طلاق ثلاثہ  کے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ہمارا موقف

محمدصابر حسین ندوی

 صالح ملک و معاشرہ کی تشکیل صالح زوجین کے بغیر ممکن نہیں ، دینداری، امانتداری، اورصدق واخلاق کی درستگی ہی زوجین کی ہم آہنگی و مناسبت کا معیارہے؛ جس کا حصول تقوی و طہارت اور خشیت للہی کی جڑیں ہیں ، خطبہ نکاح میں بارہا تقوی کی وصیت اور خدا عزوجل کی اطاعت و سپردگی کی تلقین کا مقصود اس کے سوا کچھ نہیں کہ موافقت وموانست کا دامن وسیع اور معاشرہ کی بنیادیں اور اس کی خشت اول حکم الہی کی پابند ہو، چنانچہ خدا تعالی نے اس رشتے کو انسانوں کے حق میں باعث تسکین وقرار بتلایااور ساتھ ہی اس سسٹم اور نظام کو اپنے انعاموں میں شمار کروا یا ’’ومن آیاتہ أن خلق لکم من أنفسکم ازواجاً لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ان فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون‘‘(روم:۲۱)، نیز ان کے مابین قربت کو لباس سے بھی تعبیر کیا گیا’’ھن لباس لکم وأنتم لباس لھن ‘‘(بقرۃ:۱۸۷)، اسی طرح زوجین کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کے حقوق کو قرآن و حدیث نے کھول کھول کر بیان فرمایاہے(دیکھئے:خلاصۃ البدر المنیر:۲؍۴۳۸، حق الزوجۃ فی الاسلام ویکیئبیدیا، طلاق کے مسائل از:اقبال کیلانی وغیرہ۔ ۔ )۔

واقعہ یہ ہےکہ عقد ونکاح کا یہ امتیاز اور خاندان و معاشرے کی تشکیل اسلام کا طرۂ امتیاز ہے، اس کے بر عکس عصر حاضر کے لبرل اور ایجوکیٹیڈمعاشرے اس سے کوسوں دور ہیں ؛جو درحقیقت انعام الہی سے بعد ہے، اب حال یہ ہیکہ ان لبرل جانوں کو خود اپنی کوتا ہیوں اور تعدیوں کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے، لیکن وہ اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ ؛واپسی دشوار ہے، حتی کہ نیوز ویک کے مطابق سویڈن میں پیدا ہونے والے ؛نصف آبادی کےبچوں کا تعلق غیر شادی شدہ والدین سے ہوتا ہے، تووہیں فرانس اور بریطانیہ میں پیدا ہونے والا ہر تیسرا بچہ ناجائز ہوتا ہے، (دیکھئے:طلاق کے مسائل، اقبال کیلانی، اورDivorce in Europe-Info.com)، خو د ہمارے وطن عزیر میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ عمرانی وتمدنی فضا بدل رہی ہے اور طلاق وغیرہ کے معاملات میں اضافہ معتد بہ طور پر پایاجارہاہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ ایک رپورٹ کے مطابق ضلعی عدالتوں میں ۲۷ ملین طلاق کے معاملات زیر سماعت ہیں ، (a.hindustantimes.com)۔

