عالم عربی کا تشویشناک منظرنامہ

سمیع اللہ خان

چند ماہ قبل اچانک شاہی روایات کو توڑتے ہوئے جب محمد بن سلمان کو موجود ولی عہد بن نائف کی جگہ ولی عہد مقرر کیا گیا تھا، اس وقت سے ہی یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں کہ، بن سلمان مملکت کی پالیسیوں کو تحلیل کرکے مملکت کی منفرد شناخت ختم کردیں گے، محمد بن سلمان کی اسرائیلی تھنک ٹینک اور دیگر فری میسن اداروں سے قرابتیں کھل کر سامنے آچکی تھیں، اور اماراتی  سفیر کے ہیک شدہ ای میل سے اس بات کے اشارے ملے تھے کہ، محمد بن سلمان قطر مقاطعہ کے کمانڈر تھے اور اس بہادری کے عوض انہیں تمغہ ضرور ملے گا، اور چند روز بعد ہی  وہ تمغہ سامنے آگیا مملکت کی ولی عہدی کی شکل میں  محمد بن سلمان سعودی عرب کی مکمل تجدید ایسی صورت میں کرنا چاہتےہیں جس سے مملکت کے دیگر بڑے متفق نہیں ہیں۔

ان میں سے بعض تبدیلیاں جو سماجی اور معاشرتی سطح کی ہیں ان کے لیے محمد بن سلمان کو کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے، جیسے، مملکت میں سنیما ہاؤس کی تعمیر، فحش ریزارٹس کا قیام، وغیرہ ۔

کچھ تبدیلیاں تعلیمی سطح کی ہیں – جیسے حال ہی میں ذخیرۂ حدیث نبوی ﷺ میں محمد بن سلمان کو کچھ مواد متشددانہ نظر آیا ہے، جس کی تطہیر کے لیے انہوں نے ایک کمیٹی قائم کی ہے، ایسے اور بہت سے اقدامات بن سلمان نے سعودیہ کے تعلیمی، ثقافتی اور سماجی ڈھانچے کی تبدیلی کے لیے کیے ہیں جن کا مقصد واضح ہے، لہٰذا ان اقدامات میں انہیں کسی خاطر خواہ رکاوٹ کا تو سامنا نہیں ہوا، کیونکہ جو لوگ اس کی مخالفت کرسکتے تھے وہ سب پابند سلاسل کردیے گئے ہیں، اور شاہی خاندان کے افراد یا تو خون کے گھونٹ پی کر مصلحتاً خاموش رہے یا تو ان تبدیلیوں سے چونکہ، ان کے ذاتی مفادات متاثر نہیں ہورہے تھے اس لئے انہوں نے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔

لیکن معاملہ یہیں پر تھمنا نہیں تھا بن سلمان کے جو معاہدات اب ولی عہدی سے منصب شاہی کے لیے سامنے آئے ہیں ان کی ڈور سعودیہ سے خلیج پر چھاتے ہوئے اسرائیل کے راستے فلسطین تک جاتی ہے، جو صرف سیاسی نوعیت کی ہی نہیں ہے بلکہ، معاشی اور ملّی غداری و غلامی سے عبارت ہے اور ہوگی۔

اب جبکہ محمد بن سلمان نے سعودیہ کے معاشی اسٹرکچر میں تبدیلیوں کے لیے کمر کس لی ہے جس کا دھڑا یہ ہے کہ، معیشت کا تیل کی تجارت سے انحصار ختم کروانا ہے، اور "ارامکو” جیسی کمپنی میں امریکی حصص کے دروازے کھولنا، نیز  اسرائیل سے معاشی تعلقات قائم کرنا۔

