طلبئہ مدارس احساس کمتری کے شکار!

محمد خان مصباح الدین

احساسِ کمتری اور احساسِ برتری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ احساسِ کمتری انسانی شخصیت کی وہ کیفیت ہے جس میں وہ اپنے آپ کو جسمانی، ذہنی یا سماجی طور پر دوسروں سے کمتر محسوس کرے۔ احساسِ کمتری کسی بھی عمر میں پیدا ہو سکتی ہے، مگر عموماً یہ بچپن میں پیدا ہوتی ہے، جس میں والدین، اساتذہ، دوست یا رشتہ دار کوئی بھی اس احساسِ کمتری کو اُبھارنے کا موجب بن سکتا ہے۔ اور احساس برتری احساس کمتری ہی سےآتی ہے وہ اسطرح کہ انسان اپنی احساس کمتری سے جنگ لڑ کر اس کو احساس برتری میں تبدیل کر دیتا ہے۔

آج اس مقابلہ آرائی کے دور میں جبکہ دنیا چاند اور سورج پے کمند ڈالنے کی بات کر رہی ہے اور ہر طبقے کا ذہن پرواز کرتا جا رہا اور ترقی کی راہ مسلسل ہموار ہوتی جا رہی ہے ایسے میں مدارس اسلامیہ کے طلبہ اپنے آپ کو سب سے کمتر سمجھ رہے ہیں اور اپنی تعلیم کو حقیر سمجھ کر اپنے پورے وجود کو احساس کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں جسکی وجہ سے اسلامی تعلیمات درس وتدریس مسلسل ہم سے مفقود ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ بچوں کا ذہن اپنے اساتذہ کے تئیں بدلتا جا رہا ہے انکو لگتا ہے کہ مدارس کے اساتذہ شاید عصر حاضر کی ضروریات پوری نہیں کر رہے بلکہ پرانے دور کی باتیں لوگوں کو بتا اور پڑھا رہے ہیں۔

لہذا ہمارے تعلیمی ماحول کو اس احساس کے دائرے سے نکلنا چاہیے اور پورے اعتماد و حوصلہ کے ساتھ یہ سمجھتے ہوئے تعلیم و تدریس کے فرائض سر انجام دینے چاہئیں کہ ہم دورِ حاضر کی ایک بڑی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں اور عصرِ نو کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں کیونکہ آج بھی دنیا کو قرآن و سنت کی تعلیم کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح ماضی میں تھی او ر قیامت تک کے مستقبل میں بھی یہ ضرورت اسی طرح باقی رہے گی، اس لئے میں اس سے آگے بڑھ کر یہ بات کہوں گا کہ ہمارے مدارس صرف ماضی اور حال کی تعلیم نہیں دے رہے بلکہ مستقبل کی ضروریات کی تعلیم بھی دے رہے ہیں اور ان مدارس کی یہ تعلیم نسل انسانی کے مستقبل کے حوالہ سے ’’ایڈوانس تعلیم ‘‘کا درجہ رکھتی ہے اس لئے کہ عالمی دانش گاہوں کو اب یہ ضرورت محسوس ہونے لگی ہے کہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف رجوع کئے بغیر نسل انسانی کے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا اور اسلامی تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میرا یہ وجدان یقین اور ایمان کا درجہ رکھتا ہے کہ آنے والا دور قرآن کریم کا ہے اور قرآنی تعلیمات ایک بار پھر دنیا میں ’’ لیظہرہ علی الدین کلہ ‘‘ کا منظر پیش کرنے والا ہے اس لئے میں دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ وہ کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور پورے حوصلہ و اعتماد کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات کو یہ سمجھتے ہوئے فروغ دیں کہ ہم حال کی تعلیم دے رہے ہیں اور بہتر مستقبل کی طرف انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کرنے والی تعلیمات کی تعلیم و تدریس میں مصروف ہیں جبکہ عصری اسکولوں اور کالجوں کی تعلیم صرف حال کی ضروریات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

قارئین کرام!

