عالمی یومِ خواتین: جس کھیت سے بیٹی کو میسر نہیں روٹی

ڈاکٹر سلیم خان

عالمی یومِ خواتین کے موقع پر ایک  بزرگ صحافی دوست  سے یونیورسٹی میں ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے بڑے افسوس سے بتایا کہ ان کے ایک دوست کی بیٹی نے نیوکلیر فزکس میں ایم ایس سی کیا۔  وہ چاہتے تھے کہ بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر میں ملازمت کرے مگر احمق   باپ نے شادی کر کے وطن بھیج دیا۔  میں نے انہیں بتایا  کہ پی ایچ ڈی کے بعد  بھی میں نے بی اے آر سی میں نوکری نہیں کی تو وہ بولے بھائی میں چاہتا تھا غریب کی بیٹی چار پیسے کما لے گی تو خوش رہے گی۔ اس جواب نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے پوچھا  کیا مطلب غریب کی بیٹی چار پیسہ کمائے بغیر خوش نہیں رہ سکتی؟  وہ ناراض ہوگئے تو میں نے معذرت چاہ  لی اور ان سے اخبار لے کر پڑھنے لگا۔ اس دوران  ایک عجیب خبر نے  مجھے  چونکادیا جس  کا خلاصہ یہ  تھا :

ممبئی کے فیملی کورٹ میں ایک ۴۴ سالہ  شخص نے طلاق کی درخواست دی۔ اس کی شکایت تھی کہ بیوی اپنا بہترین وقت ان کے لیے وقف نہیں کرتی۔ وہ کام سے گھر آتاہے  تو پانی تک نہیں پوچھتی۔ والدین کو نظر انداز کرتی ہے اور لذیذکھانا نہیں بناتی۔ شام کو دفتر سے آکر سوجاتی ہے اور صبح  جلدی جگاو تو گالیاں بکتی ہے۔ اس کے جواب میں زوجہ  نے کہا وہ علی الصبح سارے گھر والوں کے لیے کھانا بناتی ہے اور اپنے خاوند کوتوشہ  بناکر دیتی ہے۔ شام میں تھک کر دفتر سے آنے کے بعد چائے بناکر خود پیتی ہے اور اپنے ساس سسر کو بھی دیتی ہے۔ تھکن کے سبب کچھ دیر آرام کرنے کے بعد  کھانا بنانے میں جٹ جاتی ہے۔ اس خاتون کے موقف سے عدالت نے اتفاق کرتے ہوے طلاق کی درخواست کو مسترد کردی۔ اس پر شوہر نے عدالت عالیہ میں اپیل کرنے کا ارادہ کیا اور اپنی بیوی کے ساتھ گھر آگیا۔

میں نے اپنے دوست سے پوچھا کیا آپ نے خبر دیکھی تو انہوں نے حامی بھری۔ میں نے پھر پوچھا  یہ بتائیے کہ   عدالت کی زبردستی سے اب وہ ساتھ تو رہیں گے لیکن کیا خوش بھی رہیں گے ؟   وہ  ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے تضحیک آمیز انداز میں بولے یہ تو پوچھ کر بتانا پڑے گا۔ میں نے اپنے  کہا  اگر آپ کا بے وقوف دوست آپ کی بات مان لیتا تو ممکن ہے اس کی بیٹی بھی  اس صورتحال سے دوچار ہوتی۔  وہ اگر ملازمت کرتی تب بھی دو روٹی کھاتی اور اب بھی وہی کھاتی ہے۔ اس کا خاوند  لکچرر ہے جو بصد شوق اپنی اہلیہ کی خدمت بجا لاتا  ہے۔ اس لیے کہ جب وہ دفتر سے تھکا ماندہ لوٹ کر گھر آتا ہے تو بیوی گرمجوشی سے استقبال کرتی ہے اوراپنی رفاقت  سے اسے خوش کردیتی ہے۔ وہ بی آر سی میں زیر ملازمت ہوتی تو ممکن ہے اپنے شوہر کے بعد تھکی ماندی گھر آتی۔ ایسے میں اضافی آمدنی ان  دونوں کے کس کام آتی ؟

