عاشوراء اور اسلامی تشخص

خبیب کاظمی

ماہ محرم اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔  یہ مہینہ ما قبل الاسلام بھی قابل ِاحترام سمجھا جاتا تھا ،  اس کی عظمت کی وجہ سے   عرب   اس ماہ جنگ و جدل  سے بچتے تھے۔ اسلام نے بھی اس ماہ کی حرمت و فضیلت کو برقرار رکھتے ہوئے  اس کا پرانا  نام محرم ہی رھنے دیا ۔

رسول اللہ ﷺ نفلی روزوں میں اس ماہ کے روزوں کا بڑا اھتمام فرماتے تھے۔
حضرت ابو ھریرہ ضی اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے مہینے کے اور فرض نمازوں  میں سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔
"أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم، وأفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل”  (متفق علیہ)

عاشوراء (دس محرم) کا روزہ
رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے دس محرم کا روزہ مسلمانوں پر فرض تھا ۔ فرضیت کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو نہ رکھنا چاہے نہ رکھے۔ لیکن حضرت عبد اللہ ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ کے رسول جس طرح رمضان کے پورے مہینے کا روزے رکھنے کا التزام فرماتے تھے اسی طرح عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کا التزام بھی فرماتے تھے۔ معلوم یہ ہوا کہ حضورﷺ کے نزدیک عاشوراء کی فضیلت باقی دنوں کی  بہ نسبت زیادہ تھی، اسی لیے آپ ﷺ نے  اس دن روزے کا اھتمام و التزام فرمایا۔

آپ ﷺ کیوں اس دن کے روزے کا اھتمام و التزام فرماتے تھے؟
اللہ کے رسول جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ دیکھا کہ یہودِ مدینہ بھی اس دن کا روزہ رکھ رہے ہیں چنانچہ پوچھا گیا کہ آج کے دن تم کس لیے روزہ رکھتے ہو؟  تو انہوں نے کہا "ھذا یوم صالح،ھذا یوم نجی اللہ بنی اسرائیل من عدوھم فصامہ موسیٰ” یہ نہایت اچھا دن ہے۔  یہ دن وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دی تھی تو موسیٰ علیہ السلام نے (شکرانے کے طور پر) روزہ رکھا تھا (اسی لیے ہم بھی  رکھتے ہیں)۔  یہ سن کر حضو ﷺ نے ارشاد فرمایا پھر تو میں تم سے کہیں زیادہ موسیٰٰ کے عمل پر ، عمل پیرا ہونے کا حقدار ہوں۔چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھنا شروع کردیا اور دوسروں کو بھی اس   کا حکم فرمایا   (متفق علیہ)

عاشوراء کے ساتھ نویں یا گیارھویں تاریخ ملانا کیوں ضروری ہے؟
امام مسلم نے حضرت ابن عباس کا ایک قول بیان کیا ہے کہ جب (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا تو لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ، یہ تو ایک ایسا دن ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ بھی کرتےہیں اور وہ بھی آج کے دن روزہ رکھتے ہیں،  اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو محرم کی نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔
عن ابن عباس – رضي الله عنهما- أنه قال: "حين صام رسول ‏الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء، وأمر بصيامه، قالوا يا رسول الله: إنه يوم تعظمه ‏اليهود والنصارى! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” فإذا كان العام المقبل إن شاء ‏الله، صمنا اليوم التاسع. قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه ‏وسلم” رواه مسلم ( كتاب الصيام)
ایک اور حدیث مسند امام احمد، اور سنن بيهقي میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا  (صوموا يوم ‏عاشوراء وخالفوا فيه اليهود: صوموا قبله يوماً، وبعده يوماً) عاشوراء کے دن کا روزہ رکھو اور اس عمل میں یہود کی مخالفت کرو۔  (وہ اس طرح کہ)  ایک دن پہلے نو،     اور ایک دن بعد گیارہ کا روزہ بھی ملالو۔
ایک اور روایت میں الفاظ اس طرح وارد ہیں "صوموا يوماً قبله أو يوماً بعده”  عاشوراء    سے ایک دن قبل یا  ایک دن بعد کا روزہ رکھ کر یہود کی مخالفت کرو۔
بہر حال یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اللہ کے رسول ﷺ  یہود کے عمل کی مخالفت کا حکم دے رہے ہیں۔

