ظل کعبہ کا پیر مرگ

محمدصابر حسین ندوی

وہ کعبہ جس کی مرکزیت و محبوبیت کا کوئی ثانی نہیں، جسے ہمہ محبوبی و ہمہ دلکشی اور بیت اول کا خطاب حاصل ہے، جہاں سے امن و امان کے سوتے پھوٹتے ہیں، دنیا کی تاریکی و ظلمت میں اسی کے دم سے اجالا اور اسی کے دم سے نجات ہے، اس کی بقا ہی انسانیت کی بقا اور اس کی حفاظت ہی انسانیت کی حفاظت ہے۔ آج اس کے در ودیوار پر پیر مرگ اور ذلت ملت کا قبضہ ہے، اس کے امام و خطیب کو شاہوں کی گدا گری بھا رہی ہے، ریال و سکوں کی کھنک پر سجدہ کرنے اور ’’لا الہ الا ٹرمپ‘‘ کی صدا لگانے کے در پے ہیں، اس کے تقدس و پاکی کو تار تار کیا جارہا ہے، حرم مکرم کی محرم چادر کو روندا جارہا ہے،رحمت خداوندی کی آماجگاہ کو معدہ و مادہ کی آماجگاہ بنایا جارہا ہے، مظر جلال وجمال کو لباس لاہوتی سے زیب تن کیا جارہا ہے،عین اس کے سایہ تلے اہانت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا گناہ خریدا جارہا ہے،ناموس صحابہ کا مزاق بنایا جارہا ہے، وقت کے ظالم و جابر اور اسلام دوستی کے نام پر اسلام دشمنی کا کردار ادا کرنے والا شیخ مکروہ بن مکروہ ( محمد بن سلمان) کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اوصاف حمیدہ ’’ محدث و ملھم ‘‘سے پکارا جارہا ہے، امریکہ کو امن پسند قائد و ملک قرار دے کر حرم کی رسوائی مول لی جارہی ہے، اس کے زیر اہتمام اسرائیلی فوجی اڈے اور حجاج کرام کی خدمات کا فریضہ انجام دے کر دین و اسلام کی خدمت کا سہرا لوٹا جارہا ہے، اوردین کے محافظ بن کر قزاقوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔

یہی ہیں وہ شیخ حرم جو چرا کر نہیں علی الاعلان اور ڈنکے کی چوٹ پر ناموس رسالت کو، عزت صحابہ کو اور علویت اسلام کے تصور کو بیچ رہے ہیں، اس کا پرزہ پرزہ کاٹ کر الگ کیا جارہا ہے، اس کا تعلق انسانی زندگی سے کاٹا جارہا ہے، اسے راہ و رسم کا دین بنا کر ’’پدرم سلطان بود‘‘ (ابن سلمان)کی سرکردگی کا ساتھ بلکہ دوش بدوش وہ فرد چل رہا ہے، جس کی آواز و سخن اور تلاوت و اذکار کا شہرہ چہار دانگ عالم میں گونجتا تھا، جس کے نام پر نظریںمار محبت میںنیچی ہوجایا کرتی تھیں، دل رافت و گداز سے سرشار ہوجاتا تھا، وہی شیخ حرم جسے سدیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے؛لیکن اب نوبت یہ آن پڑی ہے کہ اس نام سے عفونت آتی ہے، مشام جان گدلا ہوتا ہے، روح مکدر ہوتی ہے، جس نے دربار و شاہ کی جوتیوں کے صدقے اسلامی حمیت و غیرت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خصوصیت کو پامال کردیا ہو اسے مجموعہ مکروہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ وہ امریکہ جس کے ہاتھوں افغانستان، عراق، لیبیا، مصر اور خلیجی ممالک کا اکثر حصہ تباہ و برباد ہوا، جس نے مسلمانوں کے پیروں سے زمین کھینچ لی ہو اور دنیا کی تمام وسعتوں کے باوجود اسے ازحد تنگ کردیا ہو؛ اگر اس سے بھی واشنگٹن میں جاکر محبت و عقیدت کا اظہار کر کے آئے اور یہ بیان دے: کہ امریکہ امن پسند ملک ہے تو اسے کس لقب سے موسوم کیا جائے گا؟ صحیح بات تو یہ ہے کہ  ادب کی ڈکشنری تنگ پڑتی معلوم ہوتی ہے۔

