ممکن نہیں ہے کیوں کہ ذرائع کے مطابقددو ہزار کے اصلی نوٹوں سے پہلے بازار میں نقلی نوٹ آگئے اس سے وزیر اعظم کے دعوے کی نفی ہورہی ہے۔ اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی کیا خاص بات ہے ان نوٹوں میں کی اس کی فرضی نہیں بن سکتی ۔ ایک اور حوالہ یہ تھا اس سے دہشت گردوں پر لگام لگے گی ۔ وزیراعظم کے سارے حوالوں میں کوئی ایک بھی پوائنٹ ایسا نہیں تھا جو نوٹوں کو بند کرنے کے جواز میں معقول نظر آرہا ہو ۔ صرف اس تانا شاہی فرمان سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو ایک بھی سفید پوش بینک کی قطار میں نظر نہیں آرہے ہیں جو بھی ہیں وہ سب عام آدمی ہیں جو اپنی محنت کی کمائی کو ایک مرتبہ پھر پسینہ بہا کر بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اس اقتصادی بحران سے دن بدن مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ بھی خطرہ لاحق ہے کہ یہ کہیں کوئی بھیانک شکل اختیار نہ کر لے ۔ نوٹوں پر کی گئی اس سرجیکل اسٹرائیک سے 30 سے زائدا موات ہو چکی ہیں ۔آخر اس کاذمے دار کون ہوگا ۔صبح اخبار پڑھتے ہی صرف خردہ نہ ہونے کی وجہ سے اموات ایک دو روز ہی رہتی ہیں اب آج ہی دیکھ لیجئے اتر پردیش کے ضلع مؤ میں ایک بنکر کے بیٹے کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ راشن کی دکانوں پر کوئی سامان نہیں مل رہا ہے کیونکہ ابھی سارے لوگوں کے پاس خردہ موجود نہیں ہے لوگ پرانے دور میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب اناج کے بدلے سامان کی فراہمی کی جاتی تھی۔ بازاروں میں سناٹا طاری ہے ۔ عام آدمی کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے لوگ اپنا کاروبار چھوڑکر بینکوں میں لائن لگانے پر مجبور ہیں پورے دن قطار میں لگنے کے بعد یہ بھی گارنٹی نہیں کہ پیسہ مل جایگا۔ جبکہ ریزرو بینک کے گورنر روز کہتے ہیں کہ کیش کی کمی نہیں ہے بینک والے کیش دینے کو تیار نہیں ۔جب تک سارے لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق کیش نہیں ملے گا تب تک راحت نہیں ملے گی۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہیکہ اتنا بڑا فیصلہ بغیر تیاری کے ۔ صاحب! کواتنا بڑا فیصلہ لینا ہی تھا تیاری کے ساتھ میدان میں آتے کوئی دقت نہیں ہوتی یا اس کا دوسرا طریقہ کہ پہلے ہزار بند کر لیتے پھر کچھ مہینوں کے بعدپانچ سو کی بند کرلیتے تو شائد اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا ایک بات کی طرف اور ذہن اشارہ کر رہا ہے کہ کہیں یہ مدعوں سے بھٹکا نے کیلئے تو نہیں کیا گیا ہے کیونکہ دو سال کا عرصہ گزارنے کے بعد بھی حکومت ہر میدان میں ناکام ہے انتخابات کے وقت جو وعدے کئے گئے تھے وہ صرف جملہ ہو کر رہ گیا۔ اس فیصلے کے پیچھے اتر پردیش کے انتخاب کو بھی سامنے رکھا گیا ہے ۔ اتر پردیش کی دو بڑی جماعتوں کو انتخاب میں مات دینے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔آئیندہ سال کے شروع میں یہاں انتخاب ہونے والے ہیں دونوں جماعتوں نے اپنے طور سے پوری تیاری کر لی تھی آج کل کے انتخابات بغیر پیسے کے نہیں لڑے جاتے۔ اسلئے وزیر اعظم نے صرف اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے عام لوگوں کو قطار میں کھڑا کر دیا اوپر سے پہلے دو دن اور پھر50 دن میں سپنوں کا بھارت دینے کا وعدہ کر رہے ہیں جس طرح سیپندرہ لاکھ دینے کا وعدہ کیا تھا اس سخت فیصلے کیلئے عوام حذب اختلاف کو بھی معاف نہین کرے گی کیونکہ انھوں نے بخوبی اپنی ذمے داری ادا نہیں کی اگر حذب اختلاف جماعتیں جس طرح سے اب بیان بازی کر رہی ہیں اور احتجاج کر رہی ہیں یہی فیصلہ آنے کے دوسرے دن کیا ہوتا تو آج شاید کی حکومت اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے بیک فٹ پر چلی گئی ہوتی اسکے لئے کہیں نہ کہین عوام بھی ذمے دار ہے جو اس سخت فیصلے کو من وعن قبول کر لیا ۔ نہ ہی کوئی احتجاج نہ مظاہرہ اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہیکہ اگر دوسری حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہوتا تو اب تک تصویر کچھ اور ہوتی ۔ حکومت کو اپنی پیٹھ تھپتھپھانے کے بجائے عام لوگوں کو ہورہی پریشانیوں پر غور کر نا چاہئے اور اسکے لئے جلد لائحہ عمل تیار کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے وہ حکومتیں بہت دنوں تک اقتدار قابض نہیں رہ سکتیں جو عوام کے مفا د میں کام کرنا بند کر دیتی ہیں تانا شاہی اختیار کر لیتی ہیں جو عوام اقتدار دینا جانتی ہے وہی عوام اقتدار سے بے دخل کرنا جانتی ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