عالمی یومِ خوراک

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

1945ء میں اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک وزراعت وجود میں آئی؛جس کی یاد میں ہرسال 16/اکتوبر کو عالمی سطح پر”یوم خوراک” منانے کا فیصلہ کیا گیا،اس دن کو منانے کے  بنیادی مقاصد میں : پوری دنیاکے اندر غذائی صورت حال اورزرعی مسائل کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ، غذائی مسائل حل کرنے اور پید اوار بڑھانے کے لئے قومی اور عالمی سطح پر تعاون کا فروغ نیز خوراک کے حوالے سے پائی جانے والی انسانی بے اعتدالیوں کے تئیں شعور بیداری اوران پریشانیوں کے حل کے لئے اقدامات کی تجویز وغیرہ شامل ہیں۔ اس دن کی نسبت سے سرکاری اور نجی اداروں میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور ہرسال کسی خاص موضوع کا انتخاب بھی عمل میں آتاہے اس سال عالمی یوم خوراک کا موضوع ‘‘نقل مکانی کے مستقبل کو بدلیے ! غذائی تحفظ اور دیہی ترقیات میں سرمایہ کاری کیجیے’’ ہے۔

خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کا تخمینہ ہے کہ بھوک، افلاس اور غربت کے سبب تقریبا 763 ملین افراد اپنے ہی ملک کے اندر نقل مکانی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں آب وہوا کی تبدیلی کے سبب خراب موسم میں اضافہ ہونے کی وجہ سے کاشتکاروں کو بہتر ذریعہ معاش کے مواقع ڈھونڈنے کے لیے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ تقریبا ہندوستان کی ایک تہائی آبادی، 300 ملین سے زائد افراد مہاجر ہیں۔

ہندوستانی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق تقریبا 84 فیصد افراد اندرون ریاست نقل مکانی کرتے ہیں جب کہ تقریبا دو فیصد افراد بین ریاستی نقل مکانی پرمجبور ہوتے  ہیں۔ ملک کے مشرقی خطوں اور شمال مشرقی علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں لوگ کام اور بہتر روزگار کے مواقع کی تلاش میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں نقل مکانی کرچکے ہیں، اس کے باوجود دنیابھر میں اربوں لوگ بھکمری کا شکار اور فاقہ کشی پر مجبورہیں۔

حیران کن اعدادوشمار :

صرف تین سال قبل کے اعداد و شمارکے مطابق دنیا میں اس وقت2 ارب لوگ خوراک میں ضروری وٹامنز اور منرلز کی دستیابی سے محروم ہیں۔ دنیا میں 5 سال تک کی عمر کا ہر چوتھا بچہ جسمانی نشوونما کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ 165 ملین بچے ایسے ہیں جو غذائی کمی کا شکار ہونے کے باعث زندگی بھر اپنی بھرپور جسمانی اور ذہنی استعداد حاصل نہیں کر پائیں گے۔ دوسری طرف ایک ارب چالیس کروڑ لوگ زائد وزن کا شکار ہیں، جن میں ایک تہائی موٹاپے کی وجہ سے دل کے امراض، ذیا بیطس اور صحت کے دیگر مسائل میں مبتلاء ہیں۔ یہ حقائق ترقی پذیر ممالک میں بسنے والی اقوام کے لئے لمحہ فکریہ ہیں، جن کے سد باب کے لئے سنجیدگی سے سوچنے اور ہمہ جہتی کوشش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

معتدل خوراک:

قدرت نے ہر ایک شے کو اعتدال میں رکھا ہے۔ جہاں خوراک کے اجزائے ترکیبی کی کمی ہمارے جسم میں مختلف بیما ریوں کا باعث ہے، وہیں ان کا ایک حد مقررسے تجاوز بھی ہماری صحت کے لے  نقصان دہ ہے۔ چکنائی کی زیادتی موٹاپے کا سبب ہے، جس کو بیماریوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہے، جن میں سرفہرست دل کی بیماریاں ہیں۔ معدنیات کی زیادتی جگر اور گردوں کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے جبکہ حیاتیات کی زیادتی بھی مختلف پیچیدگیوں کا باعث ہے، مثلا سر درد، قے کا آنا، جلد کی خرابی اور بھوک نہ لگنا وغیرہ۔

غذائیت سے بھر پور زندگی گزارنے کے لے  ضروری ہے کہ متوازن غذا کا استعمال کیاجائے۔ متوازن غذا سے مراد ہے کہ ہم ایک ہی طرح کی خوراک کے متواتر استعمال سے پرہیزکریں۔ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف اقسام کے پھل، سبزیاں، گوشت، مچھلی، دالیں، دودھ وغیرہ کا باقاعدگی سے استعمال کریں۔

