طلاقِ ثلاثہ کے خلاف مجوزہ قانون: ایک جائزہ

مولانا سید احمد ومیض ندوی

آخر وہی ہواجس کا خدشہ تھا، مودی سرکار نے طلاقِ ثلاثہ کی روک تھام کے لیے ایک قانونی بل کے مسودے کو کابینہ میں منظوری دے دی، وزارت ِقانون نے اس قانون کا نام ’’مسلم وومن پروٹکشن آف رائٹس آن میریج‘‘لکھا ہے، تادمِ تحریر (۲۱؍دسمبر ۲۰۱۷ء)اس بل کو پارلیمانی اجلاس میں قانونی شکل دینے کے لیے شاید پیش کیا جاچکا ہوگا، لوک سبھا میں تعدادکو دیکھتے ہوئے اس بل کوپاس کرانے میں حکومت کو زیادہ دشواری نہیں ہوگی، لوک سبھا سے پاس ہونے کے بعد یہ مسئلہ راجیہ سبھا میں جائے گا،  راجیہ سبھا میں اس کو پاس کرانا بظاہر مشکل نظر آتاہے، لیکن اگر یہاں بھی یہ بل پاس ہوتا ہے تو پھر قانونی شکل اختیار کرلے گا، پارلیمنٹ میں متعارف کرانے پر اگر کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے تضاد کو بنیاد بنا کر اس کی مخالفت کی تو اسے ترمیم کے لیے سلکیٹ کمیٹی کو بھیجاجاسکتا ہے، اور اگر ایسا نہیں ہوا یا لوگوں کی مخالفت کے باوجود حکومت نے اسے متعارف کرہی دیا تو پھر ممکن ہے آنے والے دنوں میں اس کو بحث کے لیے لوک سبھا میں پیش کیا جائے گا۔

ملک کے بے شمار حل طلب مسائل کو برف دان کی نذر کرکے طلاقِ ثلاثہ میں حکومت کا عجلت سے کام لینا صاف بتاتا ہے کہ حکومت کو مسلمانوں کو مسلسل اُلجھن میں مبتلا رکھنے اورانھیں حاصل مذہبی آزادی کے دستوری حق کو ان سے سلب کرنے میں بے پناہ دلچسپی ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ حکومت کا ریموٹ کنٹرول فاشست جماعت آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے، مودوی جی کو وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جس کا حکم آقاؤں کی طرف سے انہیں دیا جاتا ہے، آر ایس ایس کا اصل نشانہ ملک سے بتدریج مسلم پرسنل لا کا خاتمہ اور شریعت اسلامی میں مداخلت ہے، آر ایس ایس اس سلسلے میں زیادہ وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔

طلاقِ ثلاثہ سے متعلق مجوزہ بل اگر قانونی شکل اختیار کرلیتا ہے تو پھر طلاقِ ثلاثہ غیر قانونی قرار پائے گا، اور اس کے مرتکب مسلمان کو کرمنل مانا جائے گا، اور عدالت ایسے شخص کے لیے تین سال کی سزا اور جرمانہ بھی عائد کرے گی، مزید یہ کہ تین سالہ سزا کے دوران بیوی اور نابالغ بچوں کا نفقہ بھی شوہر کے ذمہ ہوگا، نیز نفقہ کی حد عدالت طے کرے گی، اسی طرح نابالغ اولاد کی کسٹڈی حاصل کرنے کا بیوی کو اختیار ہوگا۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ گذشہ ۲۲؍ اگست ۲۰۱۷ء کو سپریم کورٹ کی جانب سے طلاق ثلاثہ سے متعلق جو فیصلہ سنایا گیا تھا اس میں بنیادی طور پر دو باتوں کی صراحت کی گئی تھی، ایک یہ کہ مسلم پرسنل لا بنیادی حق ہے جس میں نہ سپریم کورٹ تبدیلی کرسکتی ہے اور نہ پارلیمنٹ اس کے خلاف قانون سازی کی مجاز ہے، فیصلہ کا دوسرا حصہ طلاق ثلاثہ سے تعلق رکھتا ہے، عدالت عظمی کے فیصلہ کے مطابق اگر کسی نے بیک وقت تین طلاق دے دی تو وہ کالعدم مانی جائے گی، اور زوجین کی ازدواجی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہ ہوگا، عدالت کا یہ فیصلہ آنے کے بعد مرکزی وزیر قانون نے میڈیا میں یہ اعلان کیا تھا کہ اس فیصلہ کے بعد قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جوں جوں گجرات انتخابات قریب آنے لگے حکمراں جماعت کے کے پیٹ میں مروڑ ہونے لگا، چنانچہ اس نے طے کیا کہ طلاق ثلاثہ کو پھر سے زندہ کیا جائے، اور حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ چوں کہ عدالتی فیصلہ کے باوجود طلاق ثلاثہ کا سلسلہ تھما نہیں ، اس لیے حکومت اس کے خلاف قانون سازی کرے گی، پھر عجلت کے ساتھ گروپ آف منسٹرس بھی تشکیل دیا گیا جس نے قانونی مسودہ کو تیار کرکے صوبائی حکومتوں کو روانہ کردیا، اور ان سے یہ خواہش کی گئی کہ وہ اپنی رائے دہی، آخر کار ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۷ء کو مرکزی کابینہ نے اس قانونی مسودہ کو منظوری دے دی، حکومت اس قانون کو لاگو کرنے میں پرعزم معلوم ہوتی ہے، اس مجوزہ قانون کے حوالے سے ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس کے نتیجہ میں راجیو گاندھی کے زمانے میں شاہ بانو کیس کے بعد پارلیمنٹ میں جو ترمیمی بل منظور کیا گیا تھا اسے کالعدم کیا جاسکتا ہے، اس کی تفصیلات جاننے کے لیے ہمیں ذرا پیچھے کی طرف لوٹنا پڑے گا، ۱۹۸۰ء میں شاہ بانو بنام محمد احمد خان کیس کا پورے ملک میں چرچا تھا، محمد احمد خان نے اپنی بیوی شاہ بانو کو طلاق دی تھی، جس پر شاہ بانو نے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے اپنے شوہر سے زندگی بھر نفقہ دلوایا جائے، اس وقت عدالت نے تعزیرات ہند کی دفعہ نمبر ۵۲۱ کے تحت شاہ بانو کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اس کے شوہر پر تاحیات اپنی مطلقہ کا نفقہ لازم کردیاتھا، عدالت عظمی کا یہ فیصلہ شریعت اسلامی کے سراسر خلاف تھا، شریعت کے مطابق شوہر پر مطلقہ بیوی کا نفقہ عدت تک ہی ہوتاہے، عدت کے بعد بیوی اپنے سابقہ شوہر سے نفقہ کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔

اس خلاف شرع فیصلہ نے ساری ملت اسلامیہ میں غصے کی لہر دوڑادی تھی، آخر کار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں اس کے خلاف ملک گیر مہم چلائی گئی، جس کا اثر یہ ہوا کہ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل پیش کرکے اس عدالتی فیصلہ کو کالعدم قرار دیا، مذکورہ ترمیمی بل کو’’ تحفظ حقوق طلاق ایکٹ۱۹۸۰ء‘‘کا نام دیا گیا، اس ترمیمی بل کی رو سے اگر کوئی مطلقہ مسلم خاتون عدت کے بعد اپنے اخراجات کی متحمل نہ ہو تو عدالت اس مطلقہ کے رشتہ داروں کو پابند کرے گی کہ وہ اس کے اخراجات کی پا بجائی کریں ، اگر ایسے رشتہ دار نہ ہوں تو عدالت ریاستی وقف بورڈ کو نفقہ دینے کی ہدایت دے گی، اس دور کی کانگریس حکومت نے یہ راستہ اس لیے نکالا تھا کہ وہ مسلم اقلیت کی انتخابی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرسکتی تھی، لیکن موجودہ صورت حال میں طلاق ثلاثہ کا معاملہ اس سے مختلف ہے، حکمراں جماعت اس وقت نہ صرف مسلم اقلیت کے ووٹوں سے بے نیاز ہے بلکہ ہندو اکثریت کو اپنے حق میں متحد رکھنے کے لیے وہ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے اقدامات کو ضروری سمجھتی ہے، اس صورت حال میں کانگریس دور کے مذکورہ بالا’’ تحفظ حقوق طلاق ایکٹ‘‘ کی منسوخی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

