ضدی لڑکی

کلیم اختر شفیق

(سیتامڑھی) 

فرحان اپنے گاؤں کا اخلاق مند خوبصورت  اور مہذب لڑکا تھا اس کی لمبائی اور جسم کی ساخت مزید اس کی خوبصوتی کو چار چاند لگاتی تھی بہت کم ہی کسی سے گفتگو کرتا، اپنی بستی کے کسی بھی لڑکے کوکبھی بیجا ٹوکتا نہیں لیکن اس میں ایک خصوصیت ضرور تھی کہ کسی چھوٹے کو دیکھتا تو اس کی طبیعت کے بارے لازمی طور پر دریافت کرتا، بڑوں کو سلام و آداب کرتا۔

یہی وجہ تھی کہ  ہندو مسلم سبھی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔

فرحان پڑھنے لکھنے میں متوسط تھا لیکن اخلاق کا بہت اعلی تھا ،حسن کا یہ عالم تھا کہ جو بھی اسے ایک نظر دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا اور تعریف کیے بغیر نہیں رہتا بزرگوں کی نیک دعائیں اس کے ساتھ تھیں ،محض بائیس سال کی عمر میں ہی ایک سرکاری بحالی نکلی قسمت نے ساتھ دیا اس کی نوکری لگ گئ اس کے بعد وہ مستقل سرکاری ملازم ہوگیا  دیہاتوں میں ایک مثل بہت مشہور ہے کہ "اللہ جسے دیتا ہے چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے” فرحان کی نوکری لگنے پر اس  کے گاؤں کے بڑے چھوٹے سبھی بہت خوش تھے مزید اس کی بستی میں اس کی عزت ہونے لگی سرکاری نوکری جیسی بھی ہو کسی نوجوان کا سرکاری ملازم ہوجانا ہی بڑے مقدر کی بات ہوتی۔

 نوجوان لڑکا اگر نوکری میں ہو اور اس کی شادی میں تاخیر ہو تو مت پوچھئے۔

دیہاتوں میں جتنی منہ اتنی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

فرحان کی جب نوکری لگی تھی اس وقت اس کے پاس صرف بی، اے کی ڈگری تھی مزید اس نے سوچ رکھا تھا کہ ایم، اے کرکے ہی شادی کروں گا۔

لیکن حالات ایسے ہوئے کہ نوکری کے بعد اس بھاگم بھاگ کی زندگی میں ایم، اے بہت دشوار ہو رہا تھا اچانک اس کے ایک دوست جو برسوں قبل بچھڑ گئے تھے ملنے آئے انہیں پتہ چلا کہ ہمارے بچپن کے دوست فرحان کی سرکاری نوکری لگی ہے گاؤں آیا ہوں تو مل لیتا ہوں۔

وہ شہر میں کسی بڑی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر تھے جب وہ آئے اور ان کی ملاقات فرحان سے ہوئی تو انہیں دیکھنے کے بعد وہ بہت خوش ہوئے بہت ساری دعاؤں سے نوازا۔

ناشتہ پانی کے بعد انہوں نے فرحان سے مزید تعلیم کے تعلق سے بہت ساری چیزیں دریافت کیں۔

اسی درمیان انہوں نے فرحان سے کہا کہ فرحان جتنی جلد ہوسکے تم ایم، اے اور مزید کورسیز بھی کرلو اس کے نیک مشورہ کو قبول کرتے ہوئے فرحان نے ایم، اے کیا جب تک فرحان کی عمر  تقریباً ستائیس سال کو پہونچ چکی تھی اس نے اپنے والدین سے کہا:

 امی ابو ۔۔۔۔۔!  اب آپ لوگ دیکھئے کوئی نیک سیرت اور خوبصورت لڑکی ہو تو میری پسند کا خیال رکھتے ہوئے اپنی رضامندگی سے کوئ مناسب رشتہ ڈھونڈ سکتے ہیں فرحان کے اس قدم سے پورے اہل خانہ سمیت رشتہ داروں میں بھی اس بات کا بہت چرچا ہوا کہ اب فرحان کی شادی ہونے والی ہے۔

کون ہے وہ پری ۔۔۔۔۔۔جس کو فرحان پسند کرے گا رشتہ داروں میں تو نوکری لگتے ہی بہت سارے رشتہ داروں نے بھی فرحان کے والدین سے شادی کی فرمائش کر رکھی تھی لیکن ان لوگوں کو فرحان کے والدین نے نفی میں جواب دے دیا کہ

دیکھئے جناب ۔۔۔۔۔۔!

