اماں !بھائی کب مرے گا؟

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

 یہ ایک ایسی تحریر ہے جسے پڑھنے کاارداہ ہر انسان کرتاہے اور دل اگر مٹی کوہوتونرم ہوکر آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات چھوڑ دیتاہے، لاتعداد ایسے واقعات ہوتے ہیں جولوگوں کے لیے درس عبرت ہوتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ نظر سے گزرااور دل میں اتر گیا، بھوکے پیاسے لوگ آج بھی اس معاشرے میں ہیں جنہیں امداد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن امیر شہر کوکیاخبر کہ بھوک اور پیاس کیابلا ہوتی ہے اس کے توکتے بھی  مزے کی زندگی گزارتے ہیں، ہمارے اس معاشرے کے اندر انسان اگر کسی سے امداد کامطالبہ کرتاہے تومسئول اپنے آپ کوکچھ سمجھ بیٹھتاہے حالانکہ مسئول کے لیے اسی میں بہتری ہوتی ہے کہ اس کے پاس اللہ پاک نے اپنے بندے کوبھیجاحققیت میں سائل کانہیں مسئول کاامتحان ہوتاہے، اللہ پاک ہمیں بھی آزمائیشوں سے محفوظ رکھے کیونکہ آزمائیش رب کی طرف سے ہوتویہ بہت بڑی چیز ہواکرتی ہے آئیے اصل مضمون کی طرف چلتے ہیں کہ بچے کی صدا  اماں ! بھائی کب مرے گایہ کیوں اور کیسے لگی۔

ایک گھرانہ میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل تھا جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ گھر کا سربراہ بہت عرصے سیبیمار تھا جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگرکسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔

ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اسنے گھر سے کچھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے ڈھونڈھ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی تلاش کے بعد دوچار چیزیں نکل آئیں جنھیں کباڑیے کو فروخت کر کے دو چار وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہو گئے تو پھر جان کے لالے پڑ گئے۔ بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا۔ ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادرمیں لپیٹ کر محلے کی پرچون کی دکان پرجا کھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نا صرف صاف انکار کر دیا بلکہ دو چار باتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔

ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اور اوپر سے مسلسل فاقہ، آٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بخار میں مبتلا ہو کر چارپائی پر پڑ گیا۔ دوا دارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ نہیں تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹیکے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جب کہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاں دبا رہی تھی۔ اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی

اماں بھائی کب مرے گا؟

ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟

بچی معصومیت سے بولی:

ہاں اماں !بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