رسول اللہ ﷺ بحیثیت شوہر

محمد جميل أختــر جليلي

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کائنات کو نیست سے ہست میں لایا، پھر اس کا بناؤ سنگھار کیا، زمین کو پیڑ پودوں سے آراستہ کیا، پرشکوہ پربت نصب کرکے اس کے اندر قوت و طاقت بخشی، نہریں اور میٹھے میٹھے چشمے جاری کرکے اس کے حسن میں اضافہ کیا۔ عارضِ سماکو چمکتے ہوئے ستاروں سے سجایا، اس کی جبین پر قُرصِ ابیض رکھ کر قابل تعریف اور لائق صد تحسین بنایا، اس کے ہونٹوں پر سرخی کا غازہ لگا کر شعرا کی غزل گوئی، ادباء کی ادب نوازی اور خطباء کی خطابت آفرینی کے لئے کئی حسین پہلو دئے۔ اور یہ ساری چیزیں صرف اُس کے استقبال کے لئے تھیں، جسے رب العالمین اپنا خلیفہ اور جانشین بنانا چاہتا تھا۔

 اب غور کرنے کی بات ہے کہ جس جانشین کے استقبال کے لئے اس قدر سجاوٹ اور جس خلیفہ کی آمد کے لئے اس طرح سنگھار اللہ تعالیٰ نے کیا، اسی جانشین اور خلیفہ کی زندگی کو خوشیوں سے بے بہرہ کیسے رہنے دیتا؟ اُس کی حیات کو کیوں کر بے کیف اور بے سرور ہونے دیتا؟ اور اس کی زیست کو شادمانیوں سے خالی رہنا کیسے وہ پسند کرتا؟ چنانچہ اسے بھی عقل کی دولت سے مالا مال کیا، ثروت و سطوت عطا کی اور خوشیوں کی انتہائی نعمت ’’بیوی‘‘سے بھی نوازا اور اسے قابل ِسکون اور لائقِ قرار بتایا:…(الروم:۲۰)

 انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ ایسے ہم مزاج اور ہم مذاق کی جستجو کرتی ہے، جو ایک طرف اس کی طرب کی محفل کو سنوار اور خوشی کی بزم کو سجا سکے، مزاح کی مجلس کو گرم اور مذاق کی انجمن کو آراستہ کرسکے تو دوسری طرف پشت ِ ناتواں پر ٹوٹے ہوئے کوہِ الم کے تحمل میں تعاون اور غم کے چھائے ہوئے بادل کو دور کرنے میں مدد دے سکے، روٹھی ہوئی مسکراہٹ کو بحال اور رنج کے اشکوں کو ٹال سکے، جو اس کے درد کا درماں اور اس کے دکھ کا مداوا بن سکے، قرآن مجید نے اپنی بلیغ تعبیر میں اس کو اس طرح ادا کیا ہے: ھُنَّ لِبَاسٌ لَکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَہُنّّْ(البقرۃ: ۱۸۷ ) ’’وہ تمہارے لئے لباس اور تم ان کے لئے لباس ہو‘‘۔

 لباس انسان کے لئے زینت کا باعث بھی ہے اور سرد و گرم سے حفاظت کا ذریعہ بھی، اسی طرح وہ اس کے عیوب کے لئے پردہ پوش بھی ہوتا ہے اور سلامتیِ فکر کے لئے حجت اور دلیلِ عقل و ہوش بھی  —— میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے لئے مانندِ لباس ہیں ، ایک دوسرے کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے ہیں ، ایک دوسرے کے غم کو ہلکا اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں ، کارزارِ حیات میں مصائب و مشکلات کا سامنا مل کر کرتے ہیں ، دائمی مصاحبت کی وجہ سے کبھی معمولی رنجش بھی پیداہوجاتی ہے؛ لیکن ترک ِگفتگو اور ہجر کے نتیجے میں اسی قدر ؛بل کہ اِس سے کہیں زیادہ ٹیس بھی پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ کوئی قابل ِ مذمت بات بھی نہیں کہ فطرت انسانی کے یہ مطابق ہے۔

  حضور ا کو ہمارے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ قرار دیا گیا ہے، ارشاد ہے :  …(الأحزاب: ۲۱)’’رسول اللہ ا میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے‘‘۔ آپ اکی یہ مثالیت زندگی کے تمام شعبوں میں ہے۔ اس حیثیت سے آپ اکی حیات، ازدواجی زندگی میں بھی ہمارے لئے نمونہ ہے۔ آئیے ہم دیکھتے چلیں کہ آپ اہمارے لئے ’’شوہر کے روپ‘‘ میں کس طرح نمونہ ہیں ؟

