مولانا ابو اللیث ندوی کی دانشورانہ بصیرت 

ڈاکٹرعمیر منظر  

آزاد ہندستان میں مولانا ابو اللیث ندوی (1913۔ 1990)کی عام حیثیت ایک ملی رہنماکی ہے۔  مگر انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔  اس کے علاوہ درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔  ملک کی ممتاز دینی درسگاہیں دارالعلوم ندوۃ العلما اوراپنی ابتدائی مادر علمی مدرستہ الاصلاح میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں۔   1933 سے 1936کے دوران آپ کے متعدد قرآنی مقالات ماہنامہ ’’الاصلاح‘‘ (اعظم گڑھ )میں شائع ہوئے۔  جن کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ قرآنی علوم پرمولانا کی گہری نظر تھی۔  ان کے یہ قرآنی مضامین نہ تو تذکیری نوعیت کے ہیں اورنہ عمومی انداز کے بلکہ یہ تحقیقی نوعیت کے حامل ہیں۔  مولانا شریعت کے رموز اور حالات وواقعات کی تبدیلی سب سے واقف تھے۔  ایک مدرس کی وجہ سے انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اپنے خیالات کو کس طرح پیش کیا جائے کہ وہ زیادہ موثر ثابت ہوں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ آزادی کے فوراً بعد کسی مذہبی جماعت کو مستحکم کرنا اور اس تناظر میں کہ وہ جماعت سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ بدلتے حالات کے حالات لحاظ سے قومی سطح پر لوگوں میں سیاسی شعور بھی پیدا کرنا چاہتی ہے،  خاصا مشکل کام تھا۔  مگر اس مشکل کام کو مولاناکی گہری دانش ورانہ بصیرت نے آسان کردیا تھا۔  جماعت اسلامی ہند کے سامنے اس وقت دو بڑے چیلنج تھے۔  ایک کا تعلق طبقہ علما سے تھا اور دوسرے سنگھی نظریات کے حامل افراد سے۔   مولانا نے ان دونوں محاذوں پر جس طرح سے کام کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔  مولانا جلال الدین عمری نے ابتدائی دنوں کے مسائل کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
اس وقت جماعت کو دینی اور سیاسی دونوں محاذوں پر کام کرنا پڑا۔ جماعت سے بعض نامور علماء دین کو شدید اختلاف تھا اور وہ اس کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کے شکار تھے۔  مولانا نے ان غلط فہمیوں کو رفع کرنے کی بڑی سنجیدہ کوشش کی۔  …دوسرا محاذ سیاسی تھا۔  جماعت کے بارے میں حکومت کا رویہ بڑا سخت تھا۔ وہ اسے انتہائی خطرناک سمجھتی تھی اور اس کی سرگرمیوں پر طرح طرح کی بندشیں عائد کررہی تھی۔  اس سلسلے میں اس کے کارکنوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔  مولانا نے حکمت و تدبر سے جماعت کا موقف واضح کیا او ربتایا کہ جماعت نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں آئی ہے اور ا س اعلی مقصد کو اخلاق،  آئین اور قانون کے حدود میں رہ کر حاصل کرنا چاہتی ہے۔  ہندستان کے دستور کی رو سے اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔  (رہبر کارواں :مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی،  مرتبہ انتظار نعیم،  مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز۔ جنوری 2014 ص :۵9۔ 60)
مولانا نے جس طرح سے ابتدائی دنو ں کے ان مسائل سے جماعت اسلامی کو بہ حسن وخوبی باہر نکالا اور اس کی حیثیت کو مستحکم کیا وہ ان کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔  مولانا عمری کے بقول ’’مولانا نے جس حکمت و بصیرت اور ہوش مندی سے ایک کل ہند جماعت کی قیات کی اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔  یہاں یہ واضح کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ مولانا نے جب جماعت اسلامی ہند کی امارت قبول کی اس وقت ان کی عمر پینتیس چھتیس برس کی رہی ہوگی۔
