عالم ِارواح سے آصفہ کا پیغام : لال سنگھ اور گنگا کے نام

ایم شفیع میر

پیارے چچا لال سنگھ و گنگا جی!

آداب

پیارے چچا لال سنگھ اور چچا گنگا جی !!اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں آج اُس دنیائے فانی میں موجود نہیں ہوں جس فانی دنیا میں آج کل آپ کا سکہ چلتا ہے، جہاں آپ کی طوطی بولتی ہے، جہاں آپ کے اشاروں پرپورا نظام گھومتا ہے۔جہاں آپ کی سیاست کا بازار گرم ہے، جہاں آپ زندگی ختم کرنے اور بانٹنے کا کاروبار سنبھالے ہوئے، آپ کے اُسی معروف کاروبار کی شکار میں آصفہ آج عالم ارواح سے آپ کو ایک ایک خط ارسال کر رہی ہوں ۔ چچالال سنگھ اور چچا گنگا جی مجھے جب زبردستی اُس جہان ِ فانی سے اِس جہاں میں بھیجا گیا تو مجھے کافی ڈر تھا کہ میں کیسے ممی پاپا کہ بغیر اکیلی رہوں گی، مجھے یہاں پہنچتے پہنچتے سات دن کا طویل اور خوفناک، درد ناک، قہرانگیز سفر طے کرنا پڑا۔میں اُسی دن آپ کو خط لکھنے لگی تھی لیکن کوئی ایسا قاصد مل نہ سکا جو میرا یہ خط آپ تک پہنچاتا، گو کہ ہمارے یہاں قاصدوں کا ایک بہت بڑا لشکر موجود ہے لیکن سبھی نے میرا یہ خط آپ تک پہنچانے سے مکمل انکار کر دیا۔میرے  قاصد حضرات کا یہ کہنا تھا کہ پیاری آصفہ آپ تو دنیا چھوڑ گئی ہو اب ہم اپنی دنیا خراب نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اگر ہم نے آپ کا یہ خط سامنے لایا تو ممکن ہے کہ ہمیں بھی آپ کی طرح ہی دنیا سے اٹھا لیا جائے۔کافی کوشش کرنے کے بعد مجھے ایک قاصد ہاتھ لگا جس نے میرا یہ خط آپ تک پہنچانے کی حامی بھر لی اور میرے ساتھ وعدہ کیا کہ پیاری آصفہ میں آپ کا یہ خط میں ضرور سامنے لائوں گا شکر ہے میرے رب کا کہ اُس قاصد نے آج میرے ساتھ کیا ہوا وعدہ وفا کر دیا۔

  تو چچا لال سنگھ اور چچا گنگا جی !!یہ خط جو میں نے آپ کے خدمت میں ارسال کیا ہے برائے مہربانی آپ اِسے ضرور پڑھیں ،عرض اس طرح سے ہے کہ میں عالم ِارواح میں کافی اچھے دن گزار رہی ہوں ، مجھے کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں ہے، البتہ مجھے گزشتہ روز اُس وقت ایک زور دار جھٹکا لگا جب میں نے آپ کو ایک ایسی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دیکھاجو ریلی ایک ایسے درندہ صفت ملزم کے حق میں سراپا احتجاج ہے جس نے ایک آٹھ سالہ معصوم کلی کو اپنی ہوس کا شکار بنا کر اُسے قتل کر دیا۔ چچا صاحبو…!! میرا آپ سے کہنا چاہتی ہوں کیا آپ کے ہاں کسی بیٹی نے جنم لیا ہے؟؟ کیا آپ کو کسی نے جنا ہے؟؟ اگرہاں تو پھر آپ کونسی غلط فہمی کے شکار ہیں کہ کل آپ کی بیٹی، ماں ، بہن کے ساتھ بھی اس طرح کا سلوک ہو سکتا ہے۔میرے پیارے چچا لال سنگھ اور چچا گنگا جی ہوش کے ناخن لو، تم ایک بہت بڑی مصیبت کا دعوت دے رہے ہو،تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ سات دن میں نے کس طرح مصیبت میں گزارے ہیں تو تم اپنی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیں گے،اس خوف سے کہ جانے کہاں ، کون اور کس وقت ہماری مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں بھی  درندگی کا شکار ہو جائیں گی۔

