عالمی سرد مشاعرہ و تعزیتی اجلاس

رپورٹ: نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی

(بھارت)

ادارہ، "عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری” دورِ حاضر میں دنیا کا واحد ادارہ ہے جو اِس برقی ترقی یافتہ دَور میں شعراء, ادباء و مُصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسّانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے… ادارۂ ھٰذا میں تمام تر پروگرامز برائے تنقید کئے جاتے ہیں… عالمی سطح پر کامیابی کے ساتھ ادبی تنقیدی پروگرامز کا انعقاد یقیناً ادارۂ ھٰذا کی انفرادیت, مقبولیت مع کامیابی کا وثیقہ ہے…  ادارۂ ھٰذا کے بانی و چیئرمین محترم توصیف ترنل صاحب کی زیرِ سرپرستی پیش کرتے ہیں…،

"عالمی سرد مشاعرہ و تعزیتی اجلاس”….

"بیادِ مرحوم علی مزمّل خان صاحب (کراچی)”

*قارئین اکرام، اِس بار بروز ہفتہ، ۲۵/۰۸/۲۰۱۸ شام سات بجے، ادارے کی جانب سے 167واں، نایاب پروگرام (تعزیتی اجلاس) پیش کِیا گیا جس کا تعلق جہانِ ادب کے ایک رفیع المرتبت شاعر، سرتاجِ علم و ادب، شہرئہ آفاق، عزّت مآب عالی جناب، محترم المقام محترم علی مزمّل خان صاحب (کراچی) سے ہے… اس مجلس کا سہرۂ صدارت محترم المقام محترم شہزاد نیّر صاحب (پاکستان) کے سَر رہا…،

مہمانانِ خصوصی محترم مسعود حسّاس صاحب (بھارت) اور محترم ضیاء شادانی صاحب (بھارت) نیز مہمانانِ اعزازی محترم مائل پالدھوی صاحب (بھارت) اور محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ (بھارت)… بطورِ ناقد محترم شفاعت فہیم صاحب (بھارت) اور بطورِ ناظم محترمہ ثمینہ ابڑو صاحبہ (پاکستان) نے اپنی خدمات سے محفل کا وقار مزید بلند کردیا… اِس مجلس کی روداد تحریر کرنے کی ذمّہ داری مجھ کج فہم کو سونپی گئی جو میرے لئے باعثِ فخر و عزّت ہے… اِس پروگرام کے آرگنائزر، محترم عامر حسنی صاحب (ملائشیا) تھے… اسطرح ادارۂ ھٰذا کے بانی و چیئرمن محترم توصیف ترنل صاحب کی زیرِ سرپرستی ایک کامیاب ترین آنلائن پروگرام منعقد کیا گیا.

محترم علی مزمّل خان صاحب، ۲۰/اگست ۲۰۱۸، بروز پیر، محض ۵۲ سال کی عمر میں اِس دارِ فانی سے کوچ کرگئے… "اناللہ و انا الیہ راجعون”… اُن کا اصل نام منوّر علی خان تھا لیکن جب شاعری کرنے لگے تو انہوں نے قلمی نام علی مزمّل اختیار کیا، اُن کے والد کا نام محمّد اشرف خان تھا جو کہ برٹش آرمی میں اعلی عہدے پر فائز تھے… علی مزمّل کی پیدائش سَن ۱۹۶۶ میں، محلہ سیّد احمد شاہ (قدیم نام محلہ شیو شاہ) ڈیرہ اسماعیل خان، خیبر، پختون خواہ پاکستان میں ہوئی تھی… پیشے کے لحاظ سے وہ ایک سِوِل انجینئر تھے.

مرحوم علی مزمّل خان صاحب کا شمار دورِ حاضر کے عظیم ترین کلاسیکل شعراء میں کِیا جاتا ہے… وہ نہ صرف ایک ممتاز شاعر و نقّاد تھے بلکہ ذی وقار شخصیت کے بھی مالک تھے… موصوف کو استاد الاساتذہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے… اُن کی شاعری صرف اردو زبان تک ہی محدود نہ تھی بلکہ فارسی، سرائیکی، پنجابی اور انگریزی زبان میں بھی آپ کی تخلیقات موجود ہیں… فی زمانہ ایسی باکمال شخصیتیں خال خال ہی نظر آتیں ہیں… یقیناً…، اِس گوہرِ نایاب کی رحلت جہانِ ادب کے لئے ایک بہت بڑا خسارہ ہے.