مولانا کی سادگی اور سادہ مزاجی نے ان کے گرد کسی ایسے حصار کو قائم ہونے کا موقع ہی نہیں دیا کہ جس سے تصنع اورریاکاری کا کوئی شائبہ بھی پیدا ہو۔  شخصیت کے اس پہلو نے بھی غیروں کے شبہات کے ازالے میں بہت مدد کی۔  اسی لیے جو قریب آتا وہ قریب ہی ہوتا چلا جاتا۔  نہیں معلوم کہ ابتدائی دنوں میں جماعت اور اس کے قائد نے تربیت کا ایسا کیا نظام وضع کیا تھا کہ اس کے وابستگان شخصی طور پر ایک صاف وشفاف حیثیت کے مالک،  امانت و دیانت کے معاملے میں نہایت کھرے اور بے باک فرد کے طور پر جانے جاتے تھے۔   ہر اس معاشرے اور سماج میں جہاں جہاں جماعت کے ارکان یا وابستگان ہوتے تھے ان کی حیثیت منفرد اور ممتاز ہوتی تھی۔
ارکان جماعت بے مثال امانت و دیانت،  سماجی رابطے اور حسن اخلاق کی جس ڈ ور سے گوندھے گئے تھے۔  اس میں کسی کو کچھ کہنے سننے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔   اسی لیے ان کی حیثیت عام معاشرے میں ممتاز ہوتی تھی۔ مخالفین ارکان جماعت کی ان خوبیوں کی وجہ سے اصولی طور پر زیادہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے تھے۔  یہ الگ بات ہے کہ ڈھٹائی اور بے حیائی میں کوئی کسی کو کچھ بھی کہہ لے۔  منفرد ارکان کی ان خوبیوں اور قائد کی ان کوششوں کے نتیجے میں بہت جلد جماعت اسلامی کا شمار ہندستان کی منظم جماعتوں میں کیا جانے لگا۔  مولانامحمد طاہر صاحب مدنی نے راقم کی مرتبہ کتاب ’’مولانا ابو اللیث ندوی کے قرآنی مقالات ‘‘کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ :
مولانا ابواللیث ندوی رحمتہ اللہ علیہ 1948 سے (درمیان میں آٹھ سال کو مستثنی کرکے )1990 تک جماعت اسلامی ہند کی امارت کی ذمہ داری سنبھالی۔  یہ وہ دور تھا جب برادران ملک پر تقسیم کے اثرات باقی تھے، یہ وہ دور تھا جب برادران ملک پر تقسیم کے اثرات باقی تھے،  جماعت اسلامی ہند کو اس کے باوجود کہ اس کا جماعت اسلامی پاکستان سے کسی بھی قسم کا کوئی تنظیمی تعلق نہیں رہا اور دونوں کی پالیسی الگ تھی،  مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا رہا۔  ہندستانی علما کے ایک طبقے نے بھی جو اپنی کسی مصلحت سے جماعت اسلامی کو پسند نہیں کرتا تھا موقع سے فائدہ اٹھا کر جماعت اسلامی پر فتووں اور الزام تراشیوں کی یورش شروع کردی۔  یہ محض مولانا کے فہم و فراست کی بات تھی کہ انھوں نے ان نازک حالات میں جماعت اسلامی ہند کی اس طرح قیادت فرمائی کہ اسے ہندستان کی سب سے بڑی منظم جماعت کی حیثیت دے دی۔  (مولانا ابو اللیث ندوی کے قرآنی مقالات،  مرتبہ عمیر منظر۔ اکتوبر 2002۔ ص 9۔ 10)
1948 سے لے کر 1972 تک کے دوران مذہبی اور قومی معاملات میں مولانا نے رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ ملت کے بے شمار مسائل خصوصاً ازادی کے بعد مسلمانوں کے اندر جو مایوسی کی فضا اور خوف کی جو کیفیت تھی اس کو حکمت اور دانائی کے ساتھ بتدریج کم کرنے کی کوشش کی۔  غالباً اسی لیے برادران وطن تک دعوت و تبلیغ کا کام اور شریعت اسلامیہ کے بارے میں برادران وطن کی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے منظم کوشش کا آغازکیا۔   اور اسی طرح ملت کے جو مختلف مکاتب فکر اور ان کے اکابر تھے،  ان سب سے مولانا کے رابطے تھے ان سے ملتے اور کوشش کرتے کہ اشتراک عمل کے لیے کچھ نمائندہ خطوط تیار کیے جائیں اور فروعی معاملات کو بہت زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔  مولانا حسین احمد مدنی سے مولانا کی مراسلت کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔  مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری،  مفتی عتیق الرحمن عثمانی اور مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی اور بعض دیگر اکابر سے نہ صرف مولانا کے گہرے مراسم تھے بلکہ مولانا ان سے ملاقات کے لیے باقاعدہ سفر بھی کرتے تھے۔  مولانا کا یہ اقدام جماعت کے موافق فضا سازی میں نہایت کارآمد ثابت ہوا۔  ڈاکٹر تابش مہدی نے ان امور سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مولانا ابو اللیث ندوی ’’روحانی اور انسانی دونوں قدروں کے امین و پاس دار تھے اور یہ وصف کسی بھی دینی و ملی قائد و رہ نما کے لیے ناگزیر ہے ‘‘۔
