عالمی یوم گردہ: گردے کی صحت سب کے لیے سبھی جگہ

محمد مشیر عالم

عالمی یوم گردہ کا چودہواں اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے۔جس کا مقصد گردے کے امراض کے حوالے سے عوامی شعوری بیداری پیدا کرنا ہے۔  ورلڈ کڈنی ڈے (عالمی یوم گردہ) منانے کا مقصد گردے کی اہمیت ، خرابیاں اور بیماریوں سے متعلق شعور و آگاہی دینا ہے۔

عالمی یوم گردہ ہر سال مارچ کے دوسرے جمعرات کو منایا جاتا ہے۔پہلی بار اسکی شروعات سن 2006ء میں کیا گیا جو ابتک جاری ہے۔ اس دن کو متعارف کروانے میں مشترکہ جدوجہد انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی (ISN)اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فاؤنڈیشن (IFKF) نے کی ہے۔

دنیا کے اکثر ممالک میں مریض، گردے کی تکلیف سے بر وقت آگاہ نہیں ہوتے جس سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سال معمول کے مطابق مارچ مہینے کے دوسرے جمعرات یعنی 14  مارچ کو  عالمی یوم گردہ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس سال خاص اہمیت دی گئ ہے کہ گردے کی صحت سب کے لئے سب جگہ دستیاب کی جا سکے۔عالمی یوم گردہ 2019 کا نعرہ ہے "گردے کی صحت سب کے لئے سب جگہ”

گردے کی بیماری عالمی سطح پہ ایک عوامی مسعلہ ہے۔ عالمی سطح پہ ہر دس میں سے ایک شخص گردے کی بیماری کا شکار ہے۔ دنیاں میں تقریباً پچاسی کروڑ لوگ گردے کی بیماری سے پریشان ہیں۔ دنیان میں ہر سال چوبیس لاکھ لوگ گردے کی بیماری کی وجہ سے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ موت  کی وجہوں میں گردے کی بیماری کا چھٹھا نمبر ہے۔تقریباً تیس لاکھ لوگ ڈائلائسس یاٹرانسپلانٹ  پہ زندہ ہیں ۔ یہ تعداد ایک سروے کے مطابق سن2030 تک  60 لاکھ پہنچ جائگی۔ گردے کی بیماری کا علاج  بے حد مہنگا ہے۔ گردے کے علاج کے لئے  مہینے میں  30 سے 35 ہزار روپیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جو ایک عام آدمی کے پہنچ سے باہر ہے۔ لہٰذا اس سال  تمام بین لاقوامی ادارے خاص کر اقوام متحدہ(UN) اور  عالمی صحت تنظیم(WHO) نے گردے کی اہمیت اور اس میں ہونے والی بیماری اور علاج کے سلسلے میں عالمی برادری سے پر زور التماس کیا ہے کہ اس سے متعلق تمام تر ممالک میں قانون سازی کے پرگرام بنائے جائیں تاکہ گردہ کی بیماری سے متاثر  لوگوں کو طبی اور اس میں ہونے والے اخراجات کی مدد پہنچائ جا سکے۔

گردے کی ساخت

گردہ ایک حیرت انگیز عضو ہےجو ہمارے جسم کو صحتمند رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہر گردے کی لمبائی تقریباً 10سے 13سینٹی میٹر، چوڑائی تقریباً 5 سے 7.5سینٹی میٹر اور موٹائی تقریباً 2سے 2.5 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ ایک گردے کا وزن تقریباً 150سے 160 گرام ہوتا ہے۔

گردے کے افعال:

گردے انسانی جسم میں درج ذیل افعال سر انجام دیتے ہیں؛

*۔۔۔ جسم کے تمام ناکارہ اور فاضل مادے خارج کرتے ہیں خاص طور پر وہ مرکبات جو کہ لحمیات کے میٹا بولزم میں بنتے ہیں مثلاً یوریا اور یورک ایسڈ  کرئیٹینین  وغیرہ۔

*۔۔۔ جسم کے اندر پانی کی مقدار کو کنٹرول کرتے ہیں۔

*۔۔۔ جسم کے اندر مختلف چیزوں کی تعداد کو ایک خاص حد تک برقرار رکھتے ہیں، مثلاً تمام نمکیات وغیرہ۔اگر جسم میں نمکیات کی زیادتی ہو جائے تو گردے انہیں زیادہ مقدار میں خارج کریں گے اور اس طرح جسم میں نمکیات کی مقدار ایک خاص حد تک رہتی ہے۔