اب اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منبع رشد و ہدایت اور مرکز اسلام پر اسلام مخالف نے روحانی شگاف ڈال دیا ہے، اسے انہیں کے حوالے کردیا گیا ہے، جن سے کبھی اسے خالی کروایا گیا تھا، اب اس امت کیلئے کیا رہ گیا؟ اب کونسی چیز ہے جو اسے اپنے گھروں میں بیٹھنے اور معمول کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہے؟ شاید اس کے سوا کچھ نہیں کہ بے حسی اور بے مروتی سے یاری کر لی گئی ہے، اسلامی شعائر اور اسلامی غیرت کو سینے سے کھرچ کر پھینک دیا گیا ہے، آبادی کی آبادی اور آوا کا آوا اسی راہ پر گامزن ہے، عرب و عجم اور شمال و جنوب غرض ہر ایک خطےکے باشندوں نے زبانیں کاٹ لی ہیں، لبوں پر تالے لگا لئے ہیں، دل ودماغ میں شب وروز کی بندشوں کی زنجیر ڈال لی ہے، ان سے ایمانی حرارت اور جوش و خروش رخصت ہو گئے ہیں، دل میں پڑی انگیٹھی بھی سرد ہوچکی ہے، قرآن و سنت اور دینی باتوں نے دل کا پتہ کھودیا ہے، قرآن کو نیزوں اور بندوقوں کی گولیوں سے بھونا جارہا ہے، صلیبی جنگ کا دوسرا ایڈیشن اپنا کام پورے آب وتاب کے ساتھ انجام دے رہا ہے؛ لیکن کوئی صلاح الدین ایوبی کیا اس کا گرد بھی مد مقابل کو نہیں آتا،کسی فرد مومن میں جنبش تک نہیں ہوتی ؛بلکہ طرفہ یہ ہے کہ انہیں کے قصیدہ پڑھے جارہے ہیں،انہیں کی گود کو طمانینت و آرام گاہ بنالیا گیا ہے،انہیں اپنا ملجا وماوی گردانتے ہوئے؛انہیں کی جانب لوٹ رہے ہیں’’ألا فانکم الی اللہ ترجعون‘‘۔

اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے سفید پوش بھی اسی فرعونی گہوارے میں پناہ لئے ہوئے ہیں، وہ خاص گروہ اسلام کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے، اپنے اعلی حسب و نسب کا غرہ پالے بیٹھا ہے؛ لیکن ریال خوری اور ڈالر پرستی نے قعر مذلت کو سر سبز وادی بنا دیا ہے، اسلامی دنیا کی لٹتی پٹتی کیفیت بھی انہیں جھنجھوڑتی نہیں، ان کے دل میں امریکہ کی دست درازی، سیسی کا ظلم، اور محمد بن سلمان کی امریکہ نوازی سے کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی، وہ اب بھی ان کی دعوت ناموں کو رقعہ قبولیت بارگاہ الہی سمجھتے ہیں، اسے چومتے اور چاٹتے ہیں، بلکہ ان کی ہر نظر و اشارہ کو زندگی کی معراج مانتے ہیں، ان کےصحراء کی گرد ان کی آنکھوں کا سرمہ اور سکون جان ہے، یا خدایا ! یہ کیا ہوگیا ہے؟ یہ کونسے ریال پرورمولوی و ملا پیدا ہوگئے، جنہوں نے دین کو’’ بثمن قلیلا ‘‘میں سودا کر ڈالا، وہ رسالت و نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا جن کے آگے قیصر وکسری کے تاج بھی پیش کئے جاتے تو انہیں ہاتھوں سے نہیں پیروں سے لات مار کر حقارت کردیتے تھے، آج کیونکر ان کے دلوں میں ریال کی محبت نے حب سوداء کا مقام پالیا ہے۔

تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام 

 امید لطف پہ ایوان کج کلاہ میں ہیں 

معززین عدالت بھی حلف اٹھانے کو 

 مثال سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں 

تم اہل حرف کہ پندار کے ثناگر تھے 

 وہ آسمان ہنر کے نجوم سامنے ہیں 

بس اک مصاحب دربار کے اشارے پر 

 گداگران سخن کے ہجوم سامنے ہی

یہ وقت ہے کہ اپنی براءت کا اظہار کردیا جائے، صحابی رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خصوصیات کو خونی درندے اور فحش و عیاشی کا ٹھیکیدار، اسرائیل نواز اور امریکی دایہ کے سینہ کا دودھ پیا ہوا، یہودی گود کا پروردہ، صلیبی آغوش کا پروان یافتہ، ملحدین کی نظروں کا تارہ اور معاندین اسلام کا پٹھو محمد بن سلمان سے جوڑے جانے پر ہم بری ہیں، جس نے حرم کو رسوا کر دیا، خاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے عزتی کرنے میں کوئی کور کسر نہ چھوڑی، غور کیجئے! جس نے کعبہ مکرمہ کو اسلامی قلعہ بنانے کے بجائے اسرائیلی گود میں تحفتا ڈال دیا ہو، جس نے امریکہ کو اربوں ریال دے کر ظلم و تشدد کی اینت پر اپنی عمارت قائم کی ہو، جس نے اپنے ہی اعزہ و اقارب کا قتل کروا کر یا انہیں جلا وطن کرا کے ان سے حق حیات چھین لیا ہو، جس کے ہاتھ خاشقنجی جیسے نیک صحافی کے خون رنگے ہوئے ہوں؛ اس کے ساتھ جلیل القدر صحابی کی صفات کا الحاق کیسے ممکن ہے؟ ایسے میں اس سے براءت کا اظہار کرنا ایمانی فریضہ ہو چکا یے، اگر اسلامی حکومت ہوتی اور اسلامی علم لہرا رہا ہوتا؛ تو یقینا شیخ سدیس کو اس کے جاہلانہ بلکہ شاہ پرستی میں ایسی بیان بازی کرنے اور عین حرم کے سایہ میں کھڑے ہو کر اسے رسوا کرنے کے سلسلے میں سزا دی جاتی، اسے پس زنداں کر دیا جاتا اور توبہ و استغفار کروایا جاتا۔