ملت کی یہی دردمندی مختلف ملی اور مذہبی اداروں کے سلسلے میں بھی تھی۔  مسلم پرسنل لا بورڈ، مسلم مجلس مشاورت اور دینی تعلیمی کونسل کے موسس رکن تھے ان کے علاوہ بھی ملک کے متعدد تعلیمی اور رفاہی اداروں کے بانی و سرپرست تھے مگر ہر جگہ انھوں نے ملت اسلامیہ کے کاز کو اولیت دی۔  اپنے نام کو کہیں نمایاں نہیں کیا۔  جماعت اسلامی کے امیر ہونے کے باوجود مسلم پرسنل لا بورڈ، مسلم مجلس مشاورت اور دینی تعلیمی کونسل کے حدود کار میں کبھی مداخلت نہیں کی اور نہ کسی کی مداخلت کو برداشت کیا۔  دراصل ان اداروں کے توسط سے ہندستانی مسلمانوں کی جو متحدہ آواز تھی وہ اس کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔  اس کی بے شمارپیش کی جاسکتی ہیں مگر یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا۔  مسلم پرسنل لا اور شاہ بانو کیس کے فیصلے سے متعلق اقلیتی کمیشن کے چےئرمین جسٹس حمید اللہ بیگ نے تیرہ سوالوں پر مشتمل ایک خط مختلف شخصیتوں اور اداروں کو ارسال کی اور ان سب سے جواب دینے کی خواہش کی۔  امیر جماعت اسلامی ہند کی حیثیت سے مولانا کو بھی یہ خط ارسال کیا گیا۔  اب مولانا کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔  مولانا نے یہ جواب 12، اکتوبر 198۵ کو ارسال کیا تھا:
یہ سوال نامہ جو’’صحیح معلومات اور مسلمانوں کی رائے بھی ‘‘جاننے کے لیے جاری کیا گیا ہے،  اس کی ضرورت بقول آپ کے اس لیے محسوس کی گئی ہے کہ ’’مسلم پرسنل لا کے بارے میں کافی لاعلمی اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ‘‘اس ضمن میں دو باتیں عرض کرنی ہیں :
اول یہ کہ جہاں تک عام مسلمانوں نیز ان کی جماعتوں اور تنظیموں کا تعلق ہے،  الگ الگ اورآل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کے توسط سے ان کی رائے بہت ہی کھل کر سامنے آچکی ہے یہی نہیں بلکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر اور ان کی جماعتوں اور تنظیموں کی نمائندگی کرتا ہے اس کا ایک نمائندہ وفد وزیر اعظم سے ملاقات کرکے انھیں ایک میمورنڈم بھی پیش کرچکاہے جس میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ ہندستانی مسلمانوں نے محمد احمد بنام شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو کس نگاہ سے دیکھا ہے،  قانون شریعت کا ان کے نزدیک مقام کیا ہے اور وہ اس کے بقا و تحفظ کے لیے حکومت سے کیا کچھ چاہتے ہیں۔  چنانچہ اب مسلمانوں کی ’’رائے ‘‘بھی جاننے کے سلسلے میں کمیشن کو یہ زحمت اٹھانے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی۔   (جسٹس حمید اللہ بیگ کے نام امیر جماعت اسلامی کا مکتوب،  شعبہ نشرو اشاعت جماعت اسلامی ہند دہلی۔  198۵ ص :2
جسٹس حمید اللہ بیگ کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ قانون کے ماہر اور رمز شناس ہیں۔  ان کے خط کے جواب میں مولانا نے ان کو قانون کی باریکی سمجھانے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیا بلکہ واضح طور پر لکھا کہ اس بارے میں آپ کو مختلف لوگوں اور اداروں کے بجائے مسلم پرسنل لا بورڈ سے رجوع کرنا چاہیے تھا :
ایک ماہر قانون کی حیثیت سے آپ اس بات سے یقیناواقف ہوں گے کہ کسی مسئلے سے،  خاص کر اس وقت جبکہ اس کا تعلق بنیادی قانون کی تعبیر وتشریح سے ہو تو اس سے محض ’’دلچسپی ‘‘ہی لوگوں کو اس کے بارے میں فیصلہ کن رائے دینے کا اہل نہیں بنا سکتی۔  مثال کے طور پر اس بات سے آپ بھی اتفاق کریں گے کہ محض ’’دلچسپی‘‘کسی شخص نہ تو آئین کی کسی شق یا ضابطۂ فوجداری کی کسی دفعہ کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینے کا اہل بناسکتی ہے اور نہ ہی اس کی راے کو محض اس دلچسپی کی بنا پر معتبر قرار دیا جاسکتا ہے۔  اس کے لیے بعض شرائط کی تکمیل اور قانونی مہارت کا حصول ضروری ہے۔  بعینہ یہی بات قانون شریعت کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے طور پر قانونِ شریعت کی من چاہی تعبیر و تشریح کرے چہ جائے کہ اس کی یہ تعبیر و تشریح معتبر بھی قرار پائے۔  ’’صحیح معلومات‘‘حاصل کرنے کا یہ طریقہ نہ تو عقل کی میزان پر پورا اترتا ہے اور نہ انصاف و دیانت کے تقاضوں کی تکمیل کرتانظرآتا ہے۔  اس سلسلے میں معقول طریقہ یہی ہوسکتا تھاکہ مسلم پرنسل لا بورڈ کے ذمہ داراوں کی طرف رجوع کیا جاتا اور ’’قانون شریعت میں دلچسپی رکھنے والے ‘‘بھانت بھانت کے لوگوں کی ’’قیمتی رائے‘‘معلوم کرنے پر وقت ضائع نہ کیا جاتا۔  (حوالہ بالا ص:3۔ 4)