لڑکا کچھ کرنا چاہتا ہے مزید اور آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

بس آپ لوگوں کی نیک دعاؤں کی ضرورت ہے دعا کریں اللہ استے مزید اور کامیاب کرے آمین۔

ایک دن کی بات ہے فرحان کے ایک مخلص دوست اس سے ملنے دو شخص کے ساتھ تشریف لائے ان لوگوں کے آمد پر فرحان  نے اچھے انداز میں مہمان نوازی کی اس کے بعد آنے والے مہمانوں سے دریافت کیا گیا: کہیے صاحب۔۔۔۔۔۔!  اچانک ادھر کیسے آنا ہوا فرحان کے دوست نے کہاں کہ ارے بھائی یہ وہی لوگ ہیں ان لوگوں کو آپ کے والد محترم سے ملاقات کرانے کے لئے لایا ہوں سنا ہے کہ چچا کو بہو نیک سیرت اور خوبصورت چاہئے فرحان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اچھا ہے آج آپ نیک کام کے ارادے سے تشریف لائے ہیں آنا مبارک ہو۔

فرحان  آنے والے سبھی مہمانوں کو اپنے ابو کے حوالے کرکے نماز ظہر ادا کرنے گاؤں کی جامع مسجد میں چلا گیا جہاں وہ اکثر و بیشتر نماز کے لئے جایا کرتا تھا جب نماز ادا کرکے فرحان آیا تو دیکھا کہ وہ دونوں مہمان جانے کے ارادے سے دروازے پر کھڑے ہیں فرحان نے سلام کیا اور وہ چلے گئے۔

ان کے جانے کے بعد رشتہ کے سلسلے میں فون پہ لڑکی کے گارجین اور فرحان کے ابو کی لمبی گفتگو ہوتی رہی اچانک ایک دن ارادہ بنا اور فرحان کے ابو امی بھائی اور دیگر کئی رشتہ دار لڑکی دیکھنے گئے لڑکی کو دیکھتے ہی فرحان کے رشتہ داروں نے پسند کرلیا۔

جلدی جلدی میں شادی کی تاریخ متعین ہوگئی اور خوشی خوشی فرحان کی شادی اسلامی طور طریقے سے انجام دیدی گئی فرحان کی شادی  کو تقریباً پانچ سال ہوگئے اللہ نے  اولاد جیسی نعمت سے بھی نوازا ۔

اپنے گھر میں فرحان  بھائی بہن والد اور ایک بوڑھی ماں کے ساتھ رہا کرتا تھا ایک دن کی بات ہے فرحان کی بوڑھی ساس نے فون کیا کہ مہمان صاحب۔۔۔۔۔

گزشتہ دنوں میرے گھر جو نئے مہمان کی آمد ہوئی ہے اس کا آج عقیقہ ہے آپ اہل خانہ سمیت مدعو ہیں فرحان نے کہا کہ جی

انشاء اللہ ہم لوگ وقت پہ پہونچ جائیں گے۔

ایسے میں موقع پر اگر نہیں جائیے تو  دور دراز سے آنے والے مہمانوں کی بات سنتے ہی ہنسی آے لگتی ہے لوگ طرح طرح کے باتیں کرکے ایک دوسرے کی برائی بیان کرتے ہوئے آپ دیکھیں گے بوڑھی ساس کی بات رکھتے ہوئے فرحان کی اہلیہ پھولے نہیں سما رہی تھی کہ اب تو فلاں تاریخ کو میکے جانا ہے فرحان بھی سیدھا سادھا لڑکا اپنے  بچوں کے ساتھ سسرال دیر شام اپنی پرانی گار سے نکل گیا وہاں پہونچتے ہی اس نے دیکھا کہ اس موقع پر رشتہ داروں کا ایک قافلہ پہونچا ہوا ہے سبھی لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کرکے سلام و کلام کرتے دیکھے جارہے تھے فرحان تو ایک سرکاری ملازم تھا ایک سے دو دن کے لئے اس کا آفس سے باہر نکلنا بہت دشوار تھا خیر اس نے ایک رات قیام کیا اور کل ہوتے ہی جانے لگا تو اس کی اہلیہ نے کہا:آپ جائیں ہم دو چار دن میں بڑے بھائی اور بچوں کے ساتھ آجائیں گے فرحان کو تو آفس پکڑنا تھا کل ہوتے ہی وہ صبح کے ناشتہ کے بعد آفس کے لئے نکل گیا سسرال سے آئے قریب ایک ہفتہ سے زائد ہوگئے تو فرحان نے اپنی اہلیہ سے بات کی کہ کیاں ہوا۔۔۔۔۔؟