جہاں تک طلاق ثلاثہ کے خلاف تیار کی گئی مجوزہ قانونی بل کا تعلق ہے تو اس میں تضاد کے ساتھ کئی ایک نقائص پائے جاتے ہیں ، حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے علماء اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین سے مشاورت کرتی اور شرعی نقطۂ نظر سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد جس قسم کی قانون سازی کا علماء مشورہ دیتے اسے قبول کرتی، لیکن مسلم دشمنی کے سہارے اقتدار پر براجمان ہونے والوں کو اس سے کیا سروکار؟ انہیں تو بس ہر حال میں مسلمانوں کو پریشان کرنے سے دلچسپی ہے، مجوزہ بل کے تضاد کو تو دیکھئے کہ ایک طرف عدالت اپنے فیصلہ میں طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیتی ہے دوسری طرف حکومت ایسی قانون سازی کے لیے کوشاں ہے جس کی رو سے طلاق ثلاثہ ناقابل ضمانت جرم قرار پاتی ہے، حیرت ہے کہ جب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق طلاق ثلاثہ واقع ہی نہیں ہوئی تو شوہر کو آخر کس جرم کی سزا دی جائے گی؟کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے ڈالی، عدالتی فیصلہ کے مطابق چوں کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لئے مطلقہ عورت بدستور اس کی بیوی رہے گی، اورجب میاں بیوی کا رشتہ ہی ختم نہیں ہوا تو شوہر کو تین سال کی سزا کا کیا جواز باقی رہے گا؟ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کی وضاحت کرتی کہ اس نے عدالتی فیصلہ کو برقرار رکھا ہے یا نہیں ؟ اگر حکومت عدالتی فیصلہ کو برقرار مانتی ہے تب تو ایک وقت کی تین طلاق کی صورت میں شوہر کو تین سال کی سزا دینا ایک ایسے جرم کی سزا متصور ہوگی جو ابھی واقع ہی نہیں ہوا، اور اگر برقرار نہیں مانتی تو تین طلاق واقع ہو گی، اور حکومت کو باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا کہ طلاق ثلاثہ کی صورت میں تین طلاق واقع ہوگی، اور بیوی شوہر سے جدا ہوجائے گی، جہاں تک اس جرم پر سزا کی تجویز کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں علماء اور مسلم پرسنل لا کے ذمہ داروں سے مشاورت ضروری ہے۔

طلاق ثلاثہ کے عدالتی فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے قانونی سازی کا عمل بلا شبہ بہت سی پیچیدگیوں کا باعث بنے گا، ظاہر کہ جب طلاق دینے والا شوہر تین سال کے لیے جیل جائے گا تو وہ بیوی کو نان ونفقہ کیوں کر دے پائے گا؟ شوہر کے لیے جب یہ ممکن نہیں ہے تو بیوی کے تین سال کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ اوراس کے بچوں کی کفالت کس کے ذمہ ہوگی؟ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ قانون مسلم خواتین کے مفاد میں بنارہی ہے، لیکن قانون کی نوعیت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قانون مسلم مطلقہ خواتین کے لیے بڑی مشکلات پیدا کرے گا، اس کے علاوہ بسا اوقات طلاق ناگزیر ہوجاتی ہے، سزا کا قانون لاگو کرنے کی صورت میں مرد طلاق دینے سے بالکلیہ احتراز کریں گے، اور خواتین زندگی بھر ناپسندیدہ شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں گی، جہاں تک خلع کے ذریعہ خلاصی کی صورت ہے تو کیا ضروری ہے کہ ہر خاتون خلع لینے کے موقف میں ہو؟ ایسی خواتین کے لیے سوائے خود کشی یا گٹھن کی زندگی کے کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔

تین طلاق تسلیم نہ کرنے کی صورت میں بھی مجوزہ قانون پیچیدگی سے خالی نہیں ہوگا، اس صورت میں مطلقہ حکومت اور قانون کی رو سے بیوی رہے گی، اور بیوی کی حیثیت سے تمام حقوق کی حقدار بھی ٹھہرے گی، لیکن شریعت کی نظر میں وہ بیوی نہیں رہے گی، پابند شرع دیندار میاں بیوی تو خود کو دوسرے سے علیحدہ رکھیں گے، لیکن بے دین زوجین زنا کاری میں مبتلا ہوجائیں گے، اور اگر دونوں میں ایک شریعت کا پابند اوردوسرا آزاد مزاج ہوگا تو اس صورت میں پیچیدگی مزید بڑھے گی، مجوزہ بل جہاں عملی اعتبار سے متعدد پیچیدگیوں سے پرُہے وہیں اس میں تضاد بھی نمایاں ہے، بل کے مسودہ میں کہا گیا ہے کہ’’ سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیدیاتھا، لیکن پھر کچھ لوگ اسی طریقہ سے اپنی بیویوں کو طلاق دے رہے تھے، لہٰذا حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اس قانون کے ذریعہ طلاق ثلاثہ پر عمل کو روکے‘‘ یہاں تضاد واضح نظر آتا ہے،  سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق جب تین طلاق نافذ ہی نہیں ہوئی تو پھر مجوزہ قانون کس چیز کو روکے گا؟ اسی طرح بل کے مسودہ میں کہا گیا ہے کہ تین طلاق کے بعد بھی نان ونفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ہوگی، سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق جب تین طلاق واقع نہیں ہوئی، بیوی شوہر کے نکاح سے خارج نہیں ہوئی اور نکاح کی برقراری کی صورت میں نان ونفقہ کی ذمہ داری شوہر ہی کی ہے، تو اس کے لیے الگ سے قانون سازی کی کیا ضرورت ہے؟