خط کے آخری پیراگراف سے ماقبل مولانا نے واضح کردیا کہ اس طرح کے خط کے ذریعہ حکومت کا اصل منشا کیا ہے۔  اس خط سے جماعت اسلامی کی پالیسی،  ملی معاملات میں مولانا کے رویے دونوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔  مولانا اور اس عہد کے دیگر اکابر کی انھی مخلصانہ کوششوں اور اس نوع کے اقدامات کے سبب نہ صرف یہ ان اداروں کو اعتبار حاصل تھا،  بلکہ مجموعی طور پر ملی جماعتوں اور تنظیموں کو خاصی اہمیت حاصل تھی۔  مولانا نے اس خط کے اخر میں انھیں لکھا :
جو سوالات قائم کیے گئے ہیں ان سے بھی یہ صاف طور پر مترشح ہے کہ اس کے ذریعے غالباً کچھ ایسا مواد اکٹھا کرنا ہی پیش نظر ہے جس سے انتشار کو رفع کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دی جاسکے۔  اور’’صحیح معلومات ‘‘حاصل کرنے کی آڑ میں کچھ خاص طرح کے خیالات کی،  جو اسلامی نقطہ نظر سے غلط اور نامطلوب ہیں،  تائید و حمایت کی جاسکے۔  (حوالہ بالا ص :4)
مولانا ابو اللیث ندوی کی قائدانہ دانش وری کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ انھوں نے مختلف اجتماعی مسائل کے حل کے لیے دیگر اداروں اور افراد کے ساتھ اتحاد ویگانگت کی فضا قائم کی اور کہیں پر بھی نہ تو جماعت اسلامی کو اور نہ خود کونمایاں کرنے کی کوشش کی۔  ان کے انتقال کے بعد ایک بات بہت شدو مد کے ساتھ سامنے آئی کہ مرحوم ’’ملی اور ملکی وحدت کی ایک اہم علامت تھے‘‘۔ مولانا کے اس قائدانہ کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمغنی نے لکھا ہے :
واقعہ یہ ہے کہ مولانا مرحوم کی امارت میں جماعت اسلامی ہند کا یہی مزاج بن گیا کہ و ملک و ملت کے ہر نیک کام میں منصب داری اور گروہ بندی سے بے نیاز ہوکر،  بالکل رضاکارانہ شریک ہو۔ اور بے لوثی کے ساتھ کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔  (ماہ نامہ حیات نو فروری تا جون 1991 ص :۵0)
دین اسلام کے داعی و مبلغ کے طور پر وہ جس تحریک سے وابستہ ہوئے اور ایک عرصہ تک جس کی قیادت فرمائی تھی یہ بات ان پر واضح ہوچکی تھی ہمارا اصل کام دین کی دعوت دینا ہے اور یہ کام نہ تو وقتی اور نہ کسی خاص مرحلے تک بلکہ یہ مسلسل جاری و ساری رہنے والا عمل ہے۔  اسی لیے آپ نے اس کے لیے جو لائحہ عمل تجویز کیے یا اپنی تقریروں اور کتابچوں میں جہاں جہاں اس بات کو تحریر کیا ہے اس میں دعوت دین کے ساتھ ساتھ داعی کے کردار کو بھی نمایاں کیا ہے۔  نیز مغربی ممالک کے پس منظر میں اس بات پر بھی زور دیا کہ مستشرقین کی کتابوں میں اسلام اور پیغمبر اسلام سے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔  بعض فروعی معاملات کو بہت نمایاں کیا گیا ہے اس لیے ان سے واقفیت ضروری ہے۔  لیکن اسی کے ساتھ مولانا نے یہ بات بھی واضح کردی۔  ان خرابیوں کے باوجود مستشرقین کے لٹریچر سے منہ موڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کی بعض نہایت علمی خدمات ہیں جن کا اعتراف ضروری ہے۔  واضح رہے کہ ان خیالات کا اظہار مولانا نے یو۔ کے اسلامک مشن کی بیسویں سالانہ کانفرنس کے موقع پرمقالے کی صورت میں کیا تھا جو برمنگھم میں اگست 1983 کو منعقد ہوئی تھی۔  یہ مقالہ مغرب میں اسلام کی دعوت کے عنوان سے بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔  مولانا لکھتے ہیں :