آپ تشریف نہیں لائیں ارے آپ نے تو دو چار ہی دن کے بارے میں بتایا تھا۔

اتنا سنتے ہی فرحان کی اہلیہ فرحان پر آندھی اور طوفان کی طرح برس پڑی تو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟

ہم آپ کے اہل خانہ کی غلام ہیں جب کہا حاضر ہوجائیں ارے میکے آئی ہوں تو ایک دو ہفتے تو لگیں گے ہی نا۔۔۔۔۔۔۔۔

اب بیچارا فرحان سوچ میں پڑگیا کہ ارے کمال کی لڑکی خود ہی آنے کی تاریخ متعین کی تھی اور آج خود ہی مجھ پر برس رہی ہے ان ہی خیالات میں ڈوبا ہی ہوا تھا کہ فرحان کی اہلیہ نے پھر دوبارہ فون کیا کہ سنیے۔۔۔۔۔!

 ابھی دو مہینہ تک نہیں آؤں گی اتنا سنتے ہی فرحان نہایت ہی ہمت کے ساتھ برسا ارے۔۔۔۔۔!!!

 یہ کیا تم نے مذاق بنا کر رکھا ہوا ہے تم جب بھی اپنے گھر جاتی ہو تو ایک ڈرامہ شروع کر دیتی ہوں۔

یہ کیا ڈرامہ ہے اتنا کہتے ہی فرحان نے فون کٹ کر کے رکھ دیا مزید اس کے اندر اور ہمت نہیں تھی کہ اور کچھ بول سکے کل ہوکر اس فرحان کی اہلیہ کی ماں نے اس سے پوچھا کیا بیٹی کل رات تم کس شخص سے اس طرح باتیں کر رہی تھی میرے سمجھ سے باہر ہے تو اس نے اپنی ماں کو کہا ماں۔۔۔۔۔۔!

 آپ لوگوں نے اس گھر میں میری شادی کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔۔۔۔۔۔۔

اتنا سنتے ہی فرحان کی بوڑھی ساس نے  بیٹی کو جم کر پھٹکار لگائی

خبردار۔۔۔۔۔!!!

 پھر دوبارہ اس طرح کی بات تم اپنی زبان سے مت نکالنا، اتنا سننے کے بعد فرحان کی اہلیہ زارو قطار رونے لگے ایک بیٹی کو ماں روتے دیکھتے ہی وہ بھی آنسوؤں میں نہاگئ کچھ گھنٹے کے بعد فرحان کی ساس نے اپنی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے نہایت ہی سنجیدگی سے کہا: بیٹی ایک باپ کو بیٹی کا گھر تلاش کرنے میں کن کن مصائب و آلام سے گزرنا پڑتا ہے یہ تم کیا سمجھو گی

اللہ کے واسطے نیک اور ایک بن کر رہو انشاء اللہ

تمام چھوٹی اور بڑی پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔

گھنٹوں سمجھانے بار بار صبر کی تلقین اور ڈھیر ساری نصیحتوں کے بعد فرحان کی اہلیہ کا جواب یہ ملاکہ۔۔۔۔۔۔

امی۔۔۔۔! میں اب وہاں نہیں جاؤں گی اس گھر میں بہت کام کرنا پڑتا ہے  اس نے اپنی ماں سے کہا

اف۔۔۔۔۔!

