ناکام بغاوت کامیاب اسلام

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
16 جولائی 2016 کو چشم فلک نے ایک عجیب وغریب منظر دیکھا،  ترکی کی فضاوں میں فوجی جہاز وزیر اعظم کے دفتر پر بم برسارہے تھے،   سڑکوں پر ہر قسم کے مہلک ہتھیاروں سے لیس فوجی ٹینک دندنارہے تھے،    سپاہی ہاتھوں میں آٹومیٹک ہتھیارلیے گولیاں برسارہے تھے،  گویاکوئی خونخوار فوج شب خون مار رہی ہو۔ چند گھنٹے موت کا یہ رقص زمین سے آسمان تک جاری رہااور قریب تھا کہ جمہوری طریقوں سے چنی ہوئی ایک حکومت کا فوجی تختہ پلٹ ہوجاتاکہ اس ملک کے غیور عوام اچانک لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل پڑے اور ہر قسم کے ہتھیاروں اور فوجی بربریت کی پرواکیے بغیر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور فوجیوں سے ان کے ہتھیار چھین لیے۔ یہ غیور عوام نہ اس ملک کے صدر تھے نہ وزیراعظم اور نہ ہی ممبر پارلیمنٹ،  اقتدار میں آنے کا بھی انھیں کوئی لالچ نہیں تھا۔ ہر قسم کے سرکاری عہدے اور فائدے کی خواہش سے بالاتر ہوکر یہ عوام صرف اس لیے جان پر کھیل گئے کہ انھیں اپنے نظریے کی بقامقصود تھی اور یہ منظر اسی لیے عجیب وغریب تھا کہ ایک مقصد،     نظریے اور نصب العین کی خاطر لوگ اپنی جان پر کھیل جائیں اور انھیں اللہ کے سواکسی سے کوئی غرض مطلوب نہ ہو۔ اس نظارے کو یاد کریں تو کبھی بدر ذہن میں آتاہے،  کبھی احد ذہن میں آتا ہے،  کبھی خندق ذہن میں آتا ہے اور کبھی مکہ کی گلیوں میں بے قصور اور نہتے لوگوں پر ہونے والے اس ظلم کی یاد آتی ہے کہ جو بناکسی خطااور لالچ کے جھیلتے رہے تھے۔ ترکی کے غیور عوام صرف اس غرض سے سڑکوں پر نکلے تھے کہ تقریبا 100 سال کے بعد قائم ہونے والی ایک مضبوط اسلام پسند حکومت کا تحفظ کرسکیں۔ جب کہ فوج اس لیے سڑک پر اتری تھی کہ بالآخر اسلام پسندوں کا قلعہ قمع کردیاجائے اور ترکی کی فضامیں ایک بار پھر پھیلنے والی اسلام کی خوشبوکو اپنے مبینہ غیر اسلامی ارادوں کی بدبوسے بدل دیاجائے۔  لیکن اسلام پسندوں نے اس مذموم سازش کو ناکام بنادیا۔
عوامی انقلاب پہلے بھی آتے رہے ہیں،  فوجوں نے اکثر چنی ہوئی حکومتوں کے تختے پلٹے ہیں،  عوام نے بھی فوجی مزاحمتوں کا سامنا کیاہے۔ قدیم تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتاہے کہ پرانے وقتوں میں بھی عوام فوج کے خلاف سینہ سپر ہوئے تو فوجیوں کے رخ موڑ ڈالے۔ اس نقطہ نظر سے ترکی کی یہ ناکام فوجی بغاوت کوئی نئی بات نہیں ہے،  لیکن رات کے پچھلے پہر ابھرنے والی اس بغاوت کو محض چار گھنٹے میں فروکردینا بہر حال تاریخ میں ایک انوکھااور نیاواقعہ ہے اور وہ بھی اس شان کے ساتھ کہ ترکی کا صدر اپنے فون پر ایک میسیج رکارڈ کرکے ٹیلی ویژن کو بھیجتا ہے اور اپنے کچھ رفقاءکو باخبر کرتاہے اور ان سے اپیل کرتاہے کہ عوام سڑکوں پر آکر فوج کا مقابلہ کرے۔ اس اعلان کے چند ہی ساعتوں کے اندر سوتے ہوئے عوام بیدار ہوکر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے،  ایساپہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ بغاوت کی اس خبر پر دنیا دم بخود تھی لیکن نہ تو ترکی کا فرنرواں دم بخود ہوا اور نہ ہی اس کے کارکنان اور عوام۔ ایسے موقعوں پر عام طور سے یہ دیکھاجاتاہے کہ سربراہ اپنی جان بچاکر ملک سے بھاگ جاتاہے اور اس کے رفقابھی غیر ممالک کی سرحدوں میں فرار ہوکراپنی جان بچاتے ہیں اور اپنے رائے دہندہ عوام کو بے یارومددگار چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر کا یہ فرمانرواچودہ سوسال پرانی تاریخ کو دہراتے ہوئے اپنے ہوٹل سے نکلتاہے اور استنبول کے لیے روانہ ہوجاتاہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ فضامیں دشمن کے جہاز موجود ہیں جو دور سے نشانہ بناسکتے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی رائٹر نے لکھاہے کہ جس وقت طیب رجب اردغان کا جہاز فضامیں استنبول کی طرف رواں ٹھیک اسی وقت باغی فوج کے دوجہاز اس کو گھیرے میں لے کر آگے بڑھ رہے تھے اور اس سے قبل وہ ہوٹل جس میں صدر ترکی مقیم تھے،  وہاں بھی بم برساچکے تھے جب کہ صدر اس سے چند لمحہ پہلے ہی ہوٹل سے نکل چکے تھے۔ صدر ترکی یہ بھی جانتے تھے کہ استنبول کا ہوائی اڈہ بھی باغیوں کے قبضے میں ہے، اس کے باوجود تمام خطرات کے پیش نظر انھوں نے اپنے عوام کے بیچ رہناقبول کیااور موت کے خدشات کو خاطر میں نہ لائے۔ طیب رجب اردغان کا یہی وہ جذبہ تھا جس نے عوام کے اندر جوش بھردیااور یہ مرد مجاہد صرف اپنی حکومت کی نہیں بلکہ نظریہ اسلام کی بقاکی خاطر اپنے شہر پہنچااور باغیوں کی سرکوبی کے انتظامات کیے اور پھر اطمینان سے فجر کے نماز کی امامت کی۔ ہمیں یقین رکھناچاہیے کہ فجر کی اس نماز کے بعد ایک اسلامی فرمانروایقینا بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہواہوگا اور اپنے رب کی بارگاہ میں دعاگورہاہوگاکہ اپنے دین کی بقا کی خاطر اس سرکشی کو فروکردے اور اللہ نے اس کی مخلص اور بے نیاز دعاکو فورا ہی شرف قبولیت بھی بخشا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آج کی دنیاجن سورشوں اور آشوب سے گزر رہی ہے، کشمکش اور پنجہ آزمائی کا جو زمانہ خصوصا مسلم دنیا پر طاری ہے اس کی بڑی وجہ اس کے سواکچھ نہیں کہ دنیا بھر میں اسلام پسند ایک منتخبہ جمہوری حکومت کی حیثیت سے عوام کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دنیا کے باقی جابر حکمراں جو جمہوریت کے نام پر تمام انسانی وسائل کو اپنی مٹھی میں بند کرکے اپنے ہی عوام پر ظلم کرتے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسلام نے غلبہ پایاتو ان کا ظلم مٹ جائے گا،  اس لیے وہ اسلام کے اس بڑھتے ہوئے طوفان سے خائف ہوکر ہر اسلامی تحریک کا قلعہ قمع ہر نہج پر کرنا چاہتے ہیں،  پھر وہ چاہے فکری ہویاعسکری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی حقوق کا علم بلند کرنے والے اور مستقل جمہوریت کی شان میں رطب اللسان حکمراں اور راہنماجب اسلام کو جمہوری طریقوں سے اقتدار میں آتے دیکھتے ہیں تو لرزہ براندام ہوجاتے ہیں۔ یہی منظر الجزائر میں بھی دیکھاگیا،  سوڈان میں بھی دیکھاگیااور پھر تیونس،    لیبیا،  مصر،  فلسطین میں بھی بار بار اس کا اعادہ ہوا۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ جس خطے پر ایک لمبے عرصے کبھی برطانیہ اور فرانس کی حکومت رہی ہو،  جس نے پورے عرب کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس پر حکمرانی کی ہواور جس کی خاطر امریکہ اور روس جیسی ایک دوسرے سے برسرپیکار طاقتیں بھی باہم ہم آغوش ہوجاتی ہوں،  اسی خطے میں جب منصفانہ انتخابات عمل میں آتے ہیں تو سب کو شکست ہوجاتی ہے اور صرف اسلام ابھر کر سامنے آتاہے۔ اگر اس سلسلے کو نہ روکا جائے تو یوروپ کا ایک بڑا خطہ اسی انصاف پسند اسلام کی پناہ میں آجانے کو تیار بیٹھاہے اور اسلام کے اسی سیلاب کو روکنے کے لیے مختلف حیلوں اور بہانوں سے اسلام کو بدنا م کرنے اور حاشیے پر کھڑا کرنے کی سازشیں ہر سطح پر کی جاتی ہیں۔ قارئین واقف ہوں گے کہ عصر حاضر کے ذرائع ابلاغ اپنی نشریات میں ان اسلام پسندوں کی تحریک کے غلبے کا ذکر کبھی نہیں کرتے، اس کے برعکس دہشت گردی کے مفروضے کو فروغ دیاجاتاہے۔ داعش،  القاعدہ،  طالبان،  بوکوحرام،  الشبا ب،    لشکرطیبہ،    حزب المجاہدین وغیرہ اسلام مخالف تنظیموں کے نام سے دنیا کا بچہ بچہ واقف ہے۔  کوئی بھی اخبار یا ٹیلی ویژن چینل جب بھی کھولیے،  ان میں سے کسی نہ کسی کانام جلی سرخیوں میں دیکھاجاسکتاہے۔ لیکن اسلام پسند تنظیموں،    حکومتوں،    ملکوں اور حکمرانوں کا نام کبھی نہیں لیاجاتا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ اسلام کی اصل تحریکات سے دنیاکو ناواقف رکھنے کی خاطر ان غیر اسلامی تنظیموں کو سامنے رکھاجاتاہے۔
یہ واضح رہنا چاہیے کہ اسلام پسند تحریکوں اور حکومتوں میں اس وقت سب سے زیادہ مضبوط حکومت ترکی کی ہے جو اپنی معیشت،  سیاسی استحکام اور جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے انتہائی مضبوط ہے۔ اسلام پسندی کے باوجود وہ یوروپ اور امریکہ کے بھی قریبی سفارتی تعلقات رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی حکمت عملی اس طرح مرتب کی ہے کہ اس میں بنیادی اسلام بھی شریک رہے،  جمہوریت کے عنصر بھی موجود رہیں اور باقی دنیاسے معاندت بھی کم سے کم رہے۔ ایک معتدل حکمرانی کے ساتھ وہ ساری دنیامیں سیاسی اسلام کے سرخیل کی حیثیت سے بھی مصروف عمل رہیں اور دنیابھرمیں ان تحریکوں کو قوت بھی پہنچاتے رہیں۔ دنیابھرمیں اتحاد اسلامی کی مثبت اور غیر عسکری کوششوں کے ذریعے وہ اسلام کو تقویت بھی پہنچاتے رہیں۔ اور یہی وہ اصل ہدف ہے جسے دنیاکی منافق حکومتیں برداشت نہیں کرپارہی ہیں۔ چنانچہ ماضی میں بھی کئی بار فوجی بغاوتوں کے ذریعے اس حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر جمہوری طریقوں سے بھی طیب رجب اردغان کی پارٹی کو شکست دینے کی کوشش کی گئی۔  جب یہ سب تدبیریں ناکام ہوگئیں تو مصر کے خطوط پر ترکی کو بھی فوج کے زیرنگیں کرکے اپنے زرخرید لوگوں کے ذریعے اس خطے پر قبضہ کرکے یوروپی یونین اور اسرائیل کو استحکام بخشنا مقصود تھا۔ دوسری جانب مغربی ایشیاءکے ممالک اور ایران کی داخلی سلامتی کو بھی اپنی مٹھی میں کرنے کی سازش کی گئی۔  اسی سازش کے ذریعے شام کی حکومت پر اثر انداز ہونے کا بھی منشا تھا۔ اگر یہ بغاوت کامیاب ہوجاتی تو پورے عرب خطے کو مزید توڑنااور شام کی سرکشی کو تقویت دے کر اس کے باقی حصے بخرے کیے بہ آسانی جاسکتے تھے۔ ادھر اسرائیل کو ایک پر سکون سمندر بھی حاصل ہوجاتااور ترکی سے متصل یوروپ کی چھوٹی چھوٹی مملکتوں پر بھی تصرف کیاجاسکتاتھا۔ یاد رہے کہ برطانیہ کے یوروپی یونین سے نکل جانے کے بعد چھوٹی چھوٹی یوروپی ریاستیں بھی نسلی بنیادوں پر یوروپین یونین سے علٰحدگی کے لیے پرتول رہی ہیں،    ایسے میں یہ پوراخطہ بارود کے ڈھیرپر بیٹھا ہے جسے کنٹرول کرنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل کی ریشہ دوانیاں مستقل جاری رہتے ہیں۔ ان کے ناپاک عزائم کی راہ میں طیب رجب اردغان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ اگر 16 جولائی کو دور ہوجاتی تو مغربی ایشیا کا بدقسمت فیصلہ اگلے دوتین سالوں میں ہی ہوجاتا۔ فلسطین کا وجود ختم کیاجاسکتاتھااور شام، ایران، عراق اور ترکی کو کردستان کے نام پر بآسانی تقسیم کیاجاسکتاتھا اور ایک بار پھر مغربی ذرائع ابلاغ یہ دعویٰ کرتے کہ اسلام بحیثیت نظریہ حکمرانی ناقابل قبول ہے۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس فوجی بغاوت کے پہلے مرحلے میں جب فوجی افسران نے ترکی کے ٹیلی ویژن نے یہ اعلان کیاکہ فوج ترکی پر قابض ہوچکی ہے اور آئندہ ایک فوجی کونسل کے ذریعے ترکی میں حکمرانی کی جائے گی تو امریکی خارجہ سکریٹری نے بہت محتاط رد عمل کا اظہار کیا۔ دوسری یوروپی حکومتوں نے بھی اس کا خیر مقدم کیا۔ مسلم ممالک محض انتظار کرتے رہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے۔ وہ تو اگلے چند گھنٹوں میں جب بغاوت ناکام ہوگئی تو مجبور اجمہوریت کی تعریف میں ساری دنیاکو بیانات دینے پڑے،  لیکن نیت کا اندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ بغاوت ناکام ہونے کے فورا بعد جب بڑی تعداد میں باغیوں کو گرفتار کرلیاگیا اور ان کے ہزاروں حامی ججوں کو برطرف کردیاگیا اور یہ اعلان کیاگیاکہ باغیوں کے ساتھ سختی سے پیش آیاجائے گا تو انھیں جان کیری کا یہ بیان آیاکہ بغاوت کی ناکامی کو انتقام لینے کے لیے بلینک چیک نہ سمجھاجائے۔  ہم حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور کسی غیر قانونی حرکت پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔  ساتھ ہی مغربی میڈیا کی جانب سے ترکی حکومت کے خلاف اور فتح اللہ گولن کی حمایت میں مضامین اور اداریوں کا سیلاب آگیا۔ ترکی حکومت کا موقف یہ ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے جہاں اسرائیل نواز ترکی کے سابق فوجی سربراہوں کی قیادت حاصل تھی وہیں ترکی کے ایک معروف لیڈر فتح اللہ گولن جو اس وقت امریکہ میں اپنی مرضی سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں،  ان کی تائید اور منصوبہ بھی شامل تھا۔ حالانکہ فتح اللہ گولن نے اس کا انکار کیاہے لیکن ترکی حکومت نے امریکہ سے مطالبہ کیاہے کہ وہ فتح اللہ کو ان کے حوالے کریں۔ اس پر بھی ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی حکومت کا کہنا یہ ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کے خلاف وافر شواہد پیش کریں،  تبھی ان کو ترکی کے حوالے کیاجاسکتاہے۔ واضح رہے کہ گولن ترکی میں الخدمت نام کا ملک گیر ادارہ چلاتے ہیں جس کے تحت سینکڑوں خیراتی ادارے اور اسکول چلائے جاتے ہیں۔  گولن اسلام کے سیکولرنظریے کے حامی ہیں اور سیاسی اسلام کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ وہ بین المذاہب بھائی چارے کے فروغ کی بات کرتے ہیں اور اسلام کو سیاست سے دور رکھنے کے حامی ہیں۔  یہ وہی نظریہ ہے جو دنیاکے بہت سے ممالک میں ان حکمرانوں نے اختیار کیاہے جو اپنے ملکوں میں شہنشاہیت جاری رکھے ہوئے ہیں یا برائے نام جمہوریت روارکھتے ہیں۔ لیکن بغاوت کو کچلنے کے لیے جس بڑی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکلے اور خود حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے جس شدت سے اس کی مخالفت کی ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ فتح اللہ گولن کے نظریے کو اب ترکی میں وہ حمایت حاصل نہیں رہی۔ اس موقع پر طیب رجب اردغان کو احتیاط رکھنی ہوگی کہ اس کامیابی کے بعد وہ اپنے عوام کے اعتماد کو مجروح نہ ہونے دیں اور کسی بھی انتقامی جذبے کے تحت کوئی ظلم نہ کیاجائے تاکہ اسلام کا درخشاں مستقبل ترکی کے ساحل بوسفورس پر کامیابی کے ساتھ جگمگاتے ہوئے دنیابھر کے اسلام دشمنوں کو منہ چڑھاتارہے۔

تبصرے بند ہیں۔