اس باوقار مجلس کا آغاز ربِّ ذوالجلال کی پاک و شفّاف حمد و ثنا کے ساتھ یوں ہوا کہ….

حد نہیں اس کے کرم کی شکر کر انسان دیکھ

تو اگر مایوس ہے تو سورہ الرحمان دیکھ

محترم انور کیفی ( بھارت)

سارے عالم کا مالک و خالق ہے تو

تو ہی رحمن ہے اور رازق ہے تو

تیرے جلوے ہزاروں فقط ایک تو

تیرے ارشاد کو ، بس جھلک ایک تو

محترم ڈاکٹر ارشاد خان (بھارت)

بعد ازاں حمد باری تعالٰی…، بارگاہِ رسالت ﷺ میں ناچیز نے نعتِ پاک کا نذرانۂ عقیدت یوں پیش کیا…کہ

آقائے دو  جہان کی  عظمت  نفیس ہے

اس رَبِّ ذوالجلال کی قدرت نفیس ہے

اللہ کے کرم سے  مُنوّر  ہے  نُور جو

نُوری تجلّیات کی رَحمت نفیسؔ ہے

نفیس احمد نفیسؔ (ناندوروی بھارت)

مجلس میں شریک مہمان شعراء کے تعزیتی اشعار

صدرِ محفل

کنارِ چشم سے دیکھا ہےخوف کھاتے ہوئے

لرزتی ڈولتی دنیا کو ڈوب جاتے ہوئے

کبھی کبھار سڑک پر میں خود سے ملتا ہوں

کسی کو چھوڑ کے آتے، کسی کو لاتے ہوئے

محترم شہزاد نیّر (پاکستان)

مہمانانِ خصوصی

زخم نے اشک پرویا تو جہاں کانپ گیا

اشک نے درد بگھویا تو جہاں کانپ گیا

زندگی کاشت تھی حسّاس حصارِ غم کی

حاصلِ زخم کو بویا تو جہاں کانپ گیا

محترم مسعود حسّاس صاحب بھارت

محترم ضیا شادانی (بھارت)

مہمانانِ اعزازی

سجدوں کی یار ہم نے نمائش کبھی نہ کی

دنیا کی آرزو میں نمازیں نہیں پڑھیں

چہرے سے تھے عیاں سبھی حالاتِ زندگی

مائل کبھی فضول کی باتیں نہیں پڑھیں

محترم مائل پالدھوی (بھارت)

خوشبو احساس کے گلشن میں بکھرنے کو ہی تھی

عید ایثار کی دنیا میں سنورنے کو ہی تھی۔۔۔۔

"ناگہاں نور کے ہاتھوں سے  نگیں چھوٹ گیا”

"آسماں سے گرا مہتاب فسوں ٹوٹ گیا "

محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی (بھارت)

مجلس میں شریک دیگر شعراء کے تعزیتی اشعار..

جانے کیا موت نے کہا ہو گا

زندگی ساتھ ہو گئی ہو گی

کیسے احسان یہ چکائے گی

موت کو دی ہے زندگی ہم نے

محترم ظہیر احمد مغل (کہوٹہ آزاد کشمیر)

ہر سمت تڑپتے ہوئے بسمل انساں

خوں خوار درندوں کا تسلط جن پر

معصوم بدن کاٹنے والے اژدر

اس شہر میں اب عید کا کیسے امکاں

محترم صفی ربانی (مانسہرہ پاکستان)

رونقیں ساتھ لے چلا اک شخص

بزم دنیا سے آٹھ گیا اک شخص

زندگی بھر رہا وہ رخشندہ

 انجم عرش اب ہوا اک شخص

محترمہ غزالہ انجم (پاکستان)

ناچار اک پَرند تھا اِس خار زار کا

لیکن وہ شکر کرتا تھا پَروردگار کا

اے دِل نفیسؔ عید ہے پر اب کے عید پر

صدمہ ہوا ہے ہائے تجھے مَرگِ یار کا

نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی (بھارت)

وہ تو شرما کے رہ گیا ھو گا،

اس کو جب چاند سا کہا ھو گا

مجھ کو دنیا فراز!! چاھے ھے،

میری غزلوں کا معجزہ ھو گا

محترم اطہر حفیظ فراز (فیصل آباد پاکستان)