اگر اسلامی تعلیمات ترقی کا اور نسل انسانی کی رہنمائی کا ذریعہ نہ ہوتی تو دنیا کے باطل پرست مدارس اور اسلامی تعلیمات سے اس قدر خائف نہ ہوتے اسکی ایک مثال آپکے سامنے ہے:

1990 کے ٹائمز میں یہ خبر چھپی کہ 20 یا 50 سال کے بعد پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو گا۔۔ انگلینڈ وغیرہ کے ماہرین اکٹھے ہوئے۔۔ کافی غور و فکر کے بعد کچھ سمجھ نہ آیا۔۔۔ آخر کار روم میں جان پال پوپ سیکنڈ کے پاس مسئلہ لے کر گئے تو اس نے ایک سوال کیا کہ یہ بتاؤ کہ مسلمانوں کے بچے زیادہ تر اسکولوں اور خاص طور پر انگلش میڈیم سکولوں میں پڑهتے هیں یا مدرسے میں ۔۔؟؟؟

تو ماہرین نے کہا کہ 80 فیصد سے زیادہ بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور بہت کم بچے مدارس دینیہ میں پڑھتے ہیں تو پوپ نے ایک فقرہ کہا۔۔۔

 کانوں میں روئی ڈال کر سو جاؤ۔۔۔ فکر نہ کرو، یہ بچے ہمارے ہیں ۔۔۔ مسلمانوں کے نہیں ۔۔۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ تقریبا 9 سال قبل جامعہ اسلامیہ سنابل دہلی میں ہم طلبہ کا سالانہ انجمن منعقد ہوا جس میں بہت سارے شہرت یافتہ عالم دین بطور مہمان مدعو کیے گئے جس میں مولانا عبد المعید مدنی حفظہ اللہ بھی تھے جب انہیں طلبہ کو بطور نصیحت اسٹیج پے مدعو کیا گیا تو انہوں نے بلا چوں چرا طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: کہ یہ جو بچے میرے سامنے بیٹھے ہیں مجھے ان میں کوئی بھی امت کا خیرخواہ نظر نہیں آ رہا ہے مجھے مدرسے کے اساتذہ کی تعلیمی لیاقت پے کوئی شک نہیں وہ اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں اور یہ طلبہ بھی واقعی داد وتحسین کے مستحق ہیں مگر انکی یہ خوبیاں صرف مدرسے تک محدود ہیں یہاں سے نکلنے کے بعد انکا وجود مدرسے کے ایک ایک نشان کو اپنے آپ سے اسطرح نوچ کر پھینک دیگا گویا انکے کے دامن پے یہ بدنما داغ ہو اور انکی ترقی کے راستے کا رکاوٹ ہو اور یہاں سے نکلنے کے بعد کبھی ان پر نظر پڑے تو آپ دیکھیے گا کہ یہ بچے اپنے آپ کو سنابل کے نام کیساتھ نہیں جوڑینگے بلکہ کوئی جے این یو تو کوئی جامعہ ملیہ تو کوئی علی گڑھ کوئی فلاں تو کوئی فلاں کالج اور یونیورسٹی کو اپنے نام کیساتھ متصف کریگا آپ خود فیصلہ کریں کہ اس جامعہ کوعلمی سفر طے کرتے ہوئےایک زمانہ ہو گیا اس جامعہ نے لاکھوں طلبہ کو علم سے آراستہ اور سیراب کیا ہے مگر اس کے اثرات بہت کم دیکھنے ملتے ہیں .