قرآن کی ان ہدایت اور انبیاء کرام کے اس طریقہ دعوت کی اتباع میں ہمارے لیے مغربی اقوام کو اسلام کی دعوت دینے کا صحیح طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ ہم سب سے پہلے اسلام کے بنیادی عقائد ان کے ذہن نشین کرائیں۔  …یورپ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اس نے اپنی اجتماعی زندگی ے لیے بھی اپنی عقل کی رہنمائی کو کافی سمجھ لیا ہے …ہم اپنی اس کوشش میں اس وقت تک شاید کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک یورپ کے موجودہ نظام زندگی کی بنیادوں کا قوی اور وزنی دلائل سے غلط اور کمزور ہونا واضح نہ کردیا جائے لیکن یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیے ٹھوس تیاری کی ضرورت ہوگی، کیونکہ اہل یورپ کا علمی معیار خاصا بلند ہے اور جیسا کہ میں نے اشارہ کیا ایک عرصہ سے اس کی آبیاری کے لیے انتھک کوششیں صرف ہورہی ہیں اور اس کے حق وثواب ہونے پر ہر طرح کے دلائل مہیا کرنے کی کوشش کی گئی ہیں۔  اس لیے جب تک انھیں کے معیار کے مطابق تنقیدی لٹریچر مہیانہ ہو اپنی باتوں کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے لیکن آپ حضرات اس سے بخوبی واقف ہیں کہ دعوت وتبلیغ میں صرف لٹریچر اور تقریروں ہی پر انحصار نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے عمل کی شہادت بھی ایک ناگزیر ضرورت ہے،  کیونکہ ؂
آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو
پیکر عمل بن کر غیب کی صدا بن جا
(مغرب میں اسلام کی دعوت،  مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔  جنوری 2008۔  ص26۔ 27)
فروری 1982 میں دارالمصنفین شبلی اکیڈمی میں اسلام اور مستشرقین کے عنوان سے بین الاقوامی سمینار کا انعقاد کیا گیا تھا۔  اس موقع پر مولانا نے بھی اپنے خیالات کا اظہار عربی زبان میں کیا تھا۔  مستشرقین کے بارے میں آپ نے سمینار میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا اس کو درج بالا سطور کے تسلسل میں دیکھا جاسکتا ہے۔  مولانا نے اس موقع پر کہا تھا کہ گزشتہ صدیوں میں یورپ نے علوم اسلامیہ کے مطالعہ میں جس دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے قدیم علوم کی مختلف کتابوں کی نشرو اشاعت میں جو دلچسپی دکھائی ہے اس کے لیے وہ بجا طورپر مبارک باد کا مستحق ہے لیکن مولانا نے یہ بھی واضح کردیا کہ اس کے یہ تمام اقدام کسی بلند اخلاقی، کسی عظیم مقصد یا حق کی جستجو کے پیش نظر نہیں تھے بلکہ یہ اس کی اپنی سیاسی ضرورتوں کا نتیجہ تھے۔  اس موقع پر مولانا نے یہ کلیدی نکتہ پیش کیا کہ اسلامی معاشرہ میں اس کا دروازہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک مستشرقین علوم اسلامیہ میں مرجع اور سند بنے رہیں گے۔  مولانا نے لکھا :
جب تک مستشرقین کو استادانہ حیثیت حاصل رہے گی اور جب تک وہ علوم اسلامیہ میں مرجع اور سند بنے رہیں گے اور جب تک وہ اسلام کے افہام و تفہیم کے لیے وہ لوگوں کی توجیہات کا مرکز بنے رہیں گے اس وقت تک اسلامی معاشرہ میں شک و ریب کی تخم ریزی کا دروازہ بھی کھلا رہے گا لیکن اس کے ساتھ ہمیں مستشرقین کی علمی کاوشوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ورنہ ان سے صرف نظر کی وجہ سے ہم بہت سی قابل قدر کتابوں سے محروم ہوجائیں گے۔  ہمارے اہل نظر علما کو مستشرقین کی طرف سے شائع ہونے والی کتابوں سے باخبر ہونے کے علاوہ ان کے نتائج فکر سے ہوشیار اور چوکنا بھی رہنا چاہیے تاکہ عالم اسلام کو یہ معلوم ہوتا رہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی شہرت کوداغ دار کرنے کے لیے کہاں اور کس کس طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں۔   (امت مسلمہ اور جدید تہذیبی مسائل،  مرتبہ سیف الدین ہلالی مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔  مارچ 2014 ص :62)