خاطرداری

مرد کی شادی ایک ایسی عورت سے ہوتی ہے، جو دوسرے خاندان، دوسرے محلہ اور دوسرے کی تربیت میں پلی بڑھی ہوتی ہے۔ شادی کے بعد وہ ایک ایسے اجنبی ماحول میں آجاتی ہے، جہاں کا کبھی اُس نے خواب بھی نہیں دیکھا ہوتا ہے، جہاں کی ہر چیز نامانوس ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں دلداری کی ضرورت پڑتی ہے، خصوصیت کے ساتھ اس خاتون کے ساتھ، جو ناکتخدا ہو، شوہر دیدہ خواتین کے ساتھ ایسا معاملہ اس لئے کم پیش آتا ہے کہ وہ کسی قدر سسرالی ماحول سے واقف ہوچکی ہوتی ہیں ۔

 آپ اکی گیارہ بیویاں تھیں ، جن میں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)واحد ناکتخدا تھیں ؛ چنانچہ آپ انے شادی کے بعد یہاں کے ماحول سے مانوس کرنے کے لئے ان کی کافی دل جوئی کی، حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)خود فرماتی ہیں : کنت العب بالبنات عندالنبیا، وکان لی صواحب یلعبن معی، فکان رسول اللّٰہا اذا دخل یتقمّعن منہ، فیسرّبھن الیّ، فیلعبن معی(بخاری، باب الانبساط الی الناس، حدیث نمبر:۶۱۳۰، مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۵۹۶۸، صحیح ابن حبان، باب اللعب واللھو، حدیث نمبر:۵۸۶۳)’’میں آپ اکے یہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی ہوتی تھیں ، جب رسول اللہ ا گھر میں داخل ہوتے، تو وہ شرماتیں اور پردہ میں داخل ہوجاتیں ، آپ ا انہیں میرے پاس بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلتیں ‘‘۔علامہ عینیؒ اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں : ’’حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے ساتھ آپ ا کی اس طور پر دل جوئی تھی کہ آپ اان کے گڑیوں سے کھیلنے پر راضی تھے اور ان کی سہیلیوں کو ان کے پاس کھیلنے کے لئے بھیجتے تھے‘‘(عمدۃ القاری، باب الانبساط الی الناس:حدیث نمبر:۶۱۳۰ )

ایک مرتبہ آپ ا نے حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا)کے باری کے دنوں میں اُن کے حجرے میں اپنی باندی سے تعلق قائم فرمایا، حضرت حفصہ(رضی اللہ عنہا) نے اس کو محسوس کرکے کہا: اے اللہ کے نبی ا! آپ نے میرے ساتھ میرے حجرے میں اور میرے بستر پر وہ کام کیا ہے، جو اپنی کسی دوسری بیوی کے ساتھ نہیں کیا۔ آپ انے جواب میں فرمایا: کیا تم اس سے راضی نہیں کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرلوں اور اس کے قریب نہ جاؤں ؟حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا)نے کہا: کیوں نہیں (میں اس سے راضی ہوں )آپ ا نے فرمایا: اس کا تذکرہ دوسرے سے نہ کرنا، حضرت حفصہ(رضی اللہ عنہا) نے اس کا تذکرہ حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) سے کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) کی یہ بات آپ اپر ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے نبی آپ اس چیزکو اپنی ازواج کی خوشنودی چاہتے ہوئے اپنے لئے کیوں حرام کرتے ہیں ، جسے اللہ نے حلال کیا ہے‘‘؟(کنزل العمال، سورۃ التحریم، حدیث نمبر:۴۶۶۸)آپ انے اپنی جائز باندی کو صرف اس لئے اپنے اوپر حرام قرار دیا؛ تا کہ حضرت حفصہ(رضی اللہ عنہا)کا دل نہ ٹوٹے، یہی وجہ ہے کہ آپ انے ان سے یہ کہا: کیا تم اس سے راضی نہیں کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرلوں اور اس کے قریب نہ جاؤں ؟

