مکالماتِ رسول ﷺ – دوسری قسط

تحریر: فیض اللہ منصور         ترتیب: عبدالعزیز

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالمات کا صحیح مقام متعین کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کا اسوۂ حسنہ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔ حضور کی شفقت و رافت، حلم اور تواضع دلوں کو پھیر دیتی تھی۔ اسی سادہ طریقہ سے آپ تعلیم دیتے تھے۔ نجد کا ایک بدوی مدینہ آتا ہے۔ اتنا سلیقہ بھی نہیں کہ مسجد نبوی کا احترام کرے۔ وہ اپنا اونٹ مسجد کے اندر لاکر دروازے سے باندھ دیتا ہے اور نہایت اکھڑ پن سے مجلس رسولؐ میں در آتا ہے۔ آتے ہی نہایت ہی درشت لہجے میں سوال کرتا ہے:

            کون ہیں ابن عبدالمطلب؟

            صحابہ کرامؓ اس کے درشت لہجے کو محسوس کرتے ہیں لیکن مجسم رحمت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ہی تحمل سے جواب دیتے ہیں ’’میں ہوں‘‘۔

            وہ کہتا ہے: ’’میں نجد سے آیا ہوں، قبیلہ بنو سعد سے تعلق ہے، قبیلہ والوں نے حقیقت حال معلوم کرنے کو مجھے بھیجا ہے، میں تم سے سوال کرنا چاہتا ہوں۔ میرا لہجہ سخت اور درشت ہے، میں سختی سے بات کروں گا، آپ اسے محسوس نہ کریں‘‘۔

            رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں: ’’تمہیں جو کچھ پوچھنا ہے پوچھو، میں دل پر میل نہیںلاؤں گا‘‘۔

            پھر وہ سوال کرتا ہے اور حضورؐ نہایت ہی اطمینان سے اس کے ہر سوال کا جواب مرحمت فرماتے ہیں۔ حالانکہ پورے مکالمہ میں سائل کا لہجہ درشت رہتا ہے۔ تعلیم اور تحمل کا یہ طریقہ اس طرح کارگر ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص بے ساختہ پکار اٹھتا ہے:

            ’’اس ذات کی قسم جس نے آپ کو صادق نبیؐ بنایا ہے، میں آپ کی بتائی ہوئی باتوں میں کمی بیشی نہیں کروں گا۔ میں آپؐ کا دین قبول کرچکا ہوں۔ میں اپنی قوم کا قاصد ہوں، میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے‘‘۔

            آپؐ صحابہؓ کو تعلیم دیتے وقت اسی طریقے سے کام لیتے تھے۔ ایجاز و اختصار اور جامعیت کو ملحوظ خاطر رکھتے، انداز بیان دلنشیں اور مسائل نہایت ہی سادہ زبان میں بیان فرماتے۔ ایک مکالمہ جو حضورؐ اور صحابہ کرامؓ کے درمیان ہوا، جس کے راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری ہیں۔

            صحابہ کرامؓ عرض کرتے ہیں: ’’یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟‘‘

            آپؐ فرماتے ہیں: ’’اس کا اسلام جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔

            ایک صحابیؓ: ’’یا رسول اللہ! اسلام کی بہترین خصوصیت کون سی ہے؟‘‘

            رسولؐ اللہ : ’’یہ کہ تو (بھوکے کو) کھانا کھلائے۔ واقف و ناواقف سب کو سلام کرے‘‘۔

            صحابہؓ: ’’کون سا عمل افضل ہے؟‘‘

            رسولؐ اللہ: ’’جہاد فی سبیل اللہ‘۔

            صحابہؓ: ’’پھر کون سا عمل؟‘‘

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حج مبرور (وہ حج جس کے بعد گناہوں کا ارتکاب نہ کرے)۔

            اس مختصر مکالمہ میں معانی کی ایک پوری کائنات بیان فرمائی گئی ہے۔ ان کی تشریح و توضیح کیلئے سینکڑوں صفحات بھی سیاہ کئے جائیں پھر بھی ان کے معنی اور مطالب بیان کرنے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ علمائے دین نے حضورؐ کے کلام کی تشریح و توضیح کیلئے کئی کئی ضخیم مجلدات لکھی ہیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی ایجاز و اعجاز، جامعیت اور معنویت کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تاثر کا یہ عالم کہ جس نے بھی دین کا کوئی مسئلہ دریافت کیا، اس کو حرز جان بنالیا… اور اس کی ایک ایک جز پر عمل کرنا اپنا فرض اولین جانا۔ بدوی کی مثال ہی کافی ہے کہ اس نے سوالات کئے۔ مسائل کا علم حاصل کیا اور پھر انھیں ضابطہ عمل بنالیا۔ صحابہؓ کی مثال ظاہر ہے۔ کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا ہے؟