یہود کی مخالفت کیوں ضروری ہے؟
جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا کہ سارے ادیان میں سب سے پسندیدہ دین، دین اسلام  اور سارے نظامہائے حیات میں اسلامی نظام زندگی ہی قابل قبول اور لائق عمل ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر ہر قدم پر اپنے ماننے والوں کے امتیازی وصف  اور ان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کا اھتمام  و التزام فرمایا ہے۔ اب ان اعمال کا تعلق ظاھر سے ہو یا باطن سے ہر جگہ یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ کے رسول نے بالخصوص یہود کی مخالفت پر اس قدر زور  صرف اس لیے دیا کہ یہود اور اھل کتاب حسد اور بغض  کی وجہ سے ہمارے دین میں خلط  ملط کرنے کی کوشش کرتے تھے،  اس وجہ سے اس دین کو purify  کرنے کے لیے اللہ کے رسول نے یہود کی مخالفت  کا حکم دیا۔
قرآن پاک میں ان کے جرائم بہت تفصیل سے مذکور ہیں ان میں ایک اھم جرم یہ ہے کہ وہ حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ کردیتے تھے ، کبھی حق بات کو چھپا دیتے تھے۔   اللہ کے آخری نبی محمد ﷺ  کی آمد کے باریمیں خود ان کی کتابوں میں درج تھا مگر انہوں نے محض ہٹ دھرمی اور بغض و عناد کی وجہ سے اس حق کو لوگوں سے بھی  چھپایا  اور خود بھی   آپ کی   بعثت کا جانتے بوجھتے انکار  کیا اسی لیے قرآن نے ان کو اولین کافر کہا۔
یہاں یہ بات نہ سمجھ لی جائے کہ اسلام مسلمانوں کو دیگر ادیان و  ملل سے الگ رھنے کا حکم دیتا ہے،  اس طرح گویا مسلمان سارے معاشرے سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ ایسا قطعی نہیں ہے بلکہ جہاں عقائد اور اصول کے ٹکرانے کا اندیشہ ہو ، جہاں ہمارا اسلامی تشخص  داغدار ہو رہا  ہو وہاں ہمیں سختی سے اپنی اسلامی شناخت برقرار رکھتے ہوئے ان کے طریقے کی مخالفت کرنے کو کہا گیا ہے۔
یہود کی یہ مخالفت ذاتی رنجش کی وجہ سے بھی نہیں تھی  بلکہ عقائد کی درستگی اور دین کو خالص کرنے کے لیے تھی۔
اسلام اس بات کو بھی ہرگز نہیں پسند کرتا کہ دنیا میں بسنے والا ہر آدمی مسلمان ہی ہو بلکہ اسلام کا طریقہ یہ رہا ہے کہ حق اور باطل کھول کر رکھ  دیا جائے جس کا جی چاہے حق قبول کرے اور جس کا جی کرے باطل کو اختیار کیے رہے۔  ہر شخص کو  اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ کفر و ایمان میں سے جو راہ چاہے اختیار کر لے،  لا اکراہ فی الدین…الخ
یہود و نصاریٰ یا کفار و مشرکین کی مخالفت کا یہ مطلب قطعی نہ نکالا جائے کہ ان کی مذھبی دلآزاری کی اجازت ہے بلکہ اسلام نے اس چیز سے سختی سے منع کیا ہے۔ سورہ انعام میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ ان کو برا بھلا نہ کہو جنہیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا معبود بنا کر پکارتے ہیں۔
اگر ان کو اسلام کی طرف بلارہے ہیں  تو اس وقت  بڑے صبر و تحمل  اور نرم انداز  اپنانے کا حکم دیا گیا   وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر احسن طریقے سے۔ دوسری جگہ اسی کو قول لین  کہا گیا۔
یہود و نصاریٰ کی مخالفت سے ہرگز  ہر گز   یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے ساتھ ناروا سلوک کی اجازت دی جارہی ہے۔
اللہ کے رسول کا یہود و نصاریٰ کے ساتھ  اچھے برتاؤ اور ان کے ساتھ حسن معاملات  کی کئی مثالیں تاریخ  اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔
رسول اللہ ﷺ یہود کو اپنے گھر دعوت پربلاتے تھے  اور خود بھی ان کی دعوتیں قبول فرماتے تھے، انھیں دعوتوں میں سے ایک مرتبہ ایک یہودی عورت نے آپ ﷺ کے کھانے میں زھر بھی ملادیا تھا۔
یہودیوں کے سردار عبد اللہ بن ابی سے کون واقف نہیں اس نے  کس کس طرح  آپ  ﷺ کو اور آپ   کے اصحاب کو تکلیف دی  مگر اس کے باوجود جب اس کا انتقال ہوا تو آپ  ﷺ اس کی نمازہ جنازہ پڑھانے کیلئے کھڑے ہو گئے۔

