طلاق سے متعلق قرآنی احکامات

 سراج کریم سلفی

اسلام اوراس کی تعلیمات کو خوں آشام، غیر متمدن اور فرسودہ (out-dated)ثابت کرنے کے لیے دشمنان اسلام جد جہد کررہے ہیں، اس کے مختلف پہلوؤں پر جارحانہ حملے کئے جارہے ہیں، اعتراضات والزامات کا سلسلہ جاری ہے، خصوصا ہندوستان میں آج کل منفی رجحان کی اشاعت میں مخالفین اسلام سرگرم عمل ہیں، اسلام اور اس کی تعلیمات کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں، بعض اسلامی تعلیمات کو انسانیت مخالف قراردیاجارہاہے، اور ان پر پابندی عائد کرنے کے لیے سماجی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر کوششیں جاری ہیں، انہیں تعلیمات میں سے ایک طلاق کا مسئلہ ہے۔ تین طلاق کو عورت کے حق میں ظلم و زیادتی قرار دے کر پروپگنڈہ کیا جارہے۔

  سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ دین اسلام میں نکاح ایک معزز ومحترم رشتہ ہے جس کامقصد نسل انسانی کی بقا اور زوجین کے درمیان الفت و محبت اور ہم آہنگی پید ا کرنا ہے، اس کے ذریعہ زوجین کے مابین پاکیزہ محبت اور حقیقی الفت پر مبنی ایک رشتہ وجود میں آتا ہے،

اس کے ذریعے دوخاندانوں کوجوڑا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :

وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُون(الروم:۲۱)

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی، یقینا اس میں بہت سی نشانیا ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور فکر کرتے ہیں۔ ‘‘

قرآن کریم نے میاں بیوی کے تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے لطیف تعبیراختیار کی ہے، اس نے ان کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیاہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّہُن۔(البقرہ:۱۸۷)

’’ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ ‘‘

اسلام کے نزدیک طلاق حلال ہونے کے باوجود ایک ناپسندیدہ اور مبغوض عمل ہے، وہ اسے بحالت مجبور ی جائز قرار دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسلام کانظام طلاق معاشرتی تقاضوں کے مطابق ہے۔ طلاق متمدن سماج و معاشرہ کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کبھی کبھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے جوڑے ذہنی طور پر ایک دوسرے کو قبول نہیں کر پاتے ہیں اور ساتھ رہنے کے باوجود ہم آہنگی اور اپنائیت پیدا نہیں ہوپاتی، دھیرے دھیرے چھوٹے چھوٹے اختلافات انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، ان کا آپس میں نباہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے، وہ ایک خوشگوار و پر لطف ازدواجی زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں اس طرح زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے۔ جب حالات اس طرح ہوجائیں تواسلام انتہائی مناسب اور خوب صورت طریقے سے دونوں کی علاحدگی کا ایک طریقہ بتا تا ہے جس کو طلاق سے موسوم کیا جاتا ہے۔

ازدواجی زندگی سرد گرم اور نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ اس میں ناچاقی اور نااتفاقی غیر متوقع نہیں ہے، بلکہ ان کے درمیان اختلاف کا پیدا ہونا، ان کی رایوں کا مختلف ہونا عین ممکن ہے۔

ممکن ہے کہ یہ معمولی اختلافات بسااوقات سنگین اختلافات کی شکل اختیار کرلیں اور پھر دونوں کی یکجائی ممکن نہ رہے، ایسی صور ت میں طلاق پر عمل کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ان کے درمیان صلح صفائی کرانے، ان کے جھگڑے کا تصفیہ کرنے اور زوجین کو عقد نکاح سے منسلک رکھنے کے لیے حتی الوسع کوشش کرتا ہے۔ وہ زوجین کو ہدایت کرتا ہے کہ اختلافات کے خاتمہ کے لیے دونوں حتی المقدور کوشش کریں، وہ دونوں کو کچھ اقدامات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ درج ذیل سطور میں میاں بیوی کے آپسی اختلافات کو مٹانے کے لیے قرآن کریم میں بیان کے گیے اقدامات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