 چچا لال سنگھ او ر چچاگنگا جی !!آپ کا اُس ریلی میں شامل ہو کر خطاب کرنے سے متعلق میں اس لئے پریشان ہوں کہ آپ اُس ملک اور تنظیم کے سیاست دان ہیں جس ملک کی تنظیم اوربادشاہ کا نعرہ’’بیٹی بچائو،بیٹی پڑھائو‘‘ ہے۔ آپ اُس ریاستی سرکار کے منتری ہیں جس سرکار کی وزیر اعلیٰ خاتون ہے، جس سرکار کی ایک سکیم کا نام ’’لاڈلی بیٹی‘‘۔تو صاحبو!! جن مظاہرین کا مطالبہ ایک معصوم ننھی کی عصمت کو تار تار اور قتل کرنے والے کی رہائی ہو اُن مظاہرین کے شانہ بشانہ آپ کا چلنا، یہاں تک یہ اُنہیں اِس شرمناک کھیل میں بھر پور تعاون فراہم کرنا’’بیٹی پڑھائو، بیٹی بچائو‘‘ اور سکیم ’’ لاڈلی‘‘ بیٹی جیسی اسکیم کی آڑ میں بیٹیوں کے ساتھ کیا جا رہا وہ برتائو ہے جو جہالت کے دور میں بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔آپ ہی بتائو کہ یا تو یہ نعرے اور اسکیمیں فریب ہیں یا پھر آپ میں انسانی اقدار کا فقدان ہے؟؟ آپ سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ یا تو آپ قوم کے رہبر بنیں یا پھر ایسے ہی درنددہ صفت انسانوں کی صف میں مکمل طور سے شامل ہو جائیں جو معصوم کلیوں کی عصمت کے بھوکے ہیں ۔

دو رنگی چھوڑ کے یک رنگ ہوجا

سرا سر موم ہوجا یا سنگ ہو جا

چچا لال سنگھ اور گنگا جی !! میں خطہ کے ذریعے آپ کو ایک راز کی بات بتانا چاہوں گی کہ جب عالم ِ ارواح میں میرا پہلا دن تھا چونکہ میں کافی تھکی اور ظلم و بربریت کی ماری تھی، میرے اوپر انتہا درجے کا خوف طاری تھا،اب میری بس ایک ہی تمنا تھی کہ رب ِ ذولجلا ل ! اب جس جہاں میں آپ نے مجھے لایا ہے مجھ پر لاکھ مصیبتیں مسلط کر لیکن کبھی میرا سامنا انسان سے نہ ہو؟؟چند روز گزرنے کے بعد میں کچھ قدرے ہو ش میں آئی میں نے دیکھا کہ میں تو پھر سے انسانوں کے پیچ آئی ہیں ، میں انسانوں کا یہ ہجوم دیکھ کر پھر سے خوف میں مبتلا ہوئی، مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوئی اور میں من ہی من میں بار گاہ ِ تعالیٰ میں دعائیں کرنے لگی کہ اللہ مجھے انسانوں سے بچانا،میں پناہ مانگتی ہوں ایسے انسانوں سے جن کی شکلیں تو انسانوں جیسی ہیں لیکن اُن کے روئے، ارادے اور کارنامے حیوانوں سے بھی بد تر ہیں ۔میں انہیں خیالوں میں گمسر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی اتنے میں کسی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا، میں نے اپنے سر پر انسان کا ہاتھ کیا دیکھا کہ میں چیخ اٹھی اور اسی چیخ کے ساتھ میں غش کھا گئی، میں بے ہوش ہو گئی، چند ہی لمحوں کے بعد میں ہوش میں آئی تو خود کو دو لڑکیوں کی گود میں پا یا۔میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان دونوں لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی گویا میں نے ایسے انسان پہلی مرتبہ دیکھے ہوں ۔ مجھے بے حد ڈر و خوف میں دیکھ کر وہ دونوں بہنیں مجھ سے کہنے لگیں پیاری آصفہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے ساتھ جو بھی ہوا اُس کے بعد انسانی شکل دیکھنا گویادرندگی کے بھوت کے چنگل میں جانا ہو لیکن آپ گھبرائیں مت، آپ ایسے انسانوں کی بستی سے ہو کر آئیں ہیں جہاں انسانی شکلوں میں بھڑیئے گھوم رہے ہیں ، جہاں صنفِ نازک کی عصمت محفوظ نہیں ، جہاں درندہ صفت چھوٹی چھوٹی معصوم کلیوں کواپنی ہوس کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔اب آپ ایک ایسی دنیا میں آئی ہو جہاں آپ محفوظ ہیں ۔میں دونوں بہنوں کی یہ باتیں سن کر کچھ قدرے پر اطمنان ہوئی، خود کو سنبھالا مجھے اُن بہنوں میں اپنے پن کی خوشبو آنے لگی تومیں فوراً اُن سے مخاطب، پیاری بہنو! اپنا تعارف کرائو، وہ دونوں بہنیں خاموش ہو گئیں ، تھوڑی دیر بعد میں پھر سے اُن سے مخاطب ہوئی آپ خاموش کیوں ہیں ؟ اپنا نام تو بتائیں ؟؟چند لمحے خاموش رہنے کے بعد ایک بہن بولی اُٹھی اور کہا میرا نام آسیہ ہے اور میرے ساتھ جو یہ دوسری بہن ہے اس کا نام نیلوفر ہے۔ میں نے فوراًآسیہ بہن سے سوالیہ انداز میں کہا تو آپ بتائیں کہ آپ یہاں کب، کیسے اور کس طرح پہنچیں ، آسیہ بہن نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ پیاری آصفہ یہ ایک انتہا درجے کی درد ناک کہانی ہے جو آپ کو سنانا بہتر نہیں ہوگا؟؟ لیکن میں کہانی سنانے پر بضد ہوئی تو آسیہ بہن نے کہانی سناتے ہوئی پورے عالم ِ ارواح میں ایسے سناٹہ بر پا کر دیا کہ ہر کوئی موجودہ دور کے انسان نما حیوانوں سے پناہ کی دعائیں مانگتادکھائی دیا۔

