عالم گیر وبائی امراض کی تباہ کاری

حکومتیں ہی نہیں، ذمہ دارہم بھی ہیں

حکیم نازش احتشام اعظمی

اس وقت عالم گیر سطح پر چکن گنیا، ڈینگواور اس قبیل کی متعدد بیماریا ں وباکی شکل میں انسانی معاشرہ پر حملہ آور ہیں۔ ماہرین صحت اور سائنسدان اس کی جانچ میں گزشتہ کئی دہائی سے مصروف عمل ہیں، مگر بیماری کا بنیادی سبب اب تک محققین کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اگر چہ جدید فن علاج کے سائنسدانو ں نے حالیہ وبائی بیماری کو مچھروں سے جوڑا ہے۔ اس مچھر کانام Aedes aegypti بتایا جاتا ہے جو زرد بخار کا سب سے بڑا محرک ہے۔ عرب سا ئنسدانوں نے   اس کا نام ’’الزاعجہ المصریۃ‘‘ رکھا ہے۔ سائنسدانوں کا کا کہنا ہے کہ یہ مچھر صاف پانی اور تاریک مقامات پر اپنے ڈیرے ڈالتے ہیں اور اسی تاریک جگہ پر زر د بخار یعنی ڈینگو کے بیضے تیار ہوتے ہیں، جنہیں یہ مچھر انسانی جسم کے اندر داخل کردیتے ہیں۔ اگر سائنسدا نوں کی بتائی ہوئی تفصیل پر نظر ڈالیں تو یہ سبق ملتا ہے کہ دیگر وبائی امراض کی طرح ڈینگو، چکن گنیا اورزیکا وائرس حالیہ وقت میں دنیا کے تین حصوں پر قہر ڈھانے والے یہ ا مراض حفظان صحت کے اصولوں کی پامالی اورطرز رہائش میں مذہبی تعلیمات سے روگردانی کی وجہ سے مزید تباہ کن صورت اختیار کرتے جار ہے ہیں۔ اسے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں، آفاقی احکامات  سے  بغاوت ہمیں نئے نئے مسائل کا شکار بنا رہی ہے۔ اسے ہم اللہ کی جانب سے مواخذہ یا تنبیہ کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مگریہ اسی وقت ممکن ہے جب خالق کی ذات پر ایمان کا مل ہو اور اس کے فرامین سے انحراف کا خوف بنی نوع انسان پر حاوی ہو۔ اس صورت میں ہمیں یہ احساس یقینا ہوسکتا ہے کہ امت محمدیہؐ، جسے امت دعوت بھی کہتے ہیں۔ اس نے زندگی عملی دعوت کی فکرسے رخ موڑ لیا ہے۔ دوسروں کو ہم خیر وطہارت، نظافت اور پاکیزگی کی عملی دعوت  کیا دیں گے۔ ہم خود ہی ان احکامات سے جب غافل اور منحرف ہیں تو ہمارا مسلم معاشرہ دوسری قوموں کودعوت فکر کیسے دے سکتا ہے۔ ہما ر یگلی محلوں، حتی کہ عبادت گاہوں کے اردگرد گندگی اور تعفن کا ڈھیر یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ امت نے اپنے مذہب کی عملی دعوت کے کام سے فارغ ہوچکی ہے یا ہماری شامت اعمال کے نتیجے میں ہم سے خیرکی توفیق سلب کرلی گئی ہے۔ ہمیں تو اپنی ذات کے علاوہ اپنے گلی محلوں کی صاف صفائی اور پڑوسیوں کے  حقوق کی پاسداری کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ مگر گلی محلے تو کجا ہم اپنے گھروں کو، اپنے گردو پیش کو بھی محسن انسانیت ﷺ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہے۔ مسلم معاشرہ جو ایک دعوتی معاشرہ تھا، جہا ں کا طرز رہائش اور نظافت وپاکیزگی دیگر قوموں کیلئے درس عبرت ہونا چاہئے تھا۔ وہ اپنے فرائض کے تئیں کس قدر غافل اور مسترد ہوچکاہے اس کی مثال آ پ عید الاضحی کے بعد مسلم محلوں میں اٹھنے والی بدبو اور تعفن کی شکل میں خود ہی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی غلاظتوں کیجا بجا پھینکی ہوئی غلاظتوں کے انبار اس بات کی شہادت پیش کررہے ہیں کہ یہ قوم اپنی وراثت اور قدروں سے کس قدر دورہوچکی ہے۔

