ضبط کی لوگوں میں تاب دیکھئے کب تک رہے!

حفیظ نعمانی

وہ جی ایس ٹی جس کی اہمیت کا یہ عالم تھا کہ رات کے بارہ بجے پارلیمنٹ میں صدر اور نائب صدر کی موجودگی میں اس کا اعلان کیا اور اسے اپنی حکومت کا اہم ترین فیصلہ قرار دیا اس نے تین مہینے میں پورے ملک کو نچوڑکر رکھ دیا۔ اور اس کا سہرا اپنے سر پر باندھنے والے وزیراعظم نے صرف تین دن پہلے ہی سابق وزیر مالیات اور بی جے پی کے بزرگ لیڈر یشونت سنہا کی تنقید کو یہ کہہ کر حقارت سے ٹھکرا دیا کہ بعض لوگوں کو ماحول میں سنسنی پھیلانے کا مرض ہوتا ہے۔ اور اپنے گجراتی تیوروں کے ساتھ کہا تھا کہ میں ملک کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ لیکن سابق وزیر اور معروف صحافی ارون شوری کے یشونت سنہا کی حمایت میں آنے سے ایسے ڈرے کہ جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ بلائی اور دس گھنٹے تک بحث و مباحثہ کے بعد تسلیم کیا کہ ’’ہم ہیں اناڑی‘‘ اور 26  چیزوں پر ٹیکس گھٹایا جی ایس ٹی کے دائرہ سے باہر رہنے والے 75  لاکھ والوں کو ایک کروڑ کیا اور ڈیڑھ کروڑ والوں کو یہ رعایت دی کہ تین مہینے میں وہ ریٹرن داخل کریں۔

ایک اہم فیصلہ یہ کیا کہ سونے کی 50  ہزار تک کی خریداری کے اوپر سے تمام پابندیاں ہٹادیں کیونکہ وہاں سے آوازیں آرہی تھیں کہ کاروبار 60  فیصدی رہ گیا ہے۔ اس فیصلہ نے پوری جی ایس ٹی کے کارنامہ کو اس لئے داغدار کردیا کہ یہی سونے چاندی کے دُکاندار تھے جنہوں نے نوٹ بندی کے اعلان کے بعد 9:00  بجے سے رات کو 12:00  بجے تک کالے دھن والوں کے ہاتھ اپنا سونا گرام کے حساب سے نہیں کلو کے حساب سے بیچا تھا اور بتانے والوں نے بتایا تھا کہ خریداری اس طرح ہوئی تھی کہ کسی نے کہا کہ یہ دو الماریاں ہم نے لے لیں کسی نے کہا پورا شو کیس میرا ہوگیا کسی نے کہا سیف میں جتنا بھی مال کچا اور پکا ہے سب میں نے لے لیا اور تین گھنٹے تک کلو کے باٹ سے سونا تولا گیا اور گڈیوں کے حساب سے نوٹ گنے گئے اور آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ جب صبح کو دُکانیں کھلی تھیں تو کہیں ایک انگوٹھی یا کان کا رنگ بھی دُکان میں نہیں تھا۔

اس کے بعد وہ اعلان بھی یاد ہیں کہ انکم ٹیکس والے ہر دُکاندار سے حساب لیں گے اور کسی کو بخشا نہیں جائے گا۔ ہوسکتا ہے مودی جی نے ان سب کو کہیں لے جاکر ڈبو دیا ہو یا عشرت اور سہراب الدین کی طرح انکائونٹر کرکے اور سہراب الدین کی بیوی کوثر کی طرح غائب کردیا ہو اس لئے کہ سونے کی دُکانیں تو پھر بھرگئیں اور آج بھی سب سے زیادہ پیار ان پر ہی برس رہا ہے جنہوں نے لاکھوں کروڑ کے نوٹ لے کر سونا دیا تھا۔

دیوالی ملک والوں کا سب سے اہم تہوار ہے یہ وہ تہوار ہے کہ ہر ہندو کو کچھ نہ کچھ خریدنا ہوتا ہے چاہے وہ ایک چمچ ہی ہو اور حیثیت والوں کے گھروں میں تو ہر پرانی چیز ہٹادی جاتی ہے اور نئی لائی جاتی ہے۔ ایسے موقع پر اگر مودی جی اپنی اکڑفوں باقی رکھتے تو اس کا انجام گجرات اور ہماچل میں اس سال اور مدھیہ پردیش اور راجستھان میں آئندہ سال دیکھ لیتے۔

جمہوری مزاج ہونا الگ ہے اور جمہوریت میں کام کرنا الگ، مودی جی کا مزاج جمہوری نہیں ہے اڈوانی جی نے ان کے ساتھ ظلم کیا تھا کہ 2001 ء میں انہیں گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ انہیں اگر اسٹیٹ منسٹر بناکر مودی جی پانچ برس حکم ماننا اور اپنے غلط فیصلوں کو مسکراتے ہوئے واپس لینے کی تربیت دے دیتے تو آج وہ ان کے ساتھ یہ سلوک نہ کرتے جو کررہے ہیں اور نہ نوٹ بندی کا وہ فیصلہ کرتے جسے ارون شوری کالے کو سفید کرنے کا سب سے بڑا گھوٹالہ ثابت کرنے پر تلے ہیں اور سونے چاندی والوں کے ساتھ اتنی رعایت اس کا ثبوت ہے۔ اور یہ بھی وہی ڈکٹیٹر شپ ہے کہ ارون شوری نے اتنی بڑی حکومت کو ڈھائی آدمی کی حکومت کہا اور وزیر مالیات کو گھر کا وکیل کہہ کر آدھا کردیا۔ شاید وہ اس زمانہ کی بات دُہرا رہے ہیں جب کم علم لوگ وکیل کو بہت بڑا اور سب سے قابل سمجھتے تھے۔ ارون شوری نے کھل کر کہا ہے کہ مودی جی نے اپنی کابینہ کو علم والوں سے دور رکھا ہے اور انہوں نے اپنی ہی سطح کے وزیر بنائے ہیں۔

وزیر اعظم کی یہ کمزوری کہ وہ تنقید برداشت کرنے کے بجائے مثبت تنقید کرنے والوں کو بھی دشمن سمجھتے ہیں اور ان پر جوابی حملے کرنا ضروری سمجھتے ہیں یہ وہی آمریت ہے جو انہیں گجرات کی حکومت سے ملی جہاں مخالف پارٹی کانگریس تھی جس کے لیڈر اور مقابلہ کرنے والے دہلی میں رہتے تھے۔ اور جو گجرات میں تھے ان کا قد اتنا بڑا نہیں تھا کہ وہ مودی جیسے وزیر اعلیٰ سے ٹکراتے۔ 2014 ء میں پورے ملک میں مودی نے گجرات ماڈل کا ڈھول بجایا اترپردیش میں ملائم سنگھ کو جواب دیتے ہوئے کہہ دیا کہ تم اترپردیش کو گجرات کیا بنائوگے اسے بنانے کے لئے تو 50  اِنچ کی چھاتی چاہئے۔ اسے کون جمہوری زبان کہے گا؟ اور اب گجرات ماڈل کی پول کھل گئی ہے۔

نوٹ بندی کے بعد انہوں نے کہہ دیا کہ اب غریب چین کی نیند سو رہا ہے اور امیر نیند کی گولی خریدنے کے لئے بازار میں گھوم رہا ہے۔ اب وہ دوسروں کو چین کی نیند سلا رہے ہیں حالانکہ انہوں نے دو روپئے پیٹرول اور ڈیزل کا ٹیکس کم کرکے ثابت کیا کہ ان کے خون کی ہر بوند میں کنجوسی ہے 18  روپئے لیٹر ٹیکس لینے والے یا تو انکار کرتے یا کم از کم 10  روپئے کم کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا ہر طرف اور شور مچے گا اور جی ایس ٹی کی مار جھیلنے والے بھی مطالبہ کریں گے کہ جب فلاں فلاں چیزوں پر 18  سے گھٹاکر 5 کیا ہے تو فلاں فلاں سامان پر بھی 24  سے گھٹاکر 10 اور 18  سے گھٹاکر 5  کرو اگر مودی جی کے اندر جرأت ہوتی تو جی ایس ٹی کو 2019 ء تک کے لئے واپس لے لیتے اور اعلان کرتے کہ اب پوری تیاری کے ساتھ اور ہر صوبہ کی مرچنٹ ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر اور ایک ایک چیز پر غور کرکے ٹیکس لگائیں گے تاکہ ایک آواز بھی مخالفت میں نہ اُٹھے اور کسی بھی حکومت کو پھر دماغ سوزی کی ضرورت نہ پڑے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