طلاق آرڈننس اور دین بیزار خواتین کا استعمال

عبد الجبار طیب ندوی

(قاضی شریعت دار القضاء کڑپہ، نائب ناظم جامعۃ الصالحات، کڑپہ)

   ’’تین طلاق ‘‘  ’’ٹریپل طلاق ‘‘ یا پھر مطلق لفظ ’’طلاق‘‘ آج کی میڈیا اور دین واخلاق سے کوسوں دور سیاسی رہنماؤوں نیز انسان دشمن فکر اور سوچ کی حامل فرقہ پرست طاقتوں نے اتنا غلط استعمال کیا کہ اس صدی کا شاید مظلوم الفاظ میں سے ایک ہوگا، حکومت نے تو اس کو اپنے لئے ووٹ بینک کا ذریعہ سمجھا کہ شاید اس بل سے مسلم خواتین خوش ہوں گی اور آئندہ انتخابات میں انہیں منتخب کرکے پھر سے مسند اقتدار پر بیٹھا نے میں اہم رول ادا کریں گی، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ آرڈیننس سے پہلے ہی تقریباً ہندوستان بھر کی پردہ میں رہنے والی تمام خواتین اسلام نے سڑکوں پر نکل کر حکومت اور بل مخالف نعرہ لگاکر اسلامی قانون طلاق میں ذرا بھی تبدیلی کو نکار دیا اوراس پر اعتماد اپنی رضامندی کا اظہار کیا، اب یہی خواتین اسلام انشاء اللہ آئندہ ان کو سبق سکھائیں گی۔ فانتظروا انی معکم من المنتظرین.

 تین طلاق بل کے لئے جن کندھوں کا حکومت نے سہارا لیا ہے وہ تو صنف نازک کا کمزور وناتواں کندھا ہے، جو دین سے بیزار، اسلامی اصول وآداب، احکام ومسائل سے ناواقف، وہ زرخرید مسلم عورتوں کا سہار اہے۔ ان خواتین کی نجی زندگی شریعت کے بالکل مخالف، لباس وطرز زندگی اور انداز تکلم ملحدانہ ہے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کو اگر تین طلاق کو ایک ماننے اور تین کو تین نہ ماننے کا حکم معلوم بھی ہو تب بھی دین بیزار خواتین کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، کیوں کہ اس آرڈیننس پر ان خواتین نے خوشیاں منائی ہیں، اور اس طرح اس کا استقبال کیا ہے کہ اب ان سے اسلامی حدود وشریعت میں رہ کر زندگی گذارنے کی امید رکھنا عبث ہے، اس لئے کہ اب قانون کے اعتبار سے تین طلاق سے ایک بھی نہیں پڑے گی، گویا طلاق ہوئی ہی نہیں، لہذا قانونی اعتبار سے ایک شوہر کو اپنی اس مطلقہ کو اپنے پاس رکھنا ہوگا اور پوری زندگی حرام کاری میں گذارنا ہوگا۔ آئیے معلوم کرتے ہیں کہ دین بیزار خواتین کی غلطیاں کیا ہیں، قانون طلاق کے خلاف وہ قدم اٹھانے پر مجبور کیوں ہوئیں، اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں :

دشمنان دین کا آلہ کار

 وہ خواتین دشمنان دین کا آلہ کار بنی ہوئی ہیں، انہوں نے ان خواتین کے سارے عمل کو ان کے سامنے مزین ومرصع بنا کر پیش کردیا ہے، اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ یہی صحیح اور درست ہے، جس طرح شیطان انسانوں کے غلط اعمال مزین کرکے پیش کرتا ہے اور اس کو صحیح راستے سے بھٹکا دیتا ہے؛ چنانچہ قرآن میں : {فَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَھُوَ وَلِیُّھُمُ الْیَوْمَ}  [شیطان نے ان کے برے کرتوت انہیں خوشنما بنا کر دکھائے، وہی شیطان آج ان لوگوں کا سر پرست بنا ہوا ہے] (النحل: ۶۳)، لہذا ان خواتین کو دشمنان دین کا دکھایا ہوا سبز باغ میں ہی اپنی ا میدوں اور مستقبل کی کامیابی وکامرانی کی عمارتیں بلند ہوتی نظر آرہی ہیں۔

