طلبہ کا تحفظ آخر کیسے؟

راحت علی صدیقی قاسمی

  بھارت دنیا کا عظیم ترین ملک ہے، اس کا رقبہ اور اس کی آبادی دنیا کے اکثر ممالک سے زیادہ ہے۔ بے شمار کمپنیاں، زراعت، تجارت اس کے معاشی ذرائع ہیں، آزادی کے بعد سے اب تک ملک نے ہر شعبے میں قابل ذکر ترقی کی ہے، شعبۂ تعلیم بھی اسی میں سے ایک ہے، آزادی کے وقت ہندوستان کی تعلیمی شرح 18 فی صد تھی، جو 2011 تک بڑھ کر 75 فی صد ہوگئی ہے، یہ ترقی بظاہر معیاری نظر آتی ہے، لیکن دنیا کے دیگر ممالک کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہماری نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ چند نام ذکر کردوں تاکہ اس احساس سے آپ بھی دو چار ہوجائیں، امریکہ کی تعلیمی شرح 99 فی صد ہے، آسٹریلیا کی تعلیمی شرح 96 فی صد ہے، آسٹریا کی تعلیمی شرح 98 فی صد ہے، کناڈا کی تعلیمی شرح 99 فی صد ہے۔ آپ کے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہورہا ہوگا، یہ تمام ملک چھوٹے ہیں، ان کا رقبہ اور آبادی انتہائی کم ہے، وہاں انتظام و انصرام کرنا دشوار نہیں ہے، تو آپ کے اس سوال کو تشنۂ جواب کیوں چھوڑا جائے، ہمارے ملک سے زیادہ آبادی رکھنے والے ملک چین کی تعلیمی شرح 95.1 فی صد ہے، ہمارے ملک میں 2001 سے 2011 تک پچھلے دس سالوں میں تعلیمی شرح صرف 9 فی صد بڑھی ہے اور آج بھی اس ملک میں دنیا کی سب زیادہ غیر تعلیم یافتہ آبادی قیام پذیر ہے، دنیا کی غیر تعلیم یافتہ آبادی کا 37 فی صد حصہ سرزمین ہند پر آباد ہے اور لڑکیوں کی جہالت بھی نمایاں ہے، لڑکیوں کی تعلیمی شرح. 65 فی صد ہے جو ہائی اسکول کے بعد انتہائی کم ہو جاتی ہے ، حالانکہ جہالت کے نقصانات ڈھکے چھپے نہیں ہیں، علم کا وقار ہر شخص کے ذہن میں عیاں ہے، پھر بھی متحدہ ممالک کی ایک رپورٹ پیش کردی جائے تاکہ مادیت کے پجاریوں کو علم کی وقعت و اہمیت کا اندازہ ہوجائے، متحدہ ممالک کی ایک رپورٹ کے مطابق جہالت کی وجہ سے دنیا بھر کی سرکاروں کو 129 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، جس کا 37 فی صد حصہ ہندوستان جھیل رہا ہے، جہاں غربت و افلاس کی آگ میں ہزاروں لوگ جل رہے ہیں، وہاں یہ دوہرا نقصان انتہائی تکلیف دہ ہے ۔