 حضرت سودہ بنت زمعہ(رضی اللہ عنہا) حدت مزاج تھیں اور دیگر ازواج کے مقابلے میں جسیم اور کبیرالسن بھی تھیں ، آپ ا نے (کسی وجہ سے)انہیں طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے آپ اسے عرض کیا:لا تطلقنی و امسکنی، واجعل یومی لعائشۃ۔(ترمذی، کتاب التفسیر،سورۃ النساء، حدیث نمبر:۳۰۴۰، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر:۱۱۷۴۶)’’مجھے طلاق مت دیجئے اور اپنے نکاح میں روکے رکھئے اور میری باری عائشہ (رضی اللہ عنہا)کو دے دیجئے‘‘۔ آپ انے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ایسا ہی کیااوراُن کوطلاق نہیں دیا۔

 حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ امیرے دروازے پر کھڑے تھے اور حبش کے لوگ نیزہ بازی کررہے تھے، آپ انے اپنی چادر میں مجھے چھپالیا؛تا کہ میں آپ اکے کانوں اور گردن کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھ سکوں ، آپ امیری وجہ سے کھڑے رہے ؛یہاں تک کہ میں خود لوٹ آئی۔(مسند احمد،حدیث نمبر:۲۵۳۳۳، مصنف ابن عبدالرزاق، باب اللعب، حدیث نمبر:۱۹۷۲۱)  —–بیویوں کے ساتھ آپ ا کی دلجوئی اورخاطرداری کی یہ کچھ مثالیں ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شوہر کی حیثیت سے آپ اپنی ازواج کی کس قدردلجوئی فرماتے تھے۔

 آج ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں کہ کتنے ایسے لوگ ہیں ، جو اپنی بیوی کی دلجوئی کرتے ہیں ؟ ان کی ہر بات کی تردید کیا ہماری ہابی نہیں بن چکی ہے؟ کیا ہم نے انہیں فقط کام کرنے کا پرزہ تصور نہیں کرلیاہے؟ اگر وہ کسی بات پر ناراض ہوجائے تو کیا ہمیں اس کی رضامندی کی فکر ہوتی ہے؟ کاش ! ہم بھی اپنی بیویوں کے ساتھ آپ ا کا سا سلوک کرتے!!

نفقہ کی ادائے گی

  ازدواجی بندھن میں بندھ جانے کے بعد بیوی کا نفقہ ہر مرد پر لازم ہوجاتا ہے، آپ ا اپنی بیویوں کا نفقہ قبل ازوقت دے دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرص فرماتے ہیں کہ بنونضیرسے جومالِ غنیمت آتا، وہ آپ ا کے لئے خاص تھااورآپ ا اس سے سال بھراپنی ازواج پرخرچ کرتے تھے۔(مسلم، باب حکم الفیٔ، حدیث نمبر:۱۷۵۷)

آج جب ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں توبہت سارے افرادایسے نظرآتے ہیں ، جن کی بیویاں کئی کئی سالوں سے میکے والوں کے اخراجات پراپناگزربسرکررہی ہیں ، نہ انہیں شوہرکی طرف سے خرچ ملتاہے اورناہی شوہرانہیں اپنے گھرلاتاہے، ظاہرہے کہ آج کل کے ہوش رباگرانی کے زمانے میں وہ خودہی میکے والوں پراپنے آپ کوبوجھ سمجھنے لگتی ہیں ، جس کی وجہ سے وہ ذہنی خلجان میں مبتلاہوکربسااوقات خودکشی تک پراترآتی ہیں اورخدانخواستہ اگرمیکے والے بھی تنگ گزران اورخستہ حالی کے شکارہوں توبسااوقات یہ خواتین آتش بھوک کومٹانے کے لئے غلط راستے اختیارکرنے پربھی مجبورہوجاتی ہیں ۔ایسے شوہروں کوآپ ا کے اِس عمل سے سبق حاصل کرناچاہئے اوراپنے اوپرلازم ذمہ داری کے عدمِ ادائے گی پراللہ تعالیٰ کی پکڑسے ڈرتے رہناچاہئے کہ ’’ہرشخص سے اُس کے ماتحت کے بارے پوچھاجائے گا‘‘۔