اگر یہ اقدامات ہوجاتے ہیں، تو ان کا راست اثر شاہی خاندان کے ملینیرز اور بلینیرز پر، پڑے گا ۔ سعودیہ کی تیل کمپنیوں میں اگر امریکی و اسرائیلی حصے داری ہوتی ہے تو، ظاہر بات ہے کہ، پھر یہ کسی بھی سطح پر شاہی خاندان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتی رفتہ رفتہ اس پر امریکہ اور اس کے فری میسن اعوان مکمل قابض ہوجائیں گے، امریکہ کی تاریخ اسی سے عبارت ہے، اور پھر ان شہزادوں کی ڈیلکس لائف تک کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، چنانچہ شاہی خاندان کے مؤثر تجار اس سمت بن سلمان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑے تھے، اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ایک رات آناً فاناً سعودیہ میں اینٹی کرپشن اسکواڈ تشکیل پاتا ہے، اس کے تحت جنگی پیمانے پر مملکت کے مؤثر ترین 11 شہزادوں کی ڈرامائی گرفتاری ہوتی ہے، اسی دوران میں ۲ شہزادوں کی پُراسرار ہلاکت ہوجاتی ہے ۔

ان اقدامات سے کچھ پہلے اور کچھ بعد میں جو بیانات ٹوئٹر پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جاری کیے وہ اس امکان کو پختہ بھی کرتے ہیں، سعودیہ میں جب محمد بن سلمان، شاہ، سلمان کی اجازت سے اینٹی کرپشن اسکواڈ کے واسطے سے شہزادوں کو گرفتار کررہےتھے اس وقت ڈونالڈ ٹرمپ ٹوئٹر پر یوں گویا تھے:

Would very much appreciate Saudi Arabia doing their IPO of Aramco with the New York Stock Exchange. Important to the United States!

مزید ان کارروائیوں پر بن سلمان اور سلمان کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے آج ٹرمپ نے لکھا ہے کہ:

I have great confidence in King Salman and the Crown Prince of Saudi Arabia, they know exactly what they are doing….

ان سب کے درمیان  لبنانی وزیراعظم کا جان جانے کے خوف میں استعفی سامنے آتا ہے، اسرائیلی وزارت عظمیٰ اس پر اپنے ردعمل کا یوں اظہار کرتی ہے کہ:

Prime Minister Benjamin Netanyahu made the following remarks this evening:
"The resignation of Lebanese Prime Minister Hariri and his remarks are a wake-up call to the international community to take action against the Iranian aggression that is trying to turn Syria into a second Lebanon. This aggression endangers not only Israel but the entire Middle East. The international community needs to unite and confront this aggression.”

یہ سب بتاتے ہیں کہ یہ گرفتاریاں ایک منصوبہ بند سازش ہیں، اور  شہزادہ مقرن کی ہیلی کاپٹر میں ہلاکت اور شہزادہ فہد کی فائرنگ میں موت طے شدہ سیاسی قتل ہوسکتےہیں اور لبنانی سیاست کے پھیر بدل شامی جنگ کے دیگر عزائم کے لیے ہوسکتے ہیں۔

گرفتار شدگان میں شہزادہ ولید بن طلال شہزادہ متعب بن عبدالله بھی ہیں،  جن میں سے بن طلال دنیائے معیشت کے مؤثر ترین شخص ہیں ان  کی سرمایہ داری، ٹوئٹر، سٹی گروپ سمیت اسنیپ چیٹ جیسی عالمی کمپنیوں میں ہے، خود ان کا تجارتی اسٹرکچر ” کنگڈم ہولڈنگ "دنیا بھر میں معروف ہے۔

شہزادہ متعب بن عبداللہ کی گرفتاری بھی ان معنٰی کی وضاحت ہے کہ محمد بن سلمان کےراستے کے تمام امکانی روڑے صاف کیے جارہےہیں جو بن سلمان کے بالمقابل تخت شاہی کے لیے خاندان سے مضبوط دعویدار ہوسکتےہیں۔

