نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحہ کی حرمت پر

جویریہ سلیم

(اٹک شہر)

الیکشن کا وقت قریب ہے ایسے میں لبرل طبقہ بڑے زور و شور سے مذہبی آزادی کا نعرہ لگا رہا ہے اس نعرہ میں ان کی کیا حکمت کارفرما ہے اس کا اندازہ اگر آپ کو نہیں تو یورپ کے موجودہ حالات کا مشاہدہ کیجیے جواب آپ کے سامنے ہو گا۔ایسے ہی آزادیِ مذہب کا نعرہ قادیانی طبقہ بھی لگا رہا ہے دوسرے الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ کچھ سوالات کا سہارہ لیے اپنے اندر کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔

حال ہی میں تو ایک موصوف کا ٹویٹ سوشل میڈیا کی گردش میں دیکھا جسکا لب لباب تھا کہ انکے نزدیک احمدی و غیر احمدی برابر ہیں۔

بڑی حیرت ہوئی کہ ایک طرف تو آپ پاکستان کے استحکام کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب اسکے آئین سے اختلاف!!

 کیا یہ سرعام قادیانیت کا دفاع نہیں۔ ۔۔۔؟

لیکن یاد رکھیے!علامہ اقبال ؒنے کہا تھا کہ قادیانیت یہودیت کاچربہ ہے۔ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں بڑا ہاتھ قادیانیت کا بھی ہے سقوطِ بنگال کبھی نہ ہوتا اگر جرنل یحییٰ اور اونچے عہدوں پہ بیٹھے قادیانی غداری کا کھیل نہ کھیلتے۔

افسوس۔ ۔۔۔ کہ امریکہ میں ابراہم لنکن کی توہین جرم ہے روس میں اسٹالن کی توہین، برطانیہ میں شاہ جارج کی توہین نا قابلِ معافی ہے تو پاکستان میں نبی علیہ السلام کے دشمن  ہیرو کیسے؟؟؟

 ان کی ناموس کے پہرے دار تختہ دار پے کیوں نہیں؟

  ؎حسن یوسف پے کٹی مصر  میں انگشت زناں

سر کٹاتے ہیں تیرے نام پے مردانِ عرب

مسلمان آج تک اپنی ذات پے ہر ظلم و ستم برداشت کرتا آ رہا ہے اسکے لیے فقر وفاقہ سے لیکر بچوں کا قتل تک سب قابل برداشت ہے لیکن اسکے نبیﷺ کی ناموس پے اگرکوئی حرف آئے تو اس کے لیے قابل برداشت نہیں، پھر یہ تنِ تنہا پورے لشکر سے ٹکرا جاتا ہے۔

تاریخ اسلامی اٹھاکر دیکھیں !کسی بھی جنگ کامقصد مال وزر یا کوئی ذاتی مفاد نہیں ملے گا ہر جنگ میں عشق نبی ہی نظر آئے گا۔ بدر میں 313ایک ہزار سے ٹکرائے احد میں ایک ہزار تین ہزارسے ٹکرائے، احزاب میں تین ہزار دس ہزار سے ٹکرائے اور تبوک میں تو پھل اترنے کا موسم تھا۔ سال بھر کی آمدنی کا دارومدار یہی باغات اور انکا پھل تھے لیکن آفرین ہے اس جذبہ ایمانی کو حضور ﷺکی ہر صدا پے لبیک کہا۔

 منکرین اسلام کے ساتھ منکرین ختم نبوت، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور ان کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کے لیے امت کی طرف سے ادا کیے گئے کردار کی طرف ایک نظر ڈالیے !!

پہلا دعوی دور رسالت میں اسود عنسی نے کیا تھا یہ یمن کا رہنے والا چرب زبان اور کہانت کے زور پر لوگوں کو الو بناتا تھا گدھے کے ساتھ شعبہ بازی دکھا کر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا اسی زور پر نہ صرف نبوت کا دعوی کر دیا بلکہ حاکمِ صنعا کو شہید کر کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا یہ خبر جب در بارِرسالت میں پہنچی تو آپ علیہ السلام  نے اسکی سر کوبی کے لیے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت ِمعاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کی سپاہ سالاری میں لشکر روانہ فرمایا جنہوں نے اسودعنسی کا خاتمہ کرکے واصل جہنم کیا۔ رحلت سے ایک رات قبل آپ علیہ السلام کو بذریعہ وحی خبر دی گئی۔ آپ  نے فرمایا : ” اسود عنسی ماراگیا اور اسکا خاتمہ ایک مرد مجاہد نے کیااسکا نام فیروز ہے پھر فرمایا فاز فیروز(فیروز کامیاب ہو گیا) (آئینہ قادیانیت ص24)