   دراصل اسلام ایک فطری مذہب ہے، اور یہ اپنے ماننے والوں کو کھبی تنہا نہیں چھوڑتا، ہر مرحلہ میں مناسب رہنمائی اور صحیح طریقہ کار کی ہدایت دیتا ہے، خواہ وہ انسانی نفسانی خواہشات کی تسکین ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ وہ اسے باقاعدہ عقد وقرار کے بعد ہی انجام دینے کا حامی ہے، اسی لئے علامہ ابن عابدین ؒ نے نکاح کے لغوی معنی ہی ’’وطی‘‘ اور’’ جماع‘‘ نقل کیا ہے(شامی:کتاب النکاح:۳؍۸)اور اصطلاح میں یہی تعریف کی گئی ہے‘’’عقد یرد علی تملیک منفعۃ البضع قصدا ‘‘ (التعریفات للجرجانی۔ نکاح)، ساتھ ہی کسی نا گہانی اور غیر متوقع حالات کی صورت میں اس عقدوقرار کو توڑنے کی نوبت آجائے تو اس سلسلہ میں عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے بہتر تجاویز فراہم کی ہیں ، کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی نفس میں لدوخصام فطرت ثانی ہے اور اس کا کھلا ہوا دشمن ؛شیطان اور شیطانی حربہ، منافقت و منازعات کے ذریعہ رشتوں میں باہمی کڑھن و کڑواہٹ کا ذائقہ گھولنے کوبیتاب ہے۔ اور اس کےوعدہ ’’أنظرنی ‘‘کا اثرہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی کی لو ٹمٹمانے لگتی ہے اور نتیجتا ہمراہ مختلف راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ چونکہ شیطان اس داعیہ کو بھڑکانے اور ازدواجی زندگی میں آگ لگانے پر مصر ہے بلکہ ایک روایت میں ہے کہ یہی اس کا سب سے محبوب کام ہے ’’ان ابلیس یضع عرشہ علی الماء ثم یبعث سرایاہ فأدناہم منہ منزلۃ اعظمھم فتنۃ یجییء احدھم یقول فعلت کذا وکذا فیقول: ماصنعت شیئا قال:ثم یجییء أحدھم فیقول ماترکتہ حتی فرقت بینہ وبین امرأتہ _قال_فیدنیہ منہ ویقول نعم أنت ‘‘(مسلم:۷۲۸۴)چنانچہ بسااوقات شیطان کامیاب ہوجاتا ہے اور اس عقدر وقرار کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے اور زوجین آپس میں جدا ہوجاتے ہیں ، جسے ’’طلاق‘‘ سے موسوم کیا جاتاہے’’الطلاق فی اللغۃ والشرع عبارۃ عن رفع قید النکاح‘‘(شامی:۳؍۲۲۶، کتاب الطلاق)۔

  درحقیقت زندگی زیر وبم، امید و بیم اور رنج وغم کا معجون مرکب ہے، اللہ رب العزت نے بھی اسی پیش نظر احکام کی پابندی عائد کی ہے، چنانچہ باہمی ناچاقی اور نااتفاقی کی وجہ سے زندگی اجیرن کرلینا اور پل پل جام زیست کے کڑوے کسیلے گھونٹ پینے اور نفس اور خالق نفس کو سدا کوستے رہنے سے بدرجہابہتر ہیکہ راستے جدا اور منزلیں الگ کر لی جائیں ۔ طلاق خواہ انسانی ضرورت اور شریعت اسلامی میں اس کا جواز ہے’’وھو [الطلاق]مشروع، والاصل فی مشروعیتہ الکتاب والسنۃ والاجماع‘‘(المغنی:۷؍۳۶۳، کتاب الطلاق۔ دیکھئے:مغنی المحتاج للشربینی)؛لیکن اسلام اسے امر قبیح قرار دیتاہے، حضور اکرم ؐ نے فرمایا:’’ابغض الحلال الی اللہ عزوجل الطلاق‘‘وفی روایۃ’’ما احل اللہ شیأ أبغض الیہ من الطلاق‘‘(ابوداؤد:۱۸۶۳، ابن ماجہ:۲۰۰۸سنن بیھقی:۷؍۳۲۲)، چنانچہ بے بودہ اور بلاسبب طلاق دینے والوں کیلئے یہ تہدید وارد ہوئی ہے’’أیما امرأۃ سألت زوجھا طلاقاً فی غیر مابأس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ‘‘ (ابوداؤد:۲۲۲۶، ترمذی:۱۱۸۷، ابن ماجہ:۲۰۵۵وکثیر من الجماعۃ المحدثین)، اور فرمایا’’ المنافقات ‘ان المختلعات والمنتزعات ھن‘‘ (احمد:۹۳۴۷)، علامہ ھیثمی ؒاور علامہ شوکانیؒ نیز علامہ ابن قدامہؒ اور ابن تیمیہؒ نے مذکورہ احادیث کے پیش نظر اسے گناہ کبیرہ اور سخت حرام میں شمار کیا ہے(الزواجر لشھاب الدین۔ ۔ ۲؍۶۲۲، نیل الاوطار للشوکانی:۷,۳، المغنی:۷؍۲۴۸، مجموع فتاوی ابن تیمیہ:۳۲؍۲۶۳۔ ۲۶۴)۔ قرآن کریم نے بھی طلاق سے قبل مختلف مراحل طے کرنے اور آپسی صلح بحال کرنے کی کاوش پر زوردیاہے(نساء:۳۴، الانبیاء:۹۰)، تاہم معاملہ نہ بننے کی صورت میں طلاق دینے کی اجازت ہے، لیکن اس سلسلہ میں بھی اصول اسلامی "كتب الله الإحسان فى كل شيء” یعنی مناسب اور عمدگی ( perfection  )کاخیال ضروری ہے، اسی لئے فقہاء کرام  نے طلاق کی تین صورتیں کی ہیں :