شریعت سے ناواقفیت

ان خواتین کا مسلم پرسنل لا کے خلاف اقدام کی ایک وجہ شریعت سے ناواقفیت بھی ہوسکتی ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے سماج کے ذمہ دار، اہل علم اور دانشورحضرات نظر پوشی نہیں کرسکتے ہیں، نیز ان خواتین میں ایک بڑی تعداد ان کی ہے جن کے معلومات کا ماخذ ومرجع وہ کتابیں اور لٹریچر ہیں جن کے مصنفین کا ذہن اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے صاف اور بے غبار نہیں ہیں، ان کے قلم سے ایسے مواد بارہا منظر عام پر آتے رہے ہیں جو اسلام کی تعلیمات اور اس کے احکامات کے سلسہ میں قارئین کے ذہن ودماغ میں شکوک وشبہات کے بیج بوتے ہیں، اور یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ جب وہ بغیر کسی گائیڈ یعنی معلم کے کوئی تحریر پڑھتا ہے تو اس کے نقوش واثرات اس پر ظاہر ہوتے ہیں، اسلام کا اصول تو صاف ستھرا ہے کہ ایسی صورت میں ان خواتین کو چاہئے تھا کہ وہ علماء اور اہل علم حضرات سے رابطہ کرتیں اور اپنی جہالت کو دور کرلیتیں اور اللہ کے ہر حکم کے سامنے سر بسجود ہوجاتیں، کیوں کہ اللہ رب العزت کا حکم ہے کہ اگر تمہیں کوئی جانکاری نہیں ہے تو اہل علم سے پوچھو { فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن} [تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہل علم سے پوچھ لو]  (النحل: ۴۳)۔

جذبہ عمل کا فقدان

 اگر ان خواتین کو اس کا حکم معلوم بھی ہو تو ممکن ہے کہ ان میں عمل کا جذبہ نہ ہو، شریعت کے خلاف زندگی گذارنا ان کا شیوہ بن چکا ہو، جیساکہ بنی اسرائیل میں رائج تھا کہ شریعت زبان کا صرف چٹخارہ بن کر رہ گئی تھی اور عمل کا جذبہ بالکل مفقود ہوچکا تھا، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: {أتأمرون الناس بالبر وتنسون أنفسکم} [تم دسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟]  (البقرہ: ۴۴)

مسلم مردوں کا غیر شرعی طریقہ پر طلاق دینا

اس مسئلہ میں جہاں عورتوں کا قصور ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے دار القضاء یا شرعی محکمہ کو چھوڑ کر پولیس کورٹ یا عدالت کا دروازہ کھٹگٹایا وہیں دوسری طرف مردوں کا قصور یہ ہے کہ اس نے ازدواجی زندگی کی ڈور کو توڑنے کے لئے اسلامی طریقہ اختیار نہیں کیا، جب کہ ایک مسلمان کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ اسلام کے خلاف کوئی عمل کرے۔ نکاح کیا شریعت کے مطابق لیکن جب طلاق کی بات آتی ہے تو اس وقت طریقہ طلاق معلوم نہیں کرتے اور اسلام کے مطابق طلاق نہیں دیتے ہیں۔

شریعت میں تبدیلی کو جائز سمجھنا

  شریعت میں مداخلت کے خواہاں مرد ہوں یا عورتیں یہ لوگ شریعت میں تبدیلی کو جائز اور روا سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ عدم ناواقفیت کی وجہ سے ہے، شریعت میں تبدیلی کا حق کسی کو نہیں ہے کیوں کہ شرعی قوانین اللہ کے بنائے ہوئے ہیں کسی انسان کے نہیں۔ جو بنانے والا ہو اسی کو تبدیلی کا حق بھی ہوتا ہے، یہاں شرعی قوانین بنانے والا اللہ رب العزت ہے اس لئے کسی کو اس میں تبدیلی کی اجازت نہیں ؛ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: {لا تبدیل لکلمات اللہ} [اللہ کی باتیں بدلی نہیں جا سکتی] (یونس: ۶۴)۔