  اس صورت حال کو دیکھئے اور غور کیجئے، دنیا کا ایک ضابطہ ہے جو چیز قلیل ہوتی ہے، اس کی وقعت و اہمیت ہوتی ہے، اس سے وابستہ افراد کو پلکوں پر بٹھایا جاتا ہے، ان کی قدردانی ہوتی ہے، عہدہ و منصب سپرد کئے جاتے ہیں تاکہ یہ عزت و توقیر دیکھ کر آنے والی نسلیں اس راہ کو اپنے لئے منتخب کریں اور قلت کثرت میں تبدیل ہوجائے، ہمارے ملک کی تعلیمی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی طلبہ اور علماء کے ساتھ یہی طرزِ عمل ہوگا، ان کی عزت و توقیر کی جاتی ہوگی، ان پر دولت لٹائی جاتی ہوگی، ان کا مقام بلند ہوگا، اسکالرز کو مختلف طریقوں سے نوازا جاتا ہوگا، طالبات پر خصوصی رعایت کی جاتی ہوگی، کچھ چیزوں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے یہ سب ایک حد تک ہورہا ہے، مثلا اسکالرز کے لئے فیلوشپ اور چند رعایتیں ہیں، لیکن در حقیقت صورت حال کچھ اور ہی ہے، اسی فیلوشپ کے لئے اسکالرز کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور بہت سے مسائل کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ موجودہ صورت حال میں طلبہ کی جان کا تحفظ، ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ایک بڑا مسئلہ ہے، جس نے ہمارے ذہنوں میں سوالات پیدا کردئے ہیں اور خاص طور پر اقلیتوں سے وابستہ طلبہ اور دلت طبقات سے متعلق طلبہ کے ساتھ ملک بھر میں جو طرز رائج ہے، وہ ہندوستان کے تعلیمی مستقبل پر سوالیہ نشان لگاتا ہے، ملک میں دلت اور مسلمانوں کی تعلیمی شرح پہلے سے ہی بہت کم ہے، اب وہ ترقی کررہے ہیں، حصول تعلیم میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہے ہیں ، انہیں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اگر ہم ان کی راہ میں دیوار حائل کریں گے تو کیا یہ ملک کے لئے نقصان دہ نہیں ہوگا،چونکہ ہندوستان کی کثیر آبادی دلت اور مسلمان ہے، اگر یہ تعلیم سے دور رہتے ہیں تو ہندوستان کا ترقی کرنا ممکن نہیں ہے۔

واقعات اس بات کی شہادت دے رہے ہیں، کس طرح سے مسلم طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، انہیں نفرت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جملے کسے جاتے ہیں، گذشتہ جمعہ کو ہریانہ کے مہندر گڑھ میں ایک کشمیری طالب علم جمعہ کی نماز پڑھ کر لوٹ رہا تھا، اس کے ساتھ مارپیٹ کی گئی، اس نے کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو ٹوئیٹ کرکے اس واقعہ کی خبر دی اس کے بعد رپورٹ درج کرلی گئی، اس کے علاوہ حد درجہ تکلیف دہ واقعہ اور ہمارے ملک کی تہذیب و ثقافت کو مسمار کرنے والا حادثہ پیش آیا، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے دو غیر ملکی طلباء کی اس وقت پٹائی کردی گئی جب وہ بازار میں خریداری کررہے تھے، معمولی سی بات پر انہیں زدو کوب کیا گیا، اس سے ملک کی شبیہ پر حرف آتا ہے اور ہمارے طلبہ جو دوسرے ممالک میں مقیم ہیں، ان کے لئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے اور یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے دروازہ پر بم پھوڑا گیا تھا، دارالعلوم دیوبند کے طلبہ کی ٹرینوں میں پٹائی کرنا، انہیں گالیاں دینا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ، جو اقلیتوں سے متعلق  طلبہ کی راہ میں دیوار حائل کرنے کے مثل ہے، حالانکہ مدارس ہندوستان کی ترقی اور تعلیمی شرح کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیںاور یہ شدت اس وقت تکلیف دہ ہوتی ہے، جب یونیورسٹیز میں کسی طالب علم کو محض ذات برادری مذہب و مسلک کی بنیاد پرستایا جاتا ہے، اذیت دی جاتی ہے، تو یقینی طور پر طلبہ کے حوصلہ پست ہوتے ہیں اور یونیورسٹیز کی طرف ان کا اقدام سرد ہوتا ہے، وہ ڈرتے ہیں اور تعلیمی سفر منقطع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، عدم تحفظ کا ہمیشہ ان کے ذہن میں گھر کئے رہتا ہے اور اس طرز کے بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں، پھبتیاں کسنے کے واقعات کا شمار کرنا تو ممکن ہی نہیں ہے، اس کے علاوہ دو چند واقعات ایسے ہیں جنہوں نے طلبہ اور ان کے اہل خانہ کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

