ظالم ہوائے شہر ہے، عزت بھی لے نہ جائے

شیخ فاطمہ بشیر

کھٹوعہ، اناؤ، سورت، منی پور، دہلی، آسام، اندور، چھتیس گڑھ اور ملک کے کئی شہر  میں ہوتی وارداتیں، ہر سمت بکھرا خون، اُکھڑتی سانسیں، تار تار ہوتی عزتیں، عفتوں کی پامالی، لٹتی عصمتیں، پاکدامنی سے کھیلتے، دامن کو داغدار کرتے وہ بھیانک چہرے، بھیڑیوں کی طرح گھورتی آنکھیں اور بہنوں کی چادریں نوچتے گیدڑ نما انسان۔ یہ ہے اُس ملک کا حال جسے چار سال قبل "ڈیجیٹل انڈیا” بنانے کا خواب محترم وزیراعظم شری نریندر مودی جی نے ہمیں دکھایا تھا۔ وہ ملک جہاں ننھی جانوں سے معصومیت چھین لی گئی۔ اُن معصوم پھولوں سے جنھوں نے حال ہی میں جوانی میں قدم رکھنا تھا، جنہیں اور مہکنا تھا، گلشن میں ہر سو خوشبو بکھیرنا تھی، ماں باپ کا نام روشن کرنا تھا، جن سے کئی امیدیں وابستہ تھیں۔ جن کی آنکھوں میں مستقبل کے جگمگاتے خواب تھے، ایک نیا جوش اور ولولہ تھا، منزل کو پانے کی جستجو اور لگن تھی، لیکن ۔۔۔ اُن کا بچپن لوٹ لیا گیا، عزتیں پامال کردی گئی۔ اُنہیں وحشیت اور درندگی کا شکار بنالیا گیا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اُن سے جانیں چھین کر انہیں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ دہلی کی نربھیا ہو یا کھٹوعہ کی ۸ سالہ آصفہ، یا منی پور، سورت، آسام کی ۱۱ سالہ دوشیزائیں، یا چھتیس گڑھ، اناؤ کی بالترتیب 10 اور 17 سال کی جانیں ہوں، صرف نام اور عمریں بدلتی ہیں يا علاقے اور شہر تبدیل ہوتے ہیں۔ مگر ہوس کے مارے اور جنس پرستی میں ڈوبے وحشی نما درندوں کی درندگی اور حیوانیت کبھی نہیں بدلتی۔

ملکِ عزیز نے جہاں ایک طرف وطن کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کے خاطر حفاظت کا قانون بنایا ہے وہیں دوسری طرف اُس قانون کی رکھوالی کا نعرہ لگانے والے دن کی روشنی میں دہشت گردی اور رات کی سیاہ تاریکیوں میں عصمتیں لوٹنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ عورت ذات اس شیطنیت کے مکروہ فعل اور ہوس پرستوں کی نگاہوں سے نہ گھروں میں محفوظ ہیں نہ ہی اسکولوں، کالجوں، راستوں، سواریوں اور بازاروں میں۔ ہر کونے میں خونخوار بھیڑیئے اُنہیں گندی نگاہوں سے تکتے کھڑے ہیں۔ مردہ ضمیر، بےحس دل، ماؤف دماغ، انسانیت کا گلہ گھونٹتے اور حیوانیت کے ننگے ناچ دکھاتے مظالم۔ غرض یہ کہ ظلم و بربریت کا یہ کھیل دن بدن ترقّی کے منازل طے کرتا چلا جارہا ہے۔

لیکن ۔۔۔ کیا وہ بےحس دل اس درندگی پر کانپتے نہیں؟ یا اُن کی آنکھیں خوف سے پتھرا نہیں جاتی؟ یا ضمیر ڈوبتا ہوا محسوس نہیں ہوتا یہ سوچ کر کہ جب اُن کی گودوں میں بیٹیاں پروان چڑھیں گی۔ لیکن دنیا دارالمکافات ہے، اور اپنے کیے کا بدلہ ملنا یقینی ہے۔ آج نہیں تو کل پچھتاوا ضرور ہے۔ جب روزِ قیامت اُن کے چہرے غبار آلود ہوں گے، ہوائیاں اُڑ رہی ہوں گی، سیاہی چھائیں ہوں گی، اور اُن کے ذریعے دیے گئے ایک ایک درد کا حساب بڑی باریک بینی سے لیا جائیں گا اور یہی لوگ بدکردار کافر ہیں۔