مشورہ

عورتوں کو مردوں کا حصہ قرار دیا گیا ہے، آپ ا کا ارشاد ہے: إن النساء شقائق الرجال۔( ترمذی،باب ماجاء فیمن یستیقظ فیری بللا، ولایذکراحتلاما، حدیث نمبر:۱۱۳) ’عورتیں مردوں کے ہم مثل ہیں ‘‘۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مردوں کو اس بات کا اعتراف ہونا چاہئے کہ عورتیں ان سے کم رتبہ نہیں ہیں ۔ بیوی جب اپنے شوہر کے گھر قدم رکھتی ہے تو یہ سوچ کررکھتی ہے کہ میری حیات اسی کے ساتھ گذرے گی اور میری موت بھی اسی کے گھر میں آئے گی۔میری خوشیاں اور میرے غموں کا ساتھی یہی میرا شوہر ہے، پھربیوی ایفائے عہد کا پتلا بن جاتی ہے، مار کھاتی اور مشقت برداشت کرتی ہے ؛ لیکن کبھی بھی اپنے شوہر کے خلاف اپنی زبان سے ایک لفظ نکالنا گوارا نہیں کرتی، ایسی بیوی سے گھرکے کسی معاملہ میں اگر گفتگو نہ کی جائے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟

 آپ ا بسااوقات بہت ہی اہم امور پر بھی اپنی بیویوں سے مشورہ لیتے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع سے صحابہ نے گھٹن کی کیفیت میں مبتلا ہوکر آپ اکے کہنے کے باوجود جب حلق نہیں کرایا تو حضرت امِ سلمہ (رضی اللہ عنہا)نے آپ اکو یہ مشورہ دیاکہ آپ خود حلق کرائیں اور ان سے ایک لفظ کہے بغیر ہدی کے جانور نحرکریں ، آپ ا نے ان کے اس مشورہ پر عمل کیا، جب صحابہ ثنے آپ کو حلق کرائے جانور نحر کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے بھی حلق کرالیا اور اپنے ہدی کے جانور ذبح کئے(بخاری، باب الشروط فی الجھاد، حدیث نمبر:۲۷۳۲)

  آج ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کیا ہم بھی بیوی کے کسی مشورہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟ کیا ہم نے انہیں بے عقل نہیں سمجھ لیاہے؟ اور ان کی ہر بات پر قد غن لگانے نہیں بیٹھ جاتے ہیں ؟ کیا ہم نے انہیں وہ حیثیت دی ہے، جو قرآن اور زبانِ نبوت نے دی ہے؟ انہیں مردوں کا ہم مثل قرار دیا گیاہے، کیا ہم نے انہیں اپناہم مثل مانا ہے؟ ہم نے تو یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کی کوئی بھی بات قابل اعتنا نہیں ہوتی؛ حالانکہ بہت سارے امور ایسے ہو سکتے ہیں ، جن میں ان کی رائے ہی درست ہو؛ اس لئے ان کی ہر بات کو غور کئے بغیر ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالنا چاہئے اور آپ ا کے عمل کو اپنے لئے راہِ عمل بنانا چاہئے۔

باری کی تقسیم

حضور اکرم ا کی ازواج کی تعداد گیارہ تھی؛لیکن ایک وقت میں آپ اکے پاس نوسے زیادہ نہیں رہیں ، آپ انے ہر ایک کے لئے باری متعین کررکھی تھی؛ تا کہ کسی بھی بیوی کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو؛ البتہ آخر ی عمرمیں حضرت سودہ (رضی اللہ عنہا)نے اپنی باری حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کو دے دی تھی؛چنانچہ آپ ا ان کے پاس دو دن تشریف لے جاتے تھے۔(شرح مشکل الاثار، باب بیان مشکل ماروی عن رسول اللہ ا فی التی کان لایقسم لہامن النساء، حدیث نمبر:۲۳۶۰)

  آج ہمارے معاشرہ میں بہت سارے ایسے افراد ہیں ، جو ایک سے زائد شادیاں کرلیتے ہیں ؛ لیکن ان کے مابین باری کی تقسیم نہیں کرتے، ایک بیوی کو بالکل کالمعلقہ بناکر رکھ دیتے ہیں ، جب کہ دوسری بیوی کے ساتھ دادِ عیش دیتے رہتے ہیں ۔ کاش ایسے لوگ آپ ا کے عمل سے نصیحت حاصل کرتے۔

