صنفی توازن کی اسلامی تشریح: مولانا سلطان احمد اصلاحی کے حوالے سے

حکیم وسیم احمد اعظمی

مولانا سلطان احمد اصلاحی[ولادت:8فروری1952ء —وفات29مئی2016ء] کا شمار اسلامیات کے ایک بڑے اسکالر اور دانش ور کے طور پر ہوتا ہے ۔ ان کی تحریروں کا کینوس بہت وسیع ہے۔وہ صاحب ِ اسلوب عالم ِ دین اور عصری سماجی مسائل پر شاداب قلم تھے۔ اس موضوع پر ان کی مطبوعہ کتابیں ، انسانی معاشرہ اسلام کے سائے میں [ترجمہ وتخریج1982 ء]اسلام کا تصور ِ مساوات [1985ء]،بندھوا مزدوری اور اسلام [1986ء]، بچوں کی مزدوری اور اسلام[1986ء]، جنسی تعلیم کا مسئلہ اور اسلام[1989ء]، قرآن اور سائنس [ترجمہ وتخریج 1988ء]پردیس کی زندگی اور اسلام [1990ء]، کمسنی کی شادی اور اسلام[1990ء]،مدارس میں سائنس کی تعلیم [1990ء]،جماع کے آداب[1991ء]،مشترکہ خاندانی نظام اور اسلام[1992ء]،اسلام کا نظریۂ جنس [1995ء]، مسلمان اقلیتوں کا مطلوبہ کردار[1998ء]،آزادیٔ فکر و نظر اور اسلام[1999ء]،اسلام اور آزادیٔ فکر عمل[2004ء]، عصر ِ حاضر سماجی انتشار اور اسلام کی رہنمائی[2011ء]،عصر ِ حاضر کی نفسیاتی اُلجھنیں اور اُن کا اسلامی حل[2011ء]، پانی کا مسئلہ [2011ء]،آزاد ہندوستان میں مسلمان اور سیاست[2014ء] ، امت ِ مسلمہ کیا کرے ؟[2017ء]اور غیر مطبوعہ سرمایہ میں شہرت پسندی کا رُجحان اور اسلام،جدید ذرائعِ ابلاغ اور اسلام، شادی کی رسمیں اور اسلام، مدارس ِ اسلامیہ کا مثبت پہلو، مسلم اکثریتی ممالک کا لائحۂ عمل ، سول لائن: ایک جائزہ، تیسری دنیا َ قرآن کی روشنی میں ، اسلام میں بچوں کے حقوق، صوبہ اُتر پردیش کا معاشی مسئلہ،ضلع اعظم گڑھ کا معاشی مسئلہ، اور6دسمبر کے بعد ہندوستان کا منظر نامہ اہم ہیں ۔ان کی زیر ِ ترتیب اور زیر ِ تیاری کتابوں میں بیوٹی پارلر اور اسلام،ایڈز کے ازالہ میں اسلام کا کردار،تاخیر کی شادی  اور اسلام،سیاست میں ریزرویشن : آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ خاص طور سے قابل ِ ذکر ہیں ۔ وہ زنخوں اور راجستھان کے ایک خاص پیشہ ور قبیلے کے سماجی ، معاشری اور اقتصادی مسائل اور ان کے حل پر بھی لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

     مولانا سلطان احمد اصلاحی کی تالیفات کے موضوعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے یہاں فکری توسع بہت زیادہ ہے اور سماجیات پر اُن کی تحریروں کا بیانیہ بالخصوص عصری لب و لہجہ کا حامل ہے۔وہ جب بھی سماجی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں تو اسلامی فکر کے ساتھ ساتھ اعداد وشمارکے تناظر میں عصری معلومات سے بھی اپنے قاری کو واقف کراتے جاتے ہیں ۔اُن کا یہی طرز ِ نگارش اُن کے بیانیہ کو مزیدپُر اثر بناتا ہے۔یہی آج کی سچائی بھی ہے کہ نئی نسل     ڈاٹا بیس تحریروں کو زیادہ پسند کرتی اور زیادہ اہمیت دیتی ہے ۔کسی بھی مسئلے کے اظہاریہ یا بیانیہ کی لفّاظی اب اُسے ذرا بھی متأثر نہیں کرتی۔وہ تحریروں میں تشکیک نہیں ، قطعیت پسند کرتی ہے،دو اور دو چار جانتی ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی چک پھیریوں سے تکدر محسوس کرتی ہے۔

   سماجی اور معاشرتی مسائل پر مولانا سلطان احمد اصلاحی کی جتنی بھی اور جس قدر بھی تحریریں ہم نے پڑھی ہیں ، وہ بہت ہی واضح ،رواں اور سلیس ہیں ۔

 اُن میں وہ اسلامیات کے عالم ہونے کے ساتھ ہی انسانی معاشرے ،بالخصوص نئی نسل کی نفسیات کے ماہر بھی نظر آتے ہیں ۔ اُنہوں نے اپنی تحریروں

