عبدالرزاق ملا صاحب کی صداقت بیانی

’’ایک کرن تنہا بحرِ ظلمات پہ بھاری ہے‘‘

کسی کو روشنی پسند ہے تو کسی کو اندھیرا عزیز ہے۔ بعض لوگ اندھیرے میں رہ کر بھی روشنی کے طالب ہوتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو روشنی میں رہتے ہیں مگر تاریکی پسندی ان کی فطرت میں شامل ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے مرزا غالبؔ کی یہ بات صحیح اور درست معلوم ہوتی ہے ع

چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کی لگی ہوئی

کچھ لوگ روشنی کے طالب ہوتے ہیں اور کچھ لوگ روشنی سراپا۔ علامہ اقبالؒ نے جگنو اور پروانہ کا موازنہ کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ ایک بار پھر پڑھ لیجئے اپنے بارے میں خوش فہمی اور غلط فہمی کا علم آسانی سے ہوجائے گا ؎

جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں … یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں

آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ … یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا … غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں

تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا … ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں

حسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی … لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں

چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی … نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں

(پوری نظم ’بانگ درا‘ میں ملاحظہ فرمائیں)

مجھے عبدالرزاق ملا کے بارے میں کچھ کہنا تھا۔ اوپر کی تمہید سے ہوسکتا ہے آگے کی باتیں بھلی معلوم ہوں۔ اس کیلئے معافی چاہتا ہوں کہ تمہید لمبی ہوگئی ہے۔

عبدالرزاق ملا مغربی بنگال کے ایک انوکھے سیاست داں ہیں۔ وہ کہنے کو تو کمیونسٹ تھے۔ چالیس سال تک مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تھے۔ 27، 28 سال تک مارکسی حکومت میں کابینہ درجہ کے وزیر رہے۔ اراضی اور ریونیو (Land and Revenue) کا محکمہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ جب تک جیوتی باسو وزیر اعلیٰ رہے پارٹی اور حکومت کے خلاف شاید ہی کبھی آواز اٹھائی ہو مگر بدھا دیب بھٹا چاریہ کے دور حکومت میں وہ حکومت اور پارٹی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ خاص طور سے زمین کے سلسلہ میں جو پالیسی مارکسی پارٹی کی بدھا دیب بھٹا چاریہ کے دور میں طے کی گئی اس سے موافقت پیدا نہ کرسکے۔ مخالفانہ بیان دیتے رہے۔ پارٹی اور حکومت ملا صاحب کی بیان بازیوں کو نظر انداز کرتی رہی۔ بدھا دیب بھٹا چاریہ کی پارٹی کے زوال کا زمانہ جیسے جیسے قریب آتا گیا ملا صاحب کی زبان و بیان میں تیزی آتی گئی۔ وہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کے حق میں باتیں کہنے سے ذرا بھی جھجکتے نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مذاکرہ میں جس میں خاکسار بھی موجود تھا، انھوں نے اپنی حیثیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہاکہ جب میں پارٹی دفتر میں ہوتا ہوں تو پارٹی کی بات کرتا ہوں۔ جب رائٹرس بلڈنگ میں ہوتا ہوں تو حکومت کی بات کرتا ہوں لیکن جب عوام میں ہوتا ہوں تو مسلم اقلیت کی بات کرتا ہوں کیونکہ میں مسلمان بھی ہوں۔

ایک اور مذاکرہ میں ان کو دیکھا کہ کھل کر مسلمانوں کی پسماندگی اور زبوں حالی کی بات کی۔ جماعت اسلامی ہند مغربی بنگال کے زیر اہتمام وہ مذاکرہ بھارتیہ بھاشا پریشد میں تھا اور سچر کمیٹی کی رپورٹ پر تھا جس میں عبدالرزاق ملا اور عبدالستار دونوں شامل تھے۔ عبدالستار صاحب اقلیتی امور کے وزیر تھے۔ انھوں نے کہاکہ مارکسی پارٹی نے ضرور کچھ کیا ہے اور اقلیتوں کی طرف اس کا رخ ہوا ہے اور سمت بھی صحیح ہے۔ جب عبدالرزاق ملا صاحب کی باری آئی تو انھوں نے کہاکہ میں سوچتا ہوں کہ آخرت میں کیا منہ لے کر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا۔ میں تو کچھ کر بھی نہ کرسکا اور نہ کراسکا۔ جب مارکسی حکومت کو محترمہ ممتا بنرجی ’’ماں، ماٹی اور مانس‘‘ کا نعرہ دے کر ہٹا دیا تو عبدالرزاق ملا نے سب سے پہلا کام یہ کیا وہ سوئے حرم جانے کا فیصلہ کیا۔ میری معلومات کی حد تک مغربی بنگال میں حبیب اللہ صاحب کے بعد یہ دوسرے کمیونسٹ کا حج تھا۔ اس پر خاکسار نے حج سے واپسی کے بعد ملا صاحب کو استقبالیہ دیا اور ان سے پر ایک عدد مضمون بھی لکھا ’’حج ایک کمیونسٹ کا‘‘ جو اخباروں میں شائع بھی ہوا۔