قابل غور ہے کہ دین اسلام نے جہاں انسان کی باطنی شخصیت کے تزکیے اور تطہیر کیلئے بہت سے احکامات دیے ہیں، وہاں اس کی ظاہری شخصیت کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا ایک بڑ احصہ اسی پہلو سے متعلق ہے۔ چنانچہ روزانہ کم ازکم پانچ مرتبہ وضو کرنا، جنسی عمل کے بعد لازماً غسل کرنا، بالوں او رناخنوں کی تراش خراش کرنا، منہ، ناک اور کان کی صفائی کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا، کھانے سے پہلے اور بعدمیں ہاتھ دھونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہزاروں سالوں سے ہمارے دین کا لازمی تقاضا ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بھی ان چیزوں کا حکم دیا گیا تھا۔ دور جدید کے ہائی جین کے اصول بھی انہیں باتوں کی تلقین کرتے ہیں۔ ظاہری شکل و شباہت کے علاوہ جسمانی صحت بھی شخصیت کا اہم ترین پہلو ہے۔ اگر انسان صحت مند نہ ہو تو وہ کسی کام کو بھی صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا۔ دین نے اپنی صحت کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی ہے اور ایسی تمام چیزوں سے روکا ہے جو صحت کیلئے نقصان دہ ہوں۔ اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں ڈالنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ ہمارے بعض بزرگ بالخصوص بعض صوفیاء رہبانیت کی تعلیمات کے زیر اثر اس حکم سے واقفیت کے باوجود اس سے پہلو تہی کرتے رہے ہیں۔