 میں جابجا نئی نسل کی تحلیل ِ نفسی کی ہے اور ان کے مسائل کا اسلامی حل پیش کرنے کی سعی کی ہے۔لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بعض مباحث میں وہ غیر معمولی طور پر وسیع النظر اور وسیع المشرب نظر آتے ہیں اوراس مرحلے میں اُن کا قاری کچھ حیرتی ساہو جاتا ہے۔

 2.  ہماری آج کی گفتگو کا عنوان ’ صنفی توازن کی اسلامی تشریح —مولانا سلطان احمد اصلاحی کے حوالے سے ‘ ہے اور ہمیں پابند ِ عنوان رہ کر آپ حضرات سے چند باتیں عرض کرنی ہیں ۔واضح رہے کہ ’صنفی توازن ‘کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں ،جن میں دو خاص ہیں۔

  1. صنفی توازن بلحاظ آبادی

  2. صنفی توازن بلحاظ تعلیم وتربیت

عصر ِ حاضر میں ’صنفی توازن‘ کے یہ دونوں مفاہیم اور عملی زندگی میں ان کے نفاذ کی صورتیں ’غیر متواز ن‘ ہیں ۔’صنفی توازن بلحاظ ِ آبادی‘کی صورت ِ حال ہزار اصلاحی کوششوں کے باوجود ابتذال کی حد تک بدتر ہے اور ’صنفی توازن بلحاظ تعلیم وتربیت ‘ کا منظر نامہ بھی تفریط وافراط کی حکایت بیاں کرتا ہے۔ فر ق صرف اس قدر ہے کہ صنفی توازن بلحاظ آبادی کو ’عدم ِ توازن‘ میں بدلنے کی کوششیں ساری دنیا میں ہورہی ہیں ، کل بھی ہورہی تھیں اور آج بھی ہورہی ہیں ۔البتہ صنفی توازن بلحاظ تعلیم وتربیت میں پہلے تفریط ہی تفریط تھی اور ا ب افراط بھی ہے اور تفریط بھی۔

صنفی توازن بلحاظ آبادی:

   یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ عہد ِ عتیق کی ہر تہذیب میں عورتوں کو بد ترین مخلوق تصور کیا جاتھا اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کاچلن تھا۔عربوں کا عہد ِ جاہلی  بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔اسلامی دانش ور مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اپنے مضمون’ بعثت ِ محمدی سے پہلے، مطبوعہ ماہنامہ نقوش، لاہور کے رسول ﷺ نمبر، جلد سوم میں اس فعل ِ شنیع کے بارے میں ہیثم بن عدی کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں :

    ’’ زندہ درگور کرنے کا اصول عرب کے تمام ہی قبائل میں رائج تھا،ایک اس پر عمل کرتا، دس چھوڑتے تھے۔یہ سلسلہ اس وقت تک ریا ،جب تک کہ اسلام نہیں آیا۔بعض ننگ وعار کی بنا پر،بعض خرچ و مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرتے۔‘‘  [نقوش:رسول نمبر،ج3،شمارہ 130،ص113،لاہور، 1982ء]

    سیرت النبی میں مذکور ہے :

 ’’ مجموعی حیثیت سے عورت بد ترین مخلوق اور ہر قسم کی جبر ،تعدی کا تختہ گاہ ِ مشق تھی۔رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ جس گھر میں لڑکی پیداہوتی، اس کو سخت رنج ہوتا اور شرم کے مارے لوگوں سے چھپتا پھرتا‘‘۔   [ سیرت النبی: حصۂ چہارم،ص185 ]

  ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

’’واذا بُشّراحدھم بالاُنثیٰ ظلّ وجھُہ مُسودّا وھو کظیم ۔یتواریٰ من القوم من سُوئِ ما بُشّر بہ ۔ اَیُمسکہ علیٰ ھُون اَم یدُسّہ فی التراب۔‘‘ [سورۃ النحل:7]

 ترجمانی: ’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری سنائی جاتی ہے، تو اس کا منھ کالا پڑ جاتا ہے اور غصّہ کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے،اس خوش خبری کے رنج سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے[اور سوچتا ہے] کہ ذلّت کے ساتھ اس کو قبول کرلے یا زندہ زمین میں دفن کردے‘‘۔

 ایک صاحب نے آنحضرت ﷺکی خدمت میں آکر ظاہر کیا تھا کہ اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کیں ‘‘۔  [سیرت النبی: حصۂ چہارم،ص185 ]

محمد ﷺ کی بعثت کے بعد معاشرے میں عورتوں کے دن پھرے، اُن کے حالات بدلے اور ان کو حقیر سمجھنے اور بے توقیر گرداننے والوں کے خلاف  ایک ماحول بنا اوراللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

   ’’ ولا تقتُلوا اولادَکم من اِملاقٍ،نحن نرزُقکم و ایّاکم‘‘ [سورۃ الانعام۔آیت151]

  ترجمانی:’’ اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو۔ ہم تم کو اور اُن کو رزق دیتے ہیں ۔‘‘

   سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ہے:

ولا تقتُلوا اولادَکم خشیۃ اِملاقٍ ۔نحن نرزقُھم وَاِیّاکم ،اِنّ قتلَھم کان خِطاً کبیرا‘۔‘ [سورۃ بنی اسرائیل۔آیت31]

   ترجمانی: ’’اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، اُن کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں ، یقیناً اُن کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے ۔‘‘

 واضح رہے کہ مفلسی کے خوف سے اولاد کو مار ڈالے میں بھی صنفی امتیاز برتا جاتاتھا۔یہاں بھی لڑکیوں کو ہی ہدف بنایا جاتا تھا اور لڑکے مستثنیٰ قرار پاتے تھے۔عہد ِ عتیق کبھی کا ختم ہوا، اسی لیے عتیق کہلایا،عہد ِ جاہلی اور عہد ِ تاریک بھی بہت پہلے رخصت ہوئے اور ان کی جگہ علم و انوار نے لے لی،لیکن لڑکیوں کا قتل آج بھی جاری ہے اور دور ِ جدید کے علم و معرفت کے تناظر میں جاری ہے، میڈیکل سائنس کی غیر معمولی ترقیات نے اس کام کو اور بھی سہل بنا دیا ہے۔قرون ِ اُولیٰ میں ولادت کے بعد مارڈالنے کا فیصلہ ہوتا تھا اور اب تو رحم ِ مادر میں ہی یہ سب کچھ بڑی آسانی سے کردیا جاتا ہے۔

اسلام کا فلسفۂ نکاح:

     مولانا سلطان احمد اصلاحی نے نکاح کے دو بنیادی مقاصد بیان کیے ہیں :

   1. بقائے نسل اور افزائش ِ نسل

   2. جنسی تسکین

     یہاں موضوع کی مناسبت سے ہم اوّل الذکر مقصد تک ہی اپنی گفتگو کو محدود رکھیں گے۔

     مولانا سلطان احمد اصلاحی لکھتے ہیں :

    ’’ شادی اور نکاح سے اسلام کا اوّلین مقصد بقائے نسل، بلکہ افزائش ِ نسل ہے۔بنی ﷺ نے حدیث میں صاف طریقے پر ایسی عورت سے  نکاح کی ترغیب دی ہے جو مختلف قرائن سے زیادہ بچہ جننے والی ہو ۔ دوسری متعدد احادیث میں آپ ﷺ نے اس کی روحانی علت بیان  فرمائی کہ روز ِ قیامت اُمت کی بڑھی ہوئی تعداد آپ ﷺ کے لیے فخر ومباہات کا باعث ہوگی‘‘۔  [اسلام کا نظریۂ جنس:ص303]

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزِ قیامت اُمت کی بڑھی ہوئی تعداد پر آنحضرت ﷺکے فخر ومباہات جیسے اشارات کے علی الرغم ایسی تدبیریں اختیارکرنا اور ایسے ذرائع بروئے کار لانا، جو بقائے نسل اور افزائش ِ نسل کے رہنما اصولوں سے مزاحم اور آنحضرت ﷺ کی خواہش کے منافی ہوں توان کی سماجی اور شرعی توقیت کیا ہوگی؟

    افزائش ِ نسل یا بالفاظ دیگرپچوں کی پیدائش پر حسب ِ خواہش قدغن لگانے کے بہت سارے طریقے عہد ِ قدیم سے رائج ہیں اور آج  میڈیکل سائنس    کی غیر معمولی ترقیات نے اُنہیں اور بھی بال وپر عطا کردیے ہیں اوریہ ایک بدیہی سچائی ہے کہ یہ سبھی تدابیر موانعات ِحمل کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ہم انہیں صریحاً قتل ِ اولاد یا قتل ِ جنین قرار نہیں دے سکتے، البتہ یہ تدبیریں نکاح کے اسلامی مقصود ِ اعظم کی راہ مارتی اور رُکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں ،اسی لیے ہم ان کو توکل اور فضیلت کے منافی گردان سکتے ہیں ۔

 اسلام کے صدر ِ اوّل میں ’عزل‘ ہی منع ِ حمل کامعروف اور مروّج طریقہ تھا۔ جس کی اباحت، حلّت اور حرمت میں اسلامی فکر کے حاملین میں کل بھی اختلاف ِ رائے تھا اور آج بھی ہے۔

     نزول ِ قرآن کے زمانے میں اُمت کا اگر کوئی عمل اسلامی روح کے منافی ہوتاتھا تو اس کے بارے میں کوئی واضح آیت نازل ہوجاتی تھی اور اس  طرح اُمت کی اصلاح ہوجاتی تھی۔بعض معاشرتی وجوہ سے عربوں میں ’عزل ‘ کا رواج تھا اور یہ عمل نکاح کے اسلامی مقاصد کے یقیناًمزاحم تھا، تاہم اس پر قدغن لگانے کے لیے کوئی [واضح ]آیت نازل نہیں ہوئی۔ اسی تناظر میں حضرت جابر ؓ  فرماتے ہیں :

