طرح طرح کے جھوٹ پر کھڑی ہے مرکزی سرکار

صفدر امام قادری

بھارتیہ جنتا پارٹی کے تیز طرار مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے گذشتہ روز پٹنہ کے ایک سرکاری پروگرام میں اس بات کا اعلان کیا کہ ہندستان دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے اور اس نے فرانس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پارلیمانی انتخاب کے آتے آتے ہمیں اس بات کی بھی توقع ہے کہ امریکہ اور روس کے بعد ہندستان کو ہی تیسری بڑی معیشت قرار دینے میں ان وزرا یا کسی انداز کے بھاجپائی ترجمان لوگوں کی طرف سے کوئی نیا اعلان آہی سکتا ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ ہندستان کی حکومت اپنے آپ یہ اعلان کردے کہ معیشت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اور اس نے امریکہ، روس ، جاپان اور برطانیہ جیسے نہ جانے کتنے ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اشتہار بازی اور یک طرفہ غیر منطقی توجیہات کی پیش کش کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس سب سے اعالا ڈگری یافتہ افرادکی ایسی بڑی فوج کھڑی ہوئی ہے جسے ایسی ہی باتیں پیش کرنے کے لیے اعلا کمان سے حکم ملا ہوا ہے۔

روی شنکر پرساد نے ہندستانی معیشت کے استحکام کے لیے دو تین بنیادی باتیں ظاہر کیں۔ دس لاکھ کروڑ روپے کی رقم ان کم ٹیکس سے جمع ہوئے اور یہ بھی اطلاع دی گئی کہ ایک لاکھ کروڑ کی رقم جی۔ ایس۔ ٹی۔ سے حاصل ہوئی ہے۔ ایک اور بات انھوں نے جوڑی کہ مالی قرض لینے کے معاملے میں مردوں کے مقابلے عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے یعنی یہ تین ایسی ضروری باتیں ہیں جن کی بنیاد پر ہندستان امریکہ اور یورپ سے مقابلہ کررہا ہے اور معیشت کے معاملے میں آگے بڑھ رہا ہے۔

ہندی اور میتھلی زبان کے عظیم شاعر بابا ناگارجن نے ایک زمانے میں جب کوئن الیزابیتھ ہندستان آنے والی تھیں اور پورے ملک میں اس کی تیاریاں کی جارہی تھیں ، اس کے ردعمل میں ایک نظم لکھی تھی جس کے مصرعے کچھ اس طرح کے تھے:

آئو رانی آئو رانی، ہم اٹھائیں گے پالکی

یہی ہوئی ہے راے جواہر لعل کی

ناگارجن انقلابی اور ترقی پسند شاعر تھے اور ہندستانی معیشت کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومتِ وقت کے اس زمانے کے اقدام سے غیر مطمئن تھے۔ حکومت رانی کو دکھانے کے لیے اپنے ملک کے مختلف مقامات کو سجا سنوار رہی تھی۔ جھونپڑیاں اجاڑی جارہی تھیں اور فٹ پاتھ پر جینے والوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا تھا۔ ناگارجن کو یہ بات شدید طور پر ناپسند ہوئی تھی۔ اس نظم میں انھوں نے طنزیہ اسلوب استعمال کرتے ہوئے بڑی معصومیت کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے پوری صورت حال کا مذاق اڑا یا ہے۔ آج اگر وہ ہوتے تو صرف پندرہ لاکھ روپے کی واپسی کو ہی موضوع نہیں بناتے ہندستان کی حقیقی صورت حال کو طاق پر رکھ کر فرقہ پرست تحقیقات کی بنیاد پر الٹے سیدھے نتائج اخذ کرکے موجودہ مرکزی سرکار کے دعووں کو چیلنج کرتے اور سڑکوں پر اتر کر عوام کو بتاتے کہ کیسے دھوکہ اور بے ایمانی پر حکومت کھڑی ہے اور بے شرمی کی حد تک اس کے کارندے اپنا کھیل تماشا دکھا رہے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس ہر روز جھوٹ گڑھنے کا ایک ٹکسال ہے جس سے نئے نئے چمکیلے اور لبھاونے جھوٹ ڈھل کر نکلتے ہیں۔ ان کے سیاسی، سماجی، اقتصادی ماہرین تو ہیں ہی ؛ یوگ اور صحت سے لے کر تعلیم اور دوسرے شعبۂ حیات میں بھی لوگ نظر آتے ہیں جو ہر دن اپنی باتیں نئی نئی تحقیقات کا حوالہ دے کر پیش کریں گے۔ ان میں سے کئی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرگرم رکن نہیں ہیں مگر سب کے نتائج ایک انداز کے ہیں۔ چند مثالیں توجہ طلب ہیں :