ایک ہی طرح کی خوراک کے متواتر استعمال سے ہمیں صرف ایک ہی طرح کے غذائی اجزاء ملتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے اندر کچھ اہم غذائی اجزا ء کی کمی واقع  ہوجاتی ہے۔ متوازن غذا کے پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین خوراک اور طب کے شعبہ سے منسلک افراد مختلف قسم کے غذائی چارٹ بنا کر دیتے ہیں ؛ جن پر عمل کرنے سے ہم ایک متوازن زندگی گزار سکتے ہیں نیز ان پر باقاعدہ عمل کے نتیجے میں مختلف بیماریوں پر زیادہ بہتر طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

اسلام میں متوازن غذا کا تصور :

صحت کی بقاء ودوام کے لئے غذا بہت اہمیت کی حامل ہے ؛ لیکن غذا ایسی ہونی چاہیے جو صحت کے لیے مفیدہو ؛جس کے لیے ایسی چیزوں کے استعمال سے احتراز کرنا چاہیے جو صحت اور تندرستی کے لیے نقصان دہ ہوں۔

حفظانِ صحت میں خوراک، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ متوازن خوراک سے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے۔ وہ مناسب طور پر نشوونما پاتا ہے اوردیر تک محنت کی قابل رہتاہے۔ اس سلسلے میں قرآن نے صرف تین جملوں میں طب قدیم اور طب جدید کو سمیٹا ہوا ہے، ارشادِ خداوندی ہے :

’’کھاؤ، پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (الاعراف)

یہ تینوں وہ مسلمہ اصول ہیں جن مں کسی کا بھی اختلاف نہیں۔

کھانا پینازندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیرانسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، اور نہ اپنے فرائض منصبی سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہوسکتا ہے، البتہ اس میں اعتدال سے کام لینا صحت کے لے  ضروری ہے۔ نہ کھانے، یا ضرورت سے کم کھانے سے جسمِ انسانی بیما ر پڑ جاتا ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے معدہ پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور معدہ کی خرابی تمام امراض کی جڑ ہے، حضور صلی اللہ علہا وسلم کا ارشاد ہے :

’’معدہ بدن کے لیے تالاب ہے اور رگیں اسی کی طرف جسم کے مختلف حصوں سے وارد ہیں، جب معدہ صحیح حالت میں ہو تو رگیں بھی جسم کے تمام حصوں کو صحت (صحیح خون) مہیا کرتی ہیں اور جب معدہ بیما ر پڑ جائے تو اس سے رگوں کے ذریعے تمام جسم بیمار پڑ جاتا ہے۔ (طبرانی، المعجم الاوسط)

قدیم عربوں کے مشہور طببت حارث بن کلدہ کا قول ہے :

’’پرہزم دوا کا سر(بنیا د) ہے اور معدہ بیماری کا گھر ہے، ہر شخص کو وہ چیز کھانی چاہیے ؛ جو اس کے بدن کے مطابق ہو، اور کم خوراکی بہ ذاتِ خود ایک علاج ہے۔ ‘‘

اکثر امراض کا سبب ناقص غذا یا اس کا غیر مناسب طریقہ استعمال ہے۔ اگر غذا ضرورت کے مطابق اور انسانی مزاج کے مناسب ہو اور ضرورت سے زائد نہ ہو تو انسان زیادہ دیر تک بہت سارے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

حضور صلی اللہ علہر وسلم نے آدابِ طعام اور کھانے پینے کے سلسلے میں بھی بھرپور ہدایات فرمائی ہیں، حفظانِ صحت کے تمام اصول آپؐ کے بتائے ہوئے کھانے کے  طریقے کے مطابق ہیں اور آپؐ کے ہر ارشاد میں طبی فلسفے مضمر ہیں۔ احادیث کی کتابوں میں آداب الطعام پر مستقل عنوانات موجود ہیں ؛جن سے پتا چلتا ہے کہ حضورﷺاصولِ صحت کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں حضور ﷺکے بتائے ہوئے ارشادات اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

آداب طعام :