بیویوں کے مابین عدل

  آپ اکے پاس نو بیویاں تھیں ؛ لیکن کسی کو یہ شکایت کبھی نہیں ہوئی کہ آپ اہمارے درمیان عدل نہیں کرتے، خود حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) اپنے بھانجے عروہ کو مخاطب کرکے فرماتی ہیں : کان رسول اللّٰہا لا یفضل بعضنا علی بعض فی القسم من مکثہ عندنا۔(ابوداؤد، باب فی القسم بین النساء،حدیث نمبر:۲۱۳۷)’’رسو ل اللہ ا ہمارے پاس ٹھہرنے کی تقسیم میں کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتے تھے‘‘؛حتی کہ ایک بیوی کی باری میں دوسری بیوی سے مس تک گوارا نہیں فرماتے؛ چنانچہ حضرت انسص ایک مرتبہ کا وقعہ نقل کرتے ہیں کہ آپ ا حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر تشریف فرما تھے، حضرت زینب (رضی اللہ عنہا)نے آپ اکی طرف اپنا ہاتھ دراز کیا، حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے آگاہ کرتے ہوئے کہا:یہ زینب ہیں ، آپ ا نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔(مسلم، باب القسم بین الزوجات…، حدیث نمبر:۱۴۶۲)؛البتہ آپ اکا یہ عدل مقدور چیزوں (باری، کھانا، کپڑا، رہائش وغیرہ) میں تھا، غیر مقدور چیزوں کے سلسلہ میں آپ اخود دعاء فرماتے تھے:اللّٰھم ھذا قسمی فیما املک، فلا تلمنی فیما تملک ولا املک۔(السنن الکبری للبیھقی، باب ماجاء فی قول اللہ عزوجل :ولن تستطیعواأن تعدلو ابین النساء …، حدیث نمبر:۱۵۱۴۲)’’اے اللہ اس چیز میں یہ میری تقسیم ہے، جس پر میں قدرت رکھتا ہوں ، آپ اس چیز پر میری ملامت نہ کیجئے، جس پر آپ قدرت رکھتے ہیں ، میں نہیں ‘‘۔

 ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں ۔ کیا ایسے افراد نہیں ملتے، جو ایک سے زائدبیویاں رکھتے تو ہیں ؛لیکن ان کے درمیان عدل کا معاملہ نہیں کرتے؟ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ ایک بیوی کو تو سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، جب کہ دوسری بیوی کے ساتھ اچھوت جیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ ایک بیوی کے لئے تو بہترین رہائش اور دنیاوی آسائشیں مہیاکی جاتی ہیں ، جب کہ دوسری بیوی دانے دانے کی محتاج ہوتی ہے؟ ایک بیوی کے لئے تو ہزار سے اوپر کے کپڑے زائد از ضرورت خریدے جاتے ہیں ، جب کہ دوسری بیوی کو ڈیڑھ سوروپے والے ضرورت کے کپڑے بھی نہیں دیے جاتے؟ کاش ! ایسے لوگ آپ اکے عمل سے سبق لیتے اور آپ اکے اس فرمان پر توجہ دیتے، جس میں بیوی کے درمیان عدل نہ کرنے کی صورت میں تہدید آئی ہے، آپ اکا فرمان ہے: من کانت لہ امرأتا ن، فمال الی أحدھما، جاء یوم القیامۃ، وشقہ مائل۔(سنن الدارمی، باب فی العدل بین النساء، حدیث نمبر:۲۲۰۶)’’جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف جھک جائے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلوگرا ہوا ہوگا‘‘۔