            فصاحت و بلاغت حضورؐ کے کلام کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ اگر چہ بنیادی طور پر آپ نہایت ہی سادگی سے سادہ لفظوں میں پند و نصائح بیان فرماتے، لیکن آپ کسی کو تعلیم دینے یا کلام کو زیادہ موثر و دلنشیں بنانے کا ارادہ فرماتے تو سوال کی صورت میں شروع فرماتے۔ اس طرح آپؐ کی گفتگو مکالمات کی صورت اختیار کرلیتی۔ یہ مکالمات مختلف حالات، مختلف ماحول اور مختلف مقامات پر صورت پذیر ہوئے ہیں، اس لئے پیرایہ بیان بھی مختلف ہے۔ اور بلاغت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ اختلاف بیان آپ کے کلام کی بلاغت و فصاحت کا ایک بین ثبوت ہے۔کوہ صفا کا مکالمہ اس انداز کی بہترین مثال ہے۔

            سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تمام قبائل قریش کو اکٹھا کرنے کیلئے کوہ صفا پر جاتے ہیں اس غرض کیلئے ’’یا صباحا‘‘ کی صدا لگاتے ہیں۔ اس آواز کو سنتے ہی قریش کے سارے لوگ کوہ صفا کے دامن میں جمع ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر آپ ان کے نفسیاتی لمحات کو تصرف میں لانے کیلئے تمثیلی پیرایۂ بیان اختیار فرماتے ہیں؛ کیونکہ ان حالات میں تمثیل ایک موثر ترین عامل ثابت ہوتا ہے اور حاضرین جن میں ہر درجے کے لوگ شامل ہوتے ہیں، ہمہ تن توجہ بن جاتے ہیں۔ چنانچہ حضور سرور عالمؐ ارشاد فرماتے ہیں:

            ’’اے بنی عبدالمطلب! اے بنی فہر! اے نبی کعب!

            اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر جرار تیار کھڑا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنے کیلئے پر تول رہا ہے، تو کیا تم میری بات کا یقین کرلوگے؟

            اس انداز اور طرز بیان کا نتیجہ ؟ سب بیک آواز پکار اٹھتے ہیں: ’’کیوں نہیں؛ ہمیں یقین ہے۔ ہم نے ہمیشہ آپ کو صادق پایا ہے‘‘۔

            یہ ابتدائی مرحلہ طے ہوتے ہی سرور عالم فوراً نہایت ہی حکیمانہ انداز سے اپنا پیغام بیان فرماتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

            ’’تو خوب غور سے سنو! میں تم کو ایک سخت اور المناک عذاب سے آگاہ کرنے اور ڈرانے آیا ہوں، جو بالکل تمہارے سامنے ہے‘‘۔

            یہ در اصل منصب نبوت کی صحیح صحیح نشان دہی تھی۔ غیبی حقائق، دینی اور اسرار و غوامض اور وہبی علوم میں نبوت کو جو خصوصیت اور انفرادیت حاصل ہے۔ یہ اس کی بین مثال ہے کہ حضور نے کیسی حکمت کے ساتھ ان خصوصیات کی مختصر طور پر ترجمانی کی۔ اس کی نظیر، دنیا کے مذاہب اور عالمی ادب کی تاریخ نہیں ملتی۔ اس سے زیادہ قابل فہم اور واضح پیرایہ بیان اور اسلوب ناممکن ہے۔ یہ اسلوب رسالت کی منفرد خصوصیت ہے۔

            ویسے تو حضورؐ کے مکالمات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان تمام کا احاطہ کرنا ممکن نہیں اور ہر مکالمہ اپنی جگہ ایک نادر دستاویز ہے۔ دو ایک مزید مثالیں اس ضمن میں کافی رہیں گی۔

            غزوۂ حنین میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تالیف قلوب کی غرض سے مکہ کے نو مسلم رئیسوں اور دیگر نو مسلموں کو مالِ غنیمت میں سے حصہ وافر عطا فرماتے ہیںتو بعض انصاریوں کو محرومی کی شکایت پیدا ہوتی ہے۔ حضورؐ کے علم میں جب یہ بات آتی ہے تو آپ انصار کو ایک جگہ اکٹھا ہونے کا فرمان جاری کرتے ہیں۔ آپؐ جس اندازِ حکیمانہ اور پر تاثیر لہجے میں ان سے گفتگو فرماتے ہیں کہ جو دلوں کے تار چھیڑ دیتا ہے۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں، محبت اور شوق کے ولولے از سر نو انگڑائی لیتے ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں:

            ’’اے گروہ انصار! جس وقت میں تمہارے یہاں آیا تو کیا تم گمراہ نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں میری بدولت ہدایت فرمائی۔ تم محتاج تھے، اللہ نے میری وجہ سے تمہیں غنی بنا دیا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پروردگار نے میرے طفیل تمہارے دلوں کو جوڑ دیا‘‘۔