حسن معاشرت

قرآن کریم شوہر کوبار بار بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کی تاکید کرتا ہے ، اس کے ساتھ ہمدردی، محبت اور دوستانہ برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ہدایت کرتا ہے کہ اگر عورت کے اندر کوئی خامی و کمی ہو جس کی وجہ سے شوہر اسے ناپسند کر ے تو فورا دل برداشتہ ہوکر اسے چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوجائے، بلکہ اسے حتی الوسع ضبط نفس اور صبر و تحمل اور شکیبائی سے کام لینا چاہے، بسا اوقات عورت کے اندر ایسی خوبیاں ہوتی ہیں جوظاہری صورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ابتدامیں شوہر کوان کا شعور نہیں ہو تا اور وہ دل برداشتہ ہونے لگتا ہے لیکن کچھ ایام گذرنے کے بعد جب شوہر اس سے آشنا ہوتا ہے تو وہ اسے محبوب ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح ابتدا میں شوہر کو بیوی کی بعض باتیں ناگوار محسوس سکتی ہیں لیکن اگر شوہر عورت کو اپنی خوبیاں بروئے کار لانے کے مواقع دے تو یقینا وہ عیوب سے زیادہ خوبیاں پائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْر۔(النساء:۱۹)

’’ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ ‘‘

  سرکشی کی ابتدا عورت کی جانب سے ہو، وہ شوہر کے حقوق کی پاسداری نہ کرے، اور اس کی اطاعت نہ کرے توبھی مناسب نہیں کہ شوہر طیش و حمیت میں آکر بیوی سے قطع تعلق کرلے اور رشتہ ناطہ توڑنے پر آمادہ ہوجائے اور فورا حق طلاق کا استعمال کرنے لگے، بلکہ اسلام  عورت کی تادیب کے لیے اس کو کچھ اختیارات دیتا ہے، جسے بالترتیب بروئے کار لانا ایک شوہر کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْرا۔(النساء:۳۴)

’’اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھا ؤ، خواب گاہوں میں ان سے علاحدہ رہو اور مارو پھر اگر وہ تمہاری مطیع

ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالا تر ہے۔ ‘‘

آیت میں مذکور لفظ’’ نشوز‘‘ کی تشریح میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ناشزعورت وہ ہے جو اپنے شوہر کے حکم کی بجاآوری نہ کرے اس سے اعراض کرے اور اس کو پسند نہ کرے۔ ‘‘(تفسیر ابن کثیر :)

آیت بالا میں عورت کی تادیب کے لیے مرد کو تین اختیارات دیے گئے ہیں:

 (۱)  وعظ و نصیحت

مرد کو اگر عورت کی طرف سے سرکشی کا خدشہ ہو تو اس کی تادیب کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ نرمی اور شفقت سے وعظ و نصیحت کرکے، اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے،اس کے اندر اللہ و آخرت کا خوف پیدا کرے، شوہر کے حقوق و ذمہ داریوں کا احساس دلائے اور شوہر کی نافرمانی پر وارد وعید سے باخبر کرے۔ ’’فعظوھن‘‘ کی تفسیر میں علامہ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ذکروھن اللہ و خوفھن وعیدہ فی رکوبھا ماحرم اللہ علیھا من معصیۃ زوجھا فیما اوجب علیھا طاعتہ فیہ ‘‘(تفسیر طبری : )

(۲)  ترک صحبت

اگروعظ و نصیحت کار آمد نہ ہو اورعورت اپنی پہلی حالت پر قائم ہو تو اسے خواب گا ہ سے الگ کردے۔ ’’واھجروھن‘‘کی تین تشریحیں بیان کی گئی ہیں۔ (۱)بستر پر ساتھ لٹائے لیکن اس سے مجامعت نہ کرے۔ (۲)اپنے ساتھ لٹائے لیکن اپنا رخ پھیر لے اور بعض نے کہا کہ اس سے کلام بھی ترک کردے۔ (۳) اپنا بستر الگ کرلے۔

خواب گاہ ایک ہوتے ہوئے قطع تعلق اختیار کرنا ایسی تدبیر ہے جسے عورت زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کرسکتی، لیکن اس کے لیے مرد کو ضبط نفس اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہے۔ اس سے سرکش عورت پر یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ اس کی اطاعت و فرماں برداری کے بغیر مرد اس کے حسن کے جلووں سے متاثر اور نازو انداز کی تیروں سے گھائل ہونے والانہیں ہے۔ نتیجۃََ عورت اپنی روش سے باز آئے گی، اس کے غرور و تکبر کا سر نیچا ہوگا اوروہ اطاعت کی طرف لوٹ آئے گی۔