آسیہ بہن کی زبانی

29 مئی 2009بے بسی کا وہ دن تھاجس دن عزت کی رداؤں اور عصمت کی قباؤں کو بے رحم ہاتھوں نے رات بھر تار تار کیا29مئی 2009ء کو ہم اپنے باغ میں گئے تاکہ کھانے کے لئے سبزی لائیں لیکن ہم گھر سے باغ میں تو چل کر آئیں لیکن واپس لوٹ نہ سکیں ۔بد خصلت و شیطان صفت وردی پوشوں نے ہمارے ساتھ ظالمانہ فعل انجام دیا ؟ ہمارے معصوم جسموں کو جنسی تشدد کر کے چھلنی کر دیا۔ہم نے چیخا، ایک ایک کو پکارا،ہماری فلک شگاف چیخوں نے رمبی آرہ کے اردگرد کے درودیوار ہلادئیے تھے لیکن درندہ صفت حیوانوں نے اپنی درندگی کا اظہار کرتے ہوئے ہماری معصوم اور کھلتی جوانیوں پر ترس نہ کھایا، ظلم کا ایسا ننگا ناچ کھیلا گیا جو چشمِ فلک نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ پیاری آصفہ یہ بہت ہی المناک اور خون کے آنسو رلادینے والا واقعہ ہے۔