مولانا کا ایک ایک جملہ سوئی کی نوک کے مانند دل ودماغ پے چبھ رہا تھا مگر سچائی کا انکار بھی تونہیں کیا جا سکتا تھا گویا مدرسے کے طلبہ کا مدارس کے تئیں یہ رویہ احساس کمتری نہیں تو اور کیا ہے اس وقت مجھے مولانا کی یہ باتیں حماقت اور سنابل کے تئیں تعصب نظر آئی مگر میں آج یہ کہتے ہوئے بالکل شرمندہ نہیں ہوں کہ اسوقت میں غلط تھا اپنی کم علمی اور محدود فہم وفراست کیوجہ سے مگر آج جبکہ اتنی وسعت ہے کہ حق کو حق اور باطل کو باطل کھلے طور پر کہہ سکوں تو میں اسبات کا مکمل اختیار رکھتا ہوں کہ یہ کہہ سکوں کہ مدارس سے طلبہ کا فیضیاب ہونے کے بعد اسے نظروں سے گرا دینے کا مطلب احساس کمتری کے سوا کچھ نہیں ہے

مدارس کا یہ بحران پوری امت کے لیے خطرے کا باعث ہے کیونکہ پورے عالم میں یہی وہ ایک ذریعہ ہے جس سے مسلمانوں کو ہمیشہ امیدیں وابسطہ رہی ہیں اور ہر دور میں مدارس کے طلبہ ہی نے ظلم و جبر کا مقابلہ کبھی قلم کی زور سے تو کبھی اپنے وجود سے کیا ہے مگر دنیا کے باطل پرستوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی طرح طرح کی  سازشیں کی اور اپنے سراغ رساں کو اسبات کی چھان بین کرنے کو کہا کی آخر کسطرح اسلام اور مسلمانوں کے دائرے کو محدود کیا جائے_

تو ان کے قلمکاروں اور جاسوسی نظام کے سربراہوں نے یہ رپورٹ پیش کی کہ اگر مسلمانوں کو ختم کرنا ہے تو انہیں قرآن و حدیث سے دور کر دیا جائے اسی تناظر میں باطل پرستوں نے اپنی سازشوں کے تحت اسلامی مدارس کو کبھی دہشت گردی کا اڈہ کہا تو کبھی مدارس کے علماء اور اسکے طلبہ کو دہشت گرد کہا جب اس سے بھی بات نہیں بنی تو انہوں نے دینی مدارس میں ایسے ایسے نصاب داخل کرائے جو بظاہر عربی زبان پر مشتمل ہیں مگر اس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہم ہندوستان میں موجود ان مدارس کو دیکھ سکتے ہیں جو سرکار سے منسلک ہیں ان مدارس کے اندر ایسی ایسی کتابیں داخل درس ہیں جو دیکھنے میں عربی,پڑھنے میں عربی,بظاہر اسلامی زبان,مگر اسکے اندر نہ تو اسلام ہے اور نہ ہی اسلامی اصول وضابطے ایسی کتابیں پڑھ کر ایک بچہ احساس کمتری شکار ہوگا یا نہیں اسکا فیصلہ آپ خود کریں جسکو پڑھنے کا مطلب طالب علم کا کنکر اور پتھر جمع کرنے کے مترادف ہے یہی وجہ ہیکہ تمام سفر طے کرنے کے بعد اسے اپنی منزل کا نشان بھی نہیں ملتا تب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا اب لوٹنا بھی چاہتا ہے مگر لوٹ بھی نہیں سکتا کیونکہ زندگی کا وہ حصہ ختم ہو چکا جہاں سے لوٹ جانا بہت آسان تھا اب تو حساب دینے کا وقت آیا ہے پھر احساس کمتری کا شکار ایک طالب علم در در کی ٹھوکریں کھانے پے مجبور ہوتا ہے_

مدارس میں موجود اساتذہ جنہیں ہم روحانی باپ سے تعبیر کرتے ہیں میں انکی صلاحیت پے نکیر نہیں کر سکتا الحمداللہ وہ واقعی خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنے فن کا ممتاز اور مکمل عبور رکھنے والا عالم ہوتا ہے مگر آپسی تعصب کا یہ عالم ہوتا ہیکہ ایک دوسرے کی تحقیر اور بغض کو طلبہ کے سامنے بھی بیاں کرنے سے باز نہیں آتے جسکا خاصا اثر طلبہ کی زندگی اور انکی تعلیم پر پڑتا ہے اور طلبہ بھی ہر استاذ کو میزان عقل پر تولنے لگتے ہیں جسکے نتیجے میں ایک کو اچھا اور دوسرے کو برا تصور کرتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت ایسی ہی چیزوں میں ضائع کرکے آخری لمحات میں خون کے آنسو بہاتے ہیں