ہمارے دوست ناصحانہ انداز میں بولے بھائی کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے؟ اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے یہ قربانی ضروری ہے ؟ یہ بھی نہایت خطرناک جواز تھا۔ میں نے کہا بھائی  آپ کو بچوں کے مستقبل کی فکر تو ہے مگر اس بیچاری کے حالت زار کی  پرواہ  نہیں ؟ جب وہ صاحب اولاد ہوجاتی  تو اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ کس قدر بڑھ جاتا؟ اس کے باوجود کیا وہ اپنے بچوں کا حق ادا کرپاتی ؟کیا وہ اضافی آمدنی بچوں کی تعلیم وتربیت کا نعم البدل بن جاتی؟ ملازموں کے رحم و کرم پر پلنے والے بچوں کا مستقبل روشن ہوتا ہے یا اپنی تعلیم یافتہ والدہ کی نگرانی میں پرورش پانے والے نونہالوں کا؟  ان سوالات سےپریشان  ہوکر وہ بولے  خاں صاحب آپ بھی  نہ جانے کس دنیا میں رہتے ہیں اور خیالی باتیں کرتے ہیں ۔  زمانہ بدل گیا ہے اور جو لوگ زمانے کے ساتھ اپنے آپ کو نہیں بدلتے وہ ان کو وہ روند کر آگے نکل جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ بھی زمانے کے ساتھ چل دیئے۔

میں نے سوچایہ بحث بیکار ہے۔ یوروپ کا مرد بڑا چالاک ہے اس نے خاندانی کفالت کی اپنی ذمہ داری سے پلہّ جھاڑ لیا اور خواتین کو جعلی مساوات کا خواب دکھا کر معاشی دوڑ میں لگا دیا۔  ہدایت الٰہی کی روشنی میں

’’مرد عورتوں کے محافظ و منتظم (حاکم) ہیں (ایک) اس لئے کہ اللہ نے بعض (مردوں ) کو بعض (عورتوں ) پر فضیلت دی ہے اور (دوسرے) اس لئے کہ مرد (عورتوں پر) اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔

عہد نو کی مادہ پرستی نے اس توازن کو بگاڑ  کر نہ صرف اپنی بلکہ آئندہ نسلوں کی حق تلفی کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے سے ہمدردی و غمخواری غائب ہوگئی۔ محبت و شفقت کے جذبات فنا ہوگئے۔ ایثار و قربانی کا جذبہ مفقود ہوگیا۔ وفاشعاری و اطاعت گزاری تک  کافور ہوگئی کیونکہ   خواتین کی جو ذمہ داریاں کتاب الٰہی میں بیان کی گئی تھیں ’’ نیک عورتیں تو اطاعت گزار ہوتی ہیں اور جس طرح اللہ نے (شوہروں کے ذریعہ) ان کی حفاظت کی ہے۔ اسی طرح پیٹھ پیچھے (شوہروں کے مال اور اپنی ناموس کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں ‘‘۔ انہیں  حقیر بتا کر عورتوں کو ان سے برگشتہ کردیا گیا۔

نبی آخرالزماں ﷺنے فرمایا: عورتوں کا تم پر حق ہے کہ ان کی روزی اور لباس وغیرہ تم بھلے طریقے پر فراہم کرو۔‘‘ بحالت مجبوری خواتین کو بھی فکر معاش کی اجازت ہے لیکن خود ساختہ داخلی حرص یا بیرونی چمک دمک عورت کو مجبور نہیں کرسکتی۔ ھل من مزید  کے چکر میں  خواتین کا ایسے امور میں گرفتار ہوجانا کہ جو اس کی نزاکتِ طبع کے خلاف ہوں یا اس کے نسوانی وقار سے متصادم  ہوں صنف نازک پر ظلم عظیم ہے۔ اسلامی تہذیب میں عورت ناموس کی  علامت ہےاور  اعزاز و تکریم کی متقاضی ہے۔ خواتین سے وابستہ  غیرت و احترام  کے سبب ان  کو ’حفیظۃ‘  یعنی قابلِ حفاظت کہا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دنیا ایک پونجی (متاع حیات) ہے اور دنیا کی سب سے بڑھیا پونجی صالح عورت ہے۔‘‘۔