            انصار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ حضور پھر یہی کلمات دہراتے ہیں تو انصار جواب دیتے ہیں:

            ’’ہمارے پاس آپ کی اس بات کا کیا جواب ہے۔ سارا فضل و احسان اللہ اور اللہ کے رسولؐ کا ہے‘‘۔

            سرور عالم موقع کی مناسبت سے بات کا رخ فوراً موڑ دیتے ہیں، تاکہ حاضرین میں ندامت کے ساتھ ساتھ سربلندی کے احساسات بھی بیدار ہوں اور انصاف کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ یہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ آپؐ انسانی نفسیات کے کس قدر ماہر تھے، ارشاد ہوتا ہے:

            ’’اے گروہِ انصار! نہیں؛ خدا کی قسم اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو اور تمہارا کہنا بجا ہوگا، جس کی تصدیق میں خود کروں گا‘‘۔

            ’’یہ کیوں نہیں کہتے کہ اے محمدؐ! تم ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ اپنوں نے تمہیں جھٹلایا، ہم نے تمہاری تصدیق کی۔ تم بے سہارا تھے، ہم نے تمہیں سہارا دیا۔ تمہیں وطن سے نکال دیا گیا، ہم نے تمہیں پناہ دی۔ تم خالی ہاتھ تھے، ہم نے ہمدردی کی، ہم نے تمہاری امداد کی‘‘۔

            اس کے بعد آپؐ نے انصار کی طرف رخ کرکے ایک ایسی بات، ایک ایسے انداز میں فرمائی جس کی تاثیر اور رقت آمیزی بے مثال ہے۔ اس بات کو سنتے ہی انصار بے قابو ہوگئے۔ ایمانی محبت کے سوتے دلوں سے بے ساختہ پھوٹ پڑے اور آنکھوں کی راہ سے بہہ نکلے۔ آپؐ نے فرمایا:

            ’’اے گروہِ انصار! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ لوگ اپنے ساتھ بھیڑ بکریاں لے جائیں اور تم اپنے ساتھ اللہ کے نبیؐ کو لے جاؤ‘‘۔

            آپؐ کے مکالمات کی تاثیر اور رقت انگیزی میں درحقیقت معجزۂ الٰہی تھے۔ پتھر دل بھی آپ کی باتیں سن کر موم ہوجاتے۔

            مسجد نبوی سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی درس گاہ تھی، جہاں آپ صحابہؓ کو، دوسر سے آنے والوں کو، ہر سطح کے لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ حضورؐ کے تعلیم دینے کا انداز بھی منفرد تھا۔ آپ لمبی چوڑی اور بے معنی گفتگو سے احتراز فرماتے۔ کبھی آپ خود بات چھیڑ دیتے اور بیچ بیچ میں حاضرین کے سوالات کا جواب بھی عطا کرتے جاتے۔ کبھی حاضری استفسار کرتے تو آپ ان کے جواب دیتے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ نے تعلیم و تعلّم کیلئے مکالمات کا انداز اختیار فرمایا؛ کیونکہ ہر لحاظ سے مکالمات تعلیم کا بہتر اور موثر ترین طریق ہیں۔ جدید تعلیمی نظریات بھی اس طرزِ تعلیم کی تائید کرتے ہیں۔ سوال و جواب سے موضوع پوری وضاحت سے سائل کے ذہن نشین ہوجاتا ہے۔ حضورؐ کے اس طرز تعلیم سے اجڈ بھی مستفید ہوتے اور عالم بھی۔

            انداز ملاحظہ کریں: ابن مسعودؓ  آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں : یا رسول اللہ! کون سا عمل افضل ہے؟

            آپؐ جواب دیتے ہیں: وقت پر نماز پڑھنا۔

            ابن مسعودؓ: حضورؐ! اس کے بعد؟

            رسول اللہ : والدین سے حسن سلوک۔

            ابن مسعود: اور اس کے بعد یا نبی اللہ؟

            رسول اللہ: جہاد فی سبیل اللہ۔

            ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ اس کا نام عمرو بن عبسہ ہے۔

            عمرو: آپ کون ہیں؟

            رسول اللہ: میں اللہ کا رسول ہوں۔

            عمرو: کیا آپ کو خدا نے مبعوث کیا ہے؟

            رسول اللہ: بے شک مجھے خدا ئے واحد و لاشریک نے نبی بناکر بھیجا ہے۔

            عمرو: آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟

            رسول اللہ: اللہ کو ایک مانو، جس کا کوئی شریک نہیں اور نہ کوئی دوسرا عبادت کے لائق ہے۔ قرابت داروں سے محبت و شفقت سے پیش آؤ۔ (الخ)

                                                                                                                                    (جاری)

موبائل: 9831439068       [email protected]

تبصرے بند ہیں۔