کیا پاکستان کے معنی چین ہیں؟

حفیظ نعمانی

            31؍جولائی 1965ء کی رات کو 10 بجے 15افسروں اور 300پولیس کے جوان ہمیں گرفتار کرنے اور ندائے ملت کے مسلم یونیورسٹی نمبر کی جتنی بھی کاپیاں ملیں، ضبط کرنے اور میرے مکان ’’اخبار کے ادارتی دفتر‘‘ میرے پریس اور ڈاکٹر آصف قدوائی کے مکان کی تلاشی میں رات کے 3 بجے تک مصروف رہے۔ اس کے بعد گرفتاری کی رسم ادا کی گئی۔ یکم اگست اتوار تھا۔ عدالتیں بند تھیں اس لیے وہ پورا دن ہر قلم اور ہر سطح کے افسروں سے سوال و جواب میں گذرا اور شام کو ایک مجسٹریٹ کے گھر پر حاضری ہوئی اور جیل روانگی کا پروانہ ہاتھ آیا۔ 36 گھنٹے نہ صرف جاگتے بلکہ ٹینشن اور اعصابی تنائو میں ایسے گذرے کہ جیل کی پہلی رات کے بارے میں یہ بتانا مشکل ہے کہ میں سوگیا یا بے ہوش کر رات بھر پڑا رہا۔

            دوسرے دن رسمی کاروائیوں میں اور آرام کرتے گذرا اور وہ رات اس لیے جاگ کر گذ اری کہ ہر آدھے گھنٹے کے بعد اپنی بیرک میں آواز بلند ہوتی تھی 108حوالاتی بند، تالا، جنگلا بتی سب ٹھیک ہے۔ 8 نمبر اور پھر یہی آواز گنتی کے ڈش کے ساتھ ہر 5 منٹ کے بعد 9 نمبر ایک نمبر دو نمبر اور 5 نمبر سے آتی تھی۔ شاید دو بجے نیند آگئی اور صبح معلوم ہوا کہ حوالاتی بیرک میں بندبلند آواز والے کے سپرد یہ خدمت ہوتی ہے کہ رات بھر دیکھے کی سب خیریت ہے۔

            جیل کا صرف ایک پھاٹک ہوتا ہے، چاروں طرف دس فٹ سے زیادہ اونچی دیوار، اس کے بعد پھر ہر بیرک کی دیواریں اور ہر طرف جانے کے لیے جنگلہ، یہ صرف ان انسانوں کی حفاظت تھی جنھیں عدالت نے جیل بھیجا تھا اور صرف یہ کرنا ہے کہ عدالت جس دن بلوائے انھیں بھیج دیا جائے اور نہ بلوائے تو اپنے پاس رکھے، کھلائے پلائے، نہلائے اور سلائے۔

            ’’اڑی‘‘ جہاں ہزاروں کی تعداد میں ملک کی حفاظت کے ذمہ دار اور کروڑوں روپے کے اسلحہ، گولہ بارود اور قیمتی گاڑیاں، سیکڑوں کی تعداد میں ہوں ان کی حفاظت کے لیے صرف خار دار تاروں کا گھیرا۔ وہ بھی اتنے کمزور کہ انہیں کٹر سے ایسے کاٹ دیا جیسے سروتہ سے ڈلی کٹتی ہے۔ جس کی آواز بھی نہیں ہوتی اور وقت 5 بجے صبح کا ہے، جس وقت سب لمبا تان کر سورہے تھے اور ملک کی ہر جیل کی بیرک میں آواز گونج رہی تھی کہ 108حوالاتی بند، تالا، جنگلا بتی سب ٹھیک ہے۔ 8 نمبر اور اگر رپورٹ میں دیر ہوجائے تو باہر سے بیرک کے نگراں کی آواز آتی تھی 8 نمبر رپورٹ دو اور فوراً باجا بجنا شروع ہوتا ہے۔ پھر اتنی قیمتی بارک میں اتنی لاپرواہی ؟

            زیادہ سیاست داں وزیر دفاع کو نشانہ بنا رہے ہیں، وہی وزیر دفاع پاریکر جن کے بارے میں راجہ دگ وجے سنگھ نے اس وقت کہا تھا کہ وہ گوا میں پھل خرید رہے ہیں جب فرانس میں وزیر اعظم لڑاکو جہاز خرید رہے تھے، کوئی کس پر الزام دے یہ ان کے معاملات ہیں مگر ہم ایک عام شہری کی حیثیت سے عرض کریں گے کہ جب اختیار ایک فرد واحد کو دے دیا جائے اوراس کا پیمانہ یہ ہو کہ اس نے کتنے دن آر ایس ایس میں گذارے ہیں اور سنگھ کے لیے بیوی بچوں کو چھوڑا ہے، بس اسے ذمہ داری سونپ دی جائے۔ پوری وزارت کا ہی یہ حال ہے کہ صرف یہ دیکھنا ہے کہ وہ بھگوا رنگ میں کتنی رنگی ہے۔ چاہے اس کی تہذیب اور زبان رام زادے اور حرام زادے کا جاپ کرتی ہو، اسے وزیر بنا دیا گیا ا ور یہ بھی نہ دیکھنا کہ تعلیم کیا ہے؟