اسیطرح ایک اور چیز جو اکثر مدارس میں پائی جاتی ہے وہ علاقائی تفریق کوئی بنگالی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو کوئی بہاری کو برے القاب سے پکارتا تو کوئی خاندانی نام کا سہارا لیکر اپنے آپ کو افضل بتانے کی کوشش کرتا ہے مگر ایک ہی صف میں محمود اور عیاض کو کھڑا کرنے والا اسلام اور اسکی تعلیمات کا درس رکھتے ہوئے اور یہ بھی جانتے ہوئے کہ اسلام کسی کو علاقے اور خاندان سے افضل نہیں قرار دیتا,کالا اور گورا ہونے سے سربلندی عطا نہیں کرتا بلکہ افضل ہونے کے لیے تقوی کا ہونا ضروری ہے جب اسطرح کی باتیں مدارس میں آتی ہیں تو بہت سے طلبہ ذہن ہونے کے باوجود احساس کمتری کے شکار ہو جاتے ہیں جسکا نتیجہ آگے چل کے برا ثابت ہوتا ہے_

طلبئہ مدارس جب کسی اسکول کے طلبہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اسکول میں انجینئرنگ کررہا ہے بعد میں اتنا کمائیگا اور ہم کو وہی چار پانچ ہزار روپئے ملتے ہیں آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کیسے اتنی قلیل رقم میں کام چلےگا لیکن شاید وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ علوم نبویہ کو سیکھ رہے ہیں جس سے ہماری دنیا تو دنیا آخرت بھی سنور جاتی ہے اور آج تک دنیا شاہد ہےکہ جس نے اس علم کو اپنے رب کی رضا کے لیے پڑھا وہ کبھی ذلیل وخوار نہیں ہوا.

دینی مدارس میں ایسا نظام تعلیم ہو جو اپنے ہدف اور مقصد پر محیط ہونے کے ساتھ طالبعلم میں ایسی صلاحیت و لیاقت پیدا کرے کہ وہ اس تیز رفتار دور میں دنیا کے شانہ بہ شانہ چلنے کا اہل ہو،  کسی مرحلہ میں احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔  بنیادی ضروریات کی تکمیل میں کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو،  اس کے معاشی استحکام کی ضمانت ہو،  ورنہ طالبعلم فراغت کے بعد زندگی کے چوراہے پر اپنے آپکوحیران و پریشان کھڑا پائیگا جس کو منزل کا پتہ نہیں اور راستہ کی پہچان نہیں ۔ دینی مدارس کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ وہ اساتذہ اور اسٹاف کو خاطر خواہ و اطمینان بخش مشاہرہ فراہم کرنے سے قاصر ہیں ،  ان کے پاس ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کہ وہ اپنے فارغین کی معیشت کو مستحکم اور ان کے ضروری و بنیادی اخراجات کی بہ سہولت تکمیل کیلئے موثر اقدامات کرسکیں اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے کماحقہ استفادہ کرسکیں ۔

قارئین کرام!