    ’’ کُنّا نعزل والقرآن ینزل‘‘ [بخاری،ج 2۔کتاب النکاح ،باب العزل،مسلم،ج4،کتاب النکاح، باب حکم العزل]

   ترجمانی:  ’’ ہم نبی ﷺ کے زمانہ میں عزل کرتے تھے،دریں حالیکہ قرآن کے نزول کا سلسلہ جاری تھا‘‘۔

    اسی لیے حضرت سفیان بن عینیہ ؓ فرماتے ہیں :

   ’’لو کان شیئاً ینہی عنہ لنہانا عنہ القرآن‘‘   [صحیح مسلم،ج4،کتاب النکاح، باب حکم العزل]

   ترجمانی:  ’’ اگر یہ کوئی ایسی چیز ہوتی ،جس سے منع کیا جانا ضروری ہوتا ،تو قرآن ضرور ہم کو اس سے منع کرتا‘‘۔

    صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ کی ایک روایت میں اس کی مزید صراحت ہے، فرماتے ہیں :

   ’’  کُنّا نعزل علیٰ عہد رسول اللہﷺ فبلغ ذالک نبی اللہ ﷺ فلم ینھٰنا‘‘۔   [مسلم،ج4،کتاب النکاح، باب حکم العزل]

     ترجمانی: ہم رسول ِ خدا ﷺ کے زمانہ میں عزل کرتے تھے تو یہ بات بنی ﷺ تک پہنچی ،لیکن آپ ﷺ نے ہمیں منع نہیں فرمایا‘‘۔

   ان روایات کو نقل کرنے کے بعد مولانا سلطان احمد اصلاحی لکھتے ہیں :

    ’’ یہ روایات منع ِ حمل کی اس تدبیر[عزل] کے جواز کے سلسلہ میں صریح ہیں ‘‘۔

       مولانا سلطان احمد اصلاحی نے چند ایسی احادیث بھی نقل کی ہیں ، جن میں عزل پسندیدہ عمل نہیں قرار دیا گیا ہے، لکھتے ہیں :

    ’’ بعض دوسری روایات میں آپ ﷺ کے انداز ِکلام کی بھی یہی منشاء سمجھا گیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔

    فرماتے ہیں :

    ’’ سئل النبی ﷺ عن العزل فقال لاعلیکم ان لاتفعلوا ذاکم فانما ھو القدر‘‘ ۔  [ صحیح مسلم،ج4،کتاب النکاح،باب حکم العزل]

   ترجمانی: نبی ﷺ سے عزل کے بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا! تمہارا کیا نقصان ہے اگر تم ایسا نہ کرو۔ اصل چیز تو

   قضاوقدر کا فیصلہ ہے‘‘۔

    مولانا سلطان احمد اصلاحی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کے ایک راوی محمد بن سیرین کی رائے کی رائے بیان کرتے ہیں :

   ’’ وقولہ ’لاعلیکم ‘اقرب الی النہی‘‘۔  [ صحیح مسلم،ج4،کتاب النکاح،باب حکم العزل]

   ترجمانی:  ’’ آپ ﷺ کا یہ فرمانا ’’ تمہارا کیا نقصان ہے اگر تم ایسا نہ کرو‘‘ ممانعت سے زیادہ قریب ہے‘‘۔

     قند مکرر کے طور پر عرض ہے کہ مولانا سلطان احمد اصلاحی کی تحریروں کا یہ ایک روشن پہلو ہے کہ کسی بھی موضوع پر لکھتے وقت وہ اسلامی فکر کی تمام جہتوں اور جملہ رویّوں کو اپنے قاری کے سامنے رکھ کر اوّل اس کی ذہن سازی کرتے ہیں ،ثانیاً اس کی فہم وفراست کو بروئے کار لاتے ہوئے  اسلامی فکر تک پہنچنے میں اس کی مدد کرتے ہیں ۔اسی لیے تو عزل کے بارے میں مختلف روایات کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

   ’’ امام غزالی نے اس سلسلے کی تمام روایات کے استقصاء اور اس کے متعلق علماء کے مختلف مسالک کا تذکرہ کرنے کے بعد جس رائے کوسب سے زیادہ صحیح قراد دیا ہے وہ یہ کہ [عزل] جائز ہے:

  ’والصحیح عندنا ان ذالک مباح۔‘‘     [احیاء علوم الدین:ج2،ص51]

 ترجمانی: ’’صحیح بات ہمارے نزدیک یہ ہے کہ یہ [ عزل] جائز ہے۔‘‘

 واضح رہے کہ مولانا سلطان احمد اصلاحی نے ’مباح‘ کا ترجمہ ’جائز ‘ کیا ہے۔

 مولانا سلطان احمد اصلاحی کا میلان بھی عزل کی اباحت کی طرف ہے ۔ان کا خیال ہے کہ وہ روایات جن سے ’عزل‘ کی حرمت اور ممانعت کا اشارہ نکلتاہے اور جن کی بنیاد پر علماء کی ایک جماعت اسے مکروہ کہتی ہے ۔ اس ممانعت اور کراہت کو ’ تنزیہہ اور ترک ِ فضیلت پر محمول کرنا چاہیے ۔ اس سلسلے میں مولانا اصلاحی نے امام غزالیؒ کے دو فرمودات بطور استدلال نقل کیے ہیں :