ملا صاحب نے ’’زمانہ‘‘ نام کی سماجی تنظیم بھی بنائی اور بہتوں کو اپنے قریب جمع کیا۔ مارکسی پارٹی میں رہتے ہوئے یہ سب الگ سے کرنے لگے۔ انھوں نے ایک رسالہ بھی نکالا۔ مغربی بنگال کا ایک کونے سے دوسرے کونے تک دورہ کیا۔ کبھی کبھار میں بھی ان کی مجلسوں میں حصہ لیتا تھا۔ کلکتہ سے باہر بھی ان کے ساتھ گیا۔ لوگوں کو امید تھی کہ ملا صاحب مغربی بنگال کے مسلمانوں کی امید پر کھرے اتریں گے۔ نئی سیاسی پارٹی بنائیں گے۔ پارٹی بھی بنالی اور کئی مسلم سیاسی جماعتوں کا محاذ بھی بنایا۔ اس کے چیئر مین بھی ہوگئے۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی ان کو برداشت کرتی رہی مگر جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو انھیں پارٹی سے نکال باہر کیا۔ جب اسمبلی کا گزشتہ انتخاب کو ایک سال سے کم عرصہ رہ گیا تو میں نے ملا صاحب اور مولانا صدیق اللہ چودھری کو ایک ساتھ کام کرنے کی صلاح دی۔ میری تجویز پر جمعیۃ علماء مغربی بنگال کے دفتر میں میری موجودگی میں دونوں صلاح و مشورے کیلئے بیٹھے۔ دونوں نے ایک ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ مولانا کی سربراہی بھی ملا نے تسلیم کرلی مگر دونوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جب الیکشن قریب تر ہوگیا تو مولانا صدیق اللہ چودھری نباننا (Nabanna) کی طرف دیکھنے لگے۔ محترمہ ممتا بنرجی نے مولانا صدیق اللہ چودھری کو اسمبلی کی ایک سیٹ دے کر ترنمول کانگریس میں شامل کرلیا۔ عبدالرزاق ملا بھی سب کچھ چھوڑ کر اپنا رخ ممتا دیدی کی طرف کرلیا۔ وہ بھی ایک سیٹ پر راضی ہوگئے۔ دونوں کا یہ انقلاب اور جدوجہد کا ثمرہ تھا۔ پھر دونوں ہی کابینہ درجے کے وزیر بنائے گئے۔ ملا صاحب کو پروسیسنگ فوڈ کا محکمہ دیا گیا۔ چودھری صاحب کو لائبریری محکمہ کا وزیر بنایا گیا۔ دونوں خوش نظر آئے۔ چودھری صاحب سے تو میری ملاقات نہیں ہوئی مگر کل ہی کی بات ہے کہ ملا صاحب کے ساتھ ایک مذاکرہ میں ملاقات ہوگئی۔ جب وہ مذاکرہ کے بعد گورکی سدن سے نکل کر گاڑی پر سوار ہوئے تو گاڑی کی کھڑکی کھول کر بہتوں سے دعا سلام کرنے لگے۔ ملا صاحب مجھے دیکھتے ہی کہا ’’وہ تو ہوا نہیں‘‘۔ کسی نے کہاکہ’’اب آپ کچھ کر سکیں گے‘‘۔ میں نے کہا ’’کچھ بھی نہیں کرسکیں گے‘‘۔ ملا صاحب نے میری بات کی تائید کرتے ہوئے فوراً کہا کہ ’’کچھ بھی نہ کرسکوں گا‘‘۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ملا صاحب بے غیرتی اور بزدلی سے ابھی دامن بچائے ہوئے ہیں۔ بے غیرتی اور بزدلی دل کو مردہ بنا دیتی ہے اور مردہ ہاتھ، دل و زبان سب سے محروم ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال نے ایسے لوگوں کیلئے کہا ہے ؎

پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات … تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من تیرا