متعب بن عبداللہ شاہی خاندان کے سب سے مؤثر قبیلے ” شمر ” سے تعلق رکھتے ہیں اس قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کو سعودیہ میں شاہی کے لئے زیادہ موزوں خیال کیا جاتاہے، نیز وہ چیف آف نیشنل گارڈز تھے پہلے انہیں عہدے سے مستعفی کیا گیا پھر قید کرلیاگیا۔
شہزادہ ولید بن طلال اور شہزادہ متعب ان دونوں کے متعلق ایک اہم وصف یہ بھی بتایا گیا ہے کہ  اس وقت پورے شاہی خاندان میں تمام میں جتنی خرابیاں ہیں ان سب کے مقابلے میں یہ دونوں کم خراب ہیں، ان گرفتار شدگان میں غیرت دینی کی کچھ رمق دوڑ رہی تھی۔
اس کے علاوہ ولید بن طلال کی ٹرمپ و اعوان سے کبھی بنی نہیں، انہوں نے کبھی بھی ڈونالڈ ٹرمپ کو پسند نہیں کیا، بلکہ کھلے بندوں ٹرمپ پر تنقیدیں کی تھیں اور سعودی معیشت میں ٹرمپ جیسوں کی شمولیت کے سخت مخالف تھے، 2015 میں شہزادہ ولید بن طلال نے کھل کر  ٹرمپ کو اس طرح نشانہ بنایا تھا کہ  ٹرمپ نے ولید بن طلال کو دھمکی بھی دی تھی، نیز حال ہی میں نیویارک معاشی اسٹینڈ  تاجروں کی ملاقات میں شہزادہ ولید بن طلال کے جونئیر ٹرمپ سے ہونے والی لفظی جھڑپ بھی خاصی معروف ہے، یہ سارے تناظرات تصویر کو اور صاف کرتےہیں۔

عالم عربی کے اس منظرنامے میں سعودی علماء کے درباری ٹولے نے صاف لفظوں میں محمد بن سلمان کے اقدام کی تائید کرتے ہوئے اسے سند جواز عطا کی، ہے  جب کہ واقعہ یہ ہےکہشرعی و قانونی ہر دو سطح پر یہ اقدام ناقابل قبول اور دھاندلی پر مشتمل ہے۔
اچانک اینٹی کرپشن اسکواڈ تشکیل ہوگیا، لیکن اس کی تفصیلات کا کوئی علم نہیں، اس کے حدود اربعہ کی کوئی وضاحت نہیں، ارکان و اسٹریٹجی بھی معلوم نہیں، اور پھر اب تک یہ بھی واضح نہیں کیا گیا ہے کہ، مملکت کا مالی شعبہ کس ڈھانچے کا ہوگا؟  اور اس میں کن بنیادوں پر کرپشن کی جانچ ہوگی؟ سعودیہ کے درباری علماء نے کرپشن مخالف مہم کو جائز کہہ کر سیاسی قتل و کارروائیوں کو سند دے دی، لیکن علماء کا یہ ٹولہ اب تک مملکت میں مالی ڈھانچے کے اسلامی حدود متعین نہیں کرسکے ہیں , علماء سعودیہ کے اس سودی کردار نے ان کا باقی بچا بھرم بھی توڑدیا ہے اور ان کی ضمیر فروش پالیسیاں ذرائع ابلاغ پر موضوع بحث ہیں۔

خلیج اور عرب کی مجموعی صورت حال جس طرح دھماکہ خیز ہوتی جارہی ہے اس کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے کسی بھی بڑے خطرے سے انکار نہیں کیا جاسکتا، نیز اس وقت جو کچھ احوال گردش میں ہیں، اسامہ بن لادن کو لیکر سی آئی اے کی تازہ سرگرمیاں، اسی طرح لبنان و بحرین کی تازہ سیاسی تصویر اور قطری بائیکاٹ کے احوال گردش، شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کے جھنڈے تلے مملکت سعودیہ کی امریکہ و اسرائیل کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی قربتیں، منہ بولتی صورت حال ہیں ان  کو مجموعی حیثیت سے الگ کرنا اور پھر سے صرف اور صرف سعودیہ کی اسٹیٹ پالیسی کے ضمن میں دیکھنا اور سمجھنا دانشمندی نہیں ہوگی۔

