اب دیکھوکیا دکھائے نشیب و فرازدہر

حفیظ نعمانی
دو دن ہاتھ پرہاتھ رکھے بیٹھے رہے کہ کیا لکھیں؟ پڑھنے والے ہوں یا سننے والے، نوٹ کی بات کے علاوہ نہ پڑھنا چاہتے ہیں نہ سننا چاہتے ہیں اور نہ سوچنا۔ کل سے پہلے صورتِ حال واضح نہیں ہوئی تھی۔ کل صورت حال کافی واضح ہوگئی ہے کہ کم از کم چھ مہینے تک صورت حال یہی رہے گی۔ کل پہلی بار بینکوں کے ذمہ داروں نے سامنے آکر کہا کہ ایک دن میں تقسیم کرنے کے لیے 4 یا پانچ لاکھ روپیہ آتا ہے جسے ہم دو ہزار ہر کسی کو دے کر جا ن چھڑاتے ہیں۔
ایک مختصر جسم و قامت کا سکریٹری روز پریس کانفرنس کرتا ہے اور گرو مودی اور چیلے جیٹلی کا پڑھایا ہوا سبق سناتا ہے۔ وہ تین دن پہلے بتا چکا ہے کہ ہر کاشتکار52 ہزار روپے اپنے کھاتے سے نکال سکتا ہے۔ اور ہر وہ جس کے گھر میں شادی ہے صرف ایک کھاتہ سے ڈھائی لاکھ روپے نکال سکتا ہے۔ پریس کے رپورٹروں کے پاس نہ زمین ہے اور نہ ان کے گھر میں شادی ہے۔ وہ سن کر جاتے ہیں اور اپنے ٹی وی، ریڈیو اور اخباروں کے ذریعہ یہ خوش خبری سنادیتے ہیں۔
اور جب کسان اپنی فریاد لے کر اور شادی کے گھروالا اپنا کارڈ لے کر جاتا ہے تو بینک کا عملہ د و ہزار کا مایاوتی کے پسندیدہ رنگ کا نوٹ تھما دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ تمہاری قسمت میں بس یہی ہے۔
اتنی ہی خطرناک خبر یہ ہے کہ 5 سو روپے کا نوٹ جو کمپنی چھاپ رہی ہے وہ اس قدر خرامِ ناز سے قدم بڑھاتی ہے کہ آج بھی ہر بینک میں 5 سو کے نوٹ نہیں ہیں اور اس معاملہ کے ماہر بتاتے ہیں کہ شاید ملک کی ضرورت بھر کے نوٹ چھاپنے میں ۸؍ مہینے لگ جائیں گے۔ اب ان کو کمر کس لینا چاہیے کہ 50دن پورے ہونے کے بعد انہیں اپنے وزیر اعظم کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے؟ جو کہہ چکے ہیں کہ50 دن میں اگر سب ٹھیک نہ ہوجائے تو میرے ساتھ جو سلوک کرنا چاہو وہ کرلینا۔
صدر جمہوریہ دستور کی رسیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ فوج کے بڑوں سے کہہ نہیں سکتے کہ ملک کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لو اور ملک کو سنبھالو۔ سپریم کورٹ اور مودی سرکار کے درمیان36 کا آنکڑا ہے۔ اس نے پہلے تو نوٹ بندی ختم کرنے سے انکار کردیا مگر10 دن کی تباہی کے بعد کہا کہ اب سڑکوں پر فساد پھوٹ پڑنے کا خطرہ پیدا ہوتا جارہا ہے۔ کیرتی آزاد کے کہنے کے مطابق بے ایمان وزیر مالیات بے شرمی اور بے غیرتی کی مسکراہٹ سجائے کہہ رہا ہے کہ لائنیں چھوٹی ہورہی اور رفتہ رفتہ حالات قابو میں آرہے ہیں۔
جن کے گھروں میں شادی کی تیاری ہوچکی ہے ان کو دینے کے لیے ڈھائی لاکھ اور جو کسان کھیتوں میں پانی دے کر جتائی کرچکے ہیں ان کے بیج اور کھاد کے لیے حکومت اعلان کرنے کے باوجود اگر نہیں دے گی تو شاید نہ بینک بچیں گے اور نہ بینکوں میں کام کرنے والے اور پھر نہ جیٹلی بچیں گے نہ مودی اورنہ پارلیمنٹ، وہ زنانی ممبر جن سے رپورٹوں نے بار بار معلوم کیا کہ کیا آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہے؟ اور وہ ہنستی رہیں کیوں کہ انھیں ان کا پورا پیسہ مل رہا ہے ۔اور اسے عوام برداشت نہ کرسکیں گے۔