  احساس کمتری نے سب سے پہلے صلاحیتوں کو کھوکھلا کیا اور صلاحیتوں کی کمی کی وجہہ سے اچھی ملازمت کا حصول ممکن نہیں شخصیت کے ارتقاء کیلئے کوشش کریں ,مثبت سونچ پیدا کریں , والدین اور اساتذہ کا احترام کریں اور منزل کے حصول کیلئے اپنے آپ کو منہمک رکھیں

آج کے مسابقتی دور میں طالب علم کو ہر مرحلہ میں امتحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  ذہانت پر زور دینے کی ضرورت ہے اور ذہین طالب علم کو صحیح رہنمائی کرتے ہوئے مستقبل کو درخشاں بنایا جاتاہے۔   طلبہ کو احساس کمتری کے خول سے باہر نکل کر اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کی راہیں تلاش کرنا چاہئے۔

اور جو طلبہ ابتدا ہی سے محنت کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں انہیں مدرسے کے آخری پڑاو میں بڑی ندامت اور شرمندگی ہوتی ہے مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا پھر انہیں پوری زندگی رونا پڑتا ہے جس دن مدرسے کا آخری سفر مکمل کرنے کے بعد اپنی منزل اور مقصد کی تلاش میں نکلنا ہوتا ہے

اس دن سے احساس ہوتا ہیکہ اب تک ہم نےکیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے۔ اور اپنے علم کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے اور اس وقت سچائی سے دامن بھی نہیں چھڑایا جاتا۔

  لوگ کر دار کی جانب بھی نظر رکھتے ہیں

  صرف دستار سے عزت نہیں ملنے والی

 شفقتیں بانٹنے کے طور بھی سیکھیں ورنہ

  عمر بڑھنے سے فضیلت نہیں ملنے والی۔

میں نے اس راستے کی دشواریوں اس کے نشیب و فراز اور اس کے اتار چڑھاو کے میٹھے درد کا احساس تقریبا 5 برس پہلے بہت قریب سے کیا ہے۔ اور حالات اور وقت کے تھپیڑوں کی کاری ضرب میں نے اپنی روح پر بڑی شدت سے محسوس کیا ہے۔گردشِ زمانہ کی کنکھیوں کو میں نے سوئی کی نوک کے مانند اپنے دل ودماغ پے محسوس کیا ہے۔ لوگوں کی دھتکار اور انکی انا کا سامنا بھی کیا ہے مگر یہ ثابت کیا ہے کہ۔

‘انا کی موج مستی میں ابھی بھی بادشاہ ہیں ہم’

لیکن لوگوں کی یہی تنگ نظری عقلمندوں کو سہارا دے کر چلنا سکھاتی ہے، لوگوں کی کم ظرفی ہنر مندوں کیلیئے ظلمت کدے میں چراغ کے مانند ہوتا ہے۔

اک راستہ ہے زندگی جو تھم گئے تو کچھ نہیں

یہ قدم کسی مقام پے جو جم گئے تو کچھ نہیں ۔

ہم اور آپکو یاد رکھنا چاہیئے کہ گرتے وہی ہیں جو چلتے ہیں ۔ ٹھوکریں انہیں کے پاوں کو چھلنی کرتی ہیں جو دوڑتے ہیں جو پاوں توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں انہیں ٹھوکر کھبی نہیں لگتی۔ قبل اسکے کہ ایسے حالات آپکی زندگی میں شروع ہوں اپنے آپ کو روحانی طور پر تیار رکھیں اور حقائق کو آئینے کی صورت بنا کر اپنے سامنے رکھیں تاکہ جب مشکلات اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ یکسوں ہوکر سمندر کی طغیانی کے مانند آپ پر حاوی ہو کر آپکو گرانا چاہے اور آپ کے علم کو کمتر ثابت کرنا چاہے تو آپ تنگ نظری اور تنگ دامنی کا شکوہ نہ کریں ۔بلکہ اسکا مقابلہ کریں اور یہ ثابت کریں کہ۔

طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف

دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

اس لیئے آپ کو نصیحت نہیں بلکہ التجا کر رہا ہوں کہ جب بھی کسی میدان میں قدم رکھیں قوم و ملت کے مفاد اور اسلام کی سربلندی کو سامنے رکھ کر کام کریں ۔ اللہ ہم سب کو نیک مقصد عطا فرمائے آمین۔

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر

مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر

ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