دوسری جانب خلیجی وکی لیکس نے سعودیہ میں ہونے والی کارروائیوں پر انکشاف کرتے ہوئے لکھا یے کہ:

‏تم اعتقال”الوليد بن طلال”بسبب تهديده قبل أيام فى اجتماع للأسرةالحاكمة فى حال لم يطلق سراح”محمد بن نايف”سيسحب كل أمواله من المملكة إلى أوروبا۔

وکی لیکس کے اس انکشاف میں بھی دم خم ہے اور مڈل ایسٹ ائی کے بشمول مغربی میڈیا بھی  اس پر بات کررہاہے، بہر صورت محمد بن سلمان کے یہ اقدام مملکت کو کمزور کرہی رہےہیں اس کی سالمیت کو بھی داؤ پر لگارہے ہیں، شہزادے کے یہ اقدامات سعودیہ کو مکمل  کھوکھلا کردینگے،اور یہ یونہی تاریخی اتفاق ہے یا واقعی تاریخ گردش میں ہے، کہا نہیں جاسکتا کہ:

لبنانی وزیراعظم کے سعودیہ میں استعفیٰ نے 20 سال قبل کویتی امراء کی یاد دلا دی جن کو سیاسی داؤں پیچ کی بنا پر سعودیہ آکر خود سپردگی کرنی پڑی تھی، لبنانی وزیراعظم کی صورت حال کو کویتی پس منظر میں دیکھا جائے تو اس  کے بعد قریبی بحرینی سیاست کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس کے متعلق یہ کہا جاسکتاہے کہ اگلا نمبر بحرین کا ہوسکتا ہے اور یوں پورا خلیج اس بحران کی چپیٹ میں اور جکڑ جائے گا ۔

محمد بن سلمان اور شاہ سلمان کے تازہ ترین اقدامات سے عالمی سطح پر بڑے بڑے سرمایہ کاروں کی نیندیں اڑنا طے ہے، نیز بن سلمان کی مجروح شبیہ سے سرمایہ کاروں کا بدکنا بھی ممکن ہے، اس کے ساتھ ہی سعودی معیشت کی آن دی ریکارڈ امریکہ و اسرائیل منتقلی بھی جلد ہوجائے گی، عالم اسلام کے زبوں حالات میں لوگ سعودیہ کو سہارا تصور کرتےتھے لیکن خطۂ نبوی ﷺ کا جس طرح مغربی ماڈرنائزیشن ہورہاہے اور جس طرح امریکہ و اسرائیل کی سعودیہ سے پینگیں بڑھتی جارہی ہیں اور سعودی قیادت میں جس طرح ہمارے یہاں دجالی کہے جانے والے فتنے کے سامان فراہم ہورہےہیں وہ مسلمانان عالم کو مہمیز لگاتےہیں کہ وہ ان حالات کو احادیث و سیرت کی روشنی میں  ابواب فتن کے ماہر علماء سے سمجھیں، کوئی بعید نہیں کہ احمق شہزادہ کب  امریکی و صہیونی تھنک ٹینک کے ہاتھوں میں کھیلتے کھیلتے دنیائے اسلام کے عظیم ورثے قبلۂ اول یعنی کہ فلسطین اور بیت المقدس سے کھیل جائے اور اس کا سودا کر بیٹھے کیوں کہ، اگلے قرائن اسی طرف اشارہ کرتے ہیں . اور مملکت سعودی عرب کے بشمول امارات و خلیج پر جس طرح صہیونی پنجے کسے جارہےہیں، فری میسن کی صہیونی شطرنجی بساط جس پوزیشن میں ہے، ابھرنے کی بظاہر صورت نظر نہیں آتی، عوامی بیداری ہوتی تو کچھ امیدیں باندھی جاسکتی تھیں , لیکن یہاں عرب بہاریہ کے بعد سے پورے خلیج کی عوام کو مزید عشرت کدوں اور نفسانی تسکین کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور بیدار کرنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے یا تو جلاوطن۔

تبصرے بند ہیں۔