مارپیٹ سے اجتناب

 بیوی بھی ایک انسان ہوتی ہے، لہٰذا انسانیت کے ناتے کبھی کبھی غلطیاں اس سے بھی سرزد ہوجاتی ہیں ، غلطیاں کبھی ایسی ہو تی ہیں کہ انسانی فطرت رکھنے والا شوہر قابو سے باہر ہوجاتا ہے اور بیوی پر ہاتھ چھوڑ بیٹھتا ہے۔ حضور ا کثیرالزوجات تھے، انسانی مزاج رکھنے والی ازواج سے کیا کیا لغزشیں وجود میں نہیں آتی ہوں گی؟ لیکن قربان جائیے ذات اقدس پر!کیسی بھی غلطی ہوتی، اس کی اصلاح میں کبھی بھی کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھاتے، حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں :ماضرب رسول اللہ ا خادما ولا امرأۃ قط۔ (ابوداؤد، باب فی العفو والتجاوزفی الامر، حدیث نمبر:۴۷۸۸، ابن ماجہ، باب ضرب النساء، حدیث نمبر:۱۹۸۴) ’’آپ انے کبھی بھی کسی خادم کو اور ناہی کسی بیوی کو مارا‘‘۔تاہم آپ ا نے بطور سرزنش بیوی کے لئے ہلکی مار کی اجازت بھی دی ہے؛ لیکن یہ سرزنش ہر چھوٹی بات پر نہیں ؛ بل کہ عدم اطاعت، سوء عشرت اور زبان درازی جیسے افعال پر ہے؛چنانچہ آپ ا نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی وصیت قبول کرو، بلاشبہ وہ تمہارے پاس مددگار ہیں ، تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کریں ، اگر وہ ایسا کریں تو ان کے بستروں پر الگ چھوڑ دواور ان کو غیر تکلیف دہ مار مارو۔(ترمذی، باب ماجا ء فی حق المرأۃ علی زوجھا، حدیث نمبر: ۱۱۶۳، ابن ماجہ، باب حق المرأۃ علی زوجھا، حدیث نمبر:۱۸۵۱)اس حدیث میں آپ انے تکلیف دہ مار مارنے سے منع فرمایا ہے، جب کہ دوسری حدیث میں آپ انے چہرے پر بھی مارنے سے روکا ہے، آپ انے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مارے تو چہرے سے پرہیز کرے اور ’’اللہ تیرے چہرے کو قبیح بنائے‘‘ جیسے جملے بھی نہ کہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ں کو اس کی صورت پر بنایاہے۔(مسند احمد، احادیث ابوہریرہ، حدیث نمبر:۹۶۰۴)

آج ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں ۔ کتنے ایسے لوگ ملیں گے، جواپنی بیویوں پر بات بے بات ہاتھ نہیں اٹھاتے؟ اور ایسی تکلیف دہ مار نہیں مارتے، جس سے جسم کے مختلف حصوں پر نشان ابھرآتے ہیں ؟ ہاتھ پیراور لاٹھی ڈنڈے سے تجاوز کرکے اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ چھتوں کی سیڑھیوں پر سے دھکا دے دیتے ہیں اور بعض ناہنجار اور خدا ناترس ایسے بھی ہیں جو آگ لگاکر جان ہی سے مارڈالتے ہیں ۔ ایسے خداناترس لوگوں کو آپ ا کے عمل سے موعظت حاصل کرنی چاہئے اور بیویوں پر ہاتھ اٹھانے سے توبہ کرنا چاہئے۔ اللہ اس کی توفیق دے، آمین!

غصہ اور ناراضگی

میاں بیوی ہر وقت ساتھ رہتے ہیں اور جہاں دائمی مصاحبت ہوتی ہے وہاں کبھی کبھی آپس میں اَنْ بَنْ بھی ہوجایا کرتی ہے، آپ ا یوں تو اپنی ازواج کا بہت زیادہ خیال فرماتے تھے؛ لیکن بے جا ضد اور اصرار پر ان سے ناراض بھی ہوتے تھے؛ چنانچہ جب ایک مرتبہ ازواج مطہرات نے نفقہ وغیرہ کے مطالبہ پر اصرار کیا تو آپ ا ان سے ناراض ہوگئے اور ایک مہینے تک ایلاء (گھرکی بالائی حصہ پرقیام فرمایا اوراس دوران کسی بھی زوجہ کسی طرح کاربط نہیں رکھا)فرمالیا۔(بخاری، باب الصلاۃ فی السطوح…،حدیث نمبر:۳۷۸)

آپ ا کے اس عمل سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ بیوی کی ہر جائز اور ناجائز بات اور مطالبہ کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے اور جہاں پر بیوی کی طرف سے اس طرح کی بیجاضد اور ہٹ دھرمی نظرآئے، وہاں پر برسبیلِ اصلاح اور تنبیہ ناراضگی کا اظہار بھی کیا جاناچاہئے کہ اعتدال کی راہ یہی ہے۔