میں نے محسوس کیا کہ ملا صاحب کی زبان اگر چہ ابھی بند ہے ، کھل نہیں رہی ہے مگر ان کا دل محسوس کر رہا ہے اور وہ آہستہ ہی سہی مگر بات چند ہی لوگوں کے درمیان دل کی بات زبان پر آ جارہی ہے۔ یہ ایک اچھی علامت ہے کہ دل ابھی تک سلامت ہے۔ ممکن ہے زبان بھی مرنے سے بچ جائے ۔

جب تک آدمی برائی کو ہاتھ سے روکتا ہے پہلے درجے کا مومن کہلاتا ہے۔ جب زبان سے برائی کو برا کہتا ہے تو وہ دوسرے درجہ کا مومن ہوتا ہے۔ تیسرا درجہ برائی کو دل سے محسوس کرنے والے مومن کو دے دیا گیا مگر تیسرے درجہ کے مومن کے پاس جو ایمان ہوتا ہے اسے ’اضعف الایمان‘ کمزور ترین ایمان کہا جاتا ہے جو کبھی بھی فنا ہوسکتا ہے۔ ملا صاحب جس مذاکرہ میں شریک تھے کبھی کبھی ان کی مومنانہ شان بھی ظاہر ہوجاتی ہے مگر کبھی کبھی وہ سامعین کو خوش کرنے کیلئے بھی کچھ باتیں کہہ دیتے ہیں۔ موضوع کا عنوان تھا:

"IS as a Phenomenon in the Contemporary World.” (آئی ایس آج کی دنیا میں ایک عجیب و غریب مظہر)

ملا صاحب نے جب یہ کہا کہ مسلمانوں کو دہشت گردی یا آئی ایس کی مذمت میں خاموش بیٹھے نہیں رہنا چاہئے پھر قرآن مجید کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ قرآن نے صداقت بیانی اور جبر و ظلم کے خلاف مذمت کرنے پر زور دیا ہے مگر ملا مولوی اس بات کو زیادہ بیان نہیں کرتے بلکہ نماز، روزہ اور وضو کا صرف مسئلہ بیان کرتے ہیں‘‘ تو مجھے کچھ اچھا نہیں لگا کیونکہ حاضرین میں 90 فیصد غیر مسلم تھے اور دو چار غیر ممالک کے سفیر بھی تھے۔ حسن اتفاق سے ان کے بعد میری باری آئی تو میں نے کہاکہ جبر و ظلم، دہشت گردی یا فتنہ فساد کی مذمت کرنے میں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ جہاں تک قرآن کی بات ہے تو قرآن ہر شخص پڑھ سکتا ہے۔ قرآن کی بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ قرآن صرف ملا مولوی کے پڑھنے کی چیز نہیں ہے کیونکہ اسلام میں پروہتوں اور پنڈتوں کا کوئی گروپ نہیں ہوتا ہے۔

میں نے ملا صاحب کو اس وقت دیکھا کہ ان کے ماتھے پر شکن نہیں آیا، وہ غور سے سنتے رہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے آخری زمانے میں فتنے کا حال بیان کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخری زمانہ آگیا ہے۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں:

’’اور اسی کا ارشاد تھا:فتنا لقطع اللیل المظلم………و یمسی کافرا‘‘(روالترمذی و ابوداؤد)، (آخری زمانے میں فتنے ہیں، ایسے جیسے اندھیری رات کی اندھیاری۔ صبح کو ایک آدمی مومن ہوگا، شام کو کافر)، یعنی ایمان میں ثبات و استقامت باقی نہ رہے گی، گھڑی میں کچھ گھڑی میں کچھ۔ مسلم۳؎ میں یہی حدیث بروایت ابوہریرہ ہے ’’رات کو ایک آدمی مومن سوئے گا، صبح اٹھے گا تو کفر میں مبتلا ہوجائے گا۔ اپنے دین کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالے گا‘‘۔

اور اسی صادق و مصدوق کا فرمان تھا: ’’ایسا ہوگا کہ دنیا کی قومیں تم سے لڑنے کیلئے اکٹھی ہوجائیں گی اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے بھوکے ایک دوسرے کو کھانے پر بلاتے ہیں۔ ایک شخص نے عرض کیا: یہ اس لئے ہوگا کہ ہم اس وقت تھوڑے ہوں گے اور دشمن بہت؟ فرمایا: نہیں مسلمان تو اس وقت بہت ہوں گے مگر ایسے ہوجائیں گے جیسے دریا کے بہاؤ پر کوڑا کرکٹ، جس طرف بہہ رہا ہے، بہہ جائے گا۔ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی۔ تذہب ریحکم اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ پیدا ہوجائے گا۔ کسی نے پوچھا ’’وہن‘‘ کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کا عشق اور راہ حق میں موت کو ناخوش جاننا اور اس سے بھاگنا‘‘(اخرجہ ابو داؤد۴؎)۔