۱لف۔ عالمی بازار میں ہندستان کی حیثیت مستحکم ہوئی ہے۔

ب۔ نیوکلیر قوت کے معاملے میں ہندستان اب امریکہ سے برابری کررہا ہے۔

ج۔ صنعتی اعتبار سے ہندستان دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔

د۔ ٹکنالوجی میں ہندستان دنیا کے سرِ فہرست ملکوں میں پہچانا جاتا ہے۔

ہ۔ کمپوٹر سائنس کے ہندستانی ماہرین دنیا کے کاروبار کو سنبھال رہے ہیں۔

و۔ زراعت میں ہندستان صرف خود کفیل نہیں بلکہ دوسرے ممالک کو اناج اور رسدفراہم کرتا ہے۔

ز۔ جنگی معاملات میں ہندستان کو دنیا کی کوئی طاقت ہرا نہیں سکتی۔

یہ ساری باتیں ٹیلی ویزن سے لے کر عوامی جلسوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے عام کارندوں سے لے کر وزیر اعظم تک کی زبان سے بالکل سُر میں سُر ملا کر ظاہر ہوتی ہیں۔ جھوٹ کی اس کھیتی کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ ہندستان کی بڑائی بیان کرنے میں یہاں کی سماجی اور سیاسی صورت حال ، روٹی کپڑا اور مکان جیسے معاملات ، عمومی تعلیم کا شعبہ یا سطحِ زندگی کے روز بہ روز زوال آمادہ ہونے اور صحت کے شعبے میں ملک کے بہ تدریج پچھڑتے جانے کی باتیں نظر میں نہیں رکھی جاتیں۔ ہندستان کن کن پہلوئوں سے ترقی کررہا ہے، اسے سمجھنے کے لیے مور کے پائوں کی طرح اگر ملک کی سماجی صورت حال پر غور و فکر کر لیا جائے تو سب کچھ آئینہ ہوسکتا ہے۔ ماب لنچنگ، فرقہ وارانہ فسادات، دلت اور عورتوں کے ساتھ عوامی سطح پر استحصال اور عدم رواداری جیسے سوالات ہمارا منہ چڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کسی وزیر اعلا ،مرکزی حکومت کے کسی وزیر اعظم کو ان باتوں سے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک قبائلی عہد میں پہنچ رہا ہے اور آئین اور حکومت پر سے لوگوں کا اعتبار اٹھ رہا ہے۔ کمزور لوگوں کی نگاہ میں حکومت ناکام ثابت ہورہی ہے اور فلاحی جمہوریے کا تصور ملیا میٹ ہورہا ہے۔ وہ تمام پہلو جن سے سوا سو کروڑ آبادی کا لازمی تعلق ہے، ان کو بحث میں لانے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ حکومت ان کاموں پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش کرتی ہے جن کا تھوڑے لوگوں سے رشتہ ہے اور جن کے اعداد و شمار پیش کرکے وہ خود کو شاباشی دے سکتی ہے۔