1. ’’ولیس ہٰذا کالاجہاض والوأد، لان ذالک جنایۃ علی موجودٍ حاصلٍ۔‘‘  [احیاء علوم الدین:ج2،ص51]

    ترجمانی: ’’ یہ بچے کو ختم کرنا اور اسے زندہ درگور کرنا نہیں ہے۔ اس لیے کہ جرم کی صورت اُس وقت بنتی ہے، جب اُس کا ارتکاب کسی زندہ  اور موجود چیز کے ساتھ کیا جائے‘‘۔

2. ’’ وکیفہا کان فماء المرأۃ رکن فی الانعقاد فیجری الماء ان مجری الایجاب والقبول فی الوجود الحکمی فی العقود،فمن اوجب ثم رجع قبل القبول لایکون جانیا علی العقد بالنقض والنسخ۔‘‘    [احیاء علوم الدین:ج2،ص51]

 ترجمانی: ’’بات جو بھی ہو، اصل یہ ہے کہ عورت کا مادہ بھی حمل کے استقرار میں ایک عامل ہے۔ اس مسئلہ میں مرد وعورت دونوں کے مادوں

کی وہی حیثیت ہے، جو حکم کے ثبوت کے لیے عقود و معاملات کے دائرے میں ایجاب وقبول کی ہوتی ہے،تو جو شخص [اپنے طور پر]  کسی عقدکو واجب کرے پھر [خود ہی] اس سے رجوع کرلے، اس سے پہلے کہ دوسرا فریق اسے قبول کرے،تو ایسا شخص اس عقد کی  نسبت سے اسے توڑنے اور اسے ختم کرنے کا مجرم نہیں ہوگا‘‘۔

 مولانا سلطان احمد اصلاحی استخراج ِ نتیجہ کے طور پر لکھتے ہیں :

  ’’ فقہا ء کی ایک جماعت کے نزدیک ’عزل ‘ مکروہ ہے —–   اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے افزائش ِ نسل،جو اسلام کا اہم ترین  مقصود ہے، اس میں کمی واقع ہوتی ہے اوربیوی کو مباشرت کی مطلوبہ لذت حال نہیں ہوتی ہے۔ جب کہ نبی ﷺ نے اولاد کی پیدائش کے  اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے‘‘۔ [اسلام کا نظریۂ جنس:ص281-282]

  مولانا سلطان احمد اصلاحی نے بعض حالات میں عزل کے جواز کی کچھ صورتیں شمار کرائی ہیں ،جواختصار کے ساتھ درج ذیل ہیں:

1.مردو عورت کے حسن وجمال کو رکھنے، یا عورت کی صحت یا دوسرے اسباب سے اُسے اندیشہ ہو کہ وہ بچے کی پیدائش کا بوچھ نہیں اُٹھا سکے گی اور اس کی جان خطرے میں پڑجائے گی۔

2. اولاد کی زیادتی سے تنگی اور پریشانی کا اندیشہ اور پچوں کی پرورش وپرداخت کے لیے زیادہ آمدنی اور کمائی کے چکر میں غلط راستہ اختیارکر لینے کا خدشہ۔

3. لڑکیوں کی پیدائش کا ڈر،ان کی شادی بیاہ میں خاص طور پر بڑے مسائل اور پریشانیوں کا خوف۔

4. عورت کے مزاج میں خاص طرح کی نفاست اور بلند آہنگی۔درد ِ زہ، نفاس اور بچے کو دودھ پلانے کے مراحل کی دشواریوں کا غیر معمولی احساس۔ لیکن ان میں سے بیشتر صورتوں کو بشریت کے درجۂ کمال سے فروتر اور ترک ِ فضیلت پر محمول کیا ہے،تا ہم عزل کو ممنوع اور محظور قرار نہیں دیا ہے۔

مولانا سلطان احمد اصلاحی منع ِ حمل کی جملہ عارضی تمام تدابیر کو ’عزل‘ کے زمرے میں رکھتے ہیں :

    ’’ منع ِ حمل کی تمام عارضی تدابیرکا حکم عزل کا ہے—اُمت کے جن علماء اور فقہاء کے نزدیک ’عزل ‘ مطلق مکروہ ہے، ان کے قاعدے کی رو سے منع ِ حمل کی ان جدید تدابیر کا استعمال بھی مکروہ ہوگا۔ ضرورت کے تحت جو لوگ ’عزل‘ کے جواز کے قائل ہیں، ان کے نزدیک ان تدابیر کااستعمال بھی جائز ہوگا اور جو لوگ کسی شرط اور قید کے بغیر ’عزل‘ کے مطلق جواز کے قائل ہیں ، ان کے نزدیک ان تدابیر کا استعمال بلاقید وشرط جائز ہوگا۔‘‘ [اسلام کا نظریۂ جنس:ص292]

 البتہ ’ صفائی کرانے[Dilatation and curettageیعنیD&CیاMedical termination of PregnancyیعنیPMT]کے مختلف مراحل کے مختلف شرعی احکام ہیں ۔اس بارے میں مولانا سلطان احمد اصلاحی تحریر کرتے ہیں :

   ’’ عورت کے حمل قرار پاجانے اور اس کی ماہواری[menses ] کے کچھ ہی دن چڑھنے کے بعد، جب کہ طبّی تحقیقات سے اس کا پتہ لگانا اور بھی آسان ہوگیا ہے، وہ مزید تاخیر کیے بغیر فوری طور پر اپنی صفائی کرالے۔ عورت کی صحت و تندرستی کا مسئلہ نہ ہو اور اس کے حق میں خدا تر اور ذمہ دار ڈاکٹر کی سفارش نہ ہوتو تو اس صورت میں بھی صفائی جرم اور گناہ کا کام ہے۔ امام غزالیؒ ،جو عزل کے مسئلہ میں سب سے زیادہ توسع کے قائل ہیں ،اسے صاف لفظوں میں جنایت، جرم اور گناہ کا کام قرار دیتے ہیں ‘‘۔      [اسلام کا نظریۂ جنس:ص296-297]

   مولانا سلطان احمد اصلاحی مزید تحریر کرتے ہیں :

   ’’ ماں کے پیٹ میں جنین کے اندر زندگی کب آتی ہے ؟ اور کب اس میں روح پھونکی جاتی ہیِ اُمت میں فقہ وقضاء کے امام حضرت علی ؓ کے مطاب  یہ اس وقت ہوتا ہے،جب رحم ِ مادر میں نطفہ پر وہ سات ادوار گزر جائیں ، جن کا انسانی تخلیق کے بیان میں سورۂ مومنون—- میں حوالہ ہے‘‘۔ [اسلام کا نظریۂ جنس:ص 297]

     اس مرحلے میں جدید میڈیکل سائنس کی تحقیقات اور ایجادات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

    استقرار ِ حمل کے بالکل ابتدائی دنوں میں ’ صفائی‘ کا جواز بھی ملتا ہے اور دین میں ’ رخصت ‘اور ر’عایت ‘سے فائدہ اُٹھانے کو اللہ رب العزت بھی پسند کرتا ہے۔اس بابت مولا ناسلطان احمد اصلاحی لکھتے ہیں :

   ’’  اسلام میں بے جا تشدد اور سختی اچھی چیز نہیں اور دین میں رخصت اور رعایت اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین عطیہ ہیں اور عزیمت کی طرح زندگی میں رخصتوں سے فائدہ اٹھانے کو بھی اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔اس دفعہ کی پوری رعایت کرتے ہوئے بھی صحیح بات یہی سمجھ میں آتی ہے کہ حمل ٹھہرنے سے پہلے اپنے حالات کی رعایت اے اسے روکنے کی جو تدبیریں بھی کرلی جائیں لیکن حمل قرار پانے کے بعد ،جب کہ تقدیر الٰہیاس جان کے ساتھ متعلق ہوگئی ، اس کے بعد طب و صحت کے مسائل کے بغیر اس کو ضائع کرنے اور اس میں خلل ڈالنے کی توقع کسی مسلمان سے نہیں کی جاسکتی، جس کا دل خوف ِ خدا سے معمور ہواور جو اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد خدا کے دربار میں حاضری اور ذات ِ ذو الجلال سے ملاقات کی توقع رکھتا ہو‘‘۔  [اسلام کا نظریۂ جنس: ص303]

جنین کی صفائی اور اسقاط ِ حمل کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ آج پوری دنیامیں صنفی عدم توازن پیدا ہوگیا ہے اورمیڈیکل سائنس کی ترقی سے اس عدم ِتوازن کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے مولانا سلطان احمد اصلاحی لکھتے ہیں :

 ’’ طبّی سائنس کی ترقی نے ایک نئی آفت یہ پیدا کی ہے اِس دنیا میں آنے سے بھی اس [لڑکی ] کی راہ روکی جارہی ہے اور جینے کے حق سے آگے اسے پیدا ہونے کے حق سے بھی محروم کیا جارہا ہے——-اب والدین کی طرف سے لڑکی کو پیدا ہونے کے بعد مارنے کے بجائے  الٹراساؤنڈ کے ذریعہ اس سے پہلے ہی اس کی شناخت کرکے اس کے حمل کو ضائع کردیا جاتا ہے‘‘۔ [عصر ِ حاضر کا سماجی انتشاراور اسلام کی رہ نمائی:ص74]

  ہم نے عرض کیاتھا کہ مولانا سلطان احمد اصلاحی ؒ اعداد وشمار کے ذریعہ اپنی تحریوں کو زیادہ قابل ِ قبول بنادیتے ہیں ۔چنانچہ مردم شماری کے حوالہ سے ہندوستان میں صنفی عدم توازن کے بارے میں تحریر کرتے ہیں ::

   ’’ 1991ء میں جہاں فی ہزار مردوں میں 972عورتوں کا اوسط تھا، آج حوالے کے وقت یہ اوسط اس سے گھٹ کر925فی ہزار ہوگیا ہے۔ صورت ِ حال اس درجہ خراب ہے کہ ہماری مرکزی حکومت کو ریاستوں کو خصوصی ہدایت دینی پڑی ہے کہ وہ لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ انصاف اور بہتر سلوک کو یقینی بنائیں ‘‘۔ [عصر ِ حاضر کا سماجی انتشاراور اسلام کی رہ نمائی:ص76]

     خوشی کی بات ہے کہ حکومت کی کوششوں اور عوام بیداری سے2011ء کی مردم شماری میں صنفی توازن میں کچھ سدھار آیا ہے اورفی ہزار مردوں میں 940عورتوں کا اوسط ہے۔2001ء میں یہ شرح فی ہزار مردوں میں 933تھی۔ بایں ہمہ آج ہندوستان کی کچھ ریاستیں ہر طرح کے صنفی عدم توازن میں کافی بد نام ہیں ۔

   ذیل میں ہم ہندوستان کی ان ریاستوں کا علی الترتیب نشان دہی کررہے ہیں ،جو عددی صنفی عدم ِ توازن کا شکارہیں اور فی ہزار مردوں کے مقابلے میں ان کا تناسب کیا ہے:

  دمن وڈیو618،دادرا نگر حویلی774،چنڈی گڑھ818،دہلی868، انڈمان نکوبار876،ہریانہ879،جموں وکشمیر889،سکّم 890، پنجاب895،  اُترپردیش912،بہار918،گجرات919،راجستھان928،مہاراشٹر929،مدھیہ پردیش931، ناگالینڈ931،ارونا چل پردیش938،لکش دیپ   946،جھار کھنڈ948، مغربی بنگال950،آسام958،تری پورہ960، اُترا کھنڈ963،ہماچل پردیش972 ، کرناٹک973، گوا973، میزورم976، اُڑیسہ979، منی پور985،میگھالیہ989،چھتیس گڑھ991،آندھرا پردیش993، تمل ناڈو996، پانڈیچری1037اور کیرالاکا تناسب1084ہے۔

    ہریانہ، اُتر پردیش اوردہلی چند ایسی ریاستیں ہیں جہاں کچھ اور نوعیت کا بھی صنفی عدم ِ توازن ہے۔

صنفی توازن بلحاظ تعلیم وتربیت:

 اسلام میں صنفی تفریق کے بغیر اولاد کے ساتھ انصاف اور مساوات کا حکم دیا گیاہے اور ان کی تعلیم وتربیت میں کسی بھی طرح کے امتیاز اور بھید بھاؤ کو قطعی ناروا بتایا گیا ہے ۔اس سلسلے میں قرآن ِ حکیم اور احادیث مبارکہ رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہیں ۔محمد رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

   ’’اِتقوا اللہ واعدلوافی اولاد کم‘‘۔  [صحیح مسلم]

ترجمانیـ:’’ اللہ سے ڈرو اور ا پنی اولاد کے معاملے میں انصاف سے کام لو‘‘۔

  ’’اعدلوابین ابناء کم اعدلوا بین ابناء کم‘‘۔   [سنن ابوداؤد]

ترجمانی: ’’اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو‘‘۔

’’اعدلو بین اولادکم فی النحل کما تحبون ان یعدلوا بینکم فی البر  ‘‘    [فتح الباری،ج5،ص213-214]

ترجمانی: ’’اپنی اولاد کے درمیان عطیہ کے معاملے میں انصاف کرو،جس طرح کہ تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے درمیان حسن ِ سلوک کے معاملے میں اچھے سے کام لیں ‘‘۔

   اِن احادیث ِ مبارکہ کو نقل کرنے کے بعد مولانا سلطان احمد اصلاحی لکھتے ہیں :

    ’’ آپ ﷺ کے ارشاد کا تقاضا ہے کہ ہبہ اور عطیہ کی طرح پرورش و پرداخت ، تعلیم وتربیت،توجہ و نگرانی اور صحت وتندرستی وغیرہ کے تمام دوسرے

     معاملات میں آپ ﷺ کے پیروکاروں کے یہاں اولاد اور اولاد کے درمیان کسی طرح کے فرق وامتیاز کو روا نہ رکھا جائے۔آج کے زمانہ میں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی تعلیم کا عام رواج ہوچلا ہے،احتیاط اور مصلحت وغیرہ کے پہلوؤں سے ہٹ کر اس معاملے میں محض لڑکے اور لڑکیکے فرق سے دونگاہی کو راہ نہیں دینی چاہیے اور لڑکے اور لڑکی دونوں کو دین اور دنیا کی تعلیم کایکساں موقع فراہم کرنا چاہیے۔ پرورش وپرداخت  اور نگرانی وتربیت کے دیگر معاملات کو بھی اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے‘‘۔     [عصر ِ حاضر کاسماجی انتشار اور اسلام کی رہ نمائی:ص191]

     مولانا سلطان احمد اصلاحی مزید لکھتے ہیں :

   ’’ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رہ نمائی اور توفیق سے ہادی ٔ برحق ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے پرورش و پرداخت کے معاملے میں  لڑکے اور لڑکی کے درمیان فرق و امتیاز کی کم زوری کی انسانی فطرت کو سمجھ لیا تھا۔ چناں چہ آپ ﷺ نے اپنی مختلف اور متعدد احادیث میں لڑکیوںکی پرورش کی خاص طور پر ترغیب دی اور اس کے غیر معمولی فضائل بیان کیے‘‘۔ [عصر ِ حاضر کاسماجی انتشار اور اسلام کی رہ نمائی:ص191]

   بات کو متحقق کرتے کے لیے سنن ابوداؤد کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت نقل کرتے ہیں :

   ’’ من کانت لہ اُنثیٰ فلم یٔدہا ولم یہنہا ولم یوثر ولدہ علیہا ادخلہ اللہ الجنۃ‘‘  [سن ابو داؤد،ج2]

    ترجمانی:’’ جس کسی کے لڑکی ہو تو وہ اُسے زندہ دفن نہ کرے اور اس کو حقیر نہ سمجھے اور اپنی اولاد ِنرینہ کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو جنت میں داخل کرے گا‘‘۔

    متعدد احادیث میں مذکور ہے کہ بچیوں کی ذمہ داری کو بحسن وخوبی ادا کرنے والا دوزخ کی آگ سے محفوظ رہے گا اور جنت لازم ہوگی نیزحضور ﷺ کے ساتھ جنت میں داخل ہوگا۔

    قرآن ِ حکیم کی آیات اور نبی ٔ برحق ﷺ کی احادیث میں پچیوں کے ساتھ حسن ِ سلوک کی تاکید کے باوجود مسلم معاشرہ،بالخصوص برِ صغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں آج بھی لڑکیوں کی پیدائش پر جبینیں سکڑ جاتی ہیں اور چہرے کی شادابی غائب ہوجاتی ہے۔اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اب تک اپنے دلوں میں نہیں اُتارسکے ہیں اور ہم اب بھی ’ اندیشہ ہائے دور دراز‘ میں گرفتارہیں ۔

    ذراغور فرمائیے! ہمارا معاشرہ کس قدر بے حس اور اسلامی تعلیمات سے پر عمل سے کس قدر گریزاں ہے کہ آج ’ بیٹی بچاؤ،بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ تو بلند کررہا ہے، لیکن اس نعرے کی رمزیت کو سمجھنے اور اس کی معنویت کو تسلیم کرنے کے لیے قطعی تیارنہیں ہے۔

   مولانا سلطان احمد اصلاحی نے ا پنی تحریروں کے ذریعہ ہر طرح صنفی عدم  توازن کے خلاف آواز بلند کی اور معاشرے کے اس اہم مسئلے کا اسلامی حل پیش کیا،یہ بات دیگر ہے کہ بعض اوقات ان کے یہاں فکری توسع کے عناصر کچھ زیادہ ہی ہوجاتے ہیں ،جس سے ان کا قاری کچھ دیر کے لیے حیرتی ہوجاتا ہے۔

کتابیات:

القرآن الحکیم

1.محمد بن اسمٰعیل البخاری[1938ء]،صحیح البخاری،اصح المطابع،دہلی

2.ابو داؤدسلیمان بن اشعث السجستانی[1345ھ]، سنن ابو داؤد، مطبع مجیدی، کان پور

3.ابو الحسین مسلم بن حجاج القشیری النیسابوری[غیر مورخ]، الجامع الصحیح المسمیٰ بصحیح مسلم، مطبعۃ عامرۃ مصر

4.شہاب الدین محمدبن حجر العسقلانی[1319ھ]،فتح الباری، مطبع خیریہ ،مصر

5.ابو محمد حامد بن محمد الغزالی[ 1326ھ] ، احیاء علوم الدین،مطبعہ عامرہ شرفیہ، مصر

6.علامہ شبلی نعمانی/سید سلیمان ندوی[2002ء]، سیرت النبی ﷺ ،ح 4،دارۂ اسلامیات، دینا ناتھ منشن، مال روڈ، لاہور

7.مولاناسیدابو الحسن علی ندوی[1982ء]، مضمون’ بعثت ِ محمدی سے پہلے، ماہنامہ نقوش،شمارہ130 [ رسول ﷺ نمبر]،لاہور،

8.مولانا سلطان احمد اصلاحی[1995ء]، اسلام کا نظریۂ جنس، بھارت آفسیٹ پریس، دہلی

9.مولانا سلطان احمد اصلاحی[2011ء]، عصر ِ حاضر کا سماجی انتثار اور اسلام کی رہنمائی،ایچ ایس آفسیٹ پرنٹرز،نئی دہلی

تبصرے بند ہیں۔