نئی متنازعہ حج پالیسی: دین میں مداخلت کا ایک اور شوشہ

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

حج کمیٹی آف انڈیا کی نئی حج پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی ملک گیر سطح پراسلامیان ہند کی جانب سےغم وغصہ، مذمت و مخالفت اور برہمی و ناراضگی کا  سلسلہ شروع ہوگیاجو تاحال جاری ہے؛ کیوں کہ کمیٹی کی تقریباََسفارشات اسلام کے صریح احکامات کے مغائرہیں چاہے وہ  45 سال سے زائدعمروالی خواتین کا بغیر محرم کے سفرحج  کامسئلہ ہو یا پھر تمام حجاج کے لئے قربانی  کوپن کو لازمی قراردینے کی سفارش ہو،بتلایا جارہاہے کہ یہ سفارشات نہ صرف حجاج کرام کی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہیں ؛بلکہ شریعت میں راست مداخلت کی سوچی سمجھی سازش ہے؛حالاں  کہ دستور کے مختلف دفعات میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ہر شخص اپنےمذہب اور اس کے احکام پر آزادی کے ساتھ بغیرکسی رکاوٹ کےعمل کرسکتا ہے؛لیکن اس وضاحت کے باوجود باربار مذہبی آزادی سے چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے،اسلام کے قانون طلاق کو کالعدم کرنےکی کوششیں ہورہی ہیں۔

 آج ملک کی عدالتیں مسلم پرسنل لاء کے خلا ف فیصلے سنارہی ہیں اورحکومت کی طرف سے پر سنل لاء کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی باتیں کی جارہی ہیں اور اب تو نئی حج پالیسی میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ 45سال سے زائد عمر كی چار یا چار سے زائد خواتین حج كے لئے جانا چاهیں  تو ان پر محرم كی پابندی عائد نهیں هوگی۔ حج پالیسی كا یه اعلان شریعت اور مسلم پرسنل لا ء میں مداخلت اور یكسا ں سول كو ڈ كے نفاذ كے نظریات كا آئینه هے،یه فیصله سیاسی بنیادوں پر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کےلیےکیا گیا هے جبكه اس فیصلہ سے شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ جس کمیٹی نے 45 سال سے زائد عمر کی خواتین کو ‘محرم’ کے بغیر حج کے لیے روانہ ہونے کی اجازت دی ہے وہ یہ بتائے کہ آخر انہوں نے کس ضابطے کے تحت محرم کی لازمی شرائط کو منسوخ کیا؟حالاں کہ حج فرض ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عورت کے ساتھ اس کا کوئی محرم رشتہ دار موجود ہو،اگر اس کے ساتھ کوئی محرم چلنے کو تیارنہ ہو، یاتیار ہو لیکن عورت کے اندر اتنی استطاعت نہ ہو کہ وہ اپنے علاوہ اپنے کسی محرم رشتہ دار کے اخراجات ِ سفربھی برداشت کرسکے، تو اس پر حج فرض نہیں۔

حج ایک مذہبی فریضہ ہے؛ اسی لیے حج پالیسی کو شریعت کی روشنی میں مر تب کیا جا نا چاہئے،حج کے شرعی امور میں سیاست دانوں اور ریٹائرڈ افسروں سے رائے لینے کےبجائےماہرین شریعت،علماء امت اور مفتیان کرام سےمشورہ لیناچاہیے۔

عورت کا بغیر محرم حج کے لیے جانا گناہ ہے:

عورت کے محرم کے بغیر سفرنہ کرنے کے بارے میں رسول اللہﷺ کے متعددارشادات ہیں جو حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، اس لئے خواتین کو محرم کے بغیر سفرحج سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ عبادتوں کا اصل مقصود اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرناہے، اور جب شریعت میں ایک بات سے منع کردیا گیا ہوتو اس کے ارتکاب کی وجہ سے بجائے ثواب کے گناہ ہی کا اندیشہ ہے،

حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:

’’ عورت محرم کے بغیر سفرنہ کرے، اور جب تک عورت کے ساتھ محرم نہ ہو، کوئی اجنبی شخص اس کے پاس نہ آئے، ایک صاحب نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول! میں فلاں اور فلاں جہاد میں جاناچاہتاہوں، اور میری بیوی حج کا ارادہ رکھتی ہے ؟آپ نے فرمایا:تم اپنی بیوی کے ساتھ حج میں جاؤ‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر :1862)