پھر دورِ خلافت میں مسیلمہ کذاب نے سر اٹھایا اسکا فریب بھی قادیانیت سے جدا نہیں تھا اس وقت کے مسلمانوں جیسی اذان و اقامت، وہی نماز وہی قبلہ وہی قرآن تھا لیکن ساتھ ہی دعوی نبوت بھی کیا۔تمام صحابہ کرام نے بالاجماع نہ صرف کافر سمجھا بلکہ واجب القتل قرار دیا

سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اسکی سر کوبی کے لئے سیدنا خالدبن ولیدؓ کی سپہ سالاری میں 20 ھزار کا لشکر روانہ فرمایاکسی نے یہ سوال نہ کیا کہ کیا ریاست کسی کے قتل کی اجازت دے سکتی ہے ؟؟

کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے ؟؟

کیا ان کا نماز و قبلہ ہماری طرح نہیں ؟؟

20 ہزار کا لشکر مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے افراد پے مشتمل افراد سے ٹکرایا۔اس معرکے میں 21ہزار اور بعض روایات کے مطابق 28ہزار منکرین ختم نبوت جہنم واصل ہوئے جبکہ 1200 صحابہ و تابعین شہید ہوئے جن میں بڑی تعداد حفاظ کی تھی۔ مسیلمہ کو حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں سے عبرت ناک انجام تک پہنچایا۔

پھر قبیلہ طے کا طلیحہ اسدی نے بھی دعوی نبوت کیا اسکی سر کوبی کے لیے بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں لشکر روانہ فرمایا اور اسی لشکر کے ہاتھوں وہ اپنے انجام کو پہنچا۔

ایک اور مختار بن ثقفی جھوٹا نبوت کا دعویدار اٹھا۔اس کا خاتمہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھوں ہوا۔

جس دور میں بھی کسی کذاب نے نبوت کادعوی کیااسکا انجام وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔

منکرین ختم نبوت خواہ جس دور میں ہوں یا جس ریاست سے ہوں واجب القتل تھے …واجب القتل ہیں اور واجب القتل ہی رہیں گے (ان شاء اللہ )

 جب بھی کسی کذاب نے دعوی نبوت کیا اسکے خلاف جنگ لڑی گئی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 11 لشکر جھوٹے مدعیان نبوت کی سر کوبی کے لئے ترتیب دیئے گئے۔

اب اس کو اپنی بد قسمتی کہہ لیں یا مرزا غلام احمد قادیانی کی خوش قسمتی کہ اسکے فتنے نے انگریز کے زمانے میں جنم لیابرطانیہ کی بھر پور حمایت سے خوب پھلا پھولا۔یہ جھوٹی نبوت بھی انگریز ہی کی عطا کردہ تھی اگر یہ فتنہ کسی مغلیہ دور کے مسلمان حکمران کے دور میں سر اٹھاتا تو اس کی گندی پیداوار آج موجود نہ ہوتی لیکن سلام ہے ختم نبوت کے مجاہدین کے جذبہ عشق کو کہ دور رسالت سے لیکر دور حاضر تک تحفظ ناموس رسالت کے لیے اپنے خون سے جو داستان رقم کی وہ قابل تحسین ہے۔ دور رسالت کے اسود عنسی سے لیکر دور حاضر کے سلمان تاثیر تک کے خاتمے کا جو سفر طے کیا ہے وہ جذبہ ایمانی سے بھر پور ہے۔

تحفظ ناموس رسالت کی ذمہ داری صرف علما ء اور اہل مدارس پر نہیں بلکہ ہر کلمہ گو کا فرض ہے۔ میں  آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ اس وقت اپنے اس ایمانی فریضہ کی ادائیگی کریں۔  خدانخواستہ !آپ کی یہ کوتاہی آنے والی نسلوں کے ایمان سے محرومی کا سبب بنے۔

 ووٹ آپ کا قومی حق ہے اس لیے ووٹ دیں لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ آپکا ووٹ کسی منکر ختم نبوت کے حق میں تو نہیں۔ آپ کا ووٹ کسی مجاہد ختم نبوت کی قربانی کے مذاق کا باعث تو نہیں بنے گا؟؟؟

 اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنے فرض کو نظرانداز مت کریں۔

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر

  خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