 ہائے افسوس ہمارے ہاتھ و پیر کی بے بسی و بے کسی پر ! ہا ئے افسوس ہمارے ایمانی بے حسی اور بے مروتی پر! جس نے اپنے سامنے ایسا ناموس صحابہ کرام رضی اللہ اجمعین پر حملہ کرنے والے اور ” محدث و ملھم” کی صفت کو ایک نالائق و ناہنجار شاہ پر چسپاں کرنے والے کو پایا؛ لیکن اعضاء میں کوئی حرکت نہیں، یہ سرد مہری کہ اف بھی نہ نکلے، یہ بے اعتنائی کہ کوئی حرف بھی نہ ادا کیا جائے، جس امت کی خاصیت امر بالمعروف اور نھی عن المنکر بتائی گئی تھی، جس کا تعارف ہی اسی عہدے سے کروا یا گیا تھا، اس کا ایک فرد اتنا کمزور و نحیف ہے؛ کہ وہ اپنے دست و بازو سمیٹے بیٹھا یے، ادھر ڈالر پرستوں کی فوج نے قبلہ و کعبہ کی روحانیت کو نیست ونابود کرنے اور اس کی مرکزیت و اہمیت کو ملیامیٹ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے، سازشوں اور مکر و فریب کا جال بچھا ہوا ہے، ہر طرف ڈائنامائک اور ذرات بچھا دئے گئے ہیں، اور پوری فضا کو کنٹرول کر کے اس میں غیر اسلامی اور غیر دینی رس گھول دیا گیا ہے؛ لیکن کیا مجال کہ رگوں میں پھڑ پھڑاہٹ یا کوئی تحریک پیدا ہو! اور اسلام کے نام پر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی محبت میں جاں نثارکرنے اور سر بکف ہو کر میدان میں کود پڑے! ۔

اے خدا تو گواہ رہنا یہ مرد ناداں، اور حقیقی ایمان سے لاغر شخص، حلاوت ایمانی سے محروم بندہ اپنی بے بسی اور بے بضاعتی اور کم مائیگی سے دوچار ہے؛ لیکن اس کے دل کی آگ اور ایمانی سورش میں ایسے دشمن اسلام کی کوئی جگہ نہیں، حرم کی عزت و ناموس کیلئے یہ سر حاضر ہے، یہ دل و جگر حاضر ہے، یہ جسم کا ایک ایک رواں حاضر ہے؛ لیکن اس کے مخالفین اور معاندین کے حق میں کسی اعتبار سے یا کسی لحظہ کیلئے بھی نرمی و لچک کو گوار نہیں، خدایا تو گواہ رہنا! ہم سات سمندر دور ظل کعبہ کے اس مجرم سے اپنی سبکدوشی کا اعلان کرتے ہیں، جس نے عین حرم کو غیر اسلامی تحریکات کا اڈہ بنا رکھا ہے، اور اسرائیل جیسے سفاک و درندہ صفت قوم کو اپنا ہمنوا بنا رکھا ہے، خدایا تو گواہ ہے! اس دل میں کعبہ کی محبت اور تیری پرستش و عبادت کے سوا کچھ نہیں، چنانچہ یہ دل ان تمام سے جو سفید پوش ہوکر چہرے پر سنت نبوی سجا کر اسلامی زعماء ہونے کا غرہ پال رکھا ہے اور اس ہر ایک اس دل سے براءت کا اعلان کرتا ہے جو حرم مکی کو درندوں کیلئے خالی کر رہا ہے، اس کے منصوبوں میں ہم پلہ، ہم خیال اور ہم نوا بنا ہوا ہے۔اللهم انصر من نصر دين محمد. واخذل من خذل دين محمد صلي الله عليه وسلم۔

وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی 

بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں  وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی 

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے  سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے 

1 تبصرہ
  1. ابو عزمان کہتے ہیں

    اللہ نے موصوف کو گویائی دی ہے تو تھوڑی سی بصیرت بھی دی ہوتی. بینائی دی ہے تو تھوڑا دل بینا بھی عطاکر دیا ہوتا تو موصوف کو اتنی توانائی صرف کرنے اورقلم گھسنے کی ضرورت نہیں پڑتی. اور اس طرح کسی کی کھال ادھیڑنے میں بے تہاشا خون نہیں جلانا پڑتا. اور یوں کوئی چمن ریگستان نظر نہ آتا.

تبصرے بند ہیں۔