آئیے ملک کے حالات پر نظر دوڑاتے ہیں اور اعداد و شمار کا سرسری مطالعہ کرتے ہیں۔ فرسٹ پوسٹ کی 19 جنوری 2018 کی خبر کے مطابق، ‘ہریانہ میں تقریباً جنسی تشدّد کے 8 واقعات ہوئے اور صرف 24 گھنٹے میں زنا کے 3 حادثات پیش آئے۔’ 6 مئی 2018 کی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، ‘ملک کے دارلحکومت دہلی شہر میں رواں سال کے اوائل ساڑھے تین مہینوں میں روزانہ تقریباً 5 زنا کے واقعات رونما ہوئے۔ 15 اپریل 2018 تک کل 578 وارداتیں ہوئیں جبکہ اپریل 2017 میں یہ تعداد 563 تھیں۔’ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق 2016 میں خواتین کے خلاف ریکارڈ ہوئے جرائم کی کل تعداد 13803 ہیں۔ سزا کی بات کی جائے تو 2012 کے نربهیا حادثے کے بعد حکومتِ ہند نے زنا کے مجرمین کے لئے سخت سزا (7-10 سال کی عمر قید) کا اعلان کیا تھا۔ لیکن حالیہ شماریات بدترین حالت کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ 19 اپریل 2018 کے ہندوستان ٹائمز شمارے کے مطابق 2012 سے موجودہ وقت تک مجرموں کو گرفتار کرنے کا تناسب صرف ٪25 تک ہی محدود ہیں۔ اُسی اخبار کے مطابق 2016 کے اختتام تک زیرِالتواء مقدمات کی کل تعداد 133000 تھیں جبکہ 2012 میں یہ تعداد 100000 تھیں۔ 21 اپریل 2018 کے انڈیا ٹائمز میں بچوں کے حقوق کی تنظیم CRY ( Child Right & You) کی رپورٹ کچھ یوں ہیں کہ ہندوستان میں ہر 15 منٹ میں ایک بچی کی عزت لوٹی جاتی ہے اور یہ تعداد پچھلے 10 سالوں میں 500 گنا بڑھ گئی ہیں۔

حالیہ کھٹوعہ سانحے کے بعد ملک کی عوام کے زبردست احتجاج و مظاہرے اور سزا کے مطالبات کے بعد 21 اپریل 2018 کو گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعے زنا کے مرتکبین کی سزاؤں میں ردّ و بدل کیا گیا۔

1۔ 12 سال سے کم عمر لڑکی کو ظلم کا نشانہ بنانے کے جرم میں عمر قید یا سزائے موت

2۔ 12 سال سے کم عمر لڑکی کی اجتماعی آبرویزی کے جرم میں سزائے موت

3۔ 12 سے 16 سالہ لڑکی کی عزت لوٹنے پر سزا 10 سے 20 سال قید کی کردی گئی۔

4۔ 12 سے 16 سالہ لڑکی کی اجتماعی آبرویزی کے جرم میں عمر قید

5۔ 16 سال سے زائد عمر کی خاتون کو زبردستی نشانہ بنانے کے جرم میں سزا 7 سے 10 سال قید کی کردی گئی۔

اسکے علاوہ کابینہ نے یہ بات لازمی قرار دی ہے کہ زنا کے حادثات کی تحقیقات 2 مہینے میں مکمل ہو اور 2 مہینے میں مقدمات کی سنوائی پوری ہوجائے۔

زنا کے بڑھتے تناسب اور ملک کے حالات کے پیشِ نظر کوہل دیو شرما (پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کے وکیل) کہتے ہیں کہ، "مجرمانہ انصاف کا نظام زنا کے معاملے میں انصاف دینے میں ہمیشہ ناکام ثابت ہوتا ہے۔” دشیانت داوا (سینئیر سپریم کورٹ وکیل) کے مطابق، "حکومت سو قانون بناسکتی ہیں لیکن ہمیشہ فیل ہوتی ہے کیونکہ اُن کا نفاذ عمل میں نہیں لایا جاتا۔”