اس نوٹ بندی میں کہنے کو 55 یا 70 کی موت ہوچکی ہے لیکن وہ بھی تو مرجائیں گے جو جوان بیٹی کی مہورت نکل جانے کے بعد اسے لیے بیٹھے رہیں گے اور جو کسان کسان قدرت کی مار سے بچ جانے کے بعد مودی جیٹلی کی مار سے مریں گے۔ مودی جی نے ہندوستان کو گجرات کی برابر سمجھا تھا اور جیٹلی نے امرتسر کی برابر۔ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ گوونداچاریہ جیسا مودی جی سے زیادہ سینئر بی جے پی لیڈر بول پڑا اور کہہ رہاہے کہ مرنے والوں کے گھر والوں کو معاوضہ دیا جائے۔اور ان سے کہہ رہا ہے جو لاکھوں کروڑوں سے زیادہ کا وہ سارا روپیہ جو بینکوں میں رکھا تھا وہ ہضم کرنے کی ترکیبیں کررہے ہیں۔ اور شاید دنیا کا یہ واحد ملک ہوگا جہاں لوگ بینکوں میں روپیہ رکھنے کے بجائے گھروں میں رکھیں گے۔
کالا دھن، دہشت گردی، نقلی نوٹ اور بھرشٹاچار کی مالا جپنے والا مودی ہویا کوئی۔ اب اس سے گھن آنے لگی ہے۔ ان کروڑوں مردوں اور عورتوں میں جو دن دن بھر اور رات رات بھر بینک کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں، ان میں سے ایک بھی وہ نہیں ہے جن کا کوئی تعلق ان حرکتوں سے ہو جن کی آڑ لے کر مودی نے یہ کھیل کھیلا ہے۔ اور یہ اتنے ناتجربہ کار اور اناڑی ہیں کہ ا نھوں نے ملائم ،راہل اور مایاوتی کو کمزور کرنے کے چکر میں سب سے زیادہ اپنے کو کمزور کرلیا۔ جس کا انجام 14 ؍نومبر کو غازی آباد کی ریلی تھی جبکہ اس دن بینک بند تھے۔ اور پرسوں امت شاہ کی ریلی میں چوتھائی کرسیاں نہیں بھریں جبکہ ہر ریلی پر کروڑوں خرچ ہورہا ہے اورایک بہت سنجیدہ ، منجھے ہوئے، تجربہ کار بی جے پی لیڈر کا یہ تبصرہ کہ اس ناتجربہ کار نے اترپردیش کے 300 سیٹوں کے جیتے ہوئے الیکشن کو50 سیٹوں پر لا کر کھڑا کردیا اور اب ہر طرف سے یہ آواز کہ وہ نکسلی ہوں، ماؤوادی یا پاکستانی، کوئی بھی مجھے مار سکتا ہے کیوں کہ میں نے ان کی کمر توڑ دی۔ اور ہوسکتا ہے کہ اترپردیش،پنجاب اور گوا کا الیکشن جیتنے کے لیے مودی خود سنگھ سے کہیں کہ مجھے مار دو تاکہ ہمدردی میں ووٹ مل جائیں۔ بہرحال ملک تباہ ہوگیا۔ اور اب برسوں کے بعد اگر آسکا تو یکم نومبر کی پوزیشن پر واپس آئے گا۔
بعض اعلانات سے تو ایسا لگتا ہے کہ مودی جی بغیر پروں کی کبوتر اُڑا نا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہہ دیا کہ اب پٹرول پمپ پر، کسانوں کو روپیہ ملے گا۔ پٹرول پمپ ایسے ہوتے ہیں کہ دس گاڑیاں آسکیں اور دس جاسکیں اور آئے دن ڈکیتی کی خبریں بھی سنی جاتی ہیں۔ پہلے ڈاکخانوں کا اعلان کرکے اس کا انجام دیکھ چکے ہیں۔ اب پٹرول پمپ کی باری ہے۔ اس کے بعد نہ جانے کون سی فاختہ اڑائیں گے؟ وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سولہ برس سے دنیا کٹے ہوئے ہیں نہ انھیں ڈاکخانوں کا حال معلوم ہے نہ پٹرول پمپوں کا۔ اللہ ان کی بچکانا باتوں سے ملک کو بچائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