طلاق رحمت یا زحمت

خبیب کاظمی

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، وہ انسان کی فطرت کو اپیل کرنے والا دائمی اور اٹل قانون ہے۔ اسلام کسی شعبے میں اور کسی مخلوق کے ساتھ نا انصافی اور غیر عادلانہ نظام کو برداشت نہیں کرتا۔ اسلام تو وہ مذھب ہے جو انسان کی پیدائش سے قبل ہی سے اس کے حقوق طئے کرتا ہے۔ ان میں حقِ زندگی، حقِ وراثت، وصیت، اور نفقہ جیسے حقوق شامل ہیں۔ قربان جائیے نظامِ اسلامی پر جہاں بچوں کے حقوق کی ضمانت ان کی پیدائش سے پہلے ہی فراہم کردی جاتی ہے۔ کیا دنیا کے کسی نظام قانون میں  اس طرح  کے عدل و مساوات کا تصور ہے؟کیا  عقل اس بات کو  تسلیم کرسکتی ہے کہ جو مذہب  اُس مخلوق کے حقوق  کی بات کرتا ہے جس کا ابھی وجود بھی نہیں ہوا تو پھر عورت جس کے   وجود   سے ہی  ساری کائنات   کی رنگینی ہے اس کے حقوق کو  کیسے فراموش کرسکتا ہے؟ اسلام میں دیگر افرادِ معاشرہ کی طرح  عورتوں   کا بھی ایک اخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے۔
یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ اسلام نے  عورتوں کو جو اخلاقی ، قانونی  اور  برابری کا مقام دیا ہے وہ  نہ پہلے کوئی  نظام عالمَ دے سکا ہے اور نہ آئندہ دے سکتا ہے۔
اسلام  سے پہلے زمانہٴ  جاہلیت میں  عورت کی کیا حیثیت  تھی ؟  عورت کو چوپایوں کی طرح  خریدا  اور بیچا جاتا تھا۔وہ اپنے بنیادی حق، حقِ زندگی  تک سے محروم تھی۔
بیٹیاں زندہ  در گور  کردی جاتی تھیں ان کو حقِ زندگی اسلام نے عطا کیا (التکویر: 8-9)  عورت کو بحیثیت انسان  سب سے پہلے اسلام نے تسلیم  کیا(النساء: 1)
اسلام میں نہ  مرد کے لیے مردانگی قابلِ فخر ہے اور نہ  عورت کے لیے  نسوانیت باعث عار ہے۔(بنی اسرائیل: 70)
محسن انسانیت نے  اولین روز سے  عورت کو  ذلت و پستی سے نکال کر عزت و تکریم کا مقام عطا فرمایا۔ عورت  اگر ماں ہے تو اس کے پیروں تلے جنت بتلایا ،  بیٹی ہے  تو  آنکھوں کی ٹھنڈک  نیز آتشِ  دوزخ سے بچنے کا وسیلہ۔ اگر وہ بیوی ہے تو دنیا کا سب سے قیمتی خزانہ ہے  ۔ آپ ﷺ نےفرمایا تم میں کا بہترین شخص وہ ہے جو  اپنی بیویوں سے بہترین سلوک کرے۔  خیرُکم خیرُکم لاھلہ وأنا خیرُکم لاھلی
اسلام  نے  جب علم فرض کیا تو مرد و  زن دونوں کے لیے دروازے کھلے رکھے۔ بلکہ اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دلائی  آپ ﷺ نے فرمایا  : جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم  و تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ  حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ (مَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وأحسنَ الیہِنَّ فلہ الجنة- ابو دواود)
اسلام  روز اول  سے ہی عورتوں  کے حقوق  کا امین و محافظ  ہے۔ مذہبی ، سماجی ، معاشرتی، قانوی ، آئینی ، سیاسی اور  انتظامی کردار  کا  نہ صرف اعتراف کرتا ہے بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔
آج کل ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کے بہانے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی بھر پور کوشش ہورہی ہے۔ چودہ سو سال سے آرہے شرعی مسائل، جن میں تین طلاق کا مسئلہ بھی شامل ہے ، اسے ظلم اور زیادتی  کہ کر شرعی قانون میں مداخلت کی کوشش ہورہی ہے۔ قانونِ طلاق کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت نہیں دی۔ عورت کو  مرد کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔ جو لوگ اسلام کے ضابطہٴ  طلاق کا مذاق اڑاتے ہیں ان کو اپنے یہاں کے قوانین کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے۔