آزادی کے فوراً بعد جن لرزہ خیز حالات کا سامنا مسلمانو ں کو کرنا پڑا اس کی تفصیل ایک لمبی داستان ہے۔  مولانا ابو اللیث ندوی کی رہنمائی میں جب جماعت اسلامی ہند نے کام شروع کیا تو دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ جماعت کے سامنے مسئلہ انتخابات اور مسلمانان ہند ایک اہم مسئلہ کی صورت میں سامنے آیا۔  جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوری میں ایک لمبے عرصہ تک اس پر گفتگو ہوتی رہی کہ انتخاب میں حصہ لیا جائے یا نہیں۔  مولانا ایک مدت تک الیکشن میں حصہ لینے کے مخالف تھے بعد میں ان کی رائے تبدیل ہوگئی۔  چونکہ مجلس شوری میں مستقل اس پر گفتگو ہوتی بعد میں ا ن مباحث سے خود تو الگ کرلیا تھا،  غالبا ایسا اس وجہ سے بھی کیا ہوگا کہ پارلیمانی الیکشن کے بارے میں ان کی جو رائے ہے وہ سب پر واضح ہے بار بار اس کو دہرانے سے کیا فائدہ۔  فرماتے تھے کہ میں تو شوری کا پابند ہوں۔   شوری جو فیصلہ کرے گی اس کو نافذ کرانا میرا کام ہے۔  جماعت کی شوری نے اس مسئلے پر کافی وقت ضائع کیا۔  198۵میں بعض شرائط کے ساتھ صرف رائے کے استعمال کی حد تک فیصلہ ہوا۔  انتقال سے تین چار سال قبل محترم مولانا صدر الدین اصلاحی کا ایک خط زندگی نو میں شائع ہوا تھا۔  اس کے ہو بہو الفاظ یاد تو نہیں لیکن پورے خط سے یہی ظاہر ہورہا تھا کہ جماعت نے ان مباحث میں پڑکر ایک اچھا خاصا عرصہ بحث ومباحثہ کی نذر کردیا۔  اس دوران کوئی بڑا کام اس وجہ سے نہ ہوسکا کہ جماعت کی اصل توانائی اسی مسئلہ پر صرف ہورہی تھی۔  محترم مولانا ابو اللیث ندوی نے اس پورے معاملے پر بہت ہی شرح و بسط کے ساتھ کتاب لکھی اور مسئلہ کی نزاکت کو واضح کیا۔  پہلی کتاب کا نام ہے ’’مسئلہ انتخابات اور مسلمانان ہند ‘‘اور دوسری کا ’’مسلمانان ہند کا لائحہ عمل‘‘۔ ان دنوں کتابوں کے مطالعہ سے پہلی بات جو ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ مولانا نے حالات کا تجزیہ جس باریک بینی سے کیا ہے اور ان سے جو نتائج اخذ کیے ہیں،   نصف صدی گزرنے کے بعد بھی وہ مباحث تازہ ہیں۔  الیکشن میں کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کی تیاری،  ان سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کی شمولیت اور ان کی حیثیت کے بارے میں مولانا نے جو کچھ تحریر کیا ہے پڑھتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ چند سال پہلے کا تجزیہ ہے۔   مسلمانان ہند کا لائحہ عمل دراصل مسئلہ انتخابات اور مسلمانان ہند کا دوسرا حصہ ہے۔  اس میں مولانا نے جن امور کی طرف نشان دہی کی اور جس عملی منصوبہ بندی پر زور دیا ہے۔  اطلاعاتی ٹکنالوجی کے اس انقلابی دور میں حالیہ پارلیمانی الیکشن میں سب نے محسوس کیا کہ کس طرح سیاست کار انتخابی فتح کے لیے تیاریاں بلکہ پروپیگنڈے کرتے ہیں اورجھوٹ اور مکاری کو کس طرح سچ کے خانے میں فٹ کرتے ہیں۔  دراصل جھوٹ،  مکاری اور ریاکاری میں ہم ان پارٹیوں کا کسی طرح سے مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔  کیونکہ یہ تو ان کی سرشت کا حصہ ہے اور ہم وہاں تک جانے میں خود کو بے بس پاتے ہیں۔  اس لیے سچائی اور حقیقت کا جو جامہ ہم نے پہن رکھا ہے اسی کو کلی طور پر اختیار کرنا چاہیے۔  ممکن ہے کہ دیر ہو مگر اندھیر نہیں ہے۔  المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے حقائق کو چھوڑ کر جس راستے کو اختیار کیا وہ ہمارا تھا ہی نہیں تو ہم کیا اس راستے پر چل سکتے۔  سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کی حیثیت ان دنوں کیا ہے اور آج سے نصف صدی زائد عرصہ پہلے مولانا نے کیا تجزیہ کیا :
کسی پارٹی میں کسی مسلمان کی شرکت خواہ وہ عارضی طور سے انتخاب ہی کی خاطر کیوں نہ ہو ایسا معاملہ نہیں ہے کہ آپ نے ارادہ کیا اور یہ پورا ہوگیا۔  اس کے لیے آپ کو سب سے پہلے امتحان و آزمائش سے ایک کڑی منزل سے گزرنا ہوگا۔  یہ اللہ کا دین تو ہے نہیں کہ جس میں شرکت بہت آسان ہوگئی ہے،  یہ پارٹیوں کا معاملہ ہے جو دکھاوے ہی کے لیے سہی بہ ہر حال اپنے سامنے کچھ اصول و مقصد رکھتی ہیں۔  …مسلمانوں کے بارے میں ان کو جو کچھ واقفیت ہے اس کے لحاظ سے وہ ان کے بارے میں پہلے ہی سے یہ بد گمانی یا خوش گمانی رکھتی ہیں کہ وہ ان کے اصولوں سے زیادہ اسلام کے اصولوں کا پابندہوگا بہ ہر حال کافی چھان بین اور آزمائش کے بعد وہ کسی مسلمان کو اپنے اندر گھسنے کی اجازت دے سکتی ہیں اور اس کے بعد بھی وہ آخر دن تک اس سے مطمئن نہیں ہوسکتی ہیں اس لیے تحقیقات اور آزمائشوں کا سلسلہ داخلہ کے بعد بھی ختم نہیں ہوجائے گا،  نئے نئے سوالات اور مواقع، خلو ص و وفاداری کی جانچ کے لیے برابر سامنے آتے رہیں گے۔  (مسلمانان ہند آزادی کے بعد،  مولانا ابو اللیث ندوی مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز۔ دہلی۔  جون 201۵ ص:71۔ 72)