 چناں چہ ان کے حالات میں آپ یہ عام طور پر پڑھیں گے کہ فلاں بزرگ کی خوراک بہت قلیل تھی یا فلاں بزرگ فلاں بیماری کا شکار رہتے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کے برعکس موجودہ دور کے دینی طبقے پر خوش خوراکی اور موٹاپے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا رویہ اس افراط و تفریط کے مابین اعتدال پر مبنی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بہت مشہور ہے جس میں بھوک رکھ کر کھانا کھانے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہمارے ماحول میں کوئی گھوڑے یا اونٹ پر چند کلومیٹر سفر کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، لیکن صحابہ کرام کی فٹنس کا یہ عالم تھا کہ وہ سینکڑوں میل کا سفر گھوڑوں اور اونٹوں پر طے کرتے تھے۔ ان کے ہاں بڑے بڑے اور مستقل امراض بہت ہی کم پائے جاتے تھے۔ یہی اسلامی تعلیمات تھی جس نے مسلم معاشرہ کو صفائی ستھرائی اور نظافت کا گہوارہ بنادیاتھا، جس کے نتیجے میں مسلمان صحتمند اورتن ومند رہتے تھے۔ مگرآج صورت حال یہ ہے کہ مذہبی تعلیمات سے انحراف کے نتیجے میں ہمارا مثالی معاشرہ بدوقوموں جیسا ہوچکا ہے اور وہ تمام بیماریاں ہمارا حصہ ہوچکا ہے، جس پر ملت کا اربوں روپیہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بیماریوں سے تحفظ کے بجائے ان کے علاج پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، جس سے عوام معاشی نا ہمو ار یو ں میں مبتلا ہورہے ہیں اور اضافی بوجھ بھی پڑ رہا ہے، جبکہ دور حاضر کے جدید ترین پرائیویٹ اسپتال مسلمانوں کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر اپنی تجوریوں میں بھر رہے ہیں۔ خوش حال طبقہ تو ان اسپتالوں میں علاج کرا کر کسی حد تک روبہ صحت بھی ہوجاتا ہے۔ مگر مفلوک الحال طبقہ کیلئے یہی وائرل امراض بے تحاشہ موت کا سبب بن رہے ہیں۔ ماہرین صحت کا خیال ہے کہ صاف صفائی اور حفظان صحت کا خیا ل رکھ کر فلو اوراس قبیل کی تمام بیماریوں کی وبا سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا انسان ہو جو اچھی صحت کا خواہش مند نہ ہو، تندرستی ہزاروں نعمتوں پر بھاری ہے، لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جو چیز اسے مفت ملتی ہے اس کی قدر نہیں کرتا، البتہ اس کے سلب ہوجانے کے بعد افسوس کرتا ہے، بیماری لگ جانے کے بعد صحت کی اہمیت سمجھتا ہے، اس وقت دنیا کی ساری چیزیں بے لذت معلوم ہونے لگتی ہیں اور وہ جلد از جلد دوبارہ صحت مند ہونے کی تمنا کرتا ہے، صحت کے بغیر دنیا کے تمام عیش و آرام اور مال و دولت بیکارسے لگتے ہیں۔ زندگی ایک عظیم نعمت ہے اور اس نعمت کی حفاظت تندرستی سے ہوتی ہے، تندرستی ایسی نعمت ہے جس کی دنیا میں کوئی قیمت نہیں ہے یہ وہ دولت ہے جو کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس دولت کو محفوظ اور مفید رکھنے طریقہ یہ ہے کہ ہادی عالم ؐ نے طہارت و پاکیزگی کی جو تعلیم دی ہے اس پر سختی اور سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ اے! کاش ہم دین اسلام کی اس تعلیم پر کچھ بھی توجہ دیے ہوتے تو آج گمراہ انسانیت کا بدحال طبقہ مسلم سماج کی صحت و توانائی کو دیکھ کر ہی جوق درجوق دامن اسلام میں پناہ لینے کو بے تاب نظرآ تا۔

یاد رکھئے! کہ اگر انسان تندرست نہیں ہے تو وہ سب کچھ نہیں کر سکتا جس سے اس کو مسرت حاصل ہو سکے، اسکی طبیعت پوری طرح سے اچاٹ ہوجاتی ہے۔ ایک کمزور آدمی ذہنی ا ور جسمانی طور پر مریض ہوتا ہے، نہ اس کا پڑھنے میں دل لگتا ہے اورنہ عبادت اور کاروبار میں۔ جسم جو مرکز طاقت بشری اور ایسی قدرت اور صلاحیت کا مصدر ہے، جس کی بدولت انسان امور خیرو شر بجالانے پر قادر ہو تاہے، نیز زمین کو آباد یا برباد کر سکتا ہے۔ وائے افسوس! کہ ہم اپنی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا قابل تقلید فلسفہ ترک کرکے جنگلی اوربیمار قوموں میں اپنا شمار کرانے لگے۔ کبھی فرصت میں بیٹھ کر یہ ضرور سوچنا ہئے کہ بیماریوں کے عام ہونے پر ہم حکومتوں اور انتظامیہ کوس کوس کر یہ تصور کرلیتے ہیں کہ ہمیں بیمار کرنے کا مکمل ذمہ دار صرف حکومتوں کا نظام اورسیاسی لیڈران ہیں، جبکہ اپنی اور اپنے معاشرہ کی صحت و توانائی کیلئے ہم پر جو ذمہ داریاں محسن کائناتؐ نے ڈالی تھیں اسے پورا نہ کرکے ہم کس قدر گنہ گار ہورہے ہیں اور بعد الموت ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے غفلت کی سزا بھی بھگتنی پڑے گی۔

تبصرے بند ہیں۔