محترم ندیم اعجاز (فیصل آباد پاکستان)

محترم ثمریاب ثمر (سہارنپور اترپردیش انڈیا)

بخش کر ذہن و دلِ زار کو یادوں کے نقوش

جانے کیوں رشتئہ اربابِ وفا توڑ گئے

دے کے روتی ہوئی آنکھوں کو لہو کی بوندیں

اپنے غم میں وہ ہمیں روتا ہوا چھوڑ گئے

محترم مشرف حسین محضر (بھارت)

آج تو پاس نہیں ہے میرے

آج میں کس قدر فسردہ ہوں

آج میں کس قدر اکیلا ہوں

آج میں کس قدر ہوں گھبرایا

آج میں کس قدر ہوں شرمندہ

محترم اشرف علی اشرف (سندھ پاکستان)

سچ میں کہتا ہوں یارب یہ ایمان سے

جوش ایماں ملا عید قربان سے

حق و باطل کی اصغر سمجھ آ گئ

یہ سبق جو ملا مجھکو فرقان سے

محترم اصغر شمیم (کولکاتا،بھارت)

جانے  والے  پہ آ شکار تھا  سب

اس جہاں میں  رکا  نہیں کوئی

کچھ  محبت  ہے  درمیاں  اپنی

ہم  پہ  عقدہ  کھلا  نہیں  کوئی

محترم خالد سروحی (گوجرانوالہ پاکستان)

یہ عید ہے اپنے پیاروں کے کچھ نام کروں یہ من چاہا

سب مل بیٹھیں اک دوجے سے امکان بنے یہ من چاہا

کیا پیش کروں مسکان یہاں ہوں سات سمندر پار اگر

یا چاند ستاروں میں ڈوبے مژگان کروں یہ من چاہا

محترم عامر حسنی (ملائیشیا)

یادِ ماضی لے کے جو آئی ہے عید

کیا کہوں کتنے ستم ڈھائی ہے عید

رنج و غم کے قافلے ہیں جا بجا

کون ہے کا شف جسے بھائی ہے عید

محترم احمد کاشف (مہاراشٹرا انڈیا)

رقصاں ہے مدینے کی ہوا عید کا دن ہے

پر کیف ہے بطحا کی فضا عید کا دن ہے

ہے یومِ مسرّت  تو اسے بانٹ لیں شیداّ

یہ ساعتیں ہیں رب کی عطا عید کا دن ہے

محترم علی شیدا (کشمیر)

پروگرام میں بطورِ ناقد "محترم شفاعت فہیم صاحب (بھارت)” نے تنقیدی نقطۂ نظر سے تعزیتی کلام کا جائزہ لِیا اور اپنی قیمتی آراء سے شعراء کو نوازا…، جسے شعراء نے خندہ سے پیشانی قبول کِیا.

محترم وزیر احمد باجواتی صاحب پاکستان نے مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی…، جس پر حاضرین نے آمین، ثمّہ آمین کی صدائیں بلند کیں… اللہ کریم سے دعا کرتا ہوں کہ رحمت الالعالمین صلی اللہ علیہ وسلّم کے صدقہ و طفیل…، شعرائے عالم کی محبّتوں اور دعاؤں کو مرحوم کے حق میں قبول فرمائے اور مرحوم علی مزمّل خان صاحب کو جنّت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے…آمین….، اخیر…. مرحوم علی مزمّل خان صاحب کا پیغام…، چاہنے والو کے نام….کہ”

ہم بانٹتے رہے ہیں زمانے کو زندگی

مرنا ہماری ذات سے منسوب مت کرو

مرحوم علی مزمّل خان (کراچی)

"قارئین کرام…، اِس طرح "ادارۂ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے تحت ” مرحوم علی مزمّل خان صاحب” کی خدمت میں گلہائے عقیدت پیش کئے گئے…، ایک کامیاب پروگرام پیش کرنے کے لئے "ادارۂ ھٰذا کے منجملہ عہدداران و اراکین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں… ساتھ ہی اِس باوقار مجلس میں شریک تمامی احباب کا ادارۂ ھٰذا کی جانب سے صمیمِ قلب ممنون و شکرگذار ہوں… بالخصوص ادارے کے چیئرمین محترم توصیف ترنل صاحب کی خدمات قابلِ داد و تحسین ہیں.

تبصرے بند ہیں۔