(۳)  ضرب غیرمبرّح

وعظ و نصیحت اور ترک صحبت سے کام بنتا نظر نہ آئے تو مرد کو مناسب طریقہ سے جسمانی اذیت دینے کا اختیار ہے۔ لیکن یہ صرف اس حد تک ہو جس میں کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شوہرسرکش بیوی کو مسواک یا اس جیسی چیز سے مارسکتا ہے۔ نبی ﷺنے ضرب کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’واضربوھن غیر مبرّح ‘‘(رواہ مسلم :)۔ ’’ ان کو ایسی مار مارو جو نقصان دہ نہ ہو۔‘‘

 اسی طرح حدیث میں چہرے پر مارنے سے منع کیا گیاہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے :’’ اذاقاتل احدکم اخاہ فلیجتنب الوجہ ‘‘۔(رواہ مسلم : کتاب البر و الصلہ الادب، ۲۶۱۱ حدیث)۔’’ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو مارے تو چہرے پر مارنے سے اجتناب کرے۔ ‘‘

اگر مذکورہ اقدامات مفید اور کارگر ثابت ہوں، عورت بغاوت کے بجائے اطاعت کی راہ پر آجائے توشوہر کو پچھلی تمام کدورتیں بھلا دینی چاہئے۔ اس کے بعد مرد کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس سے انتقام لینے، اس کی سرزنش کرنے یا اس کے ساتھ ظلم و زیادتی روا رکھنے کا بہانہ تلاش کرے۔

مذکورہ اقدامات مرد کو دیے گئے ہیں کہ عورت کی بغاوت پراس کی تادیب کے لیے بروئے کار لائے۔ لیکن اگر سرکشی شوہر کی طرف سے ہو، شوہر بیوی کے جملہ حقوق ادا نہ کرے تو اس صورت میں قرآن کریم عورت کو کچھ ہدایات کرتا ہے جن پر عمل کرکے شوہر کو طلاق دینے سے روک سکتی ہے۔

 اپنے حقوق چھوڑنا

قرآن مجید مرد کو بار بار بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے، اس کے حقوق اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے، اس کے عیوب کو نظر انداز کرنے اور خوبیوں پر نظر رکھنے کی تلقین کرتا ہے تو دوسری طرف عورت کو ہدایت دیتا ہے کہ اگر شوہر اس سے بے رخی برتے، اس کے ساتھ زیادتی کرے، اس کے حقوق ادا کرنے میں کوتا ہی کرے تو فورا قطع تعلق کا مطالبہ نہ کرے، بلکہ اپنی فہم و فراست کے ذریعہ شوہر کی نافرمانی کی وجہ جانے کی کوشش کرے اور اس کے حل کی مناسب تدبیر کرے۔ اس کے لیے اگر اس کواپنے بعض مطالبات سے دستبردار ہونایا بعض حقوق میں کمی بیشی کرنا پڑے یا مکمل حقوق چھوڑنا پڑے تو وہ چھوڑ سکتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَإِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِن بَعْلِہَا نُشُوزاً أَوْ إِعْرَاضاً فَلاَ جُنَاْحَ عَلَیْْہِمَا أَن یُصْلِحَا بَیْْنَہُمَا صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَیْْرٌ۔(النساء:۱۲۸)

’’اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بد سلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر ) آپس میں صلح کرلیں، صلح بہر حال بہتر ہے۔ ‘‘

آیت بالا کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ عورت مرد کی طرف سے بے توجہی، دوری یا نفرت کا خطرہ محسوس کرے تو وہ مصالحت کرنے کے لیے اپنے حقوق، جیسے نان و نفقہ، لباس، شب باشی وغیرہ مکمل طورپر چھوڑ سکتی ہے یا اس میں کچھ کمی کرسکتی ہے مرد کے لیے اسے قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیوں کہ صلح تفریق سے بہتر ہے۔‘‘ (ابن کثیر : ۱/۷۳۵)

صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ وہ آیت ’’ وَإِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِن بَعْلِہَا نُشُوزاً أَوْ إِعْرَاضاً‘‘کی تشریح میں فرماتی ہیں کہ’’ کسی مرد کی طبیعت عورت کی طرف اس کی عمردرازی یا کسی اور وجہ سے بیزارہوجائے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے درپے ہو تو عورت اپنے شوہرسے یہ پیش کش کر سکتی ہے کہ اپنے کچھ حقوق کم کرکے اسے اپنی زوجیت میں رکھے، اگر دونوں اس

بات پر راضی برضا ہو جائے تو مصالحت میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ ( البخاری : کتاب الصلح، حدیث نمبر:۲۶۹۴)