            مودی صاحب کی جگہ ا گر کسی ملکی سیاست کے ماہر کو یہ خدمت سپرد کی جاتی کہ کس محکمہ کا وزیر کس کو بنایا جائے تو موجودہ وزیروں میں سے آدھے سے زیادہ وزیروں کو باہر کا راستہ دکھا دیتا اور صوبوں کے وزیراعلیٰ بھی تبدیل کردیتا۔ کیا ہریانہ کے وزیر علیٰ منوہر لال کھڑا س قابل ہیں کہ انہیں وزیر اعلیٰ رہنے دیا جائے؟ 25 اگست کی درمیانی شب میں دو لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی آبروریزی اور ایک عورت اور ایک مرد کا قتل ہوجانے کے واقعہ کے بعد انھوں نے کہہ دیا کہ ایسے چھوٹے چھوٹے معاملے تو ہوتے رہتے ہیں۔ یہ چھوٹے اس لیے نظر آئے کہ مرنے والے بھی مسلمان تھے اور لڑکیاں بھی مسلمان تھیں۔

            منوہر لال کھڑ کی ساری بہادری مسلمانوں کے خلاف ہے۔ جس وقت ہریانہ کے جاٹوں نے چھانٹ چھانٹ کر بی جے پی اور سنگھ دولت مندوں کے بڑے بڑے مال پھونکے اس وقت ان سے زیادہ نا اہل وزیر اعلیٰ دوسرا نہیں تھا۔ اگر کوئی ذمہ دار ہوتا تو دو چار ہزار جاٹوں کو تڑپا تڑپا کر مارتا۔ یہ ان کی بزدلی ہے کہ پٹنے کے بعد بھی جاٹ ان کے سر پر جوتا لیے کھڑے ہیں۔

            وزیر دفاع تو جیسے ہیں انھیں پٹھان کوٹ میں بھی دیکھ لیا اور اب اڑی میں بھی۔ ملک کے وزیر قانون بھی ماشاء اللہ وہ ہیں جب بابری مسجد مقدمہ کے فیصلے کے دن وہ لکھنؤ ہائی کورٹ میں تھے اور فیصلہ سن کر با ہر آئے تو انگلی سے Vبنا کر جے شری رام کے نعرے لگوائے جبکہ فیصلہ کیا تھا بندر بانٹ تھا۔ Vبنانے کا حق تو اس وقت ہوتا جب تینوں جج مان لیتے کہ رام مندر توڑ کر بابری مسجد بنی تھیں۔ آج وہ وزیر قانون ہیں جن سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس فرمارہے ہیں کہ :

گل پھینکیں ہیں غیروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

چیف جسٹس نے 76 نام ججوں کے لیے بھیجے ہیں۔ مہینے ہوگئے اس کا کوئی جواب نہیں ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر قانون صرف ان ججوں اور وکیلوں کو سپریم کورٹ کا جج بنائیں گے جنھوں نے کم از کم دس سال ناگ پور میں گذارے ہوں، چاہے وہ لکھنؤ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سن کر سما بناتا ہو۔

            آزادی کے 60برس جن سنگھ اور بی جے پی نے حزب مخالف رہ کر گذارے ہیں اور اس وقت جب اٹل جی وزیر اعظم تھے ا ور اب جب مودی جی وزیر اعظم ہیں، معلوم ہوگیا کہ حکومت کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ یہ چند مہینوں کے اندر چوتھا مگر سب سے بڑا حملہ ہے۔ ملک کے 80 فیصدی مسلمان اور ہندو سب کہہ رہے ہیں کہ یہ ذلت برداشت نہیں ہورہی۔ اور جو 20 جوان ملک پر قربان ہوئے ہیں ان کے گھر کی ہر بیوہ اور چھوٹا بڑا کہہ رہا ہے جب مودی سرکار میں بھی پاکستان کے ہاتھوں ہم مارے جائیں گے تو بہادرکون آئے گا؟وزیر اعظم یا وزیر دفاع تو وزیر ہیں وہ جو سبرامنیم سوامی دن میں تین دفعہ پاکستان پر حملہ کرنے کا حکم دیتے تھے کل رات مذاکرے میں انھیں لونڈے دوڑا رہے تھے اور وہ کہہ رہے کہ تھے کریں گے ضرور کریں گے مگر سب کچھ دیکھ کر اورسوچ کر۔ اور یہی بات جب ڈاکٹر من موہن سنگھ کہتے تھے تو یہی سبرامنیم کہتے تھے کہ بھارت کو ذلیل کیا جارہا ہے اور نامۂ محبت بھیجا جارہا ہے۔

            انتہا یہ ہے کہ فوج جس کے لیے ہر ہفتہ ایک میزائل بنا کر دیا جارہا ہے وہ کہہ رہی ہے کہ ہم لمبی لڑائی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمارے پاس گولہ بارود زیادہ دنوں کا نہیں ہے، لیکن ہم سب کچھ کرسکتے ہیں مگر حکومت حکم تو دے۔ اور حکومت نے طے کیا ہے کہ تبلیغی جماعت کی طرح سب وزیر باجماعت نکلیں گے اور ہر ملک سے کہیں گے کہ پاکستان دہشت گرد ہے اس سے رشتہ ختم کرلو۔ اور ثبوت دکھائیں گے۔ کہ اس نے پٹھان کوٹ اور اڑی میں کیا کیا۔

            اور حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کو یقین ہے کہ اگر پاکستان پر حملہ کیا تو ہاتھ تو پنجابی سندھی اورسرحدی ہوں گے لیکن ہر ہاتھ میں جو بندوق ہوگی وہ چینی ہوگی اور ہندوستان کے لیے پاکستان تو صرف ایک نوالہ ہے لیکن چین حلق کی ہڈی ہے اور پاکستان جو چھیڑ خانی کررہا ہے وہ اس سے چین کرارہا ہے تاکہ ہندوستان کی ساری طاقت ایک ہی جنگ میں ختم ہوجائے اور ہندوستان بے وقوفی کے لیے تیار نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