فائنانشیل ایکسپریس (FE Online) فروری 26، 2018 کی خبر میں بتاتا ہے کہ گلوبل پیس انڈیکس (Global Peace Index) نے 2017 کی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ بھارت مسافر خواتین کے لیے چوتھا سب سے خطرناک ملک بن جائے گا۔ لیکن افسوس کہ آج ہم یہ ہندسہ بھی کراس کربیٹھے۔ حال ہی میں 26 جون کو تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن (Thomson Reuters Foundation) نے اعلان کردیا کہ بھارت خواتین کے لئے سب سے زیادہ غیرمحفوظ اور جنسی تشدّد کے معاملے میں تمام زینے پھلانگتے ہوئے اوّل مقام پر پہنچ گیا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جو ملک ترقی، فلاح و بہبود، ایجادات اور زندگی کے شعبوں میں کوئی کارہائے نمایاں انجام نہ دے سکا وہ آج اس مقابلے میں بازی مار گیا۔ یہ ہماری بےبسی ہے یا بےحسی کہ آزادی کے 71 سال گزرجانے کے بعد بھی حکمراں اور ذمےداران ملک کی بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اگر آج سے، لوگوں کے مطالبات کی خاطر ہی سہی، منصفیانہ طور پر قانون کا نفاذ ہو، سزائیں لاگو ہوجائیں تو عزتوں سے کھیلے جانے والے اس کھیل میں کسی قدر کمی واقع ہوں گی۔ بصورتِ دیگر امن و سلامتی کا مذہب، "دینِ فطرت” نے جو سزائیں عائد کی ہیں وہ نافذ کی جائے۔ شادی شدہ زنا کے مجرمین (زنابالجبر ہو یا مرضی شاملِ حال ہو)، سر اٹھائے گھومنے کے بجائے سرِ عام، لوگوں کے سامنے سنگسار (رجم) کردیئے جائیں۔ غیر شادی شدہ زنا کے مرتکبین کو مجمع میں 100 کوڑے لگائے جائے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پھر اسے معاشرے کی تشکیل ہوگی جہاں کوئی انسان نما بھیڑیا کبھی زیادتی کی ہمت نہ کرسکیں گا۔ ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کا وقار، عزت، مرتبہ و مقام بلند ہوگا۔ معصوم جانوں کا بچپن محفوظ ہوگا اور کوئی وحشی درندہ سماج میں پنپنے کی جرات نہ کرسکیں گا۔

ایک اور نقطہ قابلِ غور ہے کہ اِس بڑھتی درندگی کی دوسری اہم وجہ کہیں شادیوں میں کی جانے والی تاخیر تو نہیں؟ رحمۃ للعالمین، رہبرِ انسانیت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، "زنا کو مشکل اور نکاح کو آسان کرو۔” جب اس تاکید پر عمل درآمد نہ ہو اور نکاح سادگی کے بجائے مشکل کردیئے جائیں، معمولی وجوہات کی بنا پر لڑکیاں گھروں میں بیٹھی رہ جائے، خوابوں کا شہزادہ تلاش کرنے میں زندگی کی کئی بہاریں گزار دی جائے، خوبصورتی، دولت، خاندان، قوم، رنگ، نسل، علاقے، زبان اور استخارے کے نام پر رشتہ جوڑنے سے انکار کردیا جائے یا کئی کئی سالوں تک منگنی کے بعد شادیوں میں تاخیر کی جائے تو آبرویزی کے واقعات میں ہرگز کمی واقع نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ ارشادِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) برحق ہے اور اس سے اجتناب میں سماج و معاشرے، فرد و قوم اور ملک و ملت کا خسارا متعین ہے۔

مختصراً یہ کہ ہر دن طلوع ہوتے سورج کے ساتھ تشدّد، عصمت دری اور آبرویزی کے دل دہلادینے اور روح کو جھنجھوڑ دینے والے واقعات ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا، ساکھ کو برباد اور ملک کی شبیہہ کو روز بروز بگاڑتے چلے جارہے ہیں۔ انسانیت دَم توڑ چکی ہیں اور یہ کہنا کافی ہے:

سبھی کچھ ہورہاہے اس ترقی کے زمانے میں

مگر یہ کیا غضب ہے آدمی انساں نہیں ہوتا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    بالکل متفق ـ فرد ہی کی تربیت سے خاندان اور کمیونٹی اور سماج بہتر یا بدتر بنتا ہے اور اسی کی درستی سے اجتماعی ادارے درست ہونگے ـ فرد کی درست تربیت فقط تعلیم سے ممکن نہیں یہ ایمان و اَخلاق کو موت اور مابعد الموت آخرت کی لازمی جوابدہی کے شعوری احساس سے زندہ کرنے سے ممکن ہے ـ کوشش لازم ہے کہ پنڈت مُلّا سادھو جوگی صوفی کاہن سے بچ بچا کر فرد میں علم و عمل کی جاندار سیرت اجاگر کی جائے جو گوشوں کونوں کی بجائے زندگی کے وسط میں برپا معاش و معاشرت میں رونما ہو اور متذکرہ بالا مسئلہ بھی معاشرت کی خرابی کا شاخسانہ ہے جس کا بہت کچھ ناتا معاشی خرابی یا حرام خوری سے بھی ہے جو دوسروں کا مال باطل اطراز سے کھانے کے بھانت بھانت طریقوں پر مبنی ہے ـ کاش ہمیں آخرت کی لازمی جوابدہی و مسئولیت کا ایسا شدید احساس ہو جائے جو موت سے پہلے پہلے ہمیں سدھار کر رکھ دے ـ

تبصرے بند ہیں۔