سیرت طیبہ کے پہلوؤں میں سے  ایک اہم پہلو آپ  ﷺ کے اخلاق حسنہ  ہیں، یہ ایسا پہلو ہے جس میں دیگر مصلحین امت بہت پیچھے نظر آتے ہیں۔
آپ ﷺ کی زندگی کا یہ پہلو مکہ پر  پھر سارے عرب پر   گویا جادو بن  کر چھا گیا تھا ۔ کفار و مشرکین   کا اپنے شرک اور کفر پر برقرار رھنا مشکل ہوگیا تھا۔
آپ غور کیجیے  طائف   میں آپ  ﷺ کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا گیا؟    آپ ﷺ کے جسم کو لہو لہان کیا گیا مگر آپ نے ان کے لیے بد دعا نہیں کی۔
وہی مکہ جہاں کے لوگ جنگ کی تلوار لیے ہمیشہ کھڑے رھتے تھے جب قحط پڑا تو آپ نے غلہ کی رسد جاری کروادی۔
بدر کے قیدیوں کی کراھیں   آپ  کے گوش گذار ہو ئیں  تو آپؐ تب تک نہ سو سکے جب تک ان کے بندھن ڈھیلے نہ کروا دیے۔
جو بڑھیا روزآنہ آپ کے سر پر کوڑا پھینکا کرتی تھی ، ایک دن  کوڑا نہ پھینکا  گیا تو آپ ﷺ کو تشویش ہوئی  آ پ نے  پتہ کیا تو معلوم ہو اکہ وہ بیمار ہے ،آپ ﷺ فورا  اس کی تیمار داری کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے۔
آپ ﷺ کے عفو و در گذر اور انسانیت سے گہری محبت کی سب سے بڑی مثال فتح مکہ   کا واقعہ ہے۔
آپ ﷺ سو فیصدی  فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تھے اور اھل مکہ سوفیصدی   مفتوح تھے، بیس سال تک لڑنے والے بے بس و مجبور کھڑے سر جھکائے اپنے انجام کے منتظر تھے۔
آپ ﷺ کوعرفا  اور قانونا سب کی گردن زدنی  کا مکمل حق حاصل تھا۔
ان میں سے وہ لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے حضرت بلال کو گھسیٹا تھا ۔
حضرت خبیب کو  پھانسی پر لٹکایا تھا۔
حضرت عثمان بن مظعون کو  قتل کیا تھا۔
یمن سے آئی بوڑھی حضرت  سمیہ کو نیزہ مار کر شہید کیا تھا۔
خود آپ  کے  چہیتے چچا حضرت حمزہ  کا قاتل  حبشی غلام بھی  وہیں موجود تھا  ۔
مگر  ان کو بتایا جائے جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کی زور پر پھیلا ہے ۔
تاریخ کے اِن  سنہرے الفاظ کو انھیں سنایا جائے    جو کہتے ہیں کہ اسلام رواداری اور انسانیت کے خلاف ہے۔
آپ ﷺ نے سارے مجرمین  پر طائرانہ نظر ڈالی اور  مسکراکر فرمایا  "لاتثریب علیکم الیوم اذھبوا انتم الطلقاء” آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں  جاؤ تم سب آزاد ہو۔  پھر کیا تھا ، وہی جو کل تک مجرم اور آپ ﷺ کی  جان کے دشمن بنے ہوئے تھے  ان میں کا ہر فرد اسلام کا سپہ سالار بن گیا ۔

قارئین کرام آج ضرورت  ہے اسلام کی صحیح اور سچی تصویر  لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ۔
آج ضرورت ہے  کہ ہم خود  اسلام کی جیتی جاگتی تصویر  بن جائیں۔
اللہ کے رسول نے   یہود کی مخالفت  کا حکم دیا  مگر  ہم انھیں کے نقش قدم پرچل کر ان کو  تقویت پہنچا رہے ہیں۔
ہم چن چن کر وہی کام کر رہے ہیں  جن سے  ہم کو منع کیا گیا تھا۔
یہ صرف اس وجہ سے کہ ہم نے اسلام کے مزاج کی نزاکت کو نہیں سمجھا ۔
ہم نے عبادت  کو  محض پوجا و پرستش  کے ہم  معنی سمجھ لیا ہے۔
ہماری  زندگی عبادت کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ، اور  حلاوت ایمانی سے محروم ہے۔
اللہ ہم کو ان لوگوں میں  شامل نہ فرمائے  جن کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ "ایک وقت وہ آئے گا جب تم یہود و نصاریٰ کے قدم بہ قدم چلوگے یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسیں گے تو تم بھی اسکے اندر گھسوگے”
اللہ سے دعاء ہے کہ  وہ  ہمیں سچا اور با عمل مسلمان بنائے۔
غیروں کے طریقوں سے بچنے اور اپنے اسلامی تشخص کو برقراررکھنے  کی توفیق عطا فرمائے۔
اپنی رضا اور خوشنودی والی زندگی نصیب فرمائے۔ (آمین)
وما توفیقی الا باللہ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