 اول:طلاق احسن :

یہ وہ طلاق ہے جس میں مرد اپنی بیوی کواس طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، اور بغیر کوئی دوسری طلاق دئے ہوئے ہی اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ عدت گزرجائے۔

دوم:طلاق بدعۃ:

یہ طلاق کی وہ قسم ہے جس میں مرد اپنی زوجہ کو تین طلاق ایک ساتھ ایک ہی کلمہ کے ذریعہ ایک ہی طہر میں دیدے۔

سوم:طلاق سنۃ:

اس سے مراد یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کوتین طہر میں الگ الگ طلاق دے۔ (دیکھئے ـ:التعریفات للجرجانی، الطلاق، وغیرھا)ان میں سب سے بہتر یہ ہے کہ حالت طہر میں صرف ایک ہی طلاق دے کر زوجہ سے علحدگی اختیار کی جائے اور بدرجہ مجبوری ہی میں تین طلاق خواہ ایک مجلس میں یا متفرق طہر میں دی جائے، یہ خیال رہے کہ ایک ہی مجلس مین تین طلاق کے تین واقع ہونے پر قضاء ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔

  اسلام کے اس صاف و شفاف اور فطری نظام، کی وجہ سے ہی مسلم معاشرے میں طلاق کے واقعات کم سے کم ہیں ، جب کہ دیگرمذاہب میں یا تو طلاق کیلئے کوئی راستہ نہیں یا پھر ظلم وجور پر مبنی نظام ہیں ، اس سلسلہ میں مختلف رپورٹ وغیرہ مد نظر رہنا چاہئے، چونکہ آج اسلام اور مسلمان اپنے چودہ سوسالہ حکومت کے بعد زمام اقتدار سے سبکدوش ہیں ، اور اقلیتی حکومت وانتظام میں زندگی بسر کرنےپرمجبور ہیں اور پھر بھگوا فکر وسوچ اور زعفرانی طاقت کے عروج نے شب وروز نت نئے مسائل کو معروض نشانہ بنانالطف وتفریح کا ساماں بن گیا گیا ہے اور بے سروپا کی بحثوں کا بازار گرم کرکے اسلام اور مسلموں کی پگڑی اچھالنے کی کوشش عام بات ہوگئی ہے، دور حاضرمیں بالخصوص طلاق اور اس سے متعلق مسائل اور سماجی نقصانات تو گویا سب سے محبوب تر مضمون بن گیا ہے، حتی کہ بعض نام نہاد مسلم خواتین کی آڑ میں فراعنہ طاقت (پارلیمینٹ اور عدالت عظمی) کے زور پربنیادی حقوق کے دفعہ ۲۵کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور اقلیتی حقوق کو پامال کرتے ہوئے کتروبیونت کرنے کی جرأت کی جارہی ہےیا کردی گئی ہے۔