 دین اسلام میں اب کسی حذف واضافہ کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اللہ رب العزت نے اس دین کو مکمل کردیا؛ چنانچہ قرآن کریم میں ہے: {اَلْیَوْمَ   اَکْمَلْتُ   لَکُمْ   دِیْنَکُم} [میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے]، (الانعام: ۳)مکمل ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اب نہ تو اضافہ کی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی تبدیلی کی ؛ لہذا ان عورتوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ شریعت کے منصوص مسئلہ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا ہے۔

کیا ملک کی عدالت بھی تبدیلی نہیں کرسکتی؟

اس کا جواب بھی وہی ہے جو ہم اب تک دیتے آرہے ہیں یعنی عدلیہ کو بھی شریعت میں تبدیلی یا اضافہ کی اجازت نہیں ہاں عدلیہ کے اپنے بنائے ہوئے قانون کو بدلنا ان کے لئے جائز ہوگا، کیوں کہ وہ قوانین انسانوں کا وضع کردہ ہے اس لئے عدلیہ کو اس میں تبدیلی یا اضافہ کی اجازت ہوگی ؛ لیکن شرعی قوانین کا وضع کرنے والا اللہ رب العزت ہے اس لئے اس میں تبدیلی کا حق بھی صرف اللہ رب العزت ہی کو ہے کسی انسان کو ہر گز نہیں ہوسکتا ہے۔

کیا مسلمان بھی شریعت میں تبدیلی نہیں کرسکتے ؟

 جی ہاں ! دنیا کے سارے مسلمان اور مسلمانوں میں بھی تمام علماء مل کر بھی شریعت میں تبدیلی کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج شرعی قوانین پر ساڑھے چودہ سو سال کا ایک لمبا عرصہ گذر چکا ہے؛ لیکن کوئی حرف گیری نہیں کرسکتا، نہیں بتا سکتا کہ شرعی قوانین میں کسی نے کوئی تبدیلی کی ہو، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ قرآن جیسامسلمانوں نے نبی ﷺ سے لیا تھا، آج بھی بغیر کسی نقطہ کی تبدیلی کے اصل حالت میں موجود ہے، لہذا معلوم ہوا کہ شرعی قوانین میں تبدیلی کا حق کسی کو بھی نہیں ہے۔

شریعت کو نہیں اپنے طریقہ ہائے زندگی کو بدلئے

کوئی بھی معاشرہ مذہب سے کٹ کر مثالی معاشرہ نہیں بن سکتا، تاریخ کے حوالہ سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جب جب بھی معاشرہ مذہب کے قلادہ سے آزاد ہوا، معاشرہ میں انارکی وبدامنی، بداخلاقی غیرانسانی افعال نے اپنے پنجے گاڑے، اسلام کی آمد سے قبل عرب کی جو اخلاقی، معاشرتی وسماجی برائیاں تھیں وہ بالکل اپنی انتہاء کو پہونچ چکی تھیں، گویا معاشرہ جہنم کے کگار پر پہنچ گیاتھا؛ چنانچہ قرآن کریم میں ہے: {وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا  حُفْرَۃٍ  مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا} [ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچالیا] (النساء: ۱۰۳)۔ اللہ رب العزت نے اس معاشرہ کو بچایا؛ لہذا معاشرہ کو مذہب سے جدا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ ہی مذہب کو معاشرہ سے الگ کرکے، صالح معاشرہ کے لئے مذہب لازم وضروری ہے، گویا ان کے مابین لازم وملزوم کا رشتہ ہے؛ لہذا معاشرہ میں رہ رہے انسان کو مذہب کے مطابق چل کر اپنے مسائل کاحل ڈھونڈنا چاہئے، مالک حقیقی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا چاہئے، نہ کہ اپنی دنیوی اغراض و مقاصد کے لئے مذہب کوہی قربان کردیا جائے، یا اس میں کسی قسم کی تبدیلی لائی جائے۔

کرنے کا کام

طلاق آرڈیننس پر مسلم معاشرہ میں بیداری لائی جائے اور اس کی غیر معقولیت واضح کیجائے، کبھی جھگڑے ہوں تو دار القضاء کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کرائیں، مرد کی طرف ستائی گئی خاتون ہوں تو ان کی داد رسی کی جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