یہ کارگہہ ہستی فانی  اور وقتی ہونے کے باوجود  اپنے آپ میں ایک عظیم  متاع حیات ہے۔ اس کا بہترین  استعمال انسان  کو  ابدی بہشتوں کا مستحق بناسکتا ہے لیکن انسانوں نے اس ذریعہ کو مقصد بنالیا  اور اس کے پیچھے نہ صرف خود پاگل ہوگئے بلکہ دنیا کی  بہترین پونجی یعنی صالح عورت کو بھی اس میں جھونک کر برباد کردیا۔ اس دورِ پر فتن  خواتین پر ہونے والے مظالم و استحصال کے لیے بنیادی طور پر  مغرب کا مادہ پرستانہ طرزِ  فکر اور  بے لگام حرص ہوس  ذمہ دار ہے۔علامہ اقبال نے حقیقت کو کیا خوب بیان کیا ہے؎

عصرِ حاضر مَلک الموت ہے تیرا، جس نے

قبض کی رُوح تری دے کے تجھے فکرِ معاش

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اگر عورت کو غصہ آ جائے تو جوتا اٹھا کر نہیں مار سکتی کیونکہ اسے تعلیم دی گئی ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے. اگر بدزبانی کرے تو مرد اس سے زیادہ بدزبانی کرنے کو موجود ہوتا ہے اور اگر گالی دے تو کسے دے؟ ہر گالی تو ماں بہن کے بارے میں ہوتی ہے، تو کیا اپنے آپ کو گالی دے؟مرد کے ہاتھوں عورت کی تضحیک کا رویہ ہمارے معاشرے میں عام ہے.گو کہ انگریزی بھی پیچھے نہیں. ان کے ہاں بھی عورت کو برے ناموں سے پکارا جاتا ہے اور مرد کے لیے چند گنی چُنی گالیاں ہیں. لیکن برِصغیر میں تو اوّل سے آخر تک ساری گالیاں صرف اور صرف عورت سے منسوب ہیں. گالیاں ہی نہیں
    اکثر محاورے بھی عورت کی تذلیل کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں. پیر کی جوتی عورت، عورت کا تو دماغ ہی چھوٹا ہے، عورت مکار ہوتی ہے،عورت کے پیٹ میں بات ہی نہیں ٹھہرتی، عورت کمزور ہوتی ہے، عورت لگائی بجھائی کرتی ہے، عورت کو مرد سے زیادہ زیور سے پیار ہوتا ہے، عورت بے وفا ہوتی ہے، عورت بد زبان ہوتی ہے

    کیا یہ ایک تلخ‌حقیقت نہیں‌کہ ہمارے معاشرے میں‌50 فیصد سے بھی زیادہ مرد آج بھی اپنی بیوی کو ہلکی پھلکی گالی دے دینا اپنا حق سمجھتے ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں‌کہ ہمارے ہاں‌یہی 50 فیصد سے زیادہ مرد جو عورت کو نازیبا بات کہہ دینا اپنا حق سمجھتے ہیں‌یہی مرد عورت کو اپنا ذاتی ملازم بھی سمجھتے ہیں؟ کوئی سمجھائے تو کہیں‌گے اللہ معاف کرے ایسی کوئی بات ہمارے ذہن میں‌نہیں‌مگر کیا یہ بھی حقیقت نہیں‌کہ بات ذہن میں‌نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں‌پڑتا اگر آپ کا رویہ ہی ٹھیک نہ ہوتو؟

    ناشتے میں چائے ٹھنڈی ہوگئی میرا موڈ آف ہوگیا اب مجھ سے بات مت کرو…. میں‌نے کہا تھا میرے کپڑے ٹھیک سے استری کیا کرو یہ کیا بیڑہ غرق کردیا ہے کچھ تو میری عزت کا خیال کرو… ایسی باتیں‌گھروں‌میں‌کون کرتا ہے؟ کیا خاوند کے علاوہ بیوی کبھی یہ جرات کرے ایسی گستاخی کرے تو معاف کیا جائے گا؟؟؟ گوارا کرلیا جائے گا؟؟؟ برداشت کرے گا کوئی؟؟؟

    ہمارے ہاں‌مردوں‌کو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئیے کہ ایسی گائے جیسے بیویاں‌مل جاتی ہے کسی مغربی عورت کے پلے اس قسم کے انا پرست خاوند کو 2 دن ڈال کر دیکھیں‌لگ پتا جائے گا کہ دنیا کہاں‌کی کہاں‌پنہچ گئی ہے!!!لیکن مسلمان عورتیں‌ہیں‌جو برداشت کا اس قدر عظیم جذبہ رکھتی ہیں‌کیونکہ ہم مسلمان ہیں…. اللہ کا خوف دلوں‌میں‌باقی ہے!