گذشتہ انتخابات میں نریندر مودی اور امت شاہ سے لے کر بابا رام دیو تک اس جھوٹ کی فصل اگانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی مہم پر لگے رہے۔ جب سرکار بن گئی اور امت شاہ کے جھوٹ کو پکڑا گیا تو انھوں نے کمال بے شرمی کے ساتھ یہ کہا کہ وہ انتخابی جملہ تھا۔ جملہ لفظ کا امت شاہ نے سہارا لیا۔ غالباً وہ جملہ بنانا  جیسے محاورے کی بنیاد پر اعلان کررہے تھے مگر جملہ کسنے سے وہ واقف نہیں تھے ورنہ اعلا منصب پر بیٹھ کر ایسے مذاق کرنا ذلت آمیز کام ہی تھا۔ بابا رام دیو کا پندرہ لاکھ ہر آدمی کے ذاتی بینک اکائونٹ میں جمع کرنے کا معاملہ بھی کیسا جھوٹ تھا، اسے کسی جائزے کی ضرورت نہیں۔ جو ملک روٹی، کپڑا اور مکان کے بنیادی مسئلوں میں الجھا ہوا ہو، کروڑوں لوگ خطِ افلاس سے نیچے جیتے جی مر رہے ہوں وہاں ان کم ٹیکس کی اصولیابی کو فتحِ مبین سمجھنا تماشا ہی کہا جائے گا۔ کالے دھن کو لوگوں کے گھروں سے نکالنے کی مہم نریندر مودی نے پانچ سو اور ہزار کے پرانے نوٹوں کو ختم کرکے چلائی۔ معلوم ہوا کہ تمام نوٹ بینک میں جمع ہوگئے اور سب کے سب سفید قرار دیے گئے۔ یعنی یہ مہم سرکار کے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بے مصرف ثابت ہوئی۔ جی۔ ایس۔ ٹی۔ بھی ظاہر کے کھیل اور باطن کے کھیل میں الگ الگ تماشے دکھا رہی ہے۔ اس پوری مہم میں مہنگائی بڑھی اور عام آدمی پر مالی بوجھ بڑھا۔ سرکار کو یہ ہندستان کی ترقی نظر آتی ہے۔ آنکھ والا اگر دن میں ستارے دیکھنے لگے تو اسے خواب بھی نہیں کہا جا سکتا۔

آئے دن اخبار میں یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بڑے صنعتی گھرانوں اور بالخصوص امبانی، اڈانی اور اس طرح کے سرمایہ داروں کو مضبوط کرنے کے لیے چل رہی ہے۔ رافیل ڈیل میں روز راہل گاندھی اور دوسرے میڈیا والے نئے نئے ثبوت پیش کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کے جھوٹ کو طشت از بام کرنے میں لگے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ سوالوں کے جواب دینے کے بجاے ایک نیا جھوٹ اور ایک لبھاونی بات پیش کرکے لوگوں کو بھٹکانے اور بکھرانے کا کام کرتی ہے۔ ابھی پانچ ریاستوں کی حکومت سازی میں الجھی پارٹی دھیمے سروں میں رام مندر کے امور واضح کررہی ہے مگر توقع یہ ہے کہ دسمبر کے بعد اس میں تیزی آئے گی۔ آر ایس ایس کی حکمت عملی یہ ہے کہ اسی کے اندر سے ایک طبقہ اٹھے گا اور وہ رام مندر کا ڈیمانڈ پرزور طریقے سے رکھے گا۔ وزیر اعظم اس کے ساتھ نہیں آئیں گے اور عدالت یا آئین کی بات بولتے رہیں گے۔ جیسا اٹل بہاری باجپئی اور یو پی کے اس وقت کے وزیر اعلا کلیان سنگھ کہتے رہے۔ مگر بابری مسجد شہید ہوئی۔ اب کی بار رام مندر بنانے کی آدھی ادھوری شروعات کرنے کا موقع شاید بھارتیہ جنتا پارٹی لینے سے گریز نہ کرے۔ جھوٹے لوگوں پر صرف اپوزیشن کی نظر نہیں رہے بلکہ عوام کو بھی اس سے اگلی لڑائی کے لیے تیار ہونا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