  در اصل طلاق ثلاثہ کا انکار امت مسلمہ کے اجماعی مسائل اور فقہاء کرام کے اجتہاد اور ورثہ آباء و اجداد کی بیخ کنی اور شرعی تعلیم کی حقارت و تذلیل ہے اس سے بڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں اور عقیدتمندوں کو اپنے علماء کرام اور مفکرین عظام سے دل برداشتہ کرنے اور تاریخی ورثے سے ان کا  ہاتھ کاٹ دینے اور یتیمی و بے کسی کی تاریکی میں گم کردینے کی ناپاک سازش ہے، بلکہ اس کی آڑ میں سیاست بازی کی بساط بچھانے اور مہرے بدل کر مد مخالف کو شکست دینے اور پھر مذہبی تشدد و دہشت کو ہوا دے کر اخوت و بھائی چارگی اور انسان دوستی کو بھی عرق آلود کردینے کی کوشش ہے، نادان مسلمان یا نام نہاد مسلمان دوسروں کے نقش قدم کی گر د کو ماتھے پر سجانے اور اسے آنکھوں کا نور اور دل کا قرار بنانے میں یو ں کوشاں ہے گویا قرآنی تعلیمات اور سنت نبوی کو طلاق البتہ دیدی ہو۔

  کسی بھی قوم کیلئے سب سے بدترین لمحہ یہ ہے کہ وہ صحیح شعور سے خالی ہو اسے نیک وبد، صحیح اور غلط کی تمیز نہ ہو، سیاسی جماعتوں کا محاسبہ کرنے کے بجائے ان کی چرب زبانی اور بے جا وعدوں پر کان دھرے، ماضی کے تجربوں سے سبق حاصل کرنے کے بجائے بار بار ان کے ہاتھوں میں بازیچہ اطفال بن جائے ؛جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا ’’مومن ایک ہی سوراخ سے دووبار نہیں ڈسا جاتا‘‘ لیکن یہاں تو سارا جسم چھلنی اور زخم آلود ہے، درد و آہ کی صدائیں دلوں کو چیرے دیتی ہے مگر یہ ناداں بھلا کیوں کر مداوا تلاش کریں اور ببانگ دہل اعلان کریں کہ حکم خداوندی سے سرتابی اور قانون الہی سے بغاوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، خدا کے حکم کے بعدکوئی اختیار باقی نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالفت اور اس سے حجت وبحث کا کوئی موقع نہیں ، نہ غیراللہ کے سامنے مقدمہ جا سکتا ہےاور نہ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ ہوسکتا ہے، نہ دین کے مقابلہ رسم ورواج کی پابندی ہوسکتی ہے، اور ناہی نفس پرستی باقی رہ سکتی ہے؛جب ہم اسلام لے آئے تو اسلام کی پوری خصوصیات ولوازمات اور متعلقات کے ساتھ قبول کرتےہیں اور قانون الہی کو بے چوں وچراں تسلیم کرتے ہیں ، ہم کسی اور ضابطہ حیات کے پابند نہیں ، کسی اور دستور سے منسلک نہیں ، خواہشات کی اتباع ہم پر حرام ہے، خدا کی شہنشاہیت و حاکمیت کے سامنے کسی اور کی شہنشاہیت کو ہم ٹھوکروں میں رکھتے ہیں ۔

 اے باد صر صر تو تو سن لے ! اسلام دین الہی اور عشق نبوی کا مجاز ہے، ہم اسی کے عاشق اور اسی کے نام لیوا ہیں ، ہمارا مسلک وعقیدہ ہی یہ ہے،

تجھ سے سر کش ہواکوئی تو بگڑ جاتے تھے

  تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتےتھے

آج بھی وہی جذبہ اطاعت وعشق کا لاہماری رگوں میں پھوٹتا ہے، ہمیں نہ رومن لا کی باریکیاں اور یونانی فلسفوں کی موشگافیاں اور نہ یوروپ کی جدیت اور ناہی ہندوانہ متشدد صوفی ازم نے ڈگمگایا اور ناہی صہیونی سازشوں اور صلیبی جنگوں کی ہولناکیوں نے کے سامنے سر نگوں ہوئے تو پھر یہ انصاف کے نام پریہ ظالمانہ قانون سازی کیا اور بےبودگی و بیہودگی سے بھری رسم ورواج کی بازگشت کرتی صدائیں کیا؟؟؟؟  !!!!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