صنف‌ افسانہ اور اس کا آغاز و ارتقاء

ڈاکٹر احمد علی جوہر

اردو کی جدید نثری اصناف میں افسانہ کو ایک اہم صنف مانا گیا ہے۔ اردو میں اسے مختصرافسانہ اور کہانی بھی کہا گیا ہے۔ اپنی صنفی خصوصیات کے اعتبار سے افسانہ، داستان اور ناول سے مختلف صنف ہے۔ ناول اگر زندگی کے ایک دور کا احاطہ کرتا ہے تو افسانہ زندگی کے کسی ایک پہلو یا ایک انسانی تجربے پرمبنی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایک واقعے یا اس واقعے کے تاثر کی بنیاد پر افسانے کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اردو میں افسانہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں، مثلاََ یہ کہ افسانہ ایک ایسا نثری قصّہ ہے جس کے پڑھنے میں آدھ گھنٹہ تک کا وقت لگے یا یہ کہ افسانہ کسی شخص کی زندگی کے سب سے اہم اور دلچسپ موقع کو ڈرامائی شکل میں پیش کرنے کا نام ہے۔ ایک ناقد کا کہنا ہے کہ افسانہ کسی ایک واقعہ کا بیان ہے جس میں ابتدا ہو، درمیان ہو، عروج ہو اور خاتمہ ہو۔ افسانہ کی ایک آسان اور موزوں تعریف یہ کی گئی ہے کہ ’’افسانہ ایک ایسی نثری صنف ہے، جس میں کسی ایک واقعے یا زندگی کے کسی ایک پہلو کو کم سے کم لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ بیان کا ایسا اسلوب اختیار کیا جاتا ہے کہ دلچسپی قائم رہے اور افسانہ کا مقصد بھی واضح ہو جائے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تاثر کی وحدت ہر حال میں برقرار رہے۔ افسانہ کے بارے میں ڈاکٹر اختر اورینوی کی ر ائے ہے۔:

’’ایک اچھّا افسانہ ایک کامیاب ڈرامہ کی طرح معجزہ ہے ایجاز کا۔ باوجود اختصار کے فنّی حیثیت سے وہ ایک حُسنِ کامل ہوتا ہے اور اپنے حُسن وتکمیل کی وجہ سے ناظرین کے لیے ذہنی مسرّت کا سامان۔‘‘ (۱)

لطیف الدین احمد نے افسانہ کی تعریف یوں کی ہے۔:

’’کسی ایک واقعہ یا جذبہ کی تاریخ بیان کر دینا مختصر افسانہ ہے۔‘‘ (۲)

افسانہ کے متعلق سیّد وقارعظیم کی رائے ملاحظہ ہو۔:

’’ افسانہ کہانی میں پہلی مرتبہ وحدت کی اہمّیت کا مظہر بنا۔ کسی ایک واقعہ، ایک جذبہ، ایک احساس، ایک تاثر، ایک اصلاحی مقصد، ایک رُوحانی کیفیت کو اس طرح کہانی میں بیان کرنا کہ وہ دوسری چیزوں سے الگ نمایاں ہو کہ پڑھنے والے کے جذبات واحساسات پر اثرانداز ہو، افسانہ کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے اُسے داستان اور ناول سے الگ کیا ہے۔ مختصرافسانہ میں اختصار اور ایجاز کی دوسری امتیازی خصوصیت نے اُس کے فن میں سادگی، حسنِ ترتیب وتوازن کی صفت پیداکی۔‘‘ (۳)

افسانہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے وحید اختر رقم طراز ہیں:

’’ ادب میں افسانہ اپنے لغوی معنیٰ کے لحاظ سے بھی کسی حقیقی یافرضی واقعہ کا بیان ہے۔ یہ واقعہ تاریخی بھی ہو سکتا ہے، زمانی بھی، نفسیاتی واردات بھی، تاثر کا زائیدہ بھیـــ․․․․․․․ لیکن کہانی میں واقعہ کو بہرحال اہمّیت حاصل ہوتی ہے کہ کہانی واقعہ کا بیان ہے اس لیے کہانی کا اسلوب ہمیشہ سے بیانیہ رہا ہے۔‘‘ (۴)

اس ضمن میں سعادت حسن منٹو کہتے ہیں۔:

’’ایک تاثر خواہ وہ کسی کا ہواپنے اوپر مسلّط کرکے اِس انداز سے بیان کردینا کہ وہ سُننے والے پر وہی اثر کرے، یہ افسانہ ہے۔‘‘ (۵)

راجندرسنگھ بیدی اپنے مضمون ’’افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل‘‘ میں لکھتے ہیں۔:

’’افسانے اور شعر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہے تو صرف اتنا کہ شعر چھوٹی بحر میں ہوتا ہے اور افسانہ ایک ایسی لمبی اور مسلسل بحر میں جو افسانے کے شروع سے لے کر آخر تک چلتی ہے۔ مبتدی اس بات کو نہیں جانتا اور افسانے کو بہ حیثیت فن شعر سے زیادہ سہل سمجھتا ہے۔ پھر شعر، فی الخصوص غزل میں آپ عورت سے مخاطب ہیں، لیکن افسانے میں کوئی ایسی قباحت نہیں۔ آپ مرد سے بات کر رہے ہیں، اس لیے زبان کااتنا رکھ رکھاؤ نہیں۔ غزل کا شعر کسی کُھردرے پن کا متحمل نہیں ہو سکتا، لیکن افسانہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ نثری نژاد ہونے کی وجہ سے اس میں کُھردراپن ہونا ہی چاہیے، جس سے وہ شعر سے ممیّز ہو سکے۔‘‘ (۶)

سلام بن رزاق افسانے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔:

’’میرے نزدیک ایک عمدہ افسانے کی تعریف یہی ہے کہ جسے پڑھنے کے بعد قاری وہ نہ رہے جو پڑھنے سے قبل تھا۔ ایک اچھاشعر، عمدہ افسانہ ایک بلند پایہ ناول ہمیں مسرّت وانبساط کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کی تہذیب کرتا ہے اور ہماری پراگندہ سوچ کے دھارے کو زندگی کے بیکراں سمندر سے جوڑدیتا ہے۔ نیز جس کے مطالعے کے بعد زندگی ہمیں زیادہ بامعنی اور بامقصد لگنے لگتی ہے۔ اگر افسانہ اس کسوٹی پر کھرا نہیں اُترتا تو پھر وہ افسانہ نہیں محض الفاظ کا ڈھیر ہے۔‘‘ (۷)

افسانہ کی درج بالا مختلف تعریفوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ افسانہ مختصر نثری بیانیہ صنف ہے جس میں زندگی کے کسی ایک گوشہ یا کسی ایک پہلو یا کسی ایک واقعہ کو موثر انداز میں بیان کیا جاتا ہے اور جو قاری کو مسرّت وانبساط کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔ افسانہ کو موثر بنانے کے لیے افسانہ نگار کو افسانہ کے فنّی لوازم پلاٹ، کردار، مکالمہ، تکنیک، جزئیات، منظرنگاری اور زبان واسلوب پر بطور خاص توجّہ دینی ہوتی ہے۔

پلاٹ:

کہانی میں انسانی زندگی سے متعلق جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں ان ہی واقعات کی فنّی ترتیب کو افسانہ نگاری کی اصطلاح میں پلاٹ کہتے ہیں۔ اس فنّی ترتیب میں کہانی کے آغاز، وسط اور انجام کے درمیان منطقی ربط وتسلسل شامل ہے۔ ایسی ہی کہانی قاری کے ذہن پر ایک واحد تاثر چھوڑتی ہے۔

کردارنگاری

افسانے کے فن میں کردارنگاری کو بڑااہم جُز مانا گیا ہے۔ افسانہ کا براہ راست تعلق انسانی زندگی سے ہے۔ انسانی زندگی کے کسی گوشہ یا کسی پہلو کوکہانی میں کرداروں کے توسط سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہانی میں کردارنگاری مقصد نہیں ذریعہ ہے۔ کہانی میں کردار کے سہارے ہی قصّہ آگے بڑھتا ہے اور انجام کو پہنچتا ہے۔ کردار ناول میں بھی ہوتے ہیں مگر افسانہ اور ناول دونوں کی کردارنگاری میں فرق ہے۔ ناول میں کرداروں کی پوری زندگی یا اس کی مجموعی حیثیت کو پیش کیا جاتا ہے جب کہ کہانی میں کردار کی محض ایک جھلک نظر آتی ہے یا اس کے کسی ایک رُخ یا ایک پہلو پہ روشنی ڈالی جاتی ہے۔ بعض کردار مثالی ہوتے ہیں یعنی وہ شروع سے آخر تک نیک ہوتے ہیں یا بد ہوتے ہیں۔ ایسے کردار فنّی اعتبار سے کمزور اور معیوب سمجھے جاتے ہیں۔ بعض کردار پے چیدہ ہوتے ہیں یعنی انسان کی طرح ان میں بھی خیرو شرکے پہلو ہوتے ہیں اور ان میں مختلف طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ایسے کردار فنّی اعتبار سے مستحسن تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کردار جتنے فطری اور حقیقی ہوں گے، وہ اتنا ہی قاری کے ذہن پر اپنا اثر چھوڑنے میں کامیاب ہوں گے۔ ایسی کردارنگاری کو فن کا عمدہ نمونہ مانا جاتا ہے۔ جیسے پریم چند کے افسانہ ’’کفن‘‘ کے کردار مادھو، گھیسو اور بدھیا اورسعادت حسن منٹو، راجندرسنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کے بعض افسانوں کے کردار قاری کے ذہن ودماغ میں رچ بس گئے ہیں اور بُھلائے نہیں بھولتے۔ بعض افسانوں میں کردار، اس کی شخصیت اور اس کی زندگی کے کسی پہلو پر اس طرح روشنی ڈالی جاتی ہے کہ کردار مرکزِتوجّہ بن جاتا ہے۔ ایسے افسانوں کو کرداری افسانہ کہا جاتا ہے۔ کردار بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں، جیسے حقیقی کردار، علامتی کردار اور تمثیلی کردار، بہتر کردار وہ ہے جو قاری کواپنی طرف متوجہ کرلے اور اس کے دل میں اپنا انمٹ نقوش چھوڑ جائے

مکالمے

کرداروں کے درمیان کی آپسی گفتگو اور ان کی زبان سے جو باتیں کہلوائی جاتی ہیں، انھیں مکالمہ (Dialogue)کہا جاتا ہے۔ بہتر مکالمے وہ ہیں جو مختصر اور برجستہ ہوں اور کرداروں کی ذہنی سطح کے مطابق اور ان کی اپنی زبان میں ہوں۔ اور کرداروں کی داخلی وخارجی شخصیت اور ان کی نفسیات کے عکّاس ہوں۔ ایسے مکالے موزوں ومناسب اور فطری وحقیقی سمجھے جاتے ہیں جو فنّی اعتبار سے کہانی کو استحکام بخشتے ہیں ۔

تکنیک

افسانہ کی تشکیل وتعمیرمیں تکنیک ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔ اس کے متعلق ممتاز شیریں اپنے ایک مضمون میں یوں رقم طراز ہیں:۔

’’تکنیک کی صحیح تعریف ذرا مشکل ہے۔ تکنیک مواد، اسلوب اور ہیئت سے ایک علیٰحدہ صنف ہے۔ ۔۔۔ فنکار مواد کو اسلوب سے ہم آہنگ کرکے اُسے ایک مخصوص طریقے سے متشکل کرتا ہے۔ افسانے کی تعمیر میں جس طریقہ سے مواد ڈھلتا ہے وہی ’’تکنیک‘‘ ہے۔۔۔۔ اور آخر میں جو شکل پیدا ہوتی ہے اسے ’’ہیئت ‘‘ کہتے ہیں اور جو چیز بنتی ہے وہ ’’افسانہ‘‘۔ ہیئت اور افسانہ میں یہ فرق ہے کہ ہیئت مکمّل شکل ہے اور افسانہ مکمّل چیز۔۔۔۔ صرف اچھّا مواد یا اچھّی تکنیک کسی افسانے کو اچھّا نہیں بنا سکتی۔ کامیاب فنکار ہر طرح کے موضوع سے ایک اچھّا افسانہ تخلیق کر سکتا ہے۔‘‘ (۸)

افسانہ کی کوئی متعیّن اور واجب العمل تکنیک نہیں ہے نہ ہی اس کے کوئی مدارج مقرر کئے جاسکتے ہیں کہ کون سی تکنیک بہترین ہے اور کون سی کمتر۔ تکنیکی معیار ایک نہیں ہو سکتا۔ ہر موضوع اورہر مواد کے لیے الگ تکنیک کی ضرورت ہے۔ ایک خاص مواد ایک خاص تکنیک کے استعمال سے زیادہ پُراثر ہوجاتا ہے۔ اس کا استعمال مجموعی تاثر پیدا کرنے یا اُس کو بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ گویا تکنیک مقصد نہیں بلکہ وسیلہ ہے۔ اُس کی حیثیت ثانوی اور ضمنی ہے۔ کسی مخصوص تکنیک کی پابندی کے لیے ایک خاص قسم کی فنّی بصیرت درکار ہے جس کی مدد سے فنکار اپنی کہانی کو اچھّے تخلیقی ادب کانمونہ بنا سکتا ہے۔

جُزئیات نگاری

افسانے کے فن میں جُزئیات نگاری کو بھی ایک اہم عنصر کے طور پر تسلیم کیا گیاہے۔ جُزئیات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نہ اتنی طویل ہو کہ افسانہ میں ثقالت اور بوجھل پن کا احساس ہو اور نہ اتنی مختصر ہو کہ افسانہ کی مخصوص فضا بھی نمایاں نہ ہو سکے۔ بہتر جُزئیات وہ ہے جو نہ زیادہ طویل ہو اور نہ زیادہ مختصر، بلکہ موزوں ہو اور جس سے کہانی کی مخصوص فضا کو نمایاں کرنے میں مدد ملے یا جس سے کردار کے کسی پہلو یاکہانی کی تھیم پر روشنی ڈالی جا سکے۔ یعنی جُزئیات فضول نہ ہو بلکہ اس کا براہ راست تعلق کہانی سے ہو۔ ایسی جُزئیات نگاری فنّی اعتبار سے اچھی سمجھی جاتی ہے اور اس سے کہانی فنّی طور پر سجتی، سنورتی اور نکھرتی ہے۔

منظرنگاری

افسانہ میں جب کوئی واقعہ بیان کیا جاتا ہے تو اس واقعہ سے متعلق کسی اہم منظر (Scene) کو بیان کیا جاتا ہے تاکہ افسانہ میں بیان کردہ واقعہ کو اس کے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ اُجاگر کیا جاسکے۔ منظرنگاری سے کہانی میں کئی طرح کی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں جیسے دلچسپی، سحرکاری، واقعہ کا موثر ہونا اوراس کے پس منظر کا نمایاں ہونا وغیرہ۔ اس لیے کہانی میں منظرنگاری کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ منظرنگاری میں نہ بے جا طوالت ہو، نہ غیر معمولی اختصار، بلکہ ایسی منظرنگاری ہو جو کہانی کی فضا اور تھیم کو اُبھارنے اور کہانی کو موثر بنانے میں مدد کرے۔

نقطۂ نظر

نقطۂ نظر ادب کی ہر صنف کے لیے ضروری ہے کیوں کہ فن کار کی شخصیت کا پورا اظہار ان کے نقطۂ نظر کے ذریعے ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کا نقطۂ نظر اس کے افسانوں پر اپنا عکس ڈالتا ہے کیوں کہ اس کا تعلق افسانے کے مرکزی خیال سے ہوتا ہے اور یہی افسانہ لکھنے کا محرّک بھی بنتا ہے۔ افسانہ نگار اپنی جو بات کہنا چاہتا ہے اس کے لیے وہ ایک پلاٹ بناتا ہے گویا افسانے کے موادکی بنیاد افسانہ نگار کے نقطۂ نظر پر ہوتی ہے۔ نقطۂ نظر ہی ان کے کرداروں کی تشکیل کرتا ہے۔ نقطۂ نظر کو افسانہ میں اتنا حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے کہ فن مجروح ہونے لگے بلکہ صرف اس کا عکس افسانہ میں محسوس کیا جانا چاہیے۔

ماحول و فضا

افسانہ میں ماحول وفضا کی ایک خاص اہمیت ہے۔ افسانہ میں ایک خاص ماحول وفضا کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ماحول وفضا اور پس منظر کو نمایاں کیاجائے۔ اس کے لیے جُزئیات اور منظرنگاری کا سہارا لیاجاتاہے۔ جس افسانہ میں پیش کردہ واقعہ کے ماحول وفضا اور پس منظر کو اس طرح اُبھارا جائے کہ قاری اس میں اپنی شرکت محسوس کرے اور اس میں رچ بس جائے، وہ افسانہ فنّی طور پر کامیاب سمجھاجاتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو افسانہ کے فنّی طور پر کمزور ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔

 زبان وبیان

افسانہ نثری صنف سخن ہے۔ اس لیے اس کی زبان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نثری ہو نہ کہ شاعرانہ۔ افسانہ کی زبان کو مسجّع ومقفّیٰ اور انشائیہ نما اُسلوب سے پاک اور صاف ستھری نثر ہونی چاہیے۔ افسانہ میں کرداروں کے مکالموں میں علاقائی بولی ٹھولی، محاوروں، کہاوتوں اور ضرب المثل وغیرہ کا آنا فطری ہے۔ افسانہ کی زبان کو موضوع ومواد اور کردار کی اپنی سطح کے مطابق ہونی چاہیے۔ کہانی میں زبان جتنی موثر ہوگی، کہانی بھی اتنی ہی موثر ہوگی۔

اسلوب

افسانے میں اُسلوب کی بھی بڑی اہمّیت ہے۔ اسلوب کسے کہتے ہیں؟ اس ضمن میں ممتاز شیریں لکھتی ہیں:۔

’’ایک برتن بنانے کے لیے سب سے پہلے مٹی کی ضرورت ہے۔ اسے ’’خام مواد‘‘ سمجھ لیجیے۔ پھر اس میں رنگ ملایا جائے گا۔ یہ ’’اسلوب‘‘ ہے۔‘‘ (۹)

ممتاز شیریں کے اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ مواد میں رنگ بھرنے کا نام اسلوب ہے۔ جس طرح رنگ کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، اسی طرح اسالیب بھی مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ ہر فن کار کا اپنا ایک اسلوب ہوتا ہے جو اُسے دوسرے فن کاروں سے الگ کرتا ہے۔ کسی فن کار کی اِنفرادیت کو پہچاننے، پرکھنے یا یہ پتہ لگانے کے لیے کہ اُس میں اِنفرادیت ہے بھی یا نہیں، اس کے اسلوب کا جائزہ لیا جاتا ہے اور کسی فن پارہ کی قدرو قیمت مُتعیّن کرنے کے لیے اُس کے اسلوب کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ اسلوب یا اسٹائیل محض موضوع کی زیب وزینت یا آرائش نہیں بلکہ ایک وسیلہ ہے جو موضوع یا مضمون کو فن میں تبدیل کرتا ہے۔ اس لیے ایک فن کار کے لیے طریقہ اظہار سے واقف ہونا اور اظہار کے مختلف پیرایوں پر عُبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ فنّی صلاحیت ہوتی ہے جو کہیں تو خداداد ہوتی ہے اور کہیں اکتساب کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں فن کار کے لیے مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ تینوں بہت ضروری ہیں۔ افسانہ کے مختلف اسالیب ہوتے ہیں جیسے سادہ، پے چیدہ، رنگین، حکایتی، داستانی، تمثیلی اور حقیقت پسندانہ اسالیب وغیرہ۔ بہتر اسلوب وہ ہے جو موضوع ومواد سے پوری طرح ہم آہنگ ہوکر کہانی میں ایسی کشش پیدا کرے جو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلے۔

موضوع

افسانہ کا اپنا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہوتا۔ دنیا اور انسانی زندگی سے متعلق کوئی بھی واقعہ، جذبہ، احساس، تجربہ، مشاہدہ اس کا موضوع بن سکتا ہے۔ گویا انسانی زندگی جتنی وسیع ہے اتنی ہی وسعت افسانہ کے موضوعات میں پائی جاتی ہے جو زندگی کے سچّے، حقیقی اور فطری مُرقعے پیش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد زندگی کی وسعتوں میں سمٹی ہوئی تمام موجودات کی تشریح، وضاحت، ان کا تجزیہ، توجیہہ وتعلیل پیش کرنا ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے مشاہدات وتجربات سمیٹے ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انفرادی واجتماعی زندگی کی تصویرکشی کی جاتی ہے۔ کسی بھی موضوع کو افسانہ کے سانچہ میں ڈھالنے کے بعد تخلیق کار اسے کوئی خوبصورت اور موزوں نام دینا چاہتا ہے۔ اکثر اوقات سُرخی کے ذریعہ افسانہ کے مرکزی خیال ومقصد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ موقعہ ومحل کے مطابق ہی موزوں اور مختصر سُرخیاں رکھی جانی چاہئیں۔

افسانہ کے بارے میں یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ اُردو زبان میں یہ صنف مغربی ادب کی دین ہے۔ اس صنف کی ابتدا سب سے پہلے امریکہ میں انیسویں صدی میں ہوئی۔ وہیں سب سے پہلے اس نے ادبی حیثیت پائی۔ اس فن کی بنیاد ۱۸۱۹ء میں واشنگٹن ارونگ کی ’’اسکیچ بُک‘‘ سے پڑی۔ اس کے بعد مختصرافسانہ کی تاریخ میں دوسرا اہم نام نیتھینیل ہاتھارن ۱۸۰۴ء تا ۱۸۶۴ء کا ہے۔ اس نے ایسی کہانیاں لکھیں جو تمثیلی پس منظر میں ایک واحد سچویشن کے گرد گھومتی تھیں۔ اُس نے مختصر افسانہ کو ایک سنجیدہ فن کی شکل میں دُنیا کے سامنے پیش کیا۔

اَرونگ اور ہاتھارن کے بعدمختصرافسانہ کی تاریخ میں انتہائی معتبرنام ایڈگرایلن پو (۱۸۰۹ء تا ۱۸۴۹ء) کا آتا ہے۔ اس کو جدید مختصرافسانہ کا سب سے پہلا اور بڑا اُستاد مانا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مختصرافسانہ کا تجزیہ کرکے اُس کے لوازم متعیّن کیے تھے۔

پو کی کہانیوں نے دیگر ممالک کے افسانوں پر خصوصاََ فرانس کی کہانیوں پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ فرانس کا عظیم افسانہ نگار موپاساں (۱۸۵۰ء تا۱۸۹۳ء) پو سے بہت متاثر ہوا اور تکنیکی اعتبار سے کہانی کو ایک نیا موڑدیا۔ مختصرافسانہ کی ترقی میں رڈیارڈکپلنگ (۱۸۶۵ء تا۱۹۳۶ء) اور امریکی افسانہ نگار او۔ہنری اور ولیم سڈنی پورٹر نے بھی اہم کردار اداکیاہے۔ مختصرافسانہ کو ایک خوبصورت شکل میں ڈھالنے میں رُوسی افسانہ نگاروں خصوصاََ چیخوف (۱۸۶۰ء تا ۱۹۰۴ء) اور کیوپریون نے نمایاں حصّہ لیا ہے۔ کیوپریون کی کہانی ”Captain Ribnekov” دنیا کی مختلف زبانوں کی بہترین کہانیوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔

مذکورہ افسانہ نگاروں کے علاوہ مغرب میں مختصرافسانہ کو فروغ دینے اور اسے نئے موضوعات واسالیب اور نئی جہات سے آشنا کرنے اور نیا رُخ دینے میں جن افسانہ نگاروں نے حصّہ لیا، ان میں سامرسٹ ماہم (۱۸۷۴ء تا۱۹۶۵ء) اور جیمس جوائس (۱۸۸۲ء تا ۱۹۴۱ء) وغیرہ کانام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان مغربی فن کاروں کی افسانوی تحریروں نے پوری دنیا کی زبان وادب پر ہمہ گیر اثر ڈالااور اب ان زبانوں میں بھی مختصرافسانے لکھے جانے لگے جن میں اب تک افسانے نہیں لکھے گئے تھے۔

اردوزبان میں بھی مختصرافسانہ مغربی ادب کے راستہ سے آیا۔ اردو میں افسانہ کا آغاز سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند کی افسانوی تحریروں سے ہوا۔ ان دونوں میں اردو کا اوّلین افسانہ نگار کون ہے؟ اس سلسلے میں ناقدین کی مختلف آراء ہیں۔ بعض نے سجاد حیدر یلدرم کو اردو کا پہلا افسانہ نگار تسلیم کیاہے کیوں کہ یلدرم کا پہلا افسانہ ’’نشہ کی پہلی ترنگ‘‘ ، ’’معارف‘‘ علی گڑھ میں ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا جب کہ پریم چند کا پہلا افسانہ ’’دنیاکا سب سے انمول رتن‘‘ ، ’’زمانہ‘‘ کانپور میں ۱۹۰۷ء میں شائع ہوا۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ پریم چند اُردو کا پہلا افسانہ نگارہے کیوں کہ اس کی افسانوی تحریریں افسانہ کے فن پر پوری اُترتی ہیں۔ بہرحال اُردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے؟ اس بحث سے قطع نظر، یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ اُردو میں صنف ِافسانہ کوسب سے پہلے پریم چند ہی کی افسانوی تحریروں سے استناد حاصل ہوا۔ دراصل پریم چند نے جو زندگی نزدیک سے دیکھی تھی، اسی سے اپنی کہانیوں کے موضوعات کا انتخاب کیا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ گاؤں، دیہات، غریب کسان اور مزدوروں کے مسائل کو اپنی کہانیوں کاموضوع بنایا۔ ان ہی کی بدولت اردوافسانہ ایک نئے رُخ سے آشنا ہوا اور اسے ایک نئی سمت ملی۔ پریم چند نے اپنے افسانوں کی بنیاد اصلاح وحقیقت پسندی پر رکھی ۔ اس کے برعکس سجاد حیدریلدرم نے رومانی اور تخئیلی افسانے لکھے۔ اس لیے اردو کے ابتدائی دور کے افسانوں میں ہمیں دو رجحان نظر آتے ہیں۔ (۱) اصلاح و حقیقت پسندی کا رجحان، (۲) رومانیت و تخیل پرستی کا رجحان۔ اول الذکر رجحان کے سرخیل پریم چند ہیں۔ پریم چند کے بعد اس رجحان سے متاثر ہونے والوں میں سدرشن، اعظم کریوی، سہیل عظیم آبادی اور علی عبّاس حسینی وغیرہ کے نام ایک خاص اہمّیت کے حامل ہیں۔ رومانیت وتخیّلی میلان کی قیادت سجاد حیدر یلدرم نے کی۔ اس رجحان سے متاثر ہونے والوں میں نیاز فتح پوری، سلطان حیدر جوش اور مجنوں گورکھپوری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

اردوافسانہ میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ۱۹۳۲ء میں ’’انگارے‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔ یہ دس افسانوں کا مجموعہ تھا۔ پانچ سجاد ظہیر کے، دو رشید جہاں کے، دو احمد علی اور ایک محمود الظفرکا۔ اس مجموعہ کے افسانوں میں قدیم سماج، مذہب اور اخلاقی اقدار کی دھجّیاں اُڑائی گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مجموعہ اشاعت ہوتے ہی فوراََ ضبط کر لیاگیا، مگر اس مجموعہ نے اردوافسانہ میں ترقی پسندی کی داغ بیل ڈال دی۔ اردوافسانہ میں پریم چند کے ’’کفن‘‘ جیسے شاہکار افسانہ کی اشاعت نے بھی اردوافسانہ کو ایک نیا راستہ (ترقی پسندی کا راستہ ) دکھایا۔ اردوافسانہ کا سب سے سنہرا دور اس وقت آیا جب ۱۹۳۶ء میں اردوادب میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑی۔ اس تحریک کے زیراثر سب سے زیادہ صنف افسانہ کا فروغ ہوا۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عبّاس اور حیات اللہ انصاری وغیرہ نے اس تحریک سے متاثر ہوکر اپنے افسانوں میں سماجی الجھنوں، معاشی تلخیوں اور سیاسی طور کے مختلف پہلوؤں کی بے لاگ مصوّری کی اور ایسے شاہکار افسانے تخلیق کیے کہ اردوافسانہ کا قد انتہائی بلند نظر آنے لگا۔ ترقی پسند تحریک اپنے عروج ہی پر تھی کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا۔ اس سے ترقی پسند تحریک کو بڑادھچکا لگا۔ اس سانحہ (تقسیم ہند) پر بہت سے افسانے لکھے گئے جن میں بعض اچھّے افسانے بھی ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں بظاہر آزادی تو مل گئی لیکن تقسیم ہند کے واقعہ نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ادب کو بھی متاثر کیا۔ اب آزادی کے بعد ترقی پسند تحریک رفتہ رفتہ زوال پذیر ہوگئی اور ۶۰۔۱۹۵۵ء کے آس پاس جدیدیت کے رجحان کا آغاز ہوا۔ اس رجحان کے زیراثر علامتی، تمثیلی اور تجریدی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ اس رجحان کے زیراثر صنف افسانہ کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔ اس رجحان کے زیراثر دوطرح کے لکھنے والے تھے۔ ایک شدّت پسند جدید افسانہ نگار اور دوسرے غیرشدّت پسند یا جدید ترقی پسند افسانہ نگار۔ اوّل الذکر صف میں انورسجّاد، بلراج مین را، سریندر پرکاش، انور عظیم اور رشید امجد اور اس جیسے افسانہ نگار آتے ہیں اور ثانی الذکر صف میں رام لعل، اقبال متین، رتن سنگھ، قاضی عبدالستار، اقبال مجید اور اس طرح کے افسانہ نگاروں کا شمار ہوتا ہے۔ ۸۰۔۱۹۷۵ء تک آتے آتے جدیدیت کا رجحان بھی زوال پذیر ہوا اور ادب میں مابعدجدیدیت ایک رجحان کے طور پر سامنے آئی۔ اب ۱۹۸۰ء کے بعد کہانی میں پھر سے افسانوی لوازم پلاٹ، کردار، مکالمہ، کہانی پن اور جُزئیات وغیرہ پہ بہ طور خاص توجّہ دی جانے لگی اور نئے سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کو موضوع بناکر کہانیاں لکھی جانے لگیں اور کہانیوں میں سماج کی بھرپور عکّاسی کی جانے لگی۔ ۱۹۸۰ء کے بعد سے تاحال جن افسانہ نگاروں نے اردوافسانہ کو نئی جہات سے ہمکنار کرنے اور اس کے ارتقا میں نمایاں حصّہ لیاہے، ان میں سلام بن رزّاق، ساجد رشید، حسین الحق، شفق، عبدالصمد، علی امام نقوی، حمید سہروردی، بیگ احساس، ذکیہ مشہدی، ترنم ریاض، ثروت خاں، شائستہ فاخری، شموئل احمد، شوکت حیات، شفیع جاوید، طارق چھتاری، معین الدین جینابڑے، پیغام آفاقی اور مشرف عالم ذوقی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے اپنی افسانوی تحریروں سے اردوافسانہ کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں اور بعض اب بھی دے رہے ہیں۔ صنفِ افسانہ کے عہد بہ عہد ارتقا اور اس کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر یہ کہنا بجا ہوگا کہ صنفِ افسانہ اردونثر کی آبرو ہے۔

حوالے

(۱) اختر اورینوی ’’تحقیق و تنقید‘‘ پٹنہ، ص،۱۳۔
(۲) لطیف الدین احمد ’’فن مختصر افسانہ‘‘ ساقی، سالنامہ، لاہور، ۱۹۳۸ء، ص، ۲۸۔
(۳) وقار عظیم ’’داستان سے افسانے تک‘‘ کراچی، ۱۹۶۰ء، ص،۱۶
(۴) وحیداختر’’الفاظ‘‘ افسانہ نمبر، علی گڑھ، ۱۹۸۱ء، ص،۲۱۔
(۵) محمد طفیل، نقوش، (سمپوزیم) افسانہ نمبر، ۱۹۵۲ء، ص، ۴۶۸۔
(۶) راجندرسنگھ بیدی، افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل، مشمولہ، اردوافسانہ روایت
اور مسائل، مرتبہ، گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۸ء، ص،۳۱۔
(۷) سلام بن رزاق، فکروتحقیق، نیاافسانہ نمبر، شمارہ: ۴، جلد:۱۶، اکتوبر تا دسمبر۲۰۱۳ء،
ص،۶۳۹،۶۳۸۔
(۸) ممتاز شیریں، ’’تکنیک کاتنوع ناول اور افسانہ میں‘‘ ’’معیار‘‘ لاہور، ۱۹۶۳ء، ص، ۱۷۔
(۹) ممتاز شیریں، تکنیک کاتنوع ناول اور افسانہ میں، ’’معیار‘‘ لاہور، ۱۹۶۳ء، ص،۱۸۔صنف‌ افسانہ اور اس کا آغاز و ارتقا

تبصرے بند ہیں۔