مولانا نے اس کی نمایاں اور اہم سیاسی جماعتوں کے طور پر سوشلسٹ پارٹیاں،  کمونسٹ،  کانگریس اور ہندومہاسبھاکا تعارف اور ان کے مقاصد پر مختصرا روشنی ڈالی تھی۔  انھوں نے لکھا تھا کہ کیا دین اسلام کے پیروکاروں کو جو خود ایک نظام کے داعی ہیں،  انھیں یہ بات زیب دے سکتی ہے کہ ’’وہ اپنے دین کی پیروی اور اس کی دعوت کا کام چھوڑ کر کسی دوسرے دین کے داعی اور مبلغ بن جائیں‘‘۔ ملک کے پہلے عام انتخابات سے قبل کی یہ تحریر آج بھی حالات کو آئینہ دکھاتی ہے۔  اس وقت مولانا کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کو الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہے اوراسے انھوں نے دینی، سیاسی اور عقلی اعتبار سے ثابت کیا تھا اور مجموعی محاکمہ یہی تھا کہ سیاسی اور سماجی سطح پر بھی اس سے مسلمانو ں کو کوئی فائدہ نہیں مل سکتا۔  دوسرے حصے میں انھوں نے آزادی کے فوراً بعد کی صورت حال کو پیش کیا ہے۔  مایوسی کی فضا اور وہ توقعات جو آزادی کے بعد حاصل ہونے والی تھیں۔  ان کا حاصل نہ ہونا۔  خو ف اور مایوسی کی فضا اس قدر شدید تھی کہ آزادی کے بعد تقریبا ایک دہائی تک لوگ ترک وطن کرتے رہے اور اس وقت مہاجرت ایک بڑا مسئلہ تھا۔  مولانا نے اسی تناظر میں اس مسئلہ پر بھی لکھا۔  چونکہ مولانا کی یہ تحریریں ماہ نامہ زندگی رام پور کے اشارات کی صورت میں شائع ہوتی تھیں،  اس لیے ان سے ایک بڑا حلقہ استفادہ کرتاتھا سلسلہ وار ہونے کی وجہ سے لوگوں کو انتظار بھی رہتا تھا۔  ان تحریروں خصوصاً ہجرت سے متعلق مولانا کے شذرات کی مولانا سید حسین مدنی،  مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولانا عبدالماجد دریا بادی جیسے عظیم ملی رہ نماؤں نے تائید کی تھی۔  مولانا عبدالماجد دریابادی نے ایک خط میں لکھا تھا :
زندگی میں مسئلہ ہجرت پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ مجھ کم علم کی نظر میں بڑی حد تک بجا و درست ہے۔  او ربہ حیثیت مجموعی مسئلہ کی صحیح تعبیر ہے۔
(حاشیہ،  مسلمانان ہند آزادی کے بعد،  مولانا ابو اللیث ندوی مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز۔ دہلی۔  جون 201۵ ص:177)
مولانانے لائحہ عمل کے طور پر ان امراض کی تشخیص کی تھی جن کی حیثیت دائمی کی سی ہوگئی ہے۔  یہ ایک نوع کا پرفریب نعرہ ہیں اور بالعموم لوگ اس کی اصل سے واقف نہیں ہوپاتے۔  مولانا نے ان کی اصلیت او رماہیت دونوں پر روشنی ڈالی ہے۔  ان میں،  زمانہ سازی، پرفریب زمانہ سازی،  وحدت ادیان اور متحدہ قومیت شامل ہیں۔  مولانا نے اس بابت لکھا ہے کہ :
مسلمانوں میں شدت کے ساتھ اپنے ایک جداگانہ قوم ہونے کا احساس پیدا کرایا جائے او راس حیثیت سے ان کو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ وہ اپنی اس حیثیت کو دوسروں سے منوا سکیں اور خود ان میں ایک مضبوط و مستحکم مرکزیت پیدا ہوجائے۔
(مسلمانان ہند آزادی کے بعد،  مولانا ابو اللیث ندوی مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز۔ دہلی۔  جون 201۵ ص:227)