چوں کہ عورت کمزور بھی ہے اور فتنہ کا سبب بھی۔ اس لیے شریعت مطہرہ نے یہ قانون رکھا ہے کہ سفر دینی ہو یا دنیاوی، دور کے سفر پر عورت بغیر شوہر یا بغیر محرم کے نہ جائے۔

 محرم کسے کہتے ہیں؟

 محرم اسے کہتے ہیں جس سے عمر بھرکبھی بھی کسی حال میں نکاح درست نہ ہو۔ جیسے باپ، بھائی، بیٹا، چچا، ماموں وغیرہ اور جس سے کبھی بھی نکاح درست ہو، جیسے جیٹھ، دیور یا ماموں پھوپھی کا لڑکا یا خالہ کا بیٹا اور بہنوئی یہ لوگ محرم نہیں ہیں،  ان کے ساتھ سفر حج یا کوئی دوسرا سفر جائز نہیں ہے۔ جب ان لوگوں کے ساتھ سفر جائز نہیں تو یہ لوگ بالکل رشتہ دار نہیں، ان کے ہمراہ سفر کیسے جائز ہوسکتا ہے؟

بہت سی عورتیں محض شوق اور ذوق کو دیکھتی ہیں، شریعت کے قانون کا پاس ولحاظ نہیں کھتیں اور غیر محرم کے ساتھ حج کے لیے چل دیتی ہیں، یہ سراسر حرام ہے۔ بھلا جس حج میں شروع سے آخر تک شریعت کی خلاف ورزی کی گئی ہو وہ کیسے مبرور اور مقبول ہوسکتا ہے؟ بغیر محرم کے 48 میل کا سفر عورتوں کے لیے جائز نہیں، اگرچہ وہ ہوائی جہاز یا ریل سے ہو۔

محرم کیوں ضروری ہے ؟

حج عبادت ہے اور عبادت اللہ تعالی کی منشا کے مطابق ہوگی توہی قابل قبول ہوگی، عورت کاتنہا سفراس کی منشا نہیں اس لیے   اس کی  تنہاحاضری بھی اسے قبول نہیں،

علاوہ ازیں زمانے کی برق رفتاری کی بناءپر مختلف سہولیات کے باوجودسفر کوئی آسان کام نہیں، سفر کے متعلق  تو حدیث میں ہے کہ عذاب کاٹکڑا ہے تو پھر آسان کیسے ہوسکتا ہے؟سہولیات کی فراہمی اور بہتر انتظامات  سے آسانیاں ضرور پیدا ہوگئی ہیں مگر سفرخودمشقت کا نام ہے اور جنہیں اس مقدس سفر کی سعادت حاصل ہوئی ہے، ان کا  بیان  ہے کہ بہت مواقع  پرانسان  کا نہ بس چلتا ہے اورنہ بس چلتی ہے اورانسان بالکل بے بس ہوجاتا ہے۔سہولیات  اور آسانیاں اگر چہ پیداہوگئی ہیں مگریہ بھی تو حقیقت ہے  انسانی قوی کمزور اور صحت گر گئی ہے اوروہ باوجود بہترانتظامات اور سہولیات کےبہت جلدتھکن اورتھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔شاید اسی وجہ سےکہاجاتا ہے کہ حج جوانی کی عبادت ہے اور حج کا اصل لطف جوانی میں آتا ہے۔