1. حضور صلی اللہ علہ وسلم نہایت سادہ، نرم، زود ہضم، مرغوب اور مانوس غذا استعمال فرماتے تھے۔ کدو، گوشت، مکھن، دودھ، جو اور گندم کی بغیرچھنے آٹے کی روٹی، شہد، سرکہ، نمک، زیتون کا تیل اور کھجور وغیرہ آپؐ کی مرغوب غذائیں تھیں۔ یہ وہ غذائیں ہیں ؛جن کی افادیت پر تمام اقوام عالم متفق ہیں۔ ہر ملک اور ہر موسم میں ان کا استعمال مفید اور صحت بخش ہے۔

2. کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کھانا کھا کر یہ دعا پڑھتے: (ترجمہ)اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اورمسلمان بنایا ہے۔ ‘‘ کھانے سے قبل اور بعد ہاتھ دھو یاکرتے۔

2. جب تک کھانے کی اشتہا نہ ہوتی، کبھی نہ کھاتے، اور ابھی اشتہا باقی ہوتی کہ کھانا ختم کر دیتے۔

4. کھانے کے فوراً بعد سونا پسند نہیں فرماتے تھے، بلکہ چہل قدمی کرتے یا نماز پڑھتے۔

5. تکیہ لگا کر کھانا کھانا پسند نہ فرماتے، کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تکیہ لگانے سے معدہ کی حالت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ کھانا اچھی طرح بہ آسانی اپنی جگہ نہیں پہنچتااور ہضم ہونے میں دیر لگتی ہے۔

6. تین انگلیوں سے کھانا کھاتے۔

7. گرم اور سرد اور دیگر متضاد اثر والی غذاوں کوجمع نہیں فرماتے تھے اور موسموں کے مطابق غذا میں تبدیلی لاتے تھے۔

8. کئی دنوں تک مسلسل ایک ہی قسم کی غذا نہیں کھاتے تھے بلکہ اس میں مناسب تبدیلی لاتے تھے۔

9. کھانا کھانے میں عجلت سے کام نہیں لیتے  تھے، آہستہ آہستہ کھاتے تھے۔

10. بیٹھ کر کھاتے تھے، بیٹھنے کا انداز عاجزانہ اور متواضعانہ تھا۔ آپؐ دو زانوں ہو کر تشریف رکھتے اور اپنے قدموں کی پشت پر بیٹھتے یا دایاں قدم کھڑا کر کے، بائیں قدم پر تشریف رکھتے تھے۔

11. گرم کھانے میں پھونک نہیں مارتے تھے اور نہ گرم گرم کھاتے، بلکہ اس کے سرد ہونے تک انتظار فرماتے۔ گرم کھانا معدے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ٹھنڈا پانی پینے سے دانتوں کی بیما ریاں جنم لیتی ہیں۔

12. ہمیشہ آپؐ سامنے سے کھانا کھاتے تھے اور وہی کھاتے جو آپؐ کے قریب ہوتا۔

13. آپؐ نے کبھی بھی طعام میں عیب نہیں نکالا اور نہ کبھی اس کی مذمت کی۔ کیونکہ یہ طعام کی بے عزتی اور توہین ہے۔ اگر کھانا طبیعت کے موافق ہوتا تو تناول فرماتے، ورنہ چھوڑ دیتے۔

14. ان سبزیوں کے کھانے سے پرہیزکرتے جن کی بو سے دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو… مثلاً کچی پیاز، لہسن یا دیگر بدبو دار اشیاء؛ البتہ ان چیزوں کو پکا کر کھا لیتے  یا کھانے کے بعد منہ اچھی طرح صاف کر لتے  یا کوئی ایسی چیز کھا لیتے ؛جس سے اس کی بدبو ختم ہو جائے۔

علامہ ابن قم فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ وہ غذا استعمال فرماتے تھے جس میں مندرجہ ذیل تین اوصاف ہوں :

1. قوائے جسمانی کے لیے مفید ہو۔

2. معدے کے لیے خفیف اور نرم ہو۔

3.جلد ہضم ہونے والی ہو۔ (زاد المعاد، کتاب الطب)

ان تمام آداب سے خوراک کے بارے میں حضور صلی اللہ علہ وسلم کی نفاستِ طبع اور حسنِ انتخاب کا پتا چلتا ہے۔ ان کے اثرات جسمِ انسانی پر دوررس اور مفیدظاہرہوتے ہیں اور صحت و صفائی کے ساتھ ان کا گہرا ربط معلوم ہوتا ہے۔

خلاصہ کلام :

اگر آج بھی متوازن اور سادہ غذا کا استعمال اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کیا جائے، مغربی امپورٹڈ غذائوں، فاسٹ فوڈز اور دیگر کیمیکلز سے بننے والی اشا ء سے گریز کیا جائے تو بہت سے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