ماں:

آپ نے اتنی بڑی فیملی میں کیسے میری شادی کردی ایک تو بڑی فیملی ہے اوپر سے میرے پاس بچے ہیں

میں کیسے شب و روز کاٹتی ہوں وہ میں ہی جانتی ہوں۔

فرحان کی بیوی اپنے گھر کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھی دُلار پیار کچھ زیادہ ملاتھا یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ فرحان کی اہلیہ چھوٹے گھرانے کی ضدی لڑکی تھی والد صاحب ایک اچھے اور قابل قدر انسان کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کے چودھری تھے اس کم عقل لڑکی کے دماغ میں باپ کے چودھری ہونے کا گھمنڈ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا

 ارے۔۔۔۔۔!  کوئی بھی لڑکا ہوگا میری عزت کرے گا ورنہ پھر کیا ہے میں اپنے علاقے کے مشہور چودھری کی بیٹی ہوں اس طرح کا گھمنڈ اس کو اندر ہی اندر کھوکھلا بنا رہا تھا لیکن وہ لڑکی کسی کی بھی بات سمجھ نہیں پارہی تھی لاکھ سمجھانے پر بھی اپنی ضد کے سامنے سبھی کو بےوقوف سمجھ رہی تھی

اسی ضدی پن کی وجہ سے فرحان نے اپنی بیوی کو قریب دو سال تک میکے میں ہی چھوڑ رکھا تھا اس کی بیوی بھی دو سال تک گفتگو تک نہیں۔

ایک روز فرحان  نے اپنے ایک مخلص دوست فرقان کو اپنی زندگی کی پوری داستان بڑے ہی در انگیز لہجے میں سنائ فرقان کے والد بچپن میں ہی اللہ کے پیارے ہوچکے تھے فرقان کے پاس ایک  خوبصورت جوان بہن بھی تھی جس کے لئے ایک اچھے لڑکے کی تلاش  تھی فرقان نے فرحان کی پوری داستان سننے کے بعد اپنی ہی نیک اور خوبصورت بہن سے شادی کے تعلق سے فرحان کو بتایا فرحان نے کہا ہاں ۔۔۔۔۔!

یہ کیا کہہ رہے ہو فرقان میں شادی شدہ اور بچے کا باپ ہوں ایسے میں تمہاری بہن مجھ سے شادی کرے گی؟

میں ایک شادی شدہ لڑکا ہوں اور وہ کنواری ہے فرقان نے کہا میرے دوست شاید تم کو معلوم نہیں ہے اور نہیں آج تک میں نے تم سے اس بات کا ذکر کیا ہے میرے والد محترم کی دلی خواہش تھی کہ فرقان کی شادی میں زندہ رہا تو زلیخا سے کرکے ہی رہوں گا لیکن والد محترم نے وہ خواہش لئے اس دنیا سے تو رخصت ہوگئے آج جبکہ وہ دن اور وہ پل میری نظروں کے سامنے ہے جس کو اگر پوری کردیا جائے تو جہاں تم ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہو وہیں میری بہن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن

 فرحان کے دل و دماغ میں جہاں اس ضدی لڑکی کی یادیں بسی تھیں وہیں بچوں میں ایک خوبصورت پری بیٹی کی بھی یادیں بار بار ستا رہی تھیں یا اللہ۔۔۔۔!

 اب کیا کیا جائے۔۔۔۔؟

 اس کے بعد فرحان اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر گھنٹوں گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔

اچانک فرقان نے فرحان سے کہا کہ دوست تاریخ ہم نے متعین کردی ہے فلاں تاریخ کو آپ کی شادی میری بہن سے طے ہوگئی فرحان بھی اس مختصر سی زندگی سے ٹوٹ چکا تھا اس نے بھی ہاں کہہ دیا پھر کیا تھا۔

مقررہ تاریخ پر فرحان کی دوسری شادی ہوگئی اس کی خبر جیسے ہی اس ضدی لڑکی چودھری کی دختر نیک اختر تک پہونچی تو ایسا لگا کہ اس کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئ ہو۔

کہ اب کیا ہوگا….؟

میں اور میرے اس بچے کا کون سہارا بنے گا۔۔۔۔۔  ؟؟؟؟

آج  وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے بھائیوں کے یہاں رہ کر بھی مہینے کے تیسوں دن خون کے آنسوؤں کے ساتھ زندگی کاٹ رہی، صفائی ستھرائی اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کر کے ایک نوکرانی کی طرح اپنی زندگی کے شب روز گزار رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

تبصرے بند ہیں۔