*۔۔۔ بہت ساری دوائیوں اور نقصان دینے والے مرکبات کو خارج کر دیتے ہیں

*۔۔۔ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتے ہیں اور بعض حالات میں جب بلڈ پریشر کم ہونے لگتا ہے تو یہ ’’رینن کمپاؤنڈ‘‘ بناتے ہیں۔ یہ مرکب دل اور پھیپھڑوں کے علاوہ تمام جگہوں کی خون کی نالیوں کو سکیڑ دیتا ہے جس سے بلڈ پریشر نارمل حالت میں آ جاتا ہے۔

*۔۔۔ یہ ریڈ بلڈ سیلز کے بننے کے عمل میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ یہ ایک مرکب ’’اریتھرو پائی ٹین ‘‘ بناتے ہیں جو ریڈ بلڈ سیلز بننے کے عمل کو تیز کر دیتا ہے۔

گردے کی بیماریوں کی وجہیں:

‌ ماہرین طب کے مطابق گردوں کے بیشتر امراض کی بنیادی وجہ بلڈ پریشر اور شوگر کے مرض میں اضافہ ہے۔  ذیابطیس ۔ ہائی بلڈ پریشر، گردوں کی پتھری، موٹاپا گردوں میں مختلف بیماریاں  پیدا کرتی ہیں۔ گردے کی دائمی بیماری میں تقریباً ۳۵ سے ۴۰ فیصد ذمہداری اکیلے ذیابطیس کی ہے اسکے علاوہ ہائ بلڈپریشر کی بےعلاجی ۳۰ فیصد گردے کی بیماری کی وجہ ہے۔گلومیریلونیفرائٹس گردے کی بیماری کی تیسری سب سے بری وجہ ہے۔پولیسسٹک کڈنی  گردے کی خاندانی اور موروثی بیماری ہے۔ پتھریاں اور توسیع پروسٹیٹ کی وجہ سے پیشاب کے بہاؤ پہ رکاوٹیں ادویات اور دیگر منشیات کا بے جا استعمال گردے کی بیماری کی دیگر وجوہات میں شامل ہے۔

گردے کے امراض کا معقول علاج:

‌ بدقسمتی یہ ہے کہ گردے کی دائمی بیماری کا مکمل علاج ممکن ہی نہیں۔ حالانکہ  شروعاتی وقت میں ہی اسکا پتہ چل جانے سے بیماری کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے یا اسکے خراب ہونے کی رفتار کو دھیمہ کیا جا سکتا ہے۔ شروعاتی مرحلے میں مرض کا پتہ چل جانے سے ادویات اور غذائیات کے ذریعہ سے مرض پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد گردے کے امراض کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن یہ ایک ایسی بیماری ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

گردے کے امراض کی بر وقت تشخیص کیلئے ضروری ہے کہ بلڈ، شوگر، بلڈ پریشر، یورین مائکرواسکوپی اور الٹرا ساؤنڈ کرائے جائیں۔

گردے کی شدید ناکامی ہونے کی وجہ سے جسم کے اندر مختلف قسم کے خطرے کی کیفیت شروع ہو جاتی ہے۔ مثلاً کھانے میں بے رغبتی، الٹی، جی متلانا، کمزوری محسوس ہونا، وزن کم ہو جانا، سانس پھولنا، تھکاوٹ محسوس ہونا، بدن میں خون کا کم بننا، ہڈی کمزور ہو جانا، جنسی خواہشات کا کم ہو جانا، بدن میں کھجلی ہونا وغیرہ وغیرہ۔ گردہ فیلیور کی ایسی حالت میں ڈائلائسس یا تبدیلی گردہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔

گردے کی بیماریوں سے بچاؤ:

طبی ماہرین کے مطابق گردوں کے امراض سے بچنے کیلئے پانی کا زائد استعمال، سگریٹ نوشی اور موٹاپے سے بچنا ضروری ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 50 کروڑ افراد گردے کے امراض میں مبتلا ہیں جن میں سالانہ ۱۰ فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق گردوں کے بیشتر امراض کی بنیادی وجہ بلڈ پریشر اور شوگر کے مرض میں اضافہ ہے۔گردوں کو صحت مند رکھنے کے لئے بلڈ پریشر چیک کروانا، سگریٹ نوشی نہ کرنا، جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ اور وزن میں کمی فائدہ مند ہے جبکہ کم نمک والی خوراک بھی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ مندرجہ ذیل باتوں کا خاص دھیان رکھنا نہایت ضروری ہے۔

روز تین لیٹر سے زیادہ پانی پینا چاہئیے

مستقل جسمانی ورزش کرنی چاہئیے اور وزن متعدل بنائے رکھنا چاہئیے

۴۰ سال کی عمر کے بعد کھانے میں نمک کی مقدار کم کر لینا چاہئیے

سگریٹ نوشی، شراب نوشی، اور ہر طرح کے نشہ خوری سے پرہیز کرنا چاہئیے

ڈاکٹر کے مشورہ کے بغیر غیر ضروری ادویات کا استعمال نہیں کرنا چاہئیے

بلڈپریشر اور ضیابطیس ہونے پر ہر تیسرے مہینے اسکی تشخیص کروانی چاہئیے اور مناسب دواؤں کا استعمال کرنا چاہئیے۔

محکمہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان میں متعدد افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں جبکہ ایسے مریضوں کی تعداد میں سالانہ 15 سے 20 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں آبادی کے حساب سے گردے کے ڈاکٹروں کی کمی ہے ،علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گردے کا مرض عام طور پر30 سے 40 برس کی عمر میں ہوتا ہے تاہم طبی رپورٹوں کے مطابق اب یہ مرض بچوں میں بھی ہونا شروع ہوگیا ہے۔

گردے کی بیماری کے علاج میں اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ بعض اوقات معاشی تنگدستی کے شکار خاندان کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مریض نے زندہ رہنا ہے یا خاندان نے بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا اور بیش بہا نعمتوں سے نوازا۔انسانی جسم کے ہر ایک عضو  کی صحیح کارکردگی صحت کی ضامن ہوتی ہے ۔ اِن میں معمولی سی خرابی بھی بسا اوقات زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ گردے بھی اعضائے ریئسہ کی فہرست میں آتے ہیں جو کہ انسانی جسم کے نچلے حصے میں کمر کے نیچے ریڑھ کی ہڈی کے دائیں بائیں ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف خون کے اجزائے ترکیبی کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ جسم میں خون کے دباؤ کا معیار بھی برقرار رکھتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہندوستان میں بہت بری تعداد میں ہزاروں لاکھوں افراد گردوں کی مختلف امراض میں مبتلا ہیں اور اِن کی تعدار میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے اور اِس کے کنٹرول کا متقاضی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گردوں کے ٹیسٹ اور علاج کےلئے نہ صرف خطیر رقم چایئے بلکہ مُستند ڈاکٹرز، ہسپتال ، لیباریٹریز اور سنٹرز کی ہر بڑے شہر میں ضرورت ہے متوسط طبقہ اور غریب لوگ اخراجات پوراکرنے کی سکت نہ رکھنے کہ وجہ سے عموماً اِس دنیا سے کُوچ کر جاتے ہیں۔

گردے کی بیماری کا احساس ہر دردمند انسان کے دل میں ضرور ہو گا اور ہونا چائیے مگر بیمار حضرات کی مدد اور علاج کی سہولت فراہم کرنے میں حکومتی لیول پہ کہیں نہ کہیں کمی ضرور ہے۔۔

کرو مہربانی تم اہل زمین پر

خدا مہربان ہو گا عرشِ بریں پہ

ملک میں گردے کی بیماری کے اعتبار سے گردے کے ڈاکٹروں کی شدید ضرورت ہے علاج نہیں دستیاب ہونے کے باعث اکثر افراد اس مرض کی تشخیص سے محروم رہتے ہیں اور علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد گردے کے امراض کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن یہ ایک ایسی بیماری ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا آپ تمامی حضرات سے گزارش ہے اس پروگرام میں خوب بڑھ چڑھکر حصہ لیں اور گردے کے مرض سے متعلق عالمی بیداری کا حصہ بنیں۔

تبصرے بند ہیں۔