حکم مقررکرنا

بسااوقات میاں بیوی کے دوریاں بڑھ جاتی ہیں، اختلاف کی خلیج وسیع ہوجاتی ہے اور تعلقات ٹوٹنے کی کگارپر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا باہم مصالحت کرپانا نا ممکن ہوتا ہے، ایسی صورت میں قرآن مجیداصلاح ِاحوال کے لیے ایک دوسری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت فرماتا ہے۔ وہ تدبیر یہ ہے کہ فریقین کی جانب سے ایک ایک ثالث مقررہو اوروہ اختلاف کی جڑوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے اور غیر جانبدارانہ طورپر، خیرخواہی کے ساتھ، جہاں تک ان سے بن سکے، صلح صفائی اور میل ملاپ کی کوشش کریں گے۔ اگر دونوں خلوص ِنیت سے اصلاح ِاحوال کی کوشش کریں تو اللہ ضرور ان میں سازگاری پیدا کرے گا یا کوئی بہتر سبیل پیدا کرے گا،چنانچہ اگر مفاہمت کی دولت ہاتھ آگئی تو یہ سب سے بہتر اورلائق تحسین ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُوَفِّقِ اللّہُ بَیْْنَہُمَا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْماً خَبِیْرا۔(النساء:۳۵)

’’اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑجانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مردکے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔ ‘‘

تعدّدِ طلاق

میاں بیوی کے درمیان مصالحت کرانے ان کے جھگڑے کا تصفیہ کرنے میں مذکورہ تمام اقدامات غیر مفید ثابت ہوں اور عقدئہ نکاح ٹوٹنے کے قریب ہوجائے تو اسلام نے ان کے درمیان بقاء عقد کے لیے ایک آخری اقدام کیا ہے وہ تعدد طلاق ہے۔ اللہ تعالی کافرمان ہے:

الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ۔(البقرہ:۲۲۹)

’’طلاق دوبار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیاجائے۔ ‘‘

اسلام کا بیان کردہ نظام طلاق درج ذیل ہے

(۱) طلاق رجعی : شوہر بیوی کی حالت طہرمیں جس میں مجامعت نہ کی ہو، ایک یا دو طلاق دے اور عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلے۔

(۲) طلاق بائن : حالت طہرمیں جس میں ہم بستری نہ کی ہو، ایک طلاق دے اور عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع نہ کرے اور نہ دوسری طلاق دے، عدت کے اختتام پرنکاح خود بخود ٹوٹ جائے گا۔

   (۳) طلاق بتہ : تین طہر میں جس میں مجامعت نہ کی ہو، تین طلاقیں دے۔

 طلاق بائن کے بعد اگرمرد وعورت پھر سے ایک ساتھ رہنا چاہے تو از سر نو نکاح کرکے رشتئہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔

طلاق بتہّ، اسی طرح طلاق رجعی میں باقی طلاق جب کبھی دے تو مکمل طور سے مرد و عورت کے درمیان سے رشتئہ ازدواج ختم ہوجائے گا اب وہ دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں نہ ایک دوسرے سے نکاح کرسکتے ہیں، الّا یہ کہ اس عورت کا کسی دوسرے مرد سے باہمی رضا سے نکاح ہوجائے، پھر ان کے درمیان اتفاقیہ طور پر طلاق واقع ہوجائے یا دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے تو پہلا شوہر اس سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔

اسلام کا بیان کردہ نظام طلاق مکمل طور پر انسانی افکار و نظریات سے ہم آہنگ اور معاشرتی تقاضے کے مطابق ہے۔ اس نظام میں زوجین کے درمیان مکمل تفریق اور قطعی طور پررشتئہ نکاح اس وقت منقطع ہوجاتا ہے جب تیسری مجلس میں، تیسرے طہر میں، تیسری طلاق واقع ہوتی ہے۔ یعنی تیسری طلاق واقع ہونے تک کئی منزلوں سے گذرنا ہوتا ہے، کئی وقفے ہوتے ہیں جن کے درمیان اچھی طرح سوچنے سمجھنے اور یکے بعد دیگرے اصلاح کی مہلت ملتی ہے، جن کے درمیان زوجین اپنی غلطیوں کا ادراک کرسکتے ہیں۔ اگر زیادتی شوہر کی طرف سے ہو اور اس نے طیش میں آکر طلاق دی ہو تو وہ اپنی غلطی پرپشیماں اور نادم ہوسکتا ہے اور اپنے فیصلے سے باز آسکتا ہے اور اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو، وہ شوہر کے متعینہ حقوق ادا نہ کرتی ہو تو ایک طلاق کے بعد اس کو احساس ہونا جانا چاہئے کہ اگر وہ اپنی غلطیوں سے باز نہ آئی اور آپس میں مصالحت نہ کی دونوں کے درمیان نکاح ختم ہوجائے گا اور دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوجائیں گے۔