اور اسی نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’یہود و نصاریٰ ٹوٹ پھوٹ کر بہتر فرقے ہوگئے تھے۔ ضرور ہے کہ یہ امت بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوکر تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی‘‘(ابوداؤد و ترمذی)۔

اور اسی کا قول تھا: ’’قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ پھر لات و عزیٰ کی پوجا ہو۔ حضرت عائشہؓ نے کہا جب یہ آیت اتری ’لیظہرہ علی الدین کلہ‘ ( دین توحید اس لئے آیا تاکہ سارے دینوں پر غالب آئے) تو میں نے خیال کیا تھا کہ اب دین توحید ہی آخر تک رہے گا۔ پھر یہ بات کیونکر ہوگی؟ فرمایا: ہاں؛ یہ رہے گا جب تک اللہ چاہے گا!‘‘

اور اسی نے یہ خبر بھی دے دی تھی: ’’جب تک تم میں سے بہتر اور نیک لوگ تمہارے امیر ہوں گے، اور تمہارے مالدار سخی، اور تمہارے معاملاتِ حکومت باہم مشورہ سے انجام پائیں گے (یعنی عجمیوں کی سی شخصی حکومت و فرماں روائی نہ ہوگی، خلافتِ راشدہ کے منہاجِ نبوت پر حکومتِ شوریٰ ہوگی) تو زمین کا ظاہر تمہارے لئے بہتر ہوگا اس کے باطن سے یعنی دنیا میں رہنا تمہارے تمہارے لئے عزت و کامیابی کا موجب ہوگا، لیکن جب ایسا ہوکہ تمہارے امیر بدترین لوگ ہوں، تمہارے مالدار بخیل ہوجائیں اور تمہاری حکومت عورتوں کے اختیار میں چلی جائے تو پھر زمین کا اندر تمہارے لئے اچھا ہوگا بمقابلہ اس کی سطح کے‘‘ یعنی زندگی میں عزت باقی نہ رہے گی، مرجانا ہی بہتر ہوگا‘‘(ترمذی)۔

اس سے یہ مقصود نہیں ہے کہ عورتیں بادشاہ ہوں، نہ یہ مقصد ہے کہ عورتوں کے مشورے سے کام انجام پائیں، بلکہ یہ اشارہ ہے شاہانِ نفس پرست اور امراء و عمال کی حرم سراؤں کی زندگی کی طرف۔ گویا سر رشتہ حکومت مجلس شوریٰ اور اصحابِ حل و عقد کی جگہ حرم سرا کے عشرت خانوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ عورتیں جس چال چاہیں گی چلائیں گی۔

اور پھر اسی لسانِ حق و صدق پر یہ پیشین گوئی بھی جاری ہوئی تھی: ’’کیا حال ہوگا تمہارا جب تمہاری لڑکیاں مبتلائے فسق ہوں اور تمہاری عورتیں سرکش؟ (یعنی جبکہ تمہارے گھر کے اندر کی زندگی بھی خراب ہوجائے اور عورتیں مبتلاے فسق و فجور ہوں)، لوگوں نے عرض کیا: کیا یہ بات بھی ہونے والی ہے؟ فرمایا: ہاں؛ بلکہ اس سے زیادہ۔ کیا حال ہوگا اس وقت جبکہ تم نیک بات کو برا سمجھوگے اور برائی کو اچھا؟ عرض کیا: کیا یہ بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں‘‘ یعنی قوموں کی ہلاکت کے بتدریج تین درجے ہیں۔ ہر پچھلا درجہ پہلے سے اشد۔ پہلا یہ کہ خود تو نیکی کا شوق باقی ہو، لیکن دوسروں کونیک بنانے کا ولولہ جاتا رہے؛ یہ ہلاکت کا بیج ہے۔ اس کے بعد دوسرا دور آتا ہے۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ نہ تو خود نیک راہ چلتے ہیں، نہ دوسروں کو چلنے دیتے ہیں اور حق کو علانیہ روکتے ہیں؛ یہ تخم فساد کے پھول پتے ہیں۔ اس کے بعد تیسرا دور آتا ہے۔ اب نیک و بد اور حق و باطل کا نظام بالکل الٹ جاتا ہے، باطل کو حق سمجھا جاتا ہے اور حق کو باطل؛ یہ تخم فساد کا آخری پھل ہے اور اس کا زہر تمام قوم کو ہلاک کر دیتا ہے‘‘۔

موبائل: 9831439068 [email protected]

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