ان تمام محاکموں کے بعد مولانانے حقیقی نصب العین پیش کیا ہے۔  جس میں شہادت قولی اور شہادت عملی کو اولیت حاصل ہے۔  شہادت حق کی حقیقت،  تقاضے،  فائدہ اور انفرادی شہادت حق کے فائدے اور اجتماعی شہادت حق کے فوائد کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے اور موجودہ مشکلات اور رفع موانع کی تدابیر پر بھی روشنی ڈالی ہے۔  جماعت اسلامی کے موقف اور اجتماعی کوششوں کے آغاز کار کے طورپر پیش کیا ہے۔  یقیناًیہ ایک بہت پیچیدہ اور خاصا مشکل موضوع ہے۔  اس پر لکھنا اور سمجھانا جب کہ ہر شخص کسی نہ کسی سیاستی نظریے سے خود کو قریب کیے ہوئے ہے بہت مشکل تھا۔  ایسے دور میں جبکہ مسلمانوں کو سیاسی بساط لپیٹ دینے کا مشورہ دیا جاچکا ہو۔  اس کے برخلاف جماعت اسلامی ایک سیاسی نظریہ نہ صرف رکھتی ہے بلکہ اس کے تئیں وضاحت و تشریح اور اس پر باقاعدہ بحث و مباحثہ جاری ہو۔  آج ان مشکلات کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا کا اہم کارنامہ تو یہی ہے کہ ایک قائد کی حیثیت سے ان پر جو جو ذمہ داریاں عائد ہورہی تھیں ان کو انجام دینے کی انھوں نے بھر پور کوشش کی۔  کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا اور ان کا جو موقف تھا اسے پیش کرنے میں کسی نوع کے تردد سے کام نہیں لیا۔  حالات و واقعات کاایسا سخت تجزیہ اوراس سے نکلنے کی ممکنہ صورت کی نشاندہی کرنا امکانات سے کہیں زیادہ اندیشوں کو جنم دینے والا راستہ تھا۔  مگر یہ راستہ مولانا نے بہ حسن و خوبی طے کیا۔  مولانا انتخابات کی اہمیت کے قائل تھے اور وہ اسے پبلک سے ربط و تعلق کا بہترین ذریعہ تصور کرتے تھے۔  ابتدا میں مولانا کی رائے تھی کہ الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہیے،  جس کے دلائل میں انھوں نے دو کتابچے لکھے جس کا حوالہ گزشتہ سطور میں دیا جاچکا ہے۔  لیکن بعد میں ان کے یہاں نرمی پیدا ہوئی۔  انھوں نے شوری کے اس فیصلہ کا احترام کیا جس کا حوالہ دیا جاچکا ہے۔  مولانا کے دلائل چاہے جو بھی رہے ہوں مگر اب جبکہ باقاعدہ ویلفےئر پارٹی آف انڈیا کے قیام کے کئی برس گزر چکے ہیں ہمیں دیکھنا چاہے کہ اس وقت ہم کہا ں ہیں اور سیاسی دنیا میں ہماری کیا پوزیشن ہے۔  اس پورے تناظر پر نگاہ ڈالنے سے کہیں نہ کہیں مولانا کی گہری سیاسی دانشوری کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہے گا۔
برادر عزیز سیف الدین فلاحی نے مولانا کے مضامین کا ایک مجموعہ’’ امت مسلمہ اور جدید تہذیبی مسائل ‘‘کے نام سے مرتب کیا ہے۔  اسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نے شائع کیا ہے۔  اس مجموعے کے تمام مضامین ماہنامہ الاصلاح میں شائع ہوئے تھے۔  آزادی سے پانچ چھ برس پہلے کے یہ مضامین آج بھی اسی اہمیت کے ساتھ پڑھے جانے کے قابل ہیں،  جس اہمیت کے ساتھ وہ لکھے گئے تھے۔  یہ سارے مضامین آج بھی ہمارے لیے غور وفکر کا سامان لیے ہوئے ہیں۔  حیرت یہ ہے کہ ان مضامین کی اولین اشاعتوں کا مکمل حوالہ کہیں نہیں دیا گیا۔  مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز جیسے اہم اشاعتی ادارہ نے اس اصول کو کیوں نظر انداز کیا سمجھ سے بالا تر ہے۔  ان مضامین سے مولانا کے وسیع تر ذہنی افق کااندازہ کیاجاتا ہے۔  طلبہ کو انھیں ضرور پڑھنا چاہیے۔  ایک مضمون کا عنوان ہے ’’فرصت کی گھڑیاں ‘‘اس میں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ یورپ اور جدید تہذیب کے علمبرداروں نے کس طرح وقت کا فائدہ اٹھایا۔  ایک جگہ لکھتے ہیں :
میڈم جی جنلی نے اپنی بعض کتابیں ان چند منٹوں میں لکھیں جو ہر روز اپنی ایک امیر تلمیذہ کے انتظار میں صرف کرتی تھیں۔  یہوبرتھ ایک لوہار تھا۔  وہ اپنے پیشے کے کامو ں سے فارغ ہوکر زبانیں سیکھا کرتا تھا۔  اس نے 38 زبانیں جن میں 20جدید اور 18قدیم ہیں سیکھ لی تھیں۔ غرض یہ ہے کہ تنگی وقت کا عذر بالکل ناقابل التفات ہے۔  کسی کام کو مداومت اور استمرار کے ساتھ کیا جائے تو ہر روز کے چند منٹ ہی اس کے لیے کافی ہوسکتے ہیں۔  ضرورت صرف اور صرف ارادہ اور عزم کی ہے۔  ( امت مسلمہ اور جدید تہذیبی مسائل،  مرتبہ سیف الدین ہلالی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی مارچ 2014ص:42۔ 43)
یہ اور اس طرح کی بے شمار تحریریں ہیں جن کی افادیت آج بھی مسلم ہے اور یہی مولانا کی دانشورانہ بصیرت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