کرنا چاہیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں!

مدثر احمد

اسلام میں مسجدوں کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے اور ان مسجدوں کو اللہ کے رسول ﷺ نے نہ صرف عبادت کی جگہ بتائی ہے بلکہ انہیں مسلمانوں کےلئے اصلاح کے مراکز، مسائل کے حل نکالنے کی جگہ، تربیت گاہ اور مسلمانوں سے جڑے ہوئے تمام مسائل کو حل کر نے کا مقام کہاہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کے دور میں اسے جنر ل ہیڈکوارٹر کہا جاتاتھا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے مسلمانوں کی شناخت ہوتی ہے اور اسی شناخت سے مسلمانوں کے کردار اور انکے اخلاق کا مظاہرہ ہوتاہے۔

ہندوستان میں اندازے کے مطابق 3 لاکھ سے زائد مساجد ہیں اور ان مسجدوں میں پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ جمعہ کے خطابات بھی ہوتے ہیں لیکن ان پانچ وقتوں کی نمازوں کے بعد ہماری عالیشان مسجدوں کو تالے لگادئےجاتے ہیں جو کہ لمحہ فکر ہے۔ ایک طرف آج ہندوستانی مسلمان مختلف مسائل کا شکار ہورہے ہیں، تعلیمی، معاشی، صحت اور اقتصادی مسائل سے جوجھ رہے ہیں۔ اخلاقی گراوٹوں کے سبب شریعت مطہر ہ میں مداخلت ہورہی ہے، طلاق، خلع، وراثت کے معاملات کے فیصلے دوسری قوم کے لوگ یا سرکاری عدالتیں کررہی ہیں اور ہم مسلمان مسجدوں کو محدود بناچکے ہیں۔ جہاں تک وقت کی ضرورت ہے ہم اپنی مسجدوں کو نمازوں کے علاوہ دوسری ضرورتوں کے لئے بھی استعمال کرسکتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری محدود سوچ اور ہمارے اصلاف کی کمزوریاں یا انانیت نے مسجدوں کے مناسب استعمال میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ جس دین نے مسلمانوں کو اپنی مساجد کا استعمال صحیح طورپر کرنے کی ہدایت دی ہے اسی دین کے ماننے والے مسجدوں کو نمازوں کے بعد تالے لگانے لگے ہیں جبکہ ہندوئوں کے مندروں اور مٹھوں کا جائزہ لیں تو آج ان مندروں اور مٹھوں کے ذریعے تعلیمی ادارے چلائے جارہے ہیں، بینکنگ سسٹم شروع کیاگیا۔ انکی قوموں کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے وسائل پیدا کرنا شروع کردیاہے۔ انکے نونہالوں کی تربیت کے لئے آشرم بنائے گئے ہیں اور انہیں انکے مذہب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم میں بھی اس قدر تیار کیا جاتاہے کہ وہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔ لیکن ہم اسکے برعکس کام کررہے ہیں۔ ہمارے مسجدوں کی آمدنیاں بینکوں میں محفوظ ہیں۔

ہمارے مسجدوں کے احاطوں میں غیر قانونی قبضے ہیں۔ مسجدوں کی املاک سے ہونے والی آمدنیوں پر مسجدوں کے ہی متولیوں کی بری نظر یں ہیں۔ ہماری املاک پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں، جس طرح سے مسجدوں کے احاطے گندے ہوتے ہیں اسی طرح سے ہماری سوچ بھی گندی ہوتی جارہی ہے، ہم نے اپنی مسجدوں کو اللہ کا گھر نہیں بلکہ صدر و متولی کی املاک بنارکھی ہے۔ ہم چاہیں تو مسجدوں کے حدود میں رہ کر ہمارے نوجوانوں کی تعلیم، تربیت، کردار سازی کے لئے مراکز قائم کرسکتے ہیں۔ ہم چاہیں تو مسجدوں کے احاطوں میں ہمارے مسائل حل کرنے کے لئے کائونسلنگ سینٹرس قائم کرسکتے ہیں، انہیں مسجدوں میں ہمارے نوجوانوں کو تربیت دے کر انہیں آئی اے ایس و آئی پی یس افسران بناسکتے ہیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا جارہاہے۔ غور طلب بات ہے کہ مدراس کی ایک مسجد کے احاطے میں مسجد کو ہونے والی آمدنی کا ایک حصّہ استعمال کرتے ہوئے وہاں یو پی یس سی کی کوچنگ کے لئے مرکز قائم کیاگیا ہے جہاں پر ہر سال کم از کم آدھا درجن نوجوان اس امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں، یہاں پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی ہیں جنہیں یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مسجدوں کی اہمیت کا اندازہ ہورہاہے۔ اسی طرح سے بنگلور کی مسجد بلال کے ماتحت بھی صحت عامہ کے لئے جو انقلابی کام کیاجارہاہے وہ واقعی میں قابل ستائش ہے۔

ممبئی کی ایک مسجد میں بھی بھوکوں اور ضرورتمندوں کے لئے کھانے کاانتظام کیاجارہاہے جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔ اندازہ لگائے کہ کس طرح سے خدا کے بندے خداکے گھروں کا صحیح استعمال کررہے ہیں، ہندوستان کے تین لاکھ سے زائد مسجدوں میں سےشاید تین سو مسجدوں میں ہی ایسے فلاحی کام کئے جارہے ہیں۔ اگر اس طرح کاکام ہندوستان کے ایک لاکھ مسجدوں میں بھی شروع کردیا جائے تو نہ صرف امت مسلمہ کے لئے سہولت کا سبب بنیں گے بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی ان مسجدوں کی اہمیت اور خدمت کا سبق ملے گا۔ ان سب کے علاوہ ہماری مسجدوں کے ماتحت اگر ہم بیت المال کے نظام کو قائم کیا جائے تو اس سے جو کام کیاجاسکتاہے وہ کسی اور طریقے سے ممکن نہیں ہے۔

 اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ کس طرح سے آج امت کی خواتین اپنی مالی ضروریات کے لئے سود پر لین دین کررہی ہیں، بعض مقامات پر مٹھوں کے ذریعے سے چلائی جانے والی مائیکرو فائنانس کمپنیوں سے نہ صرف مسلم عورتوں کو سود پر قرضے دئے جارہے ہیں بلکہ وہاں پر انہیں ایسی سرگرمیوں میں ملوث کیاجارہاہے جس سے خواتین مرتد بھی ہوتے جارہے ہیں اور کئی مقامات پر ایسے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔

 اگر ہم مسجدوں کے ذمہ دار ذرا سی کوشش کرتے ہوئے اپنی مسجدوں میں بیت المال شروع کردیں تو یقینی طورپر قوم کے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اگر کرنا چاہیں تو بہت کام ہیں اور نہ کرنا چاہیں تو کچھ بھی نہیں ہے، ہماری کوشش چھوٹے پیمانے پر ہی صحیح لیکن اس چھوٹی پہل سے جو کام شروع ہوگا وہ آگے چل کربہت بڑا ہوگا۔ اس لئے ہمیں کچھ نہ کچھ کام قوم و ملت کی بقائ کے لئے کرنا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