قصہ گوئی

 بیوی انسانی مزاج رکھتی ہے اور انسانی مزاج کبھی کبھی مزاح اور قصہ گوئی جیسی دل چسپییوں کا خواہشمند ہوتا ہے، آپ ا نے اپنی ازواج کے ساتھ اس کی بھی رعایت کی ہے؛چنانچہ ایک رات آپ ا نے اپنی بیویوں کو ایک قصہ سنایا، یہ قصہ تعجب خیزتھا، چنانچہ بیویوں میں سے کسی نے کہا یہ تو (تعجب میں )خرافہ کے قصوں کی طرح ہے، آپ ا نے اس پر خرافہ سے متعلق دریافت فرماکراس کے بارے میں بتایا کہ وہ بنوعذرہ کا ایک شخص تھا،زمانۂ جاہلیت میں جنات اسے پکڑکر لے گئے تھے، پھرایک مدت کے بعد اسے انسانوں میں لاکر چھوڑدیا، اب وہ وہاں کی عجیب عجیب باتیں بتایا کرتا تھا(مسند احمد، احادیث عائشہ، حدیث نمبر:۲۵۲۴۴، کنزالعمال، حدیث خرافہ، حدیث نمبر:۸۲۴۴)۔اسی طرح حضرت عائشہ ؓ نے بھی آپ کو یمن کی گیارہ عورتوں کے بارے میں قصہ سنایا تھا(شمائل ترمذی، باب حدیث ام زرع، حدیث نمبر:۲۵۴)اورآپ ا نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی یہ پوری کہانی بھی سنی تھی اور اخیرمیں یہ فرمایا تھا کہ میں تمہارے لئے ابوذرع کی طرح ہوں ؛البتہ میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔

  آپ ا کے اس قصہ گوئی اور قصہ سننے کے عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیویوں کی دلجوئی اور خاطرداری کے لئے کبھی کبھی صدق پر مبنی قصے اور کہانیاں بھی سنانے چاہئیں کہ یہ چیزیں محبت اور الفت میں زیادتی کا باعث بنتی ہیں ۔

عبادت کی ترغیب

 آپ ا جس طرح دیگرچیزوں میں ازواج مطہرات کی رعایت اورخیال فرماتے تھے، عبادت کے باب میں بھی ان کاخیال فرماتے تھے۔ آپ ا کی ذاتِ گرامی توعبادت کی مشقتوں کے تحمل میں اعلیٰ نمونہ تھی ہی، آپ ا کی ازواج بھی اِس باب میں پیچھے نہیں رہتی تھیں ؛ چنانچہ ایک مرتبہ کاواقعہ ہے کہ آپ ا نے اعتکاف کے لئے خیمہ لگوایا، آپ اکودیکھ کرکئی ازواج نے بھی خیمے نصب کروالئے۔ (الموطاء للإمام مالک، باب قضاء الإعتکاف، حدیث نمبر: ۶۹۰)آپ ا خود بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔ حضرت ام سلمہ(رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ ایک رات آپ انے فرمایا: اللہ کی ذات پاک ہے! کیسے کیسے خزا نے اورفتنے اللہ نے اتارے! حجرے والیوں کوجگاؤ۔(صحیح ابن حبان، باب الفقروالزہدوالقناعۃ، حدیث نمبر:۶۱۹)، حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا)  فرماتی ہیں کہ جب رمضان کاآخری عشرہ آجاتاتوآپ ا ازارکس لیتے، خودشب بیداری فرماتے اوراپنی ازواج کوبھی جگاتے۔( بخاری، باب العمل فی العشر الأواخر من رمضان، حدیث نمبر:۲۰۲۴)

 آج ہم دنیاوی معاملات میں اپنی بیویوں کی فکرتوبہت زیادہ کرتے ہیں ؛ لیکن دین کے باب یاتوفکرہی نہیں کرتے یاتساہل پسندی سے کام لیتے ہیں ؛ حالاں کہ یہی آخرت کے سفرمیں کام آنے والا توشہ اورزادِراہ ہے۔آپ ا کے اسوہ سے ہمیں عبادت کے باب میں اپنی بیویوں کے رعایت کرنے کاسبق حاصل کرناچاہئے اوراس باب میں دنیاوی توجہات سے کہیں زیادہ فکرکرنی چاہئے۔

 یہ تھی آپ ا کی ازدواجی زندگی اوربیویوں کے ساتھ سلوک کی ایک جھلک! اگرپوری زندگی کااحاطہ کیاجائے اورازواج مطہرات کے ساتھ آپ ا کے سلوک؛ بل کہ حسنِ سلوک کاجائزہ لیاجائے توہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن نے بیویوں کے ساتھ جو’’حسنِ معاشرت‘‘ کاحکم دیاہے، آپ ا نے اُسے برت کرہمیں دکھادیااوراُس حکم کی عملی تفسیرہمارے سامنے پیش کرکے بتایا۔اللہ تعالیٰ ہمیں آپ ا کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق دے، آمین!

تبصرے بند ہیں۔