یہ بھی عجیب بات ہے کہ مجوزہ بل بنانے والوں نے کمال عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجوزہ قانون سازی کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ ہی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، چنانچہ بل مسودہ کے صفحہ ۳ پر یوں درج ہے:’’مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے ایفی ڈیوٹ میں کہا ہے کہ عدالت شریعت میں مداخلت نہیں کرسکتی، البتہ قانون ساز ادارے اس معاملہ پر قانون بنا سکتے ہیں ‘‘ گویا حکومت نے مسلم پرسنل لا بورڈ کی اس عبارت سے یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ بورڈ خود حکومت کو طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں قانون سازی کا مجاز قرار دے رہا ہے، علاوہ ازیں ماہرین قانون نے قانونی نقطۂ نظر سے مجوزہ بل پر متعد اعتراضات کئے ہیں ، مثلا ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ طلاق ایک سول معاملہ ہے، اس کی سزا کرمنل ایکٹ کے تحت نہیں دی جاسکتی، معروف ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی نے اپنی گفتگو میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، کرمنل لا اور سول لا میں بہت بڑا فرق ہے، کسی بھی عمل کو یوں ہی کرائم سے نہیں جوڑا جاسکتا، دستور ہند کی دفعہ نمبر ۳۱ کے تحت نویں شیڈول میں آنے والے کسی بھی قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

اس سلسلے میں ملک کے معروف نوجوان عالم دین اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل یاسر ندیم الواجدی نے لکھا ہے کہ’’ ۲۰۰۶ء میں جسٹس ایچ کے سیما اور جسٹس آر وی رویندرن نے مدراس ہائی کورٹ کے خلاف مشترکہ فیصلہ میں کہا ہے کہ سول معاملات کو کرمنل بنانے کے رجحانات غلط ہیں ، ایسی کسی بھی کوشش کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، یہ نہایت غیر منصفانہ اور غیر سنجیدہ معاملہ ہے‘‘یاسر ندیم الواجدی کے مطابق ’’سپریم کورٹ میں یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے کہ اگر شوہر نے تین طلاقیں زبانی دیں اور کوئی گواہ موجود نہیں ہے تو بیوی کے پاس اس کو ثابت کرنے کا کیا طریقہ ہوگا؟ پروفیسر فیضان مصطفی کے بقول کیا اس کے کیس کے لیے قانون شہادت کو بھی بدلا جائے گا؟ کرمنل ایکٹ کے تحت ملزم کو اسی وقت مجرم قرار دیا جائے گا جب کہ اس کے خلاف ناقابل تردید ثبوت ہوں ، اگر عورت یہ ثبوت فراہم نہ کرپائی تومرد تو قانون کے شکنجے سے بچ نکلا لیکن عورت کو نہ تو انصاف ملا اور نہ ہی شوہر، تو اس قانون نے عورتوں کو تحفظ کیسے فراہم کیا؟ ‘‘

حیرت ہے کہ جس طلاق ثلاثہ کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا ایسے بے اثر جرم کی سزا تین سال مقرر کی گئی ہے، پھر اس پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے، ایک بے اثر جرم کے خلاف تین سالہ سزا مقرر کرنا کیا انڈین پینل کوڈ کی سزاؤں سے مطابقت رکھتا ہے؟ تین سال کی سزا تو اغوا اور زنا جیسے جرائم پر دی جاتی ہے، حتی کہ متعدد بڑے جرائم ایسے ہیں جن کی سزا تین سال سے کم ہے، مثلا رشوت پر ایک سال، مذہبی مقامات کو نقصان پہنچانے پر دو سال، جعل سازی پر دو سال ہے، کیا طلاق ثلاثہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے اغوا اور زنا جیسے جرائم کے برابر قرار دیا جائے؟

مختصر یہ کہ طلاق ثلاثہ کے خلاف مجوزہ بل اپنے اندر بہت کچھ تضاد اور نقائص رکھتا ہے، بہتر شکل یہ ہے کہ اس سلسلے میں عجلت بازی کے بجائے مسلم علماء اور بورڈ کے قائدین سے مشاورت کی جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