    جس عزت کو ہمارے مرد اپنا حق سمجھتے ہیں وہ ہم عورتوں‌کی قربانی ہے، ہماری زندگی کی بس یہی وقعت ہے؟؟؟ اپنے نفس پر جتنا قابو ایک مسلمان عورت رکھتی ہے مرد سوچ بھی نہیں‌سکتا. میڈیا کی کیا مجال ہے خراب کرے. کسی غیر ملکی عورت سے شادی کرکے دکھاؤ چار دن گزارہ کرکے دیکھو دن میں‌تارے نظر آجائیں گے یہاں‌تو جمائما عمران جیسے آئیڈیل کے ساتھ نہ رہ پائی ہم عورتیں جیسے گزارہ کرتی ہیں ان مردوں کو ساری زندگی اندازہ بھی نہیں‌ہوسکتا.

    یہ سب باتیں عورت کے حوالے سے ہمارے رویے کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں توازن قائم رکھنے کے لئے عورت اور مرد کا آپس میں دوستانہ رویہ، باہمی عزت و احترام اور اور آپس میں مکالمہ انسانیت کی قدروں کا اساس ہے. اس کے مقابلے میں عورت اور مرد کے درمیان گالیوں کا تبادلہ انسانیت کی ضد ہے.بچہ جب خاندان اور علاقے میں استعمال ہونے والی گالیاں سیکھتا ہے تو اس کی نفسیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے.

    اس کے اندر بڑوں بالخصوص عورتوں کا احترام کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے. ماں جسے سب سے زیادہ احترام کا درجہ ملنا چاہیے، پھر اسی کے ساتھ تُو تڑاخ سے بولنے کو عین مردانگی سمجھتا ہے.معاشرتی سطح پر دیکھیں تو ہر بے جان اور نحیف چیز کو نسوانیت سے منسلک کرنا اور طاقتور کو مردانگی کا درجہ دیا جاتا ہے. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عورت کی نفاست، سلیقہ مندی اور آداب ہیں جو ایک مرد کو مرد بناتے ہیں.

    میرے اپنے دل کی بات ہے کہ جو ہمارے بھائی یہ کہتے ہیں‌کہ میڈیا نے عورت کو آزاد خیال کردیا ہے باغی کردیا ہے انہیں‌یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ اگر ایسا ہوا ہے تو ہوا کیوں‌ہے؟ کہیں‌اس کی وجہ ماضی کا بے پناہ متشدد رویہ، ہروقت کی گھٹن، سسک سسک کر جینا، شوہر کے ڈر اور خوف سے ہروقت کانپتے رہنااور جا بیٹی اب سسرال سے تیرا جنازہ ہی نکلے گا تو نہ نکلنا جیسی گھناؤنی بازگشت تو نہیں؟

    سوچ کر تو دیکھیں… جواب آپ کے ہم سب کے دلوں‌کے اندر پہلے سے ہی موجود ہے. اللہ ہم سب کو ہدایت دے کاش ہم اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلى اللہ عليه وسلم کا حسن سلوک اُن ازواج مطہرات کے ساتھ غور سے دیکھیں‌تو عورت کو کیا پڑی ہے خراب ہوتی پھرے؟ آزادی مانگتی پھرے؟ بغاوتیں‌کرتی پھرے؟ حق مارا گیا ہے جناب… بہت مارا گیا ہے!!!

    جو مرد اپنی بیوی سے مساوات اور نرمی کا سلوک رکھے اور اسے اپنی زندگی میں‌برابر کا ساتھی سمجھے اس کی بیوی کو آزادی کی ہرگز ضرورت نہیں‌ہوتی کیونکہ وہ اپنے گھر میں‌پہلے سے ہی آزاد ہوتی ہے اور عورت کو صرف اپنے گھر میں آزادی چاہیے جو مرد اسے وہ دے دیتا ہے اُس کی بیوی کبھی باہر کی آزادی نہیں‌مانگتی عورت کا گلشن اس کی دُنیا گھر ہے اسے اس کی کائنات کا پورا اختیار دیں محبت اور عزت کیساتھ… پھر دیکھیں‌ زندگی میں‌کیسے پھول کھلتے ہیں.

تبصرے بند ہیں۔