اردوگان، مرسی اور اسلامی نظریہ

قمر فلاحی

کسی بھی شخصیت کا مطالعہ مندرجہ ذیل اصولوں کی روشنی میں ہوتا ہے.

1- اقوال و افعال جو تحریر شدہ ہو.

2- ذاتی تعلقات ومعاملات.

3- تاریخ جو درست اور صحیح ہو.

4- متعلق افراد کی روایات جو عدل پہ مبنی ہو.

 اگر ضعیف روایات کو جمع کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے تعلق سے کوئی شخص رائے قائم کرنا چاہے گا تو مختلف وادیوں میں گھومتا ہوا انکار نبوت کر ڈالےگا .تعدد ازدواج کو اہل ایمان دوسری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اہل کفر دوسری نظر سے یہی حال اسلامی حدود،پردہ، اور دیگر اسلامی نقطہ ہائے نظر کا ہے، مگر جب کوئی مسلمان صحیح روایات اور تشریحات کی روشنی میں اسلام کا مطالعہ کرتا ہے تو سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیوانہ ہوتا ہے پھر اپنا سارا کچھ اسلام پہ نچھاور کرنے پہ فخر سمجھتا ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی افریقہ تو کوئی فارس سے آکر حلقہ بگوش اسلام ہوجاتا ہے اور  دوسری طرف اپنی عزت و شرف پہ ناز کرنے والا نبوت میں کیڑے نکالتا رہ جاتا ہے.

صدر مرسی اور اردغان سے متعلق اگر کوئی شخص اسی معیار پہ لکھنا اور پڑھنا شروع کردے تو بہت کچھ مزید چھن کر سامنے آنے لگے گا اور ہمارا موقف اسلامی ہوتا جائے گا.

قرآن نے صاف اعلان کیا ہے :

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ آمَنُوٓاْ إِن جَآءَكُمۡ فَاسِقُۢ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوٓاْ أَن تُصِيبُواْ قَوۡمَۢا بِجَهَـٰلَةٍ فَتُصۡبِحُواْ عَلَىٰ مَا فَعَلۡتُمۡ نَـٰدِمِينَ (الحجرات: 6)

اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ.

صدر مرسی اور طیب اردغان کے تعلق سے جتنی بھی خبریں آرہی ہیں اس کے ذرائع نٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں، جس پہ خبر ڈالنے والے مسلمان ہیں کہ کافر ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے. میڈیا کے ذریعہ کسی کو ہیرو اور کسی کو ویلن بنانا آسان کام ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ملک کا مسیحا بنا بیٹھا ہے اور روز اس کی شان میں قصیدہ پڑھا جارہا ہے .بابری مسجد قضیہ میں از ابتداء تا ایں دم کانگریس ملوث ہے مگر اب مسلمان انہیں تقریبا معاف کر چکے ہیں.”اکال تخت” معاملہ کی سزا جب اندرا گاندھی کو دی گئی تو تاریخ میں کبھی نہ معاف ہونے والا جرم سکھ فسادات کی شکل میں ہوا مگر ایک نوالا جونہی من موہن سنگھ کی شکل میں پھینکا گیا سکھوں نے اپنا سارا حساب و کتاب معاف کردیا…………..!

ہم نہ کبھی صدر مرسی اور نہ ہی اردغان کو اپنا مسیحا سمجھتے تھے اور نہ کبھی سمجھیں گے ہمارا مسیحا اور مشکل کشا اوپر بیٹھا سارا تماشہ دیکھ رہا ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ ان کے معصوموں کو کس طرح مشق ستم بنایا جارہا ہے……….جس وقت نبی ص کا دندان مبارک شہید ہوا کیا ہمارا رب نہیں دیکھ رہا تھا؟ جس وقت آپ ص پیٹ پہ تین پتھر باندھے جنگ فرمارہے تھے، جس وقت طائف کی وادی میں وباش چھوکرے آپ کو لہو لہان کر رہے تھے،جس وقت اونٹ کی اوجھ گلے میں ڈال کر گھسیٹا جارہا تھا کیا اس وقت ہمارا پروردگار نہیں دیکھ رہا تھا؟یقینا دیکھ رہا تھا. کیا کائنات کی محبوب ترین ہستی کا نام محمد ص نہیں ہے ہاں کیوں نہیں؟  پھر اے مسلمانو ہم اس سے عبرت کیوں نہیں پکڑتے ……شام کے مسلمان ہوں یا فلسطین و افغانستان و کشمیر کے کیا ان کا مرتبہ نبی ص اور اصحاب رسول ص سے زیادہ بڑھ گیا  ہےجو اس قدر وائے ویلا مچا ہے؟………جن کی قسمت میں موت و شہادت ہے وہی کام آئیں گے ہمیں تو بس یہ دیکھنا ہے کہ ہماری موت ناحق نہ ہوجائے.

ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایک تاریخ ساز جملہ تازہ کیجئے” جو شخص محمد ص پہ ایمان رکھتا تھا وہ جان لے کہ محمد ص مر چکے ہیں اور جو شخص محمد کے رب پہ ایمان رکھتا تھا وہ جان لے کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرنے والا…”

ابابیل سے ابرہہ کو ہلاک کرنے والا نہ ابابیل کا محتاج ہے اور نہ مرسی و اردغان کا  ہمیب توکل اسی ذات پہ کرنا ہے اور کلمہ گو کے تعلق  سےبلا ثبوت بدظن بھی نہیں ہونا ہے.

اور ہاں یہ بھی یاد رہے کہ جنت کی ڈگر سبزہ زاروں اور آرام کی خواب گاہوں سے نہیں بلکہ آزمائشوں تکلیفوں ، فاقوں، قیدو سلاسل اور  تختہ دار کی راہوں سے گذرتی ہیں ……….جیسا کہ ارشاد باری ہے:

أَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُم‌  مَّسَّتۡہُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ ۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِ    أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ

(البقره: 214)

کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر اگلوں کی سی روداد (حالت) نہ آئی پہنچی انہیں سختی اور شدت اور ہلا ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ کہہ اٹھا رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کب آئے گی اللہ کی مدد سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے،

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