دہلی کا مشہور ادارہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جس کی پہچان ہی یہی تھی کہ وہاں مذہب کی بناء پر امتیاز نہیں کیا جاتا سب کو ایک سمجھا جاتا ہے، وہاں سے ایک طالب علم نجیب غائب ہوا ہے، اس کا کوئی علم نہیں ہے، خفیہ محکمہ ناکام ہے، مشہور دہلی پولیس ناکام ہے، ایک بھی گرفتاری نہیں ہے، کوئی ثبوت پولیس تلاش نہیں کر پائی ہے تو طلبہ کے تحفظ کا مسئلہ کیوں نہ اٹھایا جائے، روہت وومیلا کا درد بھرا خط آج تک اس کے قتل کی کہانی بیان کرتا ہے، کون ہے جس کو اس جرم کی پاداش میں سزا دی گئی؟ کس کو سولی پر لٹکایا گیا؟ پھر کیوں طلبہ خوف محسوس نہ کریں، اسی طرح لڑکیوں کے ساتھ جو معاملات پیش آتے ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں، ان کا استحصال کیا جاتا ہے، عزت سے کھیلا جاتا ہے، فیل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، دہلی یونیورسٹی کے کالج میں پیش آنے والا واقعہ اس کی مثال ہے، اور بھی بہت سے واقعات ہیں جو خدشات کو وجود بخشتے ہیں، آخر کب تک طلبہ کے ساتھ اس طرح کے معاملے پیش آتے رہیں گے؟ پولیس گناہ گاروں کو پکڑنے میں کیوں ناکام ہے؟نجیب کہاں ہے انتظامیہ کو کیوں نہیں معلوم؟ اس کے گناہ گار کہاں ہیں؟ کیا پوری دہلی میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں جس سے نجیب کا کوئی سراغ لگتا؟ کیا لکھنو کی اس مارکیٹ میں کوئی موجود نہیں تھا جہاں طلبہ کو پیٹا گیا، کیا مجرموں کو تلاش کرنا ممکن نہیں ہے؟?کیا وہاں کیمرے نہیں تھے؟طلبہ کے ساتھ یہ معاملہ آخر کیوں، کیا ہندوستان کے تعلیمی معیار کی کوئی فکر نہیں ہے؟?کیا اس بڑھتی صورت حال پر قابو پانا ممکن نہیں ہے؟

جب ریگنگ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، تو اس صورت حال پر شکنجہ کیوں نہیں کسا جاسکتا ہے، طلبہ کی حفاظت کے لئے سخت ترین اقدامات کرنے ہوں گے اور ان پر ظلم کرنے والوں اور پھبتیاں کسنے والوں کو سخت سزا دینی ہوگی اور اہل مدارس کو بھی اس بات کا لحاظ رکھنا ہوگا کہ وہ کسی بھی معاملہ میں یہ کہہ کر پلہ نہ جھاڑیں کہ یہ ہمارا طالب علم نہیں ہے، بلکہ قانونی چارہ جوئی کریں طلبہ کا تعاون کریں حقائق کا سراغ لگائیں اور طلبہ پر آنے والی مشکلات کا ازالہ کریں، حکومت ہند بھی اس جانب سنجیدہ اقدامات کرے، ورنہ تعلیمی شرح کم ہوگی، حکومت ہند کو بھاری نقصان ہوگا، جہالت اپنا سایہ دراز کرنے لگے گی، ملک پر جہالت کے سیاہ دبیز پردے تن جائیں گے، متوجہ ہوجائیے ملک کو بچائیے جہل کی تاریکی کو ختم کیجئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