ہندو مذھب میں مطلقہ اور بیوہ کے کیا حقوق ہیں؟ ستی جیسی گھناؤنی اور ظالمانہ رسم کہاں اور کس مذھب میں تھی؟ عیسائیوں کے یہاں طلاق کے لیے کیا شرائط ہیں؟
پتہ کیا جائے کہ عیسائیوں کے یہاں طلاق کے بعد عورت دوسری شادی کرسکتی ہے یا نہیں؟ جس سماج میں طلاق کی اجازت نہیں  وہ سماج کیسا جہنم بنا ہوا ہے، میاں بیوی کس طرح  ایک دوسرے کے لیے عذاب اور گھٹن کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
طلاق کب اور کیسے
جس طرح نکا ح کا رشتہ باعثِ سکون و تسکین ہے  اسی طرح قانونِ طلاق  بھی  سراسر رحمت  ہے۔اس میں عورت کی تذلیل ، اس کا  استحصال  نہیں ہوتا بلکہ اس کے حقوق  کی  حفاظت ہوتی ہے
استاذِ محترم  مولانا عنایت اللہ سبحانی صاحب اپنے کتابچے”نکاح و طلاق کا قرآنی نظام” میں طلاق کے احکام سے متعلق کچھ یوں  رقمطراز ہیں : ” اسلام نے نہ صرف مسلمانوں کو نکاح کی ترغیب دی ہے ، بلکہ اس کے سلسلے میں ایسے اصول اور ایسے ضابطے دیے  ہیں کہ اگر مسلمان ان کی پابندی کریں ، تو اپنی عائلی زندگی میں کبھی الجھنوں کا شکار نہ ہوں۔کبھی خاندانی اختلافات سے دوچار نہ ہوں۔ ان کی زندگی نہایت پرمسرت اور خوش گوار زندگی ہو،  الفت اور محبت کی زندگی ہو۔اسلام نے نکاح کا یہ نظام بنایا ہی  اس اساس پر ہے کہ شوہر کو بیوی سے ،  اور بیوی کو شوہر سے سکون حاصل ہو ، بلکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سراپا سکون اور ذریعہء سکون بن جائیں ، اور یہ کوئی وقتی کیفیت نہ ہو بلکہ ایک دائمی کیفیت ہو جائے۔وہ ایک دوسرے کے لیے ایسا سکون بن جائیں کہ ایک دوسرے کے  بغیر انھیں چین نہ آئے”،” یہی وجہ ہے کہ نکاح  اگر متعین مدت کے لیے یا متعین مدت کی نیت سے ہو ، تو وہ اسلام میں جائز نہیں ”
نکاح کے اس مضبوط رشتے کے باوجود  اس بات کا احتمال ہوسکتا  ہے کہ کبھی  رشتوں میں اختلافات پیدا ہوجائیں  اور یہ اختلافات نزاعات  کی شکل اختیار کرلیں، پھر یہ رشتہ  دونوں کے لیے عدم سکون کا باعث بن جائے تو ایسی صورت میں  دین اسلام نے نہایت تفصیلی ہدایات ،  بہت سخت اصولوں  اور کڑی شرائط کے ساتھ  اس بات کی اجازت دی ہے کہ  بجائے اس کے  کہ وہ  دونوں گھٹ گھٹ کر زندگی گذاریں  اپنے لیے دوسرا  رفیق حیات چن لیں۔
آئیے طلاق سے متعلق کچھ ضروری اور اہم احکامات  کا مطالعہ  کیا جائے۔
طلاق کے لغوی اور شرعی معانی :
طلاق لغت میں ترک کردینا ، چھوڑ دینا، یا  قید و بند کھول دینے کو کہتے ہیں۔اور اصطلاح شریعت میں  نکاح سے پیدا ہونے والی حلت اور قید و بندش کو مخصوص الفاظ کے ذریعہ ختم کردینے کا نام طلاق ہے۔
شرائط :  طلاق دیتے وقت ضروری ہے کہ شوہر عاقل، بالغ اور بیدار ہو۔ اگر ان میں کوئی بھی شرط نہیں پائی گئی تو طلاق واقع نہیں ہو گی ۔
اصلاحِ  حال کی کوشش:
اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک  طلاق  سب سے ناپسندیدہ حلال  ہے۔شریعت اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ  شوہر   بہت سمجھ بوجھ کر ، انتہائی عفو و در گذر کے ساتھ اپنے اس حق کا استعمال کرے۔ بیوی کے عیوب پر صبر کرے۔ناراضگی کے باوجود اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔(النساء:19) یہ طلاق محض وقتی اور ہنگامی   ناگواری  کی بنا پر نہ دی جائے۔ طلاق سے پہلے  معاملات کو سدھارنے  اور نبھانے کی بھی بھرپور کوشش کرنے کی ہدایت وارد ہے۔ تربیت کی غرض سے بیوی سے علٰیحدگی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ ہلکی پھلکی زجر وتوبیخ  کی بھی اجازت ہے، اس کے باوجود اگر معاملات میں سدھار نہیں آرہا تو دونوں کے خاندان والوں میں سے کچھ سمجھدار اوربا اثر حضرات کی کمیٹی بنادی جائے جو  دونوں کے مسائل کو سمجھ کر آسان اور  منصفانہ حل بتاسکیں۔مگر اس کام کے لیے  شرط یہ رکھی گئی ہے کہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں  کو جمع کرنے کا مقصد صرف خانہ پری   یا دنیا کو دکھانے کے لیے نہ ہو بلکہ  نیک  نیتی اور اصلاحِ واقعی  ہو۔  چنانچہ قرآن کا ارشادہے :  إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا (وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا-النساء 35)۔ ان ساری کوششوں کے بعد بھی اگر  محبت و الفت لوٹ کر نہیں آرہی  تو  پھر آخری حل کے طورپر طلاق کا قانون ہے۔
طلاق کا طریقہ
قرآن و حدیث میں طلاق کا  جو طریقہ  ہمیں ملتا ہے   وہ یہ ہے کہ شوہر صرف ایک طلاق اُس پاکی کی حالت میں دے جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔ طلاق کے بعد  عورت حالت عدت میں ہوجائیگی  ۔ ایام ِ عدت  بعض کے نزدیک تین حیض ہے اور بعض کے نزدیک تین طہر ہے۔ جن کی ماہواری بند ہوگئی ہو ان کی عدت تین  ماہ ہوگی۔ اور اگر حالت حمل میں طلاق دی ہے تو اس کی عدت  وضعِ حمل ہے۔
طلاق کے بعد شوہر کو  یہ اختیار نہیں کہ  وہ اپنی بیوی کو گھر سے نکال دے۔ عورت  پورے عدت کے ایام اپنے شوہر کے گھر پر  ویسے ہی  گذارے گی جس طرح عام زندگی گذارتی آئی ہے۔ نہ شوہر  ہی اسے گھر سے نکال سکتا ہے اور نہ بیوی عدت سے پہلے شوہر کا گھر چھوڑ کر جائے۔ البتہ اس عرصہ میں عورت کا  بستر شوہر سے الگ رہیگا   تا آنکہ اِس بیچ ان دونوں میں میل اور صلح صفائی ہوجائے اور  شوہر  رجوع کرلے۔ مگر یہ رجوع کا حق صرف عدت کے اندر ہے ، اگر عدت مکمل ہوگئی تو  رجوع کاحق باقی نہیں رہیگا۔اگر شوہر عدت کے دوران رجوع کرلے تو اس طلاق کو طلاقِ رجعی کہیں گے ، اور رجوع نہ کیا تو طلاق بائن کہلائیگی  ۔ طلاق بائن کے بعد شوہر کو رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے، اب اگر رجوع کرنا چاہتا ہے تو از سرِ نو نکاح کرنا ہوگا اور بیوی کو پھر سے مہر دینا ہوگا۔اگر رجوع کرنے کا ارادہ نہیں ہے تو  حیض (مدت ِعدت)ختم ہونے کے بعد پھر سے ایک بار طلاق دے ، اور اس دوسری طلاق  کے لیے بھی وہی احکامات و ہدایات ہوں گی جو پہلی طلاق  کےلیے  تھی۔اگر اس دوسری عدت میں شوہر رجوع کرلے  تو یہ  طلاق بھی رجعی کہلائیگی    اور رجوع نہ کیا تو بائن کہلائیگی  تو اس طرح گویا دوطلاق بائن واقع ہوگئیں۔اب اگر دوسری طلاق بائن کے بعد رجوع کرنا چاہتا ہے تو پھر سے  ایک بار اسی طرح نکاح کرنا پڑیگا جس طرح نکاح اول اور نکاح ثانی کرچکا ہے، بالکل نئے سرے سے گواہ بنانے ہوں گے اور نیا مہر مقرر کرناہوگا۔ یہ بات ہمیشہ  ذھن میں رہے کہ وہ  دو مرتبہ طلاق کا حق لے چکا ہے اب ساری زندگی میں صرف ایک بار ہی  اسے یہ حق حاصل ہے ۔ جب بھی وہ تیسری مرتبہ بیوی کو طلاق دیگا تو  وہ بائن ہی ہوگی۔اب  شوہر کو  رجوع  کرنے   کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی بات کو قرآن  نے ” الطلاق مرتان”  کہا ہے ،      یعنی طلاق دو ہی مرتبہ ہے اور دونوں مرتبہ کی طلاقوں میں یہ لچک رکھ دی کہ    ان سے نکاح بالکل ختم نہیں ہوا ۔ اگر شوہر چاہے  تو شرعی قاعدے کے مطابق  رجعت کرکے بیوی کو  اپنے نکاح میں رکھ لے یا پھر خوب صورتی  اور خوش معاملگی کے ساتھ اس کو چھوڑ دے۔ اسی کو قرآن نے ” فإمساك بمعروف ” اور ”  تسريح بإحسان ”    کہا  ہے، کہ دو طلاق کے بعد یا تو دستور کے مطابق رجو ع کرلو یا  بھلے طریقے سے چھوڑ دو۔
یہ ہیں طلاق کے آداب  اور طریقے جو ہمیں قرآن و حدیث میں ملتے ہیں۔ اگر یہ آداب ملحوظ  رکھے جائیں تو طلاق کی شرح کم سے کم ہوجائیگی۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ۔ آج جو دشمنِ دین  اور کچھ مغرب زدہ مسلمان ،عورتوں کے حقوق  کی آڑ میں  اسلام پر تنقید کرتے ہیں ان کے لیے بہ بات بھی بتادوں کہ  طلاق کے بعد بھی شوھر کو  کیا  کیا ہدایات ہیں ۔
1۔  علیٰحدگی  ہمدردی اور غمخواری کے ماحول میں ہو  نہ کہ نفرت اور بے زاری کے ماحول میں (تسریح باحسان)
2۔ جب عورت کو رخصت کیا جائے تو کچھ تحفے تحائف ، کچھ کپڑے اور کچھ  روپئے پیسے کے ساتھ  با عزت طریقے سے  رخصت کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :  وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ  (طلاق یافتہ عورتوں کو دستور کے مطابق کچھ ضروری سامان دیئے جائیں یہ واجب ہے ان لوگوں پر جو اللہ سے ڈرتے ہیں)     (سورہ نساء 241)
3. قرآن کی یہ بھی ہدایت ہے کہ اگر طلاق سے پہلے تم نے جو کچھ اس کو دیا ہے چاہے وہ  مال کا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو اسے  واپس لینے کی اجازت شوہر کو قطعی نہیں ہے۔ وآتیتم احداھن قنطارا فلاتاخذوا منہ شیئا (اور اگر تم نے ان میں سے کسی کو ڈھیروں مال دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو)۔ اس کے برعکس اگر شوہر کےذمہ مہر یا اس کا کچھ  حصہ باقی رہ گیا ہو تو وہ  ادا کرے۔ اگر عورت کا کوئی قرض اس کے ذمہ ہے ، کوئی زیور  یا کوئی سامان اس نے لیا ہے تو وہ واپس کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔
4. اگر عورت کی گود میں بچہ ہے تو اس کی پرورش اور کفالت کی ساری ذمہ داری بھی مرد پر عائد ہوتی ہے۔( وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ)
قرآن پاک میں طلاق سے متعلق جو آیات وارد ہیں اور شریعت میں طلاق کے جو احکامات موجود ہیں وہ نہایت حکیمانہ اور منصفانہ ضابطے کے تحت ہیں۔یہ قانون  لوگوں کو تنگی اور پریشانی میں ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ   آسانی پیدا کرنے کے لیے ہے۔طلاق کا قانون انسانوں کے لیے زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے۔
اس بات کا  قوی  امکان اور اندیشہ ہے  کہ اگر  ایک کم علم اور کم فہم شخص عورتوں  کے ان حقوق  کا مطالعہ  کرلے تو  وہ یہ   نہ کہنے لگ جائے کہ اسلام میں  عورتوں کے حقوق زیادہ ہیں مردوں کے نہیں  اور خدانخواستہ  یہ نہ کہا جانے لگے کہ طلاق اور نکاح کے معاملہ میں مردوں کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں  احکام الٰہی کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