ہوسکتا ہے کہ ایک طلاق کے بعد بھی زوجین کواپنی غلطیوں کا احسا س نہ ہو یا ان کے تعلقات اتنے خراب ہوگئے ہوں کہ وہ وہ اب بھی تک مصالحت کرنے پر آمادہ نہ ہواورمزید وقت درکار ہو۔ اس درمیان دوسری طلاق بھی ہوگئی ہو تو قرآن ان کو ایک اور مہلت دیتا ہے، تاکہ وہ اپنے معاملے پر ایک باراور سوچ لیں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرلیں، اپنے اپنے رویے سے باز آجائیں اور پچھلی تمام کدورتوں اور رنجشوں کو بھلا کر آئندہ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوجائیں، لیکن اگر وہ اب بھی مصالحت کے لیے تیار نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر سنجیدہ ہیں، ان کے درمیان ضرور کوئی ایسی بات ہے جو ان کو ساتھ رہنے ہیں دیتی۔ ان کے درمیان ایسی دیوار کھڑی ہوگئی ہے جو گرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے افتراق ہی میں خیر و بھلائی اور مصلحت ہو اور شاید اللہ تعالی ان کی جدائی کو ان کے لیے خوشگوار زندگی کا سبب بنادے۔ دوسری طرف اسلام نے طلاق کو محدود کرکے عورت کو تحفظ دیا اور اس بڑی معاشرتی خرابی پر روک لگا دی جو عرب میں رائج تھی، یعنی بے حد و حساب طلاق دے کر عورت کی زندگی کو اجیرن بنا دینا اور اسے کہیں کا نہیں رہنے دینا۔

  دوران عدت شوہر کے گھر قیام کرنا

فرمان باری تعالی ہے :َ

لا تُخْرِجُوہُنَّ مِن بُیُوتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ إِلَّا أَن یَأْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ۔(الطلاق:۱)

’’نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں۔ ‘‘

عدت کے دوران شوہر کے گھر قیا م کرنا کے حکم دینا بھی رشتئہ نکاح کی بقا کا ایک پہلو ہے۔ شاید تین مہینے کی اس مدت میں مرد

طلاق دینے پر نادم و پشیماں ہو جائے یا دونوں کا یکجا ایک گھر میں رہنے کی صورت میں پرانی محبتوں کے جذبات ابھر آئیں، باہمی سازگاری اور اصلاح ِاحوال کی کوئی گنجائش نکل آئے اور باہم موافقت کی کوئی صورت پیداہوجائے، اور وہ آپسی رنجشوں کو بھلا کر پھر سے الفت و محبت بھری حسین زندگی گذارنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔

گذشتہ سطور میں وہ اقدامات اور ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کو اسلام نے نکاح جیسے مقدس رشتے کی بقا اور اس کے اندر آئی دراڑ کو ختم کرنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ مختلف اسباب و عوامل کی بنا پر بغیرغور و فکر کیے طلاق دے بیٹھتے ہیں اور بعد میں انھیں پچھتاوا ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے طلاق دینے سے پہلے کافی قیود و شرائط بیان کی ہے تاکہ اگرشوہر نے جلدی میں غیر شعوری طور پر طلاق دے بھی دی ہو تو اس کواپنے فیصلے پر غور فکر کرنے کا موقع ملے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے یہاں طلاق کا اوسط دوسرے اقوام کے مقابلے میں کم ہے۔

اس تفصیل سے یہ واضح ہے کہ اسلام کا نظام طلاق بڑی حکمتوں پر مبنی ہے۔ اسے عورتوں کے حق میں ظلم قرار دینا درست نہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ مسلمانوں میں تین طلاق ایک ساتھ دینے کا جو رواج ہوگیا ہے وہ قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریقئہ طلاق سے میل نہیں کھاتا۔ مسلمانو ں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآنی ہدایات پر عمل کریں اور اس کے مطابق اپنے تمام معاملات انجام دیں۔

تبصرے بند ہیں۔