  آسیہ بہن کی زبانی یہ درد ناک کہانی سن کر مجھ عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی، میں خاموش ہو گئی، لیکن اب کی باردونوں بہنوں آسیہ اور نیلوفرنے میری خاموشی کوتوڑا اور کہا کہ بہن آصفہ آپ تو ابھی یہاں نئی نئی ہو کیاآپ ہمیں وہاں کے بارے میں کچھ بتائیں گی کہ وہاں پر آج کس طرح کے حالات ہیں ؟؟ کیا آج بھی وہاں پر لڑکیوں کیساتھ نا روا سلوک جاری ہے جس طرح ہمارے زمانے میں تھا۔ کچھ دیر میں خاموش رہی لیکن آخر کار مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے انہیں دنیامیں میرے ساتھ پیش آئی تمام روداد یوں سنا دی۔ پیاری بہنو!!میری عمر صرف آٹھ سال تھی، میں اپنے باپ کی شہزادی تھی، ایک دن میں مویشی لیکر جنگل کی جانب نکلی کہ راستے میں ایک انسان نما بھیڑیئے نے مجھے اٹھا لیا، سات روز تک میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا، ادھر میرے والدین پولیس تھانہ پر جاکر میری تلاش کی بھیک مانگے جار ہے تھے اور اِدھر وہ درندہ صفت (ایس پی اور) دیپک کھجوریہ مجھے نوچ نوچ کر اپنے ہوس کا شکار بنا رہا تھا، بلآخر اُس درندہ صفت ایس پی او نے مجھے اپنی ہوس کا شکار بنانے کے بعد موت کی نیند سلا ہی دیا۔میں کہاں تک داستان ِ الم سنائوں میں اُس دنیا سے انسانیت کا ایسا داغدار چہرہ دیکھ کر آئی ہوں کہ آپ کو سناتے سناتے شرم محسوس ہو رہی۔بس دعا کرتی ہوں بار گاہ ِ تعالیٰ میں کہ اے میرے پروردگار!محفوظ رکھ اُن ننھی کلیوں کو ایسے انسانوں کی بستی میں جہاں کہ رہبران قوم کی شکل انسانوں جیسی تو ہے لیکن اُن کے ارادے درندگی سے بھر پور ہیں ، وہ انسان کم اور حیوان زیادہ ہیں ، اُن کے کارناموں سے جانور بھی پناہ مانگتے ہیں ۔جہاں رہبران قوم سیاست دان جنسی استحصال میں ملوث اس قدر اپنا دامن داغدار کئے ہوئے ہیں گویا سیاست کے نام پرجسم فروشی کا کار بار انجام دیا جا رہا ہوں ۔ اس درندگی کی کتنی ہی مثالیں انسانیت کے نام پر آئے روزسامنے آ رہی ہیں وہ سبق حاصل کرنے کیلئے کم نہیں لیکن، رہبران، سیاستدان اور قائدین نے گویا انسان نہ بننے کی قسم کھا رکھی ہے۔

  آخر میں اپنے تمام سیاسی رہنمائوں کیلئے ایک سبق آموز قصہ پیش کرنے جارہی ہوں ۔ عالم ِ ارواح میں میری ملاقات زینب سے بھی ہوئی اب ہم وہاں پر ایک ساتھ ہی رہتے ہیں اُس میں اور مجھ میں بس اتنا فرق ہے کہ وہ اپنے سیاسی رہنمائوں کے تئیں بہت ہی خوش ہے اورناز کرتی ہے اپنے ملک پر جہاں اُس کے والدین کو انصاف ملا۔ کیا بتائوں کہ مجھے  اپنے سیاسی رہنمائوں اور ملکی شان کے تئیں کس قدر شرمندگی کا سامناہے، زینب مجھے طعنے دیتی رہتی ہے کہ کیا یہی ہے آپ کا جمہوری ملک جہاں انصاف ملنا تو دور کی بات ملزم کے حق میں احتجاج ہو رہا ہے اور آپ کے سیاست دان اُس احتجاج میں اپنا بھر پور کردار نبھا رہے ہیں ۔ مودی انکل سے کہو !! جمہوری ملک ہندوستان کو سہانے گیت وہ دنیا وہ سنائے رہے اُن میں ساز ہے نہ سُر بلکہ جمہوریت کے نام پر ملکی شان کی وہ دُرگت ہورہی کے کہ مجرموں کو سزا دینے کے بجائے سو گواروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔سماج کیلئے نا سوربنے ان بد خصلت انسانوں کو جب تک اپنے کرموں کی سزا نہیں ملے گی ہندوستان ایک جمہوری ملک ہرگز نہیں بن سکتا۔

چچا لال سنگھ اور چچا گنگا جی !!درد کی یہ داستان بہت طویل ہے جس مختصر انداز میں بیان کرنا محال ہے، اس لئے اجازت چاہوں گی اِ اُمید کے ساتھ کہ آپ میرا یہ پتر پڑھ کر کچھ سبق حاصل کر سکیں۔

والسلام

آپ کی ننھی آصفہ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