صدقۃ الفطر اور اس کے مسائل!

مقبول احمد سلفی

صدقہ الفطر کی فرضیت :

جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا اسی سال صدقہ الفطر بھی فرض ہوا۔ وہ سن دو ہجری ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے ۔

قرآن سے دلیل: قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ (الاعلی : 14)

ترجمہ:بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا۔

سنت سے دلیل : أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين (صحيح مسلم:984)

ترجمہ: بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کے صدقہ الفطر کو مسلمانوں میں سے ہر نفس پر فرض کردیا ہے ۔

امام ابن منذر رحمہ اللہ نے اس کی فرضیت پہ اجماع نقل کیا ہے ۔(الإجماع لابن المنذرص :55)

صدقہ الفطر/ زکوۃ الفطر کو زکوۃ البدن اور زکوۃ النفس بھی کہا جاتا ہے ۔ عام  اردو بول چال میں فطرہ یا فطرانہ سے جانا جاتا ہے۔

فطرانے کی حکمت :

دو حکمتیں تو ایک حدیث میں مذکور ہیں ۔

زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ (صحيح الجامع:3570)

پہلی حکمت :

روزہ دار کی پاکی :روزے کی حالت میں روزے دار سے ہونے والی غلطیوں سے پاک ہونے کے لئے فطرانہ ادا کیا جاتا ہے ۔

دوسری حکمت :

مساکین کا کھانا: عید کے دن جہاں مالدار لوگ خوشی منائیں وہیں اپنی خوشی میں شامل کرنے کے لئے ان کے ذمہ غرباء ومساکین کو فطرانہ ادا کرنا ہےتاکہ وہ بھی مسلمانوں کی عید کی خوشی میں برابر کے شریک ہوسکیں ۔

تیسری حکمت : فطرانے میں مسکینوں کے ساتھ الفت ومحبت کے اظہار کے سوا، اپنے بدن کا صدقہ بھی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اب تک اپنی توفیق سے بقید حیات رکھا۔ اور اللہ کی ان نعمتوں کا شکریہ بھی جو رمضان المبارک میں (روزہ،قیام، اعتکاف، لیلۃ القدروغیرہ)میسرآتے ہیں ۔

فطرانے کی شرائط:

اس کی تین شرطیں ہیں ۔

(1) فطرانے کے لئے اسلام شرط ہے ، اس لئے کافر پر فطرانہ نہیں ۔

(2) استطاعت: فطرانہ کے لئے نصاب کا مالک ہونا شرط نہیں بلکہ اس کے پاس عید کی رات اور اس دن اپنے اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنےسے زائد خوراک ہو تو اسے

مسکینوں کو صدقہ کرے۔

(3) تیسری شرط فطرانے کا واجبی وقت ہونا ہے جوعید کا چاند نکلنے سے عید کی نماز کے وقت تک ہے ۔

کن کی طرف سے فطرانہ ادا کیا جائے گا؟

اس سلسلے میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :

أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين ، حرٍّ أو عبدٍ . أو رجلٍ أو امرأةٍ . صغيرٍ أو كبيرٍ . صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعيرٍ .(صحيح مسلم : 984)

ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد

،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔

*اس لئے ہر مسلمان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، آزاد ہو یا غلام ، مرد ہو یا عورت ان کی طرف سے فطرہ نکالنا ان کے سرپرست کے ذمہ واجب ہے ۔

*یتیم اور مجنوں کے پاس مال ہو تو ان کی طرف سے بھی صدقہ نکالا جائے ۔

*پیٹ میں موجود بچے کی طرف سے فطرانہ واجب نہیں ہے مگر کوئی بطور استحباب دینا چاہے تو دے سکتا ہے ۔

٭ میت کی طرف سے فطرانہ نہیں ہے ۔ ہاں اگر میت نے وقت وجوب(عید کا چاند نکلنے

سے عید کی نماز تک) کو پالیا تو اس کی طرف سے فطرانہ ادا کیا جائے گا۔

٭ نوکر یا نوکرانی کافطرانہ خود ان کے ذمہ ہے ، اگر اس کا مالک ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔

فطرانے میں کیا دیا جائے ؟

جس ملک میں جو چیز بطور غذا استعمال کی جاتی ہے اسے فطرے کے طور پہ دے سکتے ہیں ۔اس سے متعلق  نبی ﷺ کا فرمان ہے :

أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين ، حرٍّ أو عبدٍ . أو رجلٍ أو امرأةٍ . صغيرٍ أو كبيرٍ . صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعيرٍ .(صحيح مسلم : 984)

ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد ،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔

نبی ﷺ کے زمانے میں جو، کھجور، منقہ اور پنیربطور غذا استعمال ہوتا تھا۔ ہمارے یہاں عام طور سے چاول ، گیہوں ،چنا، جو ، مکی، باجرہ، جوار وغیرہ اجناس خوردنی ہیں لہذا ہم ان میں سے فطرانہ نکالیں گے ۔

صاع کی مقدار:

فطرانے کی مقدار ایک صاع ہے ۔ایک صاع چار مُد ہوتا ہے ۔گرام کے حساب سے صاع کی تعیین میں  کافی اختلاف ہے ۔شیخ ابن عثیمین نے دوکلو چالیس گرام بتلایا ہے ۔ بعض نے دوکلو ایک سو، بعض نے پونے تین سیر یعنی ڈھائی کلو تقریبا،بعض نے دو کلو ایک سوچھہتر، بعض نے دو کلو سات سو اکاون کہا ہے ۔ شیخ ابن باز نے تین کلو بتلایا ہے ۔ یہی سعودی فتاوی کمیٹی لجنہ دائمہ کا فتوی ہے۔

زیادہ تر اقوال ڈھائی کلو کے آس پاس ہیں ۔ اگر فی کس ڈھائی کلو کے حساب سے نکال دیا جائے توزیادہ مناسب ہے ۔ اس میں فقراء و مساکین کا فائدہ بھی ہے  اور اگر کوئی تین کلو کے حساب سے نکالتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔

یہاں ایک اور مسئلہ جان لینا چاہئے کہ ایک ہی جنس سے ایک صاع نکالنا بہتر ہے نہ کہ آدھا ایک جنس سے اور آدھا ایک جنس سے ۔

ابوداؤد اور نسائی وغیرہ میں نصف صاع کابھی ذکر ہے مگر وہ ورایت صحیح نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں بعض آثار بھی ملتے ہیں ۔امام ابوحنیفہ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،علامہ ابن القیم، علامہ البانی اورعبیداللہ مبارک پوری رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ نصف صاع بھی کفایت کرے گا۔

فطرانے کا مصرف:

فطرانے کا مصرف نبی ﷺ نے بتلادیا ہے ۔

زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ (صحيح الجامع:3570)

ترجمہ: صدقہ فطر روزہ دارکی لغواور بیہودہ باتوں سے پاکی اور مساکین کا کھانا ہے ۔

یہ حدیث بتلاتی ہے کہ فطرانے کا مصرف فقراء ومساکین ہے۔ بعض علماء نے کہا زکوۃ کے

 آٹھ مضارف میں فطرانہ صرف کرسکتے ہیں مگر یہ بات مذکورہ بالا حدیث کے خلاف ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فطرانے کو فقراء ومساکین کے ساتھ خاص کیا ہے اور دلیل سے قوی تر اسی کو قرار دیا ہے ۔ (مجموع فتاوى:25/71) .

شیخ ابن باز نے کہا کہ فطرانے کا مصرف فقراء ومساکین ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے:

زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ۔

ترجمہ: صدقہ فطر روزہ دارکی لغواور بیہودہ باتوں سے پاکی اور مساکین کا کھانا ہے ۔

انتہی (مجموع الفتاوى:14/202)

لہذا فطرانہ فقراء ومساکین کے علاوہ مسجد و مدرسہ وغیرہ پہ خرچ کرنا سنت کی مخالفت ہے ۔

اگر اپنی جگہ پہ فقراء ومساکین نہ پائے تو دوسری جگہ فطرانہ بھیج دے۔

فطرانے کا وقت :

فطرانے کا دو وقت ہے ۔ ایک وقت وجوب اور ایک وقت جواز

وقت وجوب: عید کا چاند نظر آنے سے عید کی نماز تک ہے ۔ اس درمیان کسی وقت مستحق کو فطرانہ دیدے ۔

وقت جواز: عید سے ایک دو دن پہلے فطرہ دینا جائز ہے ۔ بخاری ومسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :

وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين(صحیح البخاري:1511 وصحیح مسلم:984).

کہ صحابہ کرام عید سے ایک دو دن پہلے فطرانہ ادا کرتے تھے ۔

افضل وقت عید کی نمازکے لئےنکلنے سے پہلے ادا کرنا ہے کیونکہ فرضیت فطرانہ والی صحیحین کی روایت میں ہے :

وأمَر بها أن تؤدَّى قبلَ خروجِ الناسِ إلى الصلاةِ .(صحیح البخاري:1503)، وصحیح مسلم:984)

نبی ﷺ نے عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے لوگوں کو فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

عید کی نماز کے بعد فطرہ دینے سے ادا نہ ہوگا وہ محض عام صدقہ شمار ہوگا لیکں اگر کسی کے ساتھ بھول ہوگئی یا کسی عذرشرعی کی بنیاد پر تاخیر ہوگئی تو اللہ تعالی ایسے بندوں سے درگذرکرتا ہے ۔

فطرانہ دینے کی جگہ :

اس میں اصل یہی ہے کہ جو جس جگہ رہتا ہے وہیں فطرہ ادا کرے لیکن اگر وہاں فقراء ومساکین موجود نہ ہوں تو فطرہ دوسری جگہ بھیج دے ۔ اسی طرح اگر کسی دوسری جگہ بھجنے میں سخت ضرورت ہو تو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔

فطرانے میں رقم دینا:

یہ ایک اہم مسئلہ جو لوگوں میں جواز اور عدم جواز سے متعلق اختلاف کا باعث بناہوا ہے ۔ احادیث کی روشنی میں یہ مسئلہ واضح ہے ، نبی ﷺ نے فطرانہ کو مسکین کی غذا قرار دیا ہے اورغذا کھائی جانےوالی چیز ہے، نہ کہ رقم ۔

اس لئے فرمان رسول ﷺ پہ چلتے ہوئے اولی و افضل غلے سے ہی فطرہ ادا کرنا ہے ۔ تاہم سخت ضرورت کے تحت فطرے کی رقم دینا بھی جائز ہے ۔ اس کو مثال سے اس طرح سمجھ لیں کہ آج کل فقراء ومساکین جنہیں غلے کی حاجت نہیں ہوتی وہ ہم سے غلہ تو لے لیتے ہیں مگراسے بیچ کر قیمت حاصل کرتے ہیں اورپھر قیمت سے اپنی ضروری اشیاء خریدتے ہیں ۔ ایسے حالات میں بجائے اس کے کہ مسکین کو غلہ بیچنےکی مشقت ملے اور غلے کی کم قیمت حاصل کرنی پڑے ۔ خود ہم ان کی طرف سے وکیل بن کر غلے کی قیمت ادا کردیں ۔

واضح رہے یہ صرف ضرورتا ًجائز ہے تاہم اولی و افضل سنت کی تطبیق دینی ہے جو کہ اشیائے خورنی سے فطرہ ادا کرنا ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