تجربے اورمشاہدے کے علاوہ سفرحج کے بارے میں حدیثوں سے بھی ایسے اشارے ملتے ہیں کہ یہ سفر ذرا مشقت کا سفرہے  چنانچہ سفر حج کے آغاز میں جو دعا شریعت کی طرف سے حاجیوں کو تلقین کی گئی ہے، اس کامطلب اس طرح  ہے کہ  اے اللہ میرا حج کا ارادہ ہے تو اسے میرے  لیےآسان فرما اور میری طرف سے قبول فرما۔اگر یہ سفر پراز مشقت نہ ہوتا  تو اس موقع پر اس قسم کی دعا کی تلقین   نہ کی جاتی،  دوسری طرف حدیث میں حج کو عورتوں او رکمزوروں کا جہاد کہا گیا ہے، اب جہاد آسان ہوتا ہے  یا اس میں کوئی مشقت بھی ہوتی ہے، یہ فیصلہ بہ آسانی کیاجاسکتاہے، حاصل یہ ہے کہ عورت کے ساتھ محرم یا شوہر کاہونا شریعت کا حکم ہے اورایک مسلمان کےلیے اتنا ہی کافی ہےتاہم  اس حکم کےکچھ ظاہری حکم ومصالح بھی ہیں  مثلا سفر حج  ایک طویل اوردشوارسفر ہے اور عورت  کواپنے جسمانی ساخت  اورنسوانی ضعف کی وجہ سے اس کے تحمل میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس لیے ایک بہت ہی قریبی  رشتہ داریا شوہر کا بطورمعاون ومددگار اس کے ساتھ ہونا ضروری ہے، پردہ  اورعصمت وغیرہ کے تحفط کے نقطہ نظر سے بھی عورت کے ساتھ محرم مرد کا وجود ضروری ہے ورنہ جوعورتیں بغیر محرم کے گئی ہیں ان کے ساتھ کچھ ناگفتہ بہ احوال بھی پیش آئے  ہیں۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ  اس سلسلہ میں تحریر فرماتےہیں کہ

"ایک کوتاہی بعض عورتوں کی یہ ہے کہ باوجود شوہر یامحرم کے ہمراہ نہ ہونے کے پھر حج کو جاتی ہیں، اور گو بعض کو ائمہ کے قول پر بعض خاص قیود و شروط کے ساتھ اس کی گنجایش ہے، لیکن اوّل تو عوام کو ایسی بے قیدی کی اجازت نہیں کہ جس وقت جس کا قول دل چاہا لے لیا۔

دوسرے جانے والیاں ان قیود و شرائط کو نہ جانتی ہیں، نہ ان کی پروا کرتی ہیں، ہر حال میں چلی جاتی ہیں جوکہ ان ائمہ کے نزدیک بھی جائز نہیں،

تیسرے اس وقت اتنا فساد نہ تھا، ثقہ عورتوں کے ساتھ امن غالب تھا، اور اس زمانے میں فساد اس قدر غالب ہے کہ عورتوں کے ہوتے ہوئے بھی شریر طبیعتیں شرارت سے نہیں چوکتیں، پھر تعاون وہمدردی کم ہوتی جاتی ہے، اگر بیماری وغیرہ پیش آگئی تو کم عورتوں سے اُمید ہے کہ اپنا کام چھوڑ کر ان کی امداد کریں، اکثر لوگوں کو خصوصاً ضعفا ونسواں کو نفسی نفسی میں مشغول دیکھا ہے، تو بہ وجہ مجبوری مرد ہی امداد کریں گے تو لا محالہ اُتار نے میں چڑھانے میں اجنبی مرد اس کا ہاتھ بھی پکڑیں گے، کمر بھی تھامیں گے، تو ایسے وقت فتن سے محفوظ رہنا جانبین کا یا ایک ہی جانب کا مشکل ہے خاص کر قلب اور عین کے فتنے سے، تو ایسے حج کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب شریعت اس کو حاضر ہونے کا حکم نہیں کرتی بلکہ روکتی ہے، تو پھر یہ کیوں مصیبت میں پڑتی ہے؟ اگر اس عورت کو مالی استطاعت ہو، اور محرم و شوہر موجود نہ ہو، یا جانے پر آمادہ نہ ہو،کیوں کہ اس کو شرعاً اس کا اختیار حاصل ہے، تو اس میں فقہا مختلف ہیں کہ آیا استطاعت مالی سے نفسِ وجوب حج کا اس کے ذمہ ہوگیا ہے یا نفسِ وجوب بھی نہیں ہوا، پہلے قول پر اس عورت کے ذمہ حجِ بدل کی وصیت کرنا واجب ہوگا، اور دوسرے قول پر نہیں، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ وصیت کی جائے،اگر یہ وسوسہ ہو کہ اگر وصیت نافذ نہ کی گئی تو حج میرے ذمہ رہے گا، اس کا جواب یہ ہے کہ لیکن گناہ گار نہ ہوگی، کیوں کہ اس نے اپنے ذمے کے واجب کو یعنی وصیت کو ادا کردیا، اب نفاذ اس کا جب کہ مال چھوڑ جائے ورثاء کے ذمے واجب ہے، اگر وہ کوتاہی کریں گے اس کا مواخذہ ان سے ہوگا۔”( اصلاح انقلاب امت)

اس سلسلہ میں اتنی بات تو متفق علیہ ہے کہ جب تک محرم یا شوہر ساتھ جانے والا نہ ملے عورت پر حج کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی؛ لیکن اگر کوئی عورت بوڑھی ہو اور فتنہ کا بظاہر اندیشہ نہ ہو اور اس پر مالی اعتبار سے حج فرض ہوچکا ہو تو آیا وہ کسی نامحرم کے ساتھ سفر حج کو جاسکتی ہے یا نہیں ؟ تو اس بارے میں فقہ کی عام کتابوں میں ممانعت ہی لکھی ہے، اور صراحت کے ساتھ بوڑھی عورت کو بھی بلامحرم سفر حج کرنے سے منع لکھا گیا ہے۔المرأۃ عجوزاً کانت المرأۃ أو شابۃ۔ (مناسک ملا علي القاري 56)

تاہم بعض اکابر مفتیان کی عبارات اور فتاویٰ سے 60-70؍سال کی بوڑھی عورت کو بلامحرم قابلِ اعتماد لوگوں کے قافلہ کے ساتھ سفر کی اجازت ثابت ہوتی ہے، اس لئے فتنہ سے مکمل حفاظت کے وقت خاص حالات میں اس کی گنجائش ہوگی۔(کتاب النوازل )

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. tanwir کہتے ہیں

    جیسا کہ مضمون نگار نے نئی حج پالیسی کے مشمولات کو لازمی طور پر ” شوشہ“ سے معتبر کیا ہے، کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس شاطرانہ سیاسی اور مسلمانوں کو متنفر کرنے والی چال کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے،اس سے بے تعلقی کا رویہ اپنایا جاتا ۔
    حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں یہ مسئلہ بالکل ہی واضح ہے کہ عورتوں کا بغیر محرم کسی بھی سفر کیلئے نکلنے کی ممانعت ہے ، اس میں سفر حج کی کوئی قید نہیں ہے۔ مسلمانان ہند اپنی عوتوں کو محرم کے ساتھ ہی سفر حج پر لے جاتے ہیں۔
    احقر کا ماننا یہ ہے کہ (کسی عدم جواز کو اپنے لئے جواز بنانا ہی ایک مسئلہ ہے)۔ نئی پالیسی میں عورتوں کے سفر حج کیلئے بغیر محرم کی شرط لگائی جا رہی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو پابند یا مجبور کیا جا رہا ہے۔ جب صورتحا وہی ہے جس پر تمام مسلمان عمل پیرا ہیں ، تو اس پالیسی کے خلاف رد عمل ظاہر کر کے اس کی اہمیت بڑھانا دانشمندی نہیںہے۔ بلکہ یہ ” شوشہ“ عمداً چھوڑا ہی اسی لئے گیا ہے کہ مسلمان اس بحث میں الجھ کر میڈیا کو مسلم معاشرہ اور ان کے اسلامی شعائر کو ہدف تنقید بنانے کا موقع دیتے رہیں ، جیسا کہ طلاق ثلاثہ کے معاملہ میں دیکھا جاتا رہا ہے۔
    دراصل مسلمانوں نے خود ہی اپنے طرزعمل سے گھر کے بھیدی کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات کو ایشوز بنا کر ان کے جذبات سے کھیلیں۔ بغیر محرم کے شوہر یا بھائی یا باپ اپنی عورتوں کو ایرپورٹ پر چھوڑ آتے ہیں اور وہ گھنٹہ دو گھنٹہ بلکہ ہندوستان ، پاکستان، امریکہ اور لندن تک مسلم عورتیں اکیلی سفر کرتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان کے نابالغ بچے ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ البتہ دوسری طرف اس متعلقہ عورتوں کے انتظار میں کوئی محرم ایئر پورٹ پر کھڑا رہتا ہے کہ محترمہ ایر پورٹ سے باہر آئیں تو پھر سے اپنے محرم کی حفاظت میں آ جائیں۔ عورت کیلئے بغیر محرم سفر کرنے کی اجازت کسی بھی حال میں از روئے حدیث رسول جائز نہیں چہ جائیکہ سفر حج۔ اس مسئلہ کو طول دینے کے بجائے یکسر نظر انداز کر دینا ہی مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں دانشمندی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