جدید صحافت کا جائزہ

عبدالقادر صدیقی 

قلم کار اور صحافی میں قدر فرق ہے ۔ ہر صحافی قلم کار ہو سکتا ہے لیکن ہر قلم کار، مضمون نویس صحافی نہیں ہو سکتا ہے۔ صحافت ایک فن ہے جسے سیکھا اور برتا جاتا ہے ۔ صحافت کے کچھ اصول و ضوابط ہیں جس کی پابندی ضروری ہے۔ اس لیے وہی قلم کار صحا فی کہلانے کا مستحق ہے جو صحافتی قوائد اصول و ضوابط سے آشنا ہو۔ آ ج کی اردو صحافت جدید دور کی صحافت میں داخل ہو چکی ہے ۔ جدید اصطلاحات استعمال ہو رہے ہیں اور جدید اصول اور قوانین کا احاطہ کر رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اردو صحافت پر کتابیں نہیں لکھی گئی ہیں بلکہ اس موضوع پر کئی کتابیں موجود ہیں لیکن بیشتر کتاب کازور اردو صحافت کی تاریخ پر ہے یا پھر صحافت کی فنی و تکنیک علوم پر۔ نیوز ایجنسی اور صحافت کے اخلاق و ضوابط پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں پروفیسر احتشام احمد خان ( صدر شعبہ ترسیل عامہ و صحافت ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ۔حیدر آباد) کی منظر عام پر آنے والی کتاب ’’ جدید صحافت ‘‘ اردو صحافت اور صحافیوں کے انہیں جدید تقاضوں کو پورا کرتی ہے ۔ پرو فیسر احتشام احمد خاں گذشتہ دس برسوں سے جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ کئی برس تک عملی صحافت سے منسلک رہے ہیں۔ یہ ان کی پہلی تصنیف ہے ۔اردو یونیورسٹی اردو ذریعہ تعلیم میں ایم اے ماس کمیونیکش اینڈ جرنلزم پروگرام چلا رہی ہے ۔ اردو زبان میں بہت کم ایسی کتابیں ہیں جو جدیدصحافتی منظر کو پیش نظر رکھ کے لکھی گئی ہے۔ ایسے میں مصنف کی یہ کتاب نہ صرف اردو ذریعہ سے ماس کمیو نیکشن اینڈ جرنلز م کورس کرنے والے طلباء بلکہ اردو صحافت سے وابستہ صحافی کے لیے بھی یہ کار آمد ہے۔ جیسا کہ مصنف نے خود ہی کتاب کے پیش لفظ میں کتاب کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’زیر نظر کتاب میں ان تمام باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے جس کا جاننا ایک صحافی کے لیے بے حد ضروری ہے۔‘‘ مصنف کا میدان ہر چند کہ الکٹرونک میڈیا بالخصوص ٹی وی پروڈکش رہا ہے، لیکن کتاب’’ جدید صحافت ‘‘ کے موضوعات کی ترتیب او ر تدوین ،اور اس کے مواد سے اندازہ ہو تا ہے کہ مصنف پرنٹ جرنلزم اور الکٹرونک جرنلزم پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ دوسو صفحات کی ضخامت والی یہ کتاب پندرہ 15 ابواب پر مشتمل ہے۔ جس میں پرنٹ میڈیا سمیت الکٹرونک ( ریڈیو) میڈیا اور مختلف نیوز ایجنسی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پہلے اور دوسرے باب میں ہندوستان میں طباعت کی تاریخ اور اردو صحافت کی تاریخ کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ تیسرے اور چوتھے باب میں خبر نگاری ( رپورٹ رائٹنگ ) کی فنی و تکنیکی تراکیب کے استعمال کا طریقہ بتیا گیا ہے ۔ اس علاوہ خبر کی بنیادی اجزاء اور صحافتی تر بیت کے ساتھ ہی ایک بہتر صحافی کی خوبیوں کو واضح کیا گیا ہے۔باب چھ میں پریس قوانین سے متعلق جانکاری دی گئی ہے۔ باب سات میں تعزیرات ہند کی وہ اہم دفعات کا ذکر ہے ،جس کا استعمال ایک صحافی کو سماجی مسائل جیسے جہیز ، طلاق، قتل، دھوکہ دہی کی رپورٹنگ کرتے وقت کرناہو تا ہے۔ باب آٹھ میں مصنف نے ملکی اور عالمی سطح پر نافذ صحافتی اخلاق و ضوابط کا مکمل احاطہ کیا ہے۔ جس کا علم ہونا ہر صحافی کے لیے ضروری ہے۔ نو یں اور دسویں باب میں ہندوستان کی آزدای کے بعد صحافت میں آنے والی تبدیلوں اور اردو صحافت کو درپیش چیلنج کو حقائق کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے بارہویں باب میں مصنف نے ریڈیو کی ابتدا ارتقا اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے ۔ کتاب کا تیرہواں باب پرسار بھارتی کے قیام اور اس کے فرائض پر مشتمل ہے۔ چودہواں باب ہندوستان کی اہم خبر رساں ایجنسی کی تاریخ اور ان کے کام کا احاطہ کرتا ہے ۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کتاب کی زبان بہت کی صاف اور سلیس ہے ۔ اردو اصطلاح کے ساتھ ساتھ انگریزی اصطلاح کا بھی استعمال کیا گیا ہے جس سے اصطلاحات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ کتاب کی قیمت 200 روپے ہے جو کہ مناسب ہے۔ منجملہ کہا جائے تو یہ کتاب اردو ذریعہ تعلم سے صحافت کا کورس کرنے والے طالب علم اور اردو صحافت سے وابستہ صحافیوں کے صحافتی معلومات میں اضافہ اور تربیت کے لیے ایک عمدہ تصنیف ہے۔جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی سے حا صل کیا جاسکتا